Tuesday 27 September 2016

منتخب و متفرق اشعار: قسط نمبر ۹

🌹بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 🌹

!!! منتخب اور متفرق اشعار!!!

انتخاب کنندہ: عادل سعیدی دیوبندی

قسط نمبر: نو
..................................................

1
خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم
دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم

جو کانٹا ہم نے بویاہے اس سے کھجور حاصل نہ ہو گا اور اون کات کر ہم ریشم نہیں بُن سکتے
..................................................
2
کعبہ در پائے یار دیدم دوش
ایں چہ گفتی جگر، خموش خموش

کل میں نے یار کے پاؤں میں کعبہ دیکھا، اے جگر یہ تُو نے کیا کہہ دیا، خاموش ہوجا، خاموش۔
..................................................
3
نمازِ زاہداں محراب و منبر
نمازِ عاشقاں بر دار دیدم

زاہدوں کی نماز محراب و منبر ہے اور عاشقوں کی نماز میں سولی پر دیکھتا ہوں
..................................................
4
امروز نہ دیدی تو اگر روئے صنم را
فردا بہ قیامت، رخِ جاناں کہ شناسی؟

آج (اس دنیا میں) تو اگر (اپنے) صنم کا چہرہ نہیں دیکھے گا تو کل قیامت کے دن اس کو پہچانے گا کیسے؟
........................................
5
گماں مبر کہ تو چوں بگذری جہاں بگذشت
ہزار شمع بکشتند و انجمن باقیست

یہ خیال نہ کر کہ تو گذر گیا تو دنیا بھی ختم ہو جائے گی کہ یہاں ہزاروں شمعیں بجھا دی گئی ہیں اور انجمن ابھی بھی باقی ہے
........................................
6
سبحه بر کف، توبه بر لب، دل پُر از شوقِ گناه
معصیت را خنده می‌آید ز استغفارِ ما

ہاتھوں میں تسبیح، لب پر توبہ اور دل گناہ کے شوق سے پُر۔۔۔ ہمارے ایسے استغفار پر خود گناہ کو بھی ہنسی آ جاتی ہے۔
..................................................
7
گر تیغ برکشد که محبان همی‌زنم
اول کسی که لافِ محبت زند منم

اگر یار تلوار نکال کر کہے کہ میں اِس سے اپنے محبوں کو ماروں گا تو پہلا شخص جو محبت کا دعویٰ کرے گا وہ میں ہوں گا
..................................................
8
آنان که عاشقانِ ترا طعنه می‌زنند
معذور دارشان که رخت را ندیده‌اند

جو لوگ تمہارے عاشقوں کو طعنہ مارتے ہیں اُنہیں معذور سمجھو کیونکہ اُنہوں نے (ابھی تک) تمہارا چہرہ نہیں دیکھا ہے
..................................................
9
گفتم بہ بُلبُلے کہ علاجِ فراق چیست؟
از شاخِ گُل بہ خاک فتاد و طپید و مُرد

میں نے ایک بُلبُل سے پوچھا کہ جدائی کا علاج کیا ہے؟ وہ پھولوں کی شاخ سے زمین پر گری، بے قرار ہو کر تڑپی اور مر گئی
........................................
10
مخند ای نوجوان زنهار بر موی سفیدِ ما
که این برفِ پریشان‌سیر بر هر بام می‌بارد

اے نوجوان! ہمارے سفید بالوں پر ہرگز مت ہنسو کیونکہ یہ یہ آوارہ گرد برف ہر چھت پر برستی ہے
........................................
11
ما اگر مکتوب ننوشتیم عیبِ ما مکن
در میانِ رازِ مشتاقان قلم نامحرم است

اگر ہم نے خط نہیں لکھا تو اس پر ہماری سرزنش مت کرو۔۔۔۔ (ہم نے خط اس لیے نہیں لکھا کیونکہ) عاشقوں کے باہمی رازوں کے درمیان قلم بھی نامحرم ہوتا ہے۔
........................................
12
هر گہ ز من حدیثی، آن دلنواز پرسد
عمداً کنم تغافل، شاید کہ باز پرسد

جب بھی وہ دلنواز محبوب مجھ سے کوئی بات پوچھتا ہے تو میں جان بوجھ کر تغافل برتتا ہوں کہ شاید وہ دوبارہ پوچھے
........................................
13
کلامِ حق بغَلَط تا بکے کُنی تفسیر
تو ہیچ شرم نداری ز مُصطفیٰ واعظ

کب تک تُو خدا کے کلام کی غلَط تفسیر کرتا رہے گا، واعظ تجھے مُصطفیٰ (ص )کی بھی کچھ شرم نہیں ہے۔
..................................................
14
رحمت حق بہانہ می جوید
رحمت حق بہا نمی جوید

رحمت خداوندی پس بہانہ تلاش کرتی ہے۔ اس کو بہا (مدقابل یا عوض) کی ضرورت نہیں
..................................................
15
اظہارِ عجز پیشِ ستم پیشگاں خطاست
اشکِ کباب باعثِ طغیانِ آتش است

ستم پیشہ، ظالم لوگوں کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنا غلطی ہے کیونکہ کباب سے گرنے والے قطرے آگ کو مزید بڑھکا دیتے ہیں۔
..................................................
16
هر که مهرِ چارده معصوم دارد، کامل است
هست ماهِ چارده را هم از آن مهر، این کمال

جو بھی چودہ معصوموں سے محبت رکھتا ہے، وہ کامل ہے۔ چودہویں کے چاند کو بھی اسی محبت کے سبب یہ کمال حاصل ہے
..................................................
17
ز پیر میکده فیضی کہ می‌رسد سویم
بہ شیخ شهر ندیدم، دروغ چون گویم؟

میں جھوٹ کیوں کہوں، کہ جو فیض مجھے پیرِ میکدہ سے حاصل ہوتا ہے، وہ میں نے شیخِ شہر کی صحبت میں نہیں دیکھا
........................................
18
از سرِ بالین من برخیز اے ناداں طبیب​
کہ دردمندِ عشق را دارو بجز دیدار نیست​

اے نادان معالج میرے سرہانے سے اُٹھ جا، کہ عشق کے بیمار کے لئے دیدارِ یار کے سوا کوئی دوا نہیں
........................................
19
اختیاری نیست بدنامی ما
ضَلَّنی فِی العِشقِ مَن یَھدی السَّبِیل

یہ جو ہماری بدنامی دیکھتے ہو یہ اختیاری نہیں ہے۔ مجھے عشق میں اسی نے بدنام کیا ہے جو راستہ دکھانے والا ہے-
..................................................
20
بشکند دستے کہ خم در گردنِ یارے نشد
کور بہ چشمے کہ لذت گیرِ دیدارے نشد

وہ ہاتھ ٹوٹ جائے جو کسی یار کی گردن پر خم نہ ہوا ہو؛ وہ آنکھ اندھی ہو جائے جو کسی کے دیدار سے لذت یاب نہ ہوئی ہو۔
..................................................
21
توانا بوَد ہر کہ دانا بوَد
زِ دانش دلِ پیر برنا بوَد

(اِس دنیا میں) توانا وہی ہے جو دانائی رکھتا ہے؛ اور علم و دانش کے سبب سے بوڑھے دل بھی جوان ہو جاتے ہیں
..................................................
22
ستائش کنم ایزدِ پاک را
کہ گویا و بینا کند خاک را

میں اُس خدائے پاک کی حمد و ثنا کرتا ہوں جو خاک کو بولنے والے اور دیکھنے والے انسان میں تبدیل کر دیتا ہے۔
..................................................
23
در گنہ کز جانبِ ما بود تقصیرے نرفت
چوں در آمرزش کہ کار اوست کوتاہی رود

جب ہماری جانب سے گناہوں میں کسی قسم کی تقصیر نہیں کی گئی، تو کیسے ممکن ہے کہ وہ مغفرت میں، جو کہ اُس کا کام ہے، کوئی کوتاہی برتے۔
..................................................
24
ہمچو فرہاد بُوَد کوہ کنی پیشۂ ما
کوہِ ما سینۂ ما ناخنِ ما تیشۂ ما

فرہاد کی طرح ہمارا پیشہ بھی کوہ کنی (یعنی پہاڑ کھودنا) ہے؛ ہمارا پہاڑ ہمارا سینہ جبکہ ہمارا تیشہ ہمارے ناخن ہیں
........................................
25
آدمیت نہ بہ نطق و نہ بہ ریش وہ نہ بہ جاں
طوطیاں نطق، بزاں ریش، خراں جاں دارد​

آدمیت نہ تو بولنے سے، نہ داڑھی سے، نہ ہی صحتمندی سے ہے، بولتے تو طوطے بھی ہیں، داڑھی تو بکروں کی بھی ہوتی ہے اور جسم تو گدھوں کا بھی توانا ہوتا ہے
........................................
26
از من متاب رُخ کہ نِیَم بے تو یک نَفَس
یک دل شکستنِ تو بصد خوں برابرست

میری طرف سے منہ مت پھیر کہ تیرے بغیر میں ایک لحظہ بھی نہیں ہوں، تیرا ایک دل کو توڑنا، سو خون کرنے کے برابر ہے۔
........................................
27
سرّ ِ عشقِ یار با بیگانگاں ھاتف مَگو
گوشِ ایں ناآشنایاں محرَمِ اسرار نیست

(اے ھاتف، عشقِ یار کے راز بیگانوں سے مت کہہ کہ ان ناآشناؤں کے کان محرمِ اسرار نہیں ہیں)۔
........................................
28
اے محتسب ز گریۂ پیرِ مغاں بترس
یک خم شکستنِ تو بصد خوں برابرست"

(اے محتسب، پیرِ مغاں کی آہ و زاری پر ترس کھا کہ تیرا ایک جام کو توڑنا، سو خون کرنے کے برابر ہے)
..................................................
29
بَگو حدیثِ وفا، از تو باوَرست، بَگو
شَوَم فدائے دروغے کہ راست مانندست

(مجھ سے تُو) وفا کی باتیں کر، تیری ہر بات کا مجھے اعتبار ہے، (اسلیئے) کہتا رہ، قربان جاؤں اس جھوٹ پر کہ جو (تیرے منہ سے) سچ کی طرح لگتا ہے۔
........................................
30
مرد را کردار عالی قدر گرداند نہ نام
ہر کسے کُو را علی نام است نے چُوں حیدر است

کسی بھی شخص کو اسکا کردار عالی قدر بناتا ہے نہ کے اسکا نام، ہر وہ جس کا نام علی ہو، حیدر  کی طرح نہیں ہے
........................................
31
عَلی الصباح چُو مردم بہ کاروبار رَوند
بلا کشانِ محبّت بہ کوئے یار روند

صبح صبح جیسے لوگ اپنے اپنے کاروبار کی طرف جاتے ہیں، محبت کا دکھ اٹھانے والے (عشاق) دوست کے کوچے کی طرف جاتے ہیں
..................................................
32
تُو اے پیماں شکن امشب بما باش
کہ ما باشیم فردا یا نہ باشیم

اے پیماں شکن آج کی رات ہمارے ساتھ رہ، کہ کل ہم ہوں یا نہ ہوں
..................................................
33
صائب! دوچیز می شکند قدرِ شعر را
تحسینِ ناشناس و سکوتِ سخن شناس

اے صائب! دو چیزیں (کسی) شعر کی قدر و قیمت کم کر دیتی ہیں، ایک (سخن) ناشناس کی پسندیدگی (شعر کی داد دینا) اور دوسری سخن شناس کا خاموش رہنا (شعر کی داد نہ دینا)۔
........................................
34
اوّل بہ وفا جامِ وصالم در داد
چوں مست شدم دامِ جفا را سر داد

با آبِ دو دیدہ و پُر از آتشِ دل
خاکِ رہِ او شدم بہ بادم در داد

پہلے تو وفا سے مجھے وصال کا جام دیا، جب میں مست ہو گیا تو جفا کا جال ڈال دیا، دو روتی ہوئی آنکھوں اور آگ بھرے دل کے ساتھ، جب میں اس کی راہ کی خاک بنا تو مجھے ہوا میں اڑا
........................................
35
با مردمِ نیک بد نمی باید بود
در بادیہ دیو و دَد نمی باید بود

مفتونِ معاشِ خود نمی باید بود
مغرورِ بعقلِ خود نمی باید بود

نیک لوگوں کے ساتھ برا نہیں بننا چاہیئے، جنگل میں شیطان اور درندہ نہیں بننا چاہیئے، اپنی روزی کا دیوانہ نہیں بننا چاہیئے، (اور) اپنی عقل پر مغرور نہیں بننا چاہیئے
..................................................
36
ہر گنج سعادت کہ خداداد بحافظ
از یمن دعائے شب و ورد سحری بود

اللہ ﴿رب العزت﴾ نے حافظ ﴿شیرازی﴾ کو سعادت کا جو بھی خزانہ عطا فرمایا
وہ ﴿محض﴾ دعائے ﴿نیم﴾ شبی اور ذکرِ صبحگاہی کی برکت سے تھا
..................................................
37
عافیت را ہمہ عالم نمی یابم نشاں
گرچہ می گردم بہ عالم ہم نمی یابم نشاں

تمام عالم میں مجھے عافیت کا کوئی نشان نہیں ملتا، اگرچہ میں نے ساری دنیا گھوم لی ہے لیکن پھر بھی اسکا کوئی نام و نشان نہیں ملا
..................................................
38
نگہ دار فرصت کہ عالم دمی ست
دمی پیش دانا بہ از عالمی ست

فرصت کے لمحات کی قدر و حفاظت کرو کہ یہ جہان فانی صرف ایک سانس کی مہلت کے برابر ہے
﴿اور جس قدر ممکن ہو اپنا وقت دانا لوگوں کے ساتھ گزارو کیونکہ﴾ دانشمند کے ساتھ گزرا ہوا ایک لمحہ﴿بھی﴾ جہان بھر﴿ کی نعمتوں﴾ سے بہتر ھے
..................................................
39
اگر آں تُرکِ شیرازی بدست آرد دلِ ما را
بہ خالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را

اگر وہ شیرازی محبوب ہمارا دل تھام لے تو اسکے دلفریب خال کے بدلے میں سمرقند اور بخارا بخش دوں۔
منظوم ترجمہ

اگر منظور دل میرا ہو اس تُرکِ دل آرا کو
فدائے خال و قد کردوں سمرقند و بخارا کو

سنبھال اے ترکِ شیرازی، پھرے یہ دل نہ یوں مارا
سمرقند و بخارا خالِ کافر پر ترے وارا
..................................................
40
دم بہ دم دم را غنیمت دان و ہم دم شو بدم
محرمِ دم باش و دم را یک دمی بی جا مدم

لمحہ بہ لمحہ گزرتے سانسوں کو غنیمت جانو اور اس ﴿انتہائی مختصر﴾ زندگی کے ہم دم بن جاٶ
زندگی کے محرم راز بن کر ﴿مقصد حیات کو پالو﴾ اور اک لمحہ بھی بے مقصد زندگی نہ گزارو
..................................................
41
بہ زمیں چو سجدہ کردم، ز زمیں ندا برآمد
کہ مرا پلید کردی، ازیں سجدۂ ریائی

جب میں نے سجدہ کیا تو زمیں سے صدا آئی کہ اس ریائی کے سجدے سے تُو نے مجھے ناپاک کر دیا ہے۔
........................................
42
سر مفراز، خاکِ پائے ہمہ باش
دلہا مخراش، در رضائے ہمہ باش

سر مت اٹھا، ہمیشہ خاکِ پا بن، دلوں کو تکلیف مت دے، ہمیشہ رضا پر (راضی) رہ۔
........................................
43
صبا گر از سرِ زلفش بہ گورستاں برد بوئے
ز ہر گورے دو صد بیدل ز بوئے یار برخیزد

اگر صبا اسکی زلفوں کی خوشبو قبرستان میں لے جائے تو ہر ہر قبر سے سینکڑوں عشاق اپنے محبوب کی خوشبو پا کر اُٹھ کھڑے ہوں
..................................................
44
من اگر ہزار خدمت بکنم گناہگارم
تو ہزار خون ناحق بکنی و بے گناہی

میں اگر ہزار خدمت بھی کروں تو پھر بھی گناہگار اور تُو ہزاروں خون ناحق کرتا ہے اور پھر بھی بے گناہ ہے
........................................
45
ہمی دانم کہ روز و شب جہاں روشن بہ روئے تُست
ولیکن آفتابے یا مہِ تاباں؟ نمی دانم

میں یہ تو ضرور جانتا ہوں کہ دنیا کے روز و شب تیرے ہی چہرے (کی روشنی) سے روشن ہیں، لیکن تو آفتاب ہے یا چمکدار چاند یہ نہیں جانتا
........................................
46
نعشِ مظہر چو ز کویت گذرد چشم مپوش
آخریں مردہ ہمانست کہ بیمار تو بود

جب مظہر کا جنازہ تیری گلی سے گزرے تو انکھیں بند نہ کرنا، آخر یہ وہی تو ہے جو کل تیرا بیمار تھا
..................................................
47
اگر فقیه نصیحت کند کہ عشق مباز
پیالہ ائے بدهش گو دماغ را تر کن

اگر فقیہ یہ نصیحت کرے کہ عشق بازی مت کرو تو اُسے (شراب کا) ایک پیالہ پکڑاؤ اور کہو کہ اپنا دماغ اِس سے تر کر لے یعنی اپنے خشک زہد کو ترک کر دے
..................................................
48
اگرچہ پیش خردمند خامشی ادبست
بوقت مصلحت آں بہ کہ در سخن کوشی

عقلمند کے نزدیک اگرچہ خاموش رہنا ادب ہے { لیکن }مصلحت کے وقت بات میں کوشش کرنا بہتر ہے ۔
........................................
49
دو چیز طیرۂ عقل ست دم فروبستن
بوقت گفتن و گفتن بوقت خاموشی

دو چیزیں عقل کا عیب ہے، ۱: بولنے کے وقت خاموش رہنا، ۲: خاموشی کے وقت بولنا ۔
........................................
50
خوردن برائے زیستن و ذکر کردن ست
تو معتقد کہ زیستن از بہر خوردن ست

کھانا جینے اور عبادت کرنے کےلئے ہے، تیرا اعتقاد ہے کہ جینا کھانے کےلئے ہے ۔
..................................................

ایں سخن را نیست ہرگز اختتام
ختم کن واللہ اعلم بالسلام

مکمل تحریر >>

منتخب و متفرق اشعار: قسط نمبر ۸

🌹بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 🌹

!!! منتخب اور متفرق اشعار!!!

انتخاب کنندہ: عادل سعیدی

قسط نمبر: آٹھ
..................................................

1
افروختن، و سوختن، و جامہ دریدن
پروانہ زمن شمع زمن گل زمن آموخت

روشنی بکھیرنا شمع نے ۔ جل مرنا پروانہ نے اور گریباں چاک کرنا گل نے ۔ مجھ سے سیکھا ہے
........................................
2
منظورِ یار گشت نظیری! کلامِ ما
بیہودہ صرفِ حرف نکردیم دودہ را

نظیری! ہمارا کلام یار کو پسند آ گیا، (تو گویا) ہم نے حرفوں پر فضول سیاہی خرچ نہیں کی۔
..................................................
3
دراں دلے کہ توئے یادِ دیگری کردَن
درونِ کعبہ پَرستیدن است عزّیٰ را

اگر تُو نے اپنے دل میں کسی دوسرے کو یاد کیا (تو یہ ایسے ہی ہے جیسے) کعبہ کے اندر عزّیٰ (بت) کی پرستش کرنا۔
..................................................
4
دورِ گردوں گر دو روزے بر مرادِ ما نرفت
دائماً یکساں نباشد حالِ دوراں، غم مخور

آسمان کی گردش اگر دو روز ہماری مراد کے مطابق نہیں چلی (تو کیا ہوا کہ) زمانے کا حال ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، غم نہ کر!
..................................................
5
تا چشمِ تو ریخت خونِ عشّاق
زلفِ تو گرفت رنگِ ماتم

چونکہ تیری آنکھوں نے عشاق کا خون بہایا ہے (اس لئے ) تیری زلفوں نے رنگِ ماتم پکڑا ہوا ہے (وہ سیاہ رنگ کی ہیں)
..................................................
6
بیاد آرَم چو صحبت ہائے یاراں
سرشک از دیدہ ریزم ہمچو باراں

دوستوں کی صحبتوں کی جب یاد آتی ہے تو آنسو آنکھ سے بارش کی طرح ٹپکتے ہیں۔
..................................................
7
ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب
ہنوز نامِ تو گفتن کمال بے ادبیست

ہزار بار بھی اگر اپنا منہ مشک و گلاب سے دھوؤں، تو پھر بھی آپ ﷺ  کا (پاکیزہ) نام لینا بہت بڑی بے ادبی ہے!
........................................
8
افروختن و سوختن و جامہ دریدَن
پروانہ ز من، شمع ز من، گُل ز من آموخت

چمکنا شمع نے، جلنا پروانے نے، لباس پھاڑنا (کِھلنا) پُھول نے، مجھ سے سیکھا!

صنعتِ 'لف و نشر غیر مرتب' کی ایک خوبصورت مثال!
..................................................
9
طریقت بجُز خدمتِ خلق نیست
بہ تسبیح و سجّادہ و دلق نیست

طریقت، خدمتِ خلق کے سوا کچھ اور نہیں ہے، یہ تسبیح اور سجادہ اور گُدڑی سے (میں) نہیں ہے!
..................................................
10
صبح دم تو رُخ نمودی، شُد نمازِ من قضا
سجدہ کے باید روا، چوں آفتاب آید بروں

صبح کے وقت جب تیرا چہرہ نظر آیا تو میری نماز قضا ہو گئی، سجدہ کیسے روا ہو سکتا ہے جب سورج طلوع ہو جائے!
..................................................
11
قرآن پیش خود آئینہ آویز دگر
گوں گشتہ از خویش گریز

(اپنے سامنے قرآن کا آئینہ رکھ اور اپنے خدوخال کو سنوار لے جو بگڑ چکے ہیں)
..................................................
12
گبر و ترسا و مسلماں ھر کسی در دینِ خویش
قبلۂ دارَند و ما زیبا نگارِ خویش را

یہودی و نصرانی و مسلمان، سب کا اپنے اپنے دین میں اپنا قبلہ ہے اور ہمارا (قبلہ) خوبصورت چہرے والا ہے
..................................................
13
حافظا! خلدِ بریں خانۂ موروثِ منست
اندریں منزلِ ویرانہ نشیمن چہ کنم

اے حافظ! جنت میرا موروثی گھر ہے، (لہذا) اس ویران منزل (دنیا) میں کیا نشمین بناؤں۔
..................................................
14
دنیا بہ اہلِ خویش تَرحّم نَمِی کُنَد
آتش اماں نمی دہد، آتش پرست را

یہ دنیا اپنے (دنیا میں) رہنے والوں پر رحم نہیں کھاتی، (جیسے کہ) آگ، آتش پرستوں کو بھی امان نہیں دیتی (انہیں بھی جلا دیتی ہے)۔
..................................................
15
زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجے گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت

زاھد کو پری رخوں کے دیکھنے کی تاب نہیں ہے (اور اس وجہ سے وہ) گوشۂ تنہائی میں ہے اور یادِ خدا کا بہانہ بنایا ہوا ہے!
..................................................
16

حافظ! مدام وصل میسر نمی شور
شاہان کم التفات بحالِ گدا کنند

اے حافظ! وصل ہمیشہ میسر نہیں‌ہوتا
بادشاہ گدا کے حال پر کم توجہ کرتے ہیں
..................................................
17
نہ محرمے، نہ شفیقے، نہ ہمدمے دارَم
حدیثِ دل بکہ گویَم، عجب غمے دارم

نہ کوئی محرم ہے، نہ کوئی شفیق، نہ کوئی ہمدم، دل کی بات کس سے کہوں؟ میرا غم بھی عجیب ہے (عجب مشکل ہے)۔
..................................................
18
از عشوۂ دختِ رز فریبے نخوریم
اے ساقیٔ ما! چشمِ تو، میخانۂ ماست

ہم انگور کی بیٹی کے ناز و ادا سے فریب نہیں کھانے والے، اے ہمارے ساقی! ہمارا میخانہ تو تیری آنکھیں ہیں
..................................................
19
طُمَعِ وصال، گُفتی، کہ بہ کیشِ ما حرام است
تو بگو کہ خونِ عاشق بہ کُدام دیں حلال است

(تُو نے (اے محبوب) کہا کہ وصال کی خواہش رکھنا ہمارے طور طریقے میں حرام ہے، (لیکن ذرا) یہ بھی کہہ کہ عاشق کا خون کرنا کس دین میں حلال ہے؟)
..................................................
20
سَرشکم رفتہ رفتہ بے تو دریا شُد، تماشا کُن
بیا در کشتیٔ چشمم نشین و سیرِ دریا کُن

ہمارے آنسو تیرے جدائی میں رفتہ رفتہ دریا بن گئے ہیں ذرا دیکھ تو، آ اور ہماری آنکھ کی کشتی میں بیٹھ کر اس دریا کی سیر کر۔
..................................................
21
کجا عقل و کجا دین و کجا من
منِ دیوانہ را اینہا مگوئید

(کہاں عقل اور دین اور کہاں میں، مجھ دیوانے سے اسطرح کی باتیں مت کرو)
..................................................
22
کاھلی کُفر بُوَد در رَوَشِ اھلِ طَلَب
من چرا کارِ خود امروز بہ فردا فگنم

اہلِ طلب کی روش میں کاہلی کفر ہوتی ہے، ہم اپنا آج کا کام کل پر کیوں ڈالیں۔
..................................................
23
عشقت نہ سرسری ست کہ از سر بدَر شَوَد
مہرت نہ عارضی ست کہ جائے دگر شود

(تیرا عشق سرسری نہیں ہے کہ ہمارے سر سے نکل جائے گا، تیری محبت عارضی نہیں ہے کہ کسی دوسری جگہ چلی جائے گی)
..................................................
24
اُمیدِ وصلِ تو نگذاشت تا دہَم جاں را
وگرنہ روزِ فراقِ تو مُردن آساں بُود

تیرے وصل کی امید (دل سے) نہ گئی کہ میں جان دے دیتا، وگرنہ تیری جدائی والے دن مرنا تو بہت آسان تھا
..................................................
25
می رَوی با غیر و می گوئی بیا عرفی تو ھم
لطف فرمودی بروکیں پائے را رفتار نیست

(تم) غیر کے ساتھ جا رہے ہو اور کہتے ہو کہ عرفی تو بھی آ جا، آپ نے عنایت فرمائی لیکن میرے پاؤں میں چلنے کی طاقت نہیں ہے
..................................................
26
ز ہر کلام، کلامِ عرب فصیح تر است
بجز کلامِ خموشی کہ افصح از عرب است

عرب کا کلام، ہر کلام سے فصیح تر (خوش بیاں، شیریں) ہے ماسوائے کلامِ خموشی (خاموشی) کے کہ وہ عرب کے کلام سے بھی فصیح ہے۔
..................................................
27
اہلِ ہمّت را نباشد تکیہ بر بازوئے کس
خیمۂ افلاک بے چوب و طناب استادہ است

ہمت والے لوگ کسی دوسرے کے زورِ بازو پر تکیہ نہیں کرتے، (دیکھو تو) آسمانوں کا خیمہ چوب اور طنابوں (وہ لکڑیاں اور رسیاں جس سے خیمے کو گاڑتے ہیں) کے بغیر ہی کھڑا ہے
..................................................
28
گماں مبر کہ ستم کردی و وفا نہ کُنَم
بیا بیا کہ ہماں شوق و آرزو باقی است

یہ گمان نہ کر کہ تُو نے مجھ پر ستم کیئے ہیں تو میں وفا نہیں کرونگا، آجا، آجا کہ (اب بھی میرا) وہی شوق اور وہی آرزو باقی ہیں
..................................................
29
آغازِ عشق یک نَظَرش با حلاوتست
انجامِ عشق جز غم و جز آہِ سرد نیست

عشق کا آغاز، اس (محبوب) کی ایک نظر کے ساتھ کتنا شیریں ہوتا ہے، لیکن عشق کا انجام بجز غم اور بجز سرد آہ کے کچھ نہیں ہے
..................................................
30
موجِ شراب و موجۂ آبِ بقا یکے است
ھر چند پردہ ھاست مخالف، نوا یکے است

موجِ شراب اور موجِ آب حیات (اصل میں) ایک ہی ہیں۔ ہر چند کہ (ساز کے) پردے مخلتف ہو سکتے ہیں لیکن (ان سے نکلنے والی) نوا ایک ہی ہے۔
..................................................
31
تفاوت است میان شنیدن من و تو
تو بستن در و من فتح باب می شنوم

ترجمہ: تیرے اور میرے ( درمیان) سننے میں فرق ہے کہ، تو جسے دروازہ بند ہونے کی آواز کھتا ہے، میں اسے دروازہ کھلنے کی آواز کھتا ہوں
..................................................
32
حاصلِ عُمرَم سہ سُخَن بیش نیست
خام بُدَم، پختہ شُدَم، سوختَم

میری عمر کا حاصل ان تین باتوں سے زائد کچھ بھی نہیں ہے، خام تھا، پختہ ہوا اور جل گیا
..................................................
33
لیس الغنی عن کثرۃ العرض انما الغنی غنی النفس(حدیث نبوی)​

تونگری مال و اسباب کی کثرت کا نام نہیں ، تونگری دل کی تونگری کو کہتے ہیں

نہ تونگر کسے بود کہ بمال
کار پرداز چارہ ساز بود
آں بود کز شہودِ فضلِ خدائے
از زر و مال ، بے نیاز بود

(مولانا نور الدین عبد الرحمن جامی)

غنی اس کو نہ سمجھو جس کے گھر میں نقرہ و زر ہو
غنی اس شخص کو کہتے ہیں‌جو دل کا تونگر ہو

(ظفر علی خان)
..................................................
34
وفا کنیم و ملامت کشیم و خوش باشیم
کہ در طریقتِ ما کافری ست رنجیدن

ہم وفا کرتے ہیں، ملامت سہتے ہیں اور خوش رہتے ہیں کہ ہماری طریقت میں رنجیدہ ہونا کفر ہے۔
..................................................
35
صبا گر از سرِ زلفش بہ گورستاں برد بوئے
ز ہر گورے دو صد بیدل ز بوئے یار برخیزد

اگر صبا اسکی زلفوں کی خوشبو قبرستان میں لے جائے تو ہر ہر قبر سے سینکڑوں عشاق اپنے محبوب کی خوشبو پا کر اُٹھ کھڑے ہوں
..................................................
36
شنیدہ ام بہ صنم خانہ از زبانِ صنم
صنم پرست و صنم گر و صنم شکن ہمہ اُوست

میں نے صنم خانے میں صنم کی زبان سے سنا ہے کہ صنم پرست بھی وہی ہے اور صنم گر بھی وہی ہےا ور صنم شکن بھی وہی ہے
..................................................
37
پارسی گو گرچه تازی خوشتر است
عشق را خود صد زبان دیگر است

اگرچہ عربی اچھی ہے مگر فارسی میں کہو - عشق کی اپنی سو زبانیں ہیں
..................................................
38
زر از بہرِ خوردن بُوَد اے پسر!
برائے نہادن چہ سنگ و چہ زر

اے پسر! روپیہ پیسہ اور مال و دولت کھانے پینے اور استعمال کرنے کیلیے ہوتا ہے، اگر رکھ ہی چھوڑنا ہے اور استعمال نہیں کرنا تو پھر کیا پتھر اور کیا دولت (یعنی رکھے ہوئے دونوں ایک برابر ہیں۔)
..................................................
39
چہ گنہ کرد دلم کز تو چنیں دُور افتاد؟
من چہ کردم کہ ز وصلِ تو جدا افتادم؟

میرے دل نے ایسا کون سا گناہ کر دیا ہے کہ اسطرح تجھ سے دُور ہو گیا ہے؟ اور میں نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ تیرے وصل سے جدا ہو گیا ہوں؟
..................................................
40
از صراحی دو بار قلقلِ مے
پیشِ جامی بہ از چہار قُل است

صراحی میں سے دو بار شراب کی قلقل کی آواز ﴿وہ آواز جو بوتل یا صراحی سے گلاس میں کوئی چیز انڈیلتے وقت آتی ہے﴾، جامی کے نزدیک چاروں قُل سے بہتر ہے
..................................................
41
مردہ بدم زندہ شدم، گریہ بدم خندہ شدم
دولتِ عشق آمد و من دولتِ پایندہ شدم

میں مُردہ تھا زندہ ہو گیا، گریہ کناں تھا مسکرا اٹھا، دولتِ عشق کیا ملی کہ میں خود ایک لازوال دولت ہو گیا
..................................................
42
در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد؟
در دستِ بحر نوشاں، ساغر چہ کار دارد؟

فقیروں کے حلقے میں بادشاہوں کا کیا کام؟ دریا نوشوں کے ہاتھ میں ساغر کا کیا کام؟
................................................
43
وضعِ زمانہ قابلِ دیدن دوبارہ نیست
رو پس نکرد ہر کہ ازیں خاکداں گذشت

دنیا کی وضع (چلن، طور طریقہ) اس قابل ہی نہیں ہے کہ اسے دوبارہ دیکھا جائے (یہی وجہ ہے) کہ جو بھی اس خاکدان سے جاتا ہے پھر ادھر کا رخ نہیں کرتا
........................................
44
از وجودِ اُو بہ نزدِ دوستاں
جنت الماویٰ شدہ ہندوستاں

آپ کے وجودِ مبارک سے، دوستوں کے لیے، ہندوؤں کی جگہ (ہندوستان) جنت الماویٰ بن گیا ہے۔
..................................................
45
برَد دل از ھمہ کس نظمِ اُو کہ ھاتف را
ملاحتِ عجمی و فصاحتِ عرَبیست

ھاتف کے کلام نے ہر کسی کا دل چھین لیا کہ (اسکے کلام میں) عجم (فارسی) کی ملاحت اور عربی فصاحت ہے۔
..................................................
46
یادِ رخسارِ ترا در دل نہاں داریم ما
در دلِ دوزخ، بہشتِ جاوداں داریم ما

تیرے رخسار کی یاد دل میں چھپائے ہوئے ہیں، دوزخ جیسے دل میں ایک دائمی بہشت بسائے ہوئے ہیں
........................................
47
میان عاشق و معشوق رمزیست
کراما کاتبیں را ہم خبر نیست

عاشق اور معشوق کے درمیان ایک ایسا (قلبی) تعلق ہوتا ہے جس کی کراما کاتبین کو بھی خبر نہیں ہوتی ۔
..................................................
48
آں عزم بلند آور، آں سوزِ جگر آور
شمشیرِ پدر خواہی، بازوئے پدر آور

پہلے وہ عزم بلند ، وہ سوز جگر لاؤ ۔ باپ کی تلوار کی خواہش ہے تو پہلے باپ کے سے بازو لاؤ
........................................
49
ہمی دانم کہ روز و شب جہاں روشن بہ روئے تُست
ولیکن آفتابے یا مہِ تاباں؟ نمی دانم

میں یہ تو ضرور جانتا ہوں کہ دنیا کے روز و شب تیرے ہی چہرے (کی روشنی) سے روشن ہیں، لیکن تو آفتاب ہے یا چمکدار چاند یہ نہیں جانتا
........................................
50
بجز غم خوردنِ عشقَت، غمے دیگر نمی دانم
کہ شادی در ہمہ عالم ازیں خوشتر نمی دانم

تیرے عشق کے غم کے سوا مجھے کوئی اور غم نہیں ہے اور سارے جہان میں اس سے بہتر میں خوشی کی کوئی اور بات نہیں جانتا (کہ فقط تیرا غم ہے)۔
........................................

مکمل تحریر >>