Monday, 21 March 2016

دس دن میں قرآنِ کریم ختم کرنا کیسا ہے؟

دس دن میں قرآنِ کریم ختم کرنا کیسا ہے؟

مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند

ناقل : عادل سعیدی پالن پوری

         
بزرگو اور بھائیو! ایک سوال لوگ بار بار پوچھ رہے ہیں؛ کہ دس دن میں قرآن کریم ختم کرنا کیسا ہے؟، یہاں{ کناڈا میں } میں بہت سالوں سے آرہا ہوں، پہلے یہ سلسلہ ٹورنٹو میں نہیں تھا، تین سال پہلے آیا، تو ایک جگہ یا دو جگہ یہ سلسلہ قائم ہوا، اور اب آیا تو دسیوں جگہ اس کو پایا، اور باقاعدہ اعلانات اور اشتہارات چھاپ کر مسجدوں کے دروازوں پر چپکائے گئے، ہماری مسجد میں بھی یہ اشتہار چپکایا گیا، الغرض یہ سلسلہ بڑھتا جارہا ہے، اس لئے اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھو۔

تین مقصد، تین حکم:

         
دس دن میں، یا اس سے بھی کم دنوں میں جو قرآن کریم ختم کیا جاتا ہے، اس کے تین مقاصد ہوتے ہیں، پس تینوں مقصدوں کے اعتبار سے احکام مختلف ہونگے۔

         
ایک مقصد ہوتا ہے، زیادہ سے زیادہ قرآن کریم سننا، اس سلسلہ میں جاننا چاھئے کہ دو سنتیں علاحدہ علاحدہ ہیں، ایک: رمضان کے انتیس، یا تیس دنوں میں بیس رکعت تراویح جماعت سے پڑھنا، چاھے الم تر کیف سے ہو، اور دوسری سنت ہے: پورے رمضان میں ایک قرآن کریم سننا، اور ایک قرآن کریم کم سے کم ہے، اگر کوئی دو سنے، تین سنے، سبحان اللہ، جتنا گڑ ڈالوگے، اتنا میٹھا ہوگا، پس دس دن میں قرآن کریم سننے کی ایک نیت تو یہ ہوسکتی ہے، کہ ہم زیادہ سے زیادہ قرآن کریم سنیں، یہ بہت صحیح نیت ہے، اور اس نیت سے قرآن کریم ضرور سننا چاھئے، ایک شرط کے ساتھ، اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم صحیح پڑھا جائے، یعلمون تعلمون نہ پڑھا جائے، ایسے پڑھنے کا کوئی حاصل نہیں، حدیث شریف میں ہے: رب قارئٍ للقرآن، و القرآن یلعنہ، بعض قرآن پڑھنے والے ایسا قرآن کریم پڑھتے ہیں کہ قرآن کریم ان پر لعنت بھیجتا ہے، کہ تیرا ناس ہو، کم بخت مجھے کیوں بگاڑ رہا ہے، ہمارے دیوبند میں تقریبا سو مسجدیں ہیں، وہاں صرف چھتہ مسجد میں تین پاروں والا قرآن کریم ہوتا تھا ، جہاں حضرت مفتی محمود صاحب گنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ اعتکاف کیا کرتے تھے، اور سہارنپور، دیوبند سے بھی بڑا ہے، وہاں تین پاروں والا قرآن کریم کہیں نہیں ہوتا تھا، صرف حضرت شیخ زکریا صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی مسجد میں تین پاروں والا قرآن کریم ہوتا تھا، جہاں حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ اعتکاف کیا کرتے تھے، دس دن میں ایک قرآن کریم ختم ہوتا تھا، پھر اگلی رات سے دوسرا شروع ہوجاتا تھا، اور جو پہلے عشرے میں سننے والے ہوتے تھے، وہی اگلے عشرہ میں بھی سننے والے ہوتے تھے، کوئی نئے مصلی نہیں ہوتے تھے، کیونکہ وہاں مریدین ہوتے تھے، جو دن رات اذکار میں لگے رہتے تھے، ان کےلئے تین قرآن کریم سننا مشکل نہیں تھا، تو یہ زیادہ سے زیادہ قرآن کریم سننا، ایک بہترین مقصد ہے، اور اس مقصد کے پیشِ نظر اگر کوئی دس دن والا قرآن کریم سنتا ہے، تو یہ نہ صرف جائز ہے، بلکہ ایسا اس کو ضرور کرنا چاھئے۔

         
دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دس دن میں قرآن کریم پورا ہوجائے گا تو پھر چھٹی مل جائے گی، پھر جی چاھے گا، تراویح پڑھیں گے، اور نہیں چاھے گا، نہیں پڑھیں گے، یہ کوئی شرعی مقصد نہیں ہے، میں نے کہا تھا کہ دو سنتیں الگ الگ ہیں، آپ نے ایک سنت تو پوری کرلی، لیکن دوسری سنت چھوڑ دی، لٰہذا یہ کوئی اچھا مقصد نہیں ہے۔

         
تیسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک قرآن کریم دس دن میں سن لیں گے، پھر جہاں چاھیں گے، کسی نہ کسی مسجد میں پابندی سے تراویح پڑھیں گے، ہماری ترتیب فوت نہیں ہوگی، کیونکہ ہم ایک قرآن کریم پہلے سن چکے ہیں، یہ مقصد دیکھنے میں تو خوبصورت ہے، مگر بےکار مقصد ہے، کیونکہ تراویح سبھی مسجدوں میں ایک ہی ترتیب سے ہوتی ہیں، یا ہونی چاھئے، پس اگر آج یہاں پڑھو، کل وہاں پڑھو، تو کوئی فرق نہیں پڑتا، سب جگہ ایک ہی ترتیب سے قرآن کریم چلتا ہے، البتہ کبھی کبھی گڑبڑ ہوجاتی ہے۔

         
الغرض یہ مقصد خوبصورت ہے، مگر کوئی اہم مقصد نہیں، پہلا مقصد ہی صحیح ہے، کہ اگر آپ کو مہینہ میں تین یا اس سے زیادہ قرآن کریم سننے ہیں، تو شوق سے سنو، مگر میرے خیال سے اس مقصد سے سننے والا شاید ہی کوئی ملے، زیادہ تر وہ ہیں، جو یہ سوچتے ہیں کہ بھائی! ایک بار لگ جاؤ، پھر چھٹی مل جائے گی، اور یہ کوئی اچھا مقصد نہیں ہے، اور اس مقصد سے یہ دس دن والا قرآن کریم دس سال گذرتے گذرتے پانچ دن پر آجائےگا، پھر دس سال اور زندہ رہے، تو یہ تین دن پر آجائیگا، اس لئے میرے بھائیو! یہ جو سلسلہ چل رہا ہے، میرا خیال ہے کہ یہ لوگوں کے احوال کے اعتبار سے ٹھیک نہیں ہے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن

0 comments: