!!! تراویح کی بیس رکعتیں
سنت ہیں!!!
خطبۂ مسنونہ کے بعد: شَھْرُ رَمَضَانَ الذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ القُرْآنُ۔ و قال النبی ﷺ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَاناً وَ احْتِِسَاباً غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. وَمَنْ قامَ رَمَضَانَ إِِيْمَاناً وَإحْتِسَاباً غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ( متفق علیہ ) و قال أنس رضی اللہ عنہ: فَرضَ اللہُ صِیَامَ رمضان، و سَنَّ رسولُ اللہ ﷺ قیامہ۔
بزرگو اور بھائیو! یہ ماہ مبارک چل رہا ہے، اس مہینے کا قرآن کریم سے، اور قرآن کریم کا اس مہینے سے خاص تعلق ہے، اس مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا ہے، ارشادِ پاک ہے: رمضان کا مہینہ ایسا مہینہ ہے، جس میں قرآن کریم اتارا گیا ہے، اس لئے قرآن کریم کا حق ادا کرنے کےلئے اس مہینے میں دو اعمال رکھے گئے ہیں،
خطبۂ مسنونہ کے بعد: شَھْرُ رَمَضَانَ الذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ القُرْآنُ۔ و قال النبی ﷺ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَاناً وَ احْتِِسَاباً غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. وَمَنْ قامَ رَمَضَانَ إِِيْمَاناً وَإحْتِسَاباً غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ( متفق علیہ ) و قال أنس رضی اللہ عنہ: فَرضَ اللہُ صِیَامَ رمضان، و سَنَّ رسولُ اللہ ﷺ قیامہ۔
بزرگو اور بھائیو! یہ ماہ مبارک چل رہا ہے، اس مہینے کا قرآن کریم سے، اور قرآن کریم کا اس مہینے سے خاص تعلق ہے، اس مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا ہے، ارشادِ پاک ہے: رمضان کا مہینہ ایسا مہینہ ہے، جس میں قرآن کریم اتارا گیا ہے، اس لئے قرآن کریم کا حق ادا کرنے کےلئے اس مہینے میں دو اعمال رکھے گئے ہیں،
❶ دن میں روزے رکھنا،
❷ رات میں سونے سے پہلے نفلیں( تراویح ) پڑھنا،
اور یہ دونوں اعمال چونکہ لمبے ہیں، پورا مہینہ پابندی سے کرنے ہوتے ہیں، اس لئے
دونوں کو آسان بنانے کےلئے بخاری و مسلم کی روایت میں ایک فارمولہ( آسان طریقہ )
بیان کیا گیا ہے، ارشاد فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَاناً وَ احْتِِسَاباً
غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. وَمَنْ قامَ رَمَضَانَ إِِيْمَاناً
وَإحْتِسَاباً غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِِهِ یعنی جو شخص رمضان المبارک
کے روزے رکھے، اور رمضان المبارک کی راتوں میں سونے سے پہلے نفلیں پڑھے، تو ہر ایک
عمل کا ثواب یہ ہے کہ اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔
یہ جو ثواب بیان کیا گیا ہے، اس کا یقین ہو، اور اس ثواب کو پیشِ نظر رکھے، تو دونوں کام آسان ہوجائیں گے، اس حدیث میں لفظِ ایمان شرعی اصطلاح نہیں، بلکہ لغوی معنیٰ میں ہے، یعنی ثواب کا یقین کرنا، اسی لئے عطفِ تفسیری کے طور پر َإحْتِسَاباً لائے ہیں، احتساب کے معنیٰ ہیں ثواب کی امید رکھنا، یعنی اس کو پیشِ نظر رکھنا۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزے فرض کئے، اور رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کی راتوں میں سونے سے پہلے نوافل مسنون کئے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دن کے مزاج میں انقباض ہے، اور رات کے مزاج میں انبساط ہے، اور روزہ چونکہ علاحدہ علاحدہ رکھنا ہے، جو انقباض کے ساتھ بھی رکھا جاسکتا ہے، اور قرآن کریم رمضان المبارک میں پورا پڑھنا ہے، اور ہر ایک کو قرآن کریم حفظ نہیں ہوتا، پس جو حافظ ہے، وہ جہراً پڑھے گا، اور دوسرے سنیں گے، اور پڑھنے اور سننے کےلئے طبیعت میں انبساط چاھئے، اس لئے تراویح رات میں رکھی گئی ہے۔
یہاں سے یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ تراویح، رمضان المبارک کی زائد نماز ہے، اور صلاة اللیل یعنی تہجد، جو پورے سال کی نماز ہے، وہ انفرادی نماز ہے، کیونکہ رات کے آخر میں لوگوں کا اجتماع مشکل ہے، پس جو لوگ دونوں نمازوں کو ایک سمجھتے ہیں، وہ غلط ہے؛ بلکہ یہ دو نمازیں بالکل ایک دوسرے سے علاحدہ ہیں، ایک: صلاة اللیل یعنی تہجد کی نماز ہے، یہ نماز سال بھر پڑھی جاتی ہے، رمضان المبارک اور غیر رمضان المبارک ہر زمانہ میں پڑھی جاتی ہے، تہجد کے معنیٰ ہیں: تَرْکُ الجُھودِ، نیند چھوڑنا، چونکہ یہ نماز رات کے آخری حصہ میں پڑھی جاتی ہے، آدمی پہلے سوجاتا ہے، پھر اٹھ کر اس نماز کو پڑھتا ہے، اس لئے اس کا نام تہجد ہے، دوسرا نام اس کا صلاۃ اللیل ہے، دوسری: قیامِ رمضان یعنی تراویح ہے، یہ رمضان المبارک کی خصوصی نماز ہے، یہ نماز صرف رمضان المبارک میں پڑھی جاتی ہے، باقی گیارہ مہینوں میں یہ نماز نہیں پڑھی جاتی۔
اور رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں نہ تو تراویح کی رکعتوں کی تعداد متعین تھی، اور نہ یہ نماز باجماعت پڑھی جاتی تھی، صرف اس کی ترغیب دی جاتی تھی، کہ یہ ایسی نماز ہے جو گذشتہ گناہوں کا کفارہ بنتی ہے، چنانچہ لوگ رمضان المبارک میں سونے سے پہلے اپنے طور پر یہ نماز پڑھتے تھے، اللہ تعالیٰ جس کو جتنی توفیق دیتا، وہ اتنی رکعتیں پڑھتا، پھر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی چھ سال سخت آزمائش کے تھے، مسلمان بیک وقت دو سپر پاور: ایران و روم کے ساتھ جنگوں میں مصروف تھے، جب یہ دونوں طاقتیں ٹوٹیں، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت کے آخری سالوں میں ملک و ملت کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے بہت سے کام کئے ہیں، ان میں سے ایک کام باقاعدہ جماعت کے ساتھ تراویح کا نظام بنانا بھی ہے، شروع میں امام تراویح کی آٹھ رکعتیں پڑھاتا تھا، اور سحری کے وقت تک پڑھاتا تھا، مؤطا مالک میں روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے گیارہ رکعتیں ( آٹھ تراویح اور تین وتر ) پڑھانے کا حکم دیا، جن سے لوگ فجر سے کچھ ہی دیر پہلے فارغ ہوتے تھے( موطا مالک صفحہ نمبر ٤٠ ) اس وقت یہ خیال تھا کہ یہ تہجد کی نماز ہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ بات آئی کہ رسول اللہ ﷺ نے جو دو یا تین راتیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی ہے، وہ بیس رکعتیں پڑھائی ہیں، اور آنحضرت ﷺ تنہا بھی سونے سے پہلے بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں بغیر جماعت کے بیس رکعتیں اور وتر پڑھتے تھے( سنن بیہقی کبریٰ جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٤٩٦ ) اور علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے التلخیص الحبیر فی تخریج أحادیث الرافعی الکبیر جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ١٩٩ میں یہ روایت لکھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دن جماعت سے جو نماز پڑھائی تھی، وہ بیس رکعتیں پڑھائی تھیں، حافظ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس روایت کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نظام بدل دیا، اور دونوں اماموں: حضرت ابی ابن کعب، اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ بیس رکعتیں پڑھائیں، اور مختصر پڑھائیں، اور لوگوں کو سونے کا موقع دیں، پھر آخری پہر لوگ اٹھ کر تہجد پڑھیں، بخاری شریف( حدیث شریف نمبر ٢٠١٠ ) میں ہے کہ اس نئے نظام کے شروع ہونے کے بعد ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں تشریف لائے، لوگوں کو ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: نعم البدعة ھٰذہ، یعنی لوگ جو اس نماز کو بدعت کہتے ہیں، وہ صحیح نہیں، یہ تو شاندار نئی بات ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس نماز کو لوگوں کے خیال کے مطابق بدعت( نئی بات ) کہا ہے، اور نعم سے اس کی تردید کی ہے، جب تراویح کا باقاعدہ نظام بنا تو لوگوں میں چہ می گوئیاں ہوئیں کہ یہ کیا نئی بات شروع ہوئی، جیسے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی پختہ بنائی تو بعض لوگوں نے کہا: یہ تو کسریٰ کا محل بن گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس خیال کی تردید کی، کہ یہ اگر نئی چیز ہے تو نہایت شاندار نئی چیز ہے، کیونکہ اس کی اصل موجود ہے، اور وہ آپ ﷺ کا دو دن یا تین دن باجماعت نوافل پڑھانا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لفظِ بدعت اس کے لغوی معنیٰ میں استعمال کیا ہے، اور بالفرض کلام کیا ہے، لغوی معنیٰ کے اعتبار سے بدعت: بدعتِ حسنہ بھی ہوتی ہے، اور بدعتِ سیئہ بھی، اور بدعتِ اصطلاحی صرف بدعتِ سیئہ ہوتی ہے، وہ حسنہ نہیں ہوتی۔
پھر دوسری بات آپؓ نے یہ فرمائی: و التی ینامون عنھا أفضلُ من التی یقومون، جس نماز سے لوگ سوتے رہتے ہیں، وہ اس نماز سے افضل ہے، جس کو وہ پڑھتے ہیں، یعنی تراویح سے افضل تہجد ہے، لٰہذا لوگوں کو چاھئے کہ جس طرح تراویح اہتمام کے ساتھ پڑھتے ہیں، تہجد کی نماز بھی پڑھیں، اس ارشاد سے یہ بات صاف ہوگئی کہ تراویح، تہجد کی نماز نہیں بلکہ یہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں، ایک کا وقت سونے سے پہلے ہے، اور دوسری کا سونے کے بعد، ایک کی بیس رکعتیں ہیں، اور دوسری کی آٹھ رکعتیں، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے آج تک امت شرقاً غرباً تراویح جماعت کے ساتھ بیس رکعتیں پڑھتی چلی آرہی ہے، صرف غیر مقلدین اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: تراویح کی آٹھ رکعتیں ہیں، اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جو بیہقی اور مصنف ابن ابی شیبہ( حدیث شریف نمبر ٧٧٧٤ طبع شیخ محمد عوامہ) میں ہے، اس کو ضعیف بتاتے ہیں، مگر غیر مقلدین کا یہ خیال صحیح نہیں، اس لئے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث قیام رمضان( تراویح ) سے متعلق نہیں ہے، بلکہ قیام لیل( تہجد ) سے متعلق ہے، رسول اللہ ﷺ یہ آٹھ رکعتیں سال بھر پڑھتے تھے، اور تراویح صرف رمضان المبارک میں پڑھی جاتی ہے۔
علاوہ ازیں بیس رکعت تراویح پر چاروں ائمہ، تمام صحابہ، تابعین اور تمام علماء کا اجماع ہے، اگر بالفرض حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث شریف کو تراویح سے متعلق کیا جائے، تو غیر مقلدین حضرات سے عرض ہے کہ آنحضورﷺ اس نماز کو سال بھر پڑھتے تھے، آپ بھی سال بھر پڑھیں تو ہم جانیں، کہ آپ اہلِ حدیث ہیں، یہ کیا کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو! اور اگر وہ کہیں کہ نبی پاک ﷺ نے صرف تین دن، یا دو دن رمضان المبارک میں جماعت سے نماز پڑھی ہے، اس لئے ہم اس پر عمل کرتے ہیں، تو سنیں: اس حدیث شریف پر عمل کرنا ہے تو تراویح جماعت کے ساتھ صرف دو دن، یا تین دن پڑھو، پھر مسجدوں سے جاؤ، تاکہ فتنہ ختم ہو، اور وہ بھی مہینہ کی آخری تاریخوں میں آؤ، تاکہ پورا رمضان مسجدوں میں سکون رہے۔
خلاصۂ کلام:
باجماعت تراویح کا نظام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت سے شروع ہوا ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم دیا تھا، جس کو تہجد کے وقت تک جاری رکھا جاتا تھا، اور اس کا مدار تہجد کی روایت پر تھا، مگر بعد میں یہ بات واضح ہوئی کہ رمضان المبارک میں بھی تہجد اپنی جگہ ہے، اور قیامِ رمضان( تراویح )اس کے علاوہ نماز ہے، چنانچہ آپ ؓ نے اس روایت کی بنا پر، جس کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے، رکعتوں کی تعداد بڑھادی، اور قرأت میں تخفیف کردی، تاکہ لوگ تراویح سے فارغ ہوکر سوجائیں، اور آخرِ شب میں اٹھ کر حسبِ معمول تہجد پڑھیں، چنانچہ اس وقت سے آج تک شرقاً غرباً یہی نظام چل رہا ہے، اور اس پر پوری امت کا اجماع ہے، صرف غیر مقلدین اختلاف کرتے ہیں، مگر گمراہ فرقوں کا اختلاف اجماع پر اثر انداز نہیں ہوتا، حافظ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری شرح صحیح البخاری میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا، کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تراویح کی بیس رکعتوں کےلئے آنحضرت ﷺ کی جانب سے کوئی عہد تھا؟ امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی طرف سے ایجاد کرنے والے نہیں تھے، یقیناﹰ ان کے پاس اس کا ثبوت تھا ( فتح الباری جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٤٢٠، بیروت قدیم ) چنانچہ حافظ رحمہ اللہ تعالیٰ التلخیص الحبیر میں یہ روایت لکھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دن جماعت کے ساتھ جو نماز پڑھائی تھی، وہ بیس رکعتیں پڑھائی تھیں، حافظ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس حدیث کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث بیہقی کے حوالہ سے میں نے ابھی بیان کی، کہ نبی پاک ﷺ ماہِ رمضان میں بلا جماعت بیس رکعتیں اور وتر پڑھتے تھے، یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، مگر تعامل سے اس کی تائید ہوتی ہے، بلکہ تعامل کی صورت میں سرے سے روایت کی ضرورت نہیں رہتی، مثلاﹰ کلمۂ طیبہ: لا اِلٰہ اِلا اللہ، محمد رسول اللہ، کسی روایت سے ثابت نہیں، اگرچہ اس کے دونوں اجزاء قرآن کریم میں ہیں، مگر دونوں کا مجموعہ کلمۂ طیبہ ہے، یہ بات کسی ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں، مگر چونکہ پوری امت کا اس پر تعامل ہے، اور اجماع قوی دلیل ہے، اس لئے سند کی مطلق حاجت نہیں۔
اور غیر مقلدین اس بات کا اس لئے انکار کرتے ہیں کہ وہ اہل حدیث ہیں، وہ قرآن کریم کے بعد صرف حدیثوں کو حجت مانتے ہیں، اس سے نیچے اجماعِ امت کو، بلکہ اجماعِ صحابہ کو بھی حجت نہیں مانتے، نہ آثارِ صحابہ( صحابہ کی انفرادی آراء ) کو حجت مانتے ہیں، حتیٰ کہ خلفائے راشدین کی آراء کو، اور ان کے زمانہ میں جو باتیں صحابہ کے اجماع سے طے ہوئی ہیں، ان کو بھی حجت نہیں مانتے، اس لئے وہ گمراہ فرقہ ہے، اور کسی بھی گمراہ فرقہ کا اختلاف اجماع کو متأثر نہیں کرتا، ورنہ شیعہ بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے، تو کیا ان کی خلافت بھی اختلافی ہوجائے گی؟ توبہ! اس لئے غیر مقلدین کی اس بات سے واقف رہنا ضروری ہے، اور وہ جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بخاری شریف کی حدیث پیش کرتے ہیں، اس کا تراویح کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں، اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاھئے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن
یہ جو ثواب بیان کیا گیا ہے، اس کا یقین ہو، اور اس ثواب کو پیشِ نظر رکھے، تو دونوں کام آسان ہوجائیں گے، اس حدیث میں لفظِ ایمان شرعی اصطلاح نہیں، بلکہ لغوی معنیٰ میں ہے، یعنی ثواب کا یقین کرنا، اسی لئے عطفِ تفسیری کے طور پر َإحْتِسَاباً لائے ہیں، احتساب کے معنیٰ ہیں ثواب کی امید رکھنا، یعنی اس کو پیشِ نظر رکھنا۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزے فرض کئے، اور رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کی راتوں میں سونے سے پہلے نوافل مسنون کئے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دن کے مزاج میں انقباض ہے، اور رات کے مزاج میں انبساط ہے، اور روزہ چونکہ علاحدہ علاحدہ رکھنا ہے، جو انقباض کے ساتھ بھی رکھا جاسکتا ہے، اور قرآن کریم رمضان المبارک میں پورا پڑھنا ہے، اور ہر ایک کو قرآن کریم حفظ نہیں ہوتا، پس جو حافظ ہے، وہ جہراً پڑھے گا، اور دوسرے سنیں گے، اور پڑھنے اور سننے کےلئے طبیعت میں انبساط چاھئے، اس لئے تراویح رات میں رکھی گئی ہے۔
یہاں سے یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ تراویح، رمضان المبارک کی زائد نماز ہے، اور صلاة اللیل یعنی تہجد، جو پورے سال کی نماز ہے، وہ انفرادی نماز ہے، کیونکہ رات کے آخر میں لوگوں کا اجتماع مشکل ہے، پس جو لوگ دونوں نمازوں کو ایک سمجھتے ہیں، وہ غلط ہے؛ بلکہ یہ دو نمازیں بالکل ایک دوسرے سے علاحدہ ہیں، ایک: صلاة اللیل یعنی تہجد کی نماز ہے، یہ نماز سال بھر پڑھی جاتی ہے، رمضان المبارک اور غیر رمضان المبارک ہر زمانہ میں پڑھی جاتی ہے، تہجد کے معنیٰ ہیں: تَرْکُ الجُھودِ، نیند چھوڑنا، چونکہ یہ نماز رات کے آخری حصہ میں پڑھی جاتی ہے، آدمی پہلے سوجاتا ہے، پھر اٹھ کر اس نماز کو پڑھتا ہے، اس لئے اس کا نام تہجد ہے، دوسرا نام اس کا صلاۃ اللیل ہے، دوسری: قیامِ رمضان یعنی تراویح ہے، یہ رمضان المبارک کی خصوصی نماز ہے، یہ نماز صرف رمضان المبارک میں پڑھی جاتی ہے، باقی گیارہ مہینوں میں یہ نماز نہیں پڑھی جاتی۔
اور رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں نہ تو تراویح کی رکعتوں کی تعداد متعین تھی، اور نہ یہ نماز باجماعت پڑھی جاتی تھی، صرف اس کی ترغیب دی جاتی تھی، کہ یہ ایسی نماز ہے جو گذشتہ گناہوں کا کفارہ بنتی ہے، چنانچہ لوگ رمضان المبارک میں سونے سے پہلے اپنے طور پر یہ نماز پڑھتے تھے، اللہ تعالیٰ جس کو جتنی توفیق دیتا، وہ اتنی رکعتیں پڑھتا، پھر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی چھ سال سخت آزمائش کے تھے، مسلمان بیک وقت دو سپر پاور: ایران و روم کے ساتھ جنگوں میں مصروف تھے، جب یہ دونوں طاقتیں ٹوٹیں، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت کے آخری سالوں میں ملک و ملت کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے بہت سے کام کئے ہیں، ان میں سے ایک کام باقاعدہ جماعت کے ساتھ تراویح کا نظام بنانا بھی ہے، شروع میں امام تراویح کی آٹھ رکعتیں پڑھاتا تھا، اور سحری کے وقت تک پڑھاتا تھا، مؤطا مالک میں روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے گیارہ رکعتیں ( آٹھ تراویح اور تین وتر ) پڑھانے کا حکم دیا، جن سے لوگ فجر سے کچھ ہی دیر پہلے فارغ ہوتے تھے( موطا مالک صفحہ نمبر ٤٠ ) اس وقت یہ خیال تھا کہ یہ تہجد کی نماز ہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ بات آئی کہ رسول اللہ ﷺ نے جو دو یا تین راتیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی ہے، وہ بیس رکعتیں پڑھائی ہیں، اور آنحضرت ﷺ تنہا بھی سونے سے پہلے بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں بغیر جماعت کے بیس رکعتیں اور وتر پڑھتے تھے( سنن بیہقی کبریٰ جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٤٩٦ ) اور علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے التلخیص الحبیر فی تخریج أحادیث الرافعی الکبیر جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ١٩٩ میں یہ روایت لکھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دن جماعت سے جو نماز پڑھائی تھی، وہ بیس رکعتیں پڑھائی تھیں، حافظ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس روایت کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نظام بدل دیا، اور دونوں اماموں: حضرت ابی ابن کعب، اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ بیس رکعتیں پڑھائیں، اور مختصر پڑھائیں، اور لوگوں کو سونے کا موقع دیں، پھر آخری پہر لوگ اٹھ کر تہجد پڑھیں، بخاری شریف( حدیث شریف نمبر ٢٠١٠ ) میں ہے کہ اس نئے نظام کے شروع ہونے کے بعد ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں تشریف لائے، لوگوں کو ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: نعم البدعة ھٰذہ، یعنی لوگ جو اس نماز کو بدعت کہتے ہیں، وہ صحیح نہیں، یہ تو شاندار نئی بات ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس نماز کو لوگوں کے خیال کے مطابق بدعت( نئی بات ) کہا ہے، اور نعم سے اس کی تردید کی ہے، جب تراویح کا باقاعدہ نظام بنا تو لوگوں میں چہ می گوئیاں ہوئیں کہ یہ کیا نئی بات شروع ہوئی، جیسے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی پختہ بنائی تو بعض لوگوں نے کہا: یہ تو کسریٰ کا محل بن گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس خیال کی تردید کی، کہ یہ اگر نئی چیز ہے تو نہایت شاندار نئی چیز ہے، کیونکہ اس کی اصل موجود ہے، اور وہ آپ ﷺ کا دو دن یا تین دن باجماعت نوافل پڑھانا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لفظِ بدعت اس کے لغوی معنیٰ میں استعمال کیا ہے، اور بالفرض کلام کیا ہے، لغوی معنیٰ کے اعتبار سے بدعت: بدعتِ حسنہ بھی ہوتی ہے، اور بدعتِ سیئہ بھی، اور بدعتِ اصطلاحی صرف بدعتِ سیئہ ہوتی ہے، وہ حسنہ نہیں ہوتی۔
پھر دوسری بات آپؓ نے یہ فرمائی: و التی ینامون عنھا أفضلُ من التی یقومون، جس نماز سے لوگ سوتے رہتے ہیں، وہ اس نماز سے افضل ہے، جس کو وہ پڑھتے ہیں، یعنی تراویح سے افضل تہجد ہے، لٰہذا لوگوں کو چاھئے کہ جس طرح تراویح اہتمام کے ساتھ پڑھتے ہیں، تہجد کی نماز بھی پڑھیں، اس ارشاد سے یہ بات صاف ہوگئی کہ تراویح، تہجد کی نماز نہیں بلکہ یہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں، ایک کا وقت سونے سے پہلے ہے، اور دوسری کا سونے کے بعد، ایک کی بیس رکعتیں ہیں، اور دوسری کی آٹھ رکعتیں، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے آج تک امت شرقاً غرباً تراویح جماعت کے ساتھ بیس رکعتیں پڑھتی چلی آرہی ہے، صرف غیر مقلدین اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: تراویح کی آٹھ رکعتیں ہیں، اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جو بیہقی اور مصنف ابن ابی شیبہ( حدیث شریف نمبر ٧٧٧٤ طبع شیخ محمد عوامہ) میں ہے، اس کو ضعیف بتاتے ہیں، مگر غیر مقلدین کا یہ خیال صحیح نہیں، اس لئے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث قیام رمضان( تراویح ) سے متعلق نہیں ہے، بلکہ قیام لیل( تہجد ) سے متعلق ہے، رسول اللہ ﷺ یہ آٹھ رکعتیں سال بھر پڑھتے تھے، اور تراویح صرف رمضان المبارک میں پڑھی جاتی ہے۔
علاوہ ازیں بیس رکعت تراویح پر چاروں ائمہ، تمام صحابہ، تابعین اور تمام علماء کا اجماع ہے، اگر بالفرض حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث شریف کو تراویح سے متعلق کیا جائے، تو غیر مقلدین حضرات سے عرض ہے کہ آنحضورﷺ اس نماز کو سال بھر پڑھتے تھے، آپ بھی سال بھر پڑھیں تو ہم جانیں، کہ آپ اہلِ حدیث ہیں، یہ کیا کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو! اور اگر وہ کہیں کہ نبی پاک ﷺ نے صرف تین دن، یا دو دن رمضان المبارک میں جماعت سے نماز پڑھی ہے، اس لئے ہم اس پر عمل کرتے ہیں، تو سنیں: اس حدیث شریف پر عمل کرنا ہے تو تراویح جماعت کے ساتھ صرف دو دن، یا تین دن پڑھو، پھر مسجدوں سے جاؤ، تاکہ فتنہ ختم ہو، اور وہ بھی مہینہ کی آخری تاریخوں میں آؤ، تاکہ پورا رمضان مسجدوں میں سکون رہے۔
خلاصۂ کلام:
باجماعت تراویح کا نظام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت سے شروع ہوا ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم دیا تھا، جس کو تہجد کے وقت تک جاری رکھا جاتا تھا، اور اس کا مدار تہجد کی روایت پر تھا، مگر بعد میں یہ بات واضح ہوئی کہ رمضان المبارک میں بھی تہجد اپنی جگہ ہے، اور قیامِ رمضان( تراویح )اس کے علاوہ نماز ہے، چنانچہ آپ ؓ نے اس روایت کی بنا پر، جس کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے، رکعتوں کی تعداد بڑھادی، اور قرأت میں تخفیف کردی، تاکہ لوگ تراویح سے فارغ ہوکر سوجائیں، اور آخرِ شب میں اٹھ کر حسبِ معمول تہجد پڑھیں، چنانچہ اس وقت سے آج تک شرقاً غرباً یہی نظام چل رہا ہے، اور اس پر پوری امت کا اجماع ہے، صرف غیر مقلدین اختلاف کرتے ہیں، مگر گمراہ فرقوں کا اختلاف اجماع پر اثر انداز نہیں ہوتا، حافظ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری شرح صحیح البخاری میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا، کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تراویح کی بیس رکعتوں کےلئے آنحضرت ﷺ کی جانب سے کوئی عہد تھا؟ امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی طرف سے ایجاد کرنے والے نہیں تھے، یقیناﹰ ان کے پاس اس کا ثبوت تھا ( فتح الباری جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٤٢٠، بیروت قدیم ) چنانچہ حافظ رحمہ اللہ تعالیٰ التلخیص الحبیر میں یہ روایت لکھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دن جماعت کے ساتھ جو نماز پڑھائی تھی، وہ بیس رکعتیں پڑھائی تھیں، حافظ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس حدیث کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث بیہقی کے حوالہ سے میں نے ابھی بیان کی، کہ نبی پاک ﷺ ماہِ رمضان میں بلا جماعت بیس رکعتیں اور وتر پڑھتے تھے، یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، مگر تعامل سے اس کی تائید ہوتی ہے، بلکہ تعامل کی صورت میں سرے سے روایت کی ضرورت نہیں رہتی، مثلاﹰ کلمۂ طیبہ: لا اِلٰہ اِلا اللہ، محمد رسول اللہ، کسی روایت سے ثابت نہیں، اگرچہ اس کے دونوں اجزاء قرآن کریم میں ہیں، مگر دونوں کا مجموعہ کلمۂ طیبہ ہے، یہ بات کسی ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں، مگر چونکہ پوری امت کا اس پر تعامل ہے، اور اجماع قوی دلیل ہے، اس لئے سند کی مطلق حاجت نہیں۔
اور غیر مقلدین اس بات کا اس لئے انکار کرتے ہیں کہ وہ اہل حدیث ہیں، وہ قرآن کریم کے بعد صرف حدیثوں کو حجت مانتے ہیں، اس سے نیچے اجماعِ امت کو، بلکہ اجماعِ صحابہ کو بھی حجت نہیں مانتے، نہ آثارِ صحابہ( صحابہ کی انفرادی آراء ) کو حجت مانتے ہیں، حتیٰ کہ خلفائے راشدین کی آراء کو، اور ان کے زمانہ میں جو باتیں صحابہ کے اجماع سے طے ہوئی ہیں، ان کو بھی حجت نہیں مانتے، اس لئے وہ گمراہ فرقہ ہے، اور کسی بھی گمراہ فرقہ کا اختلاف اجماع کو متأثر نہیں کرتا، ورنہ شیعہ بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے، تو کیا ان کی خلافت بھی اختلافی ہوجائے گی؟ توبہ! اس لئے غیر مقلدین کی اس بات سے واقف رہنا ضروری ہے، اور وہ جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بخاری شریف کی حدیث پیش کرتے ہیں، اس کا تراویح کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں، اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاھئے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن
مقرر : حضرت اقدس
مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ،شیخ الحدیث و صدر المدرسین
دارالعلوم دیوبند
ناقل : عادل سعیدی پالن پوری
ناقل : عادل سعیدی پالن پوری
0 comments:
Post a Comment