Tuesday 27 September 2016

منتخب و متفرق اشعار۔ قسط نمبر ا

🌹بسم اللہ الرحمان الرحیم 🌹

!!! منتخب اور متفرق اشعار!!!

انتخاب کنندہ: عادل سعیدی دیوبندی

قسط نمبر: ایک
..................................................

1
آیا نہ ایک بار عیادت کو وہ مسیح
سو بار میں فریب سے بیمار ہو چُکا
2
چُھپے کچھ ایسے کہ تا زیست پھر نہ آئے نظر
رہینِ حسرتِ دِیدار کرکے چھوڑ دیا
3
پہلے کچھ آئے تھے جو اب آؤ گے تم
جُھوٹے وعدوں سے کوئی کیا شاد ہو
4
اب عطر بھی مَلو تو تکلّف کی بُو کہاں
وہ دن ہَوا ہُوئے جو پسینہ گُلاب تھا
5
یوں تو دنیا میں قیامت کے پری رُو دیکھے
سب سے بڑھ کر تجھے اے فتنۂ محشر پایا
6
رُخسار وہ نازک ہے کہ گُل جس پہ فِدا ہو
قامت، وہ قیامت ہے، کہ آفت ہی بپا ہو
7
زمانہ سارا ہُوا ہے تمھارا محرمِ راز
نہ ہو سکا تو مِرا اعتبار ہو نہ سکا
8
بہت مُشکل ہے دُنیا کا سنْوَرنا
تِری زُلفوں کا پیچ وخم نہیں ہے
9
اُدھر مشکوک ہے میری صداقت
اِدھر بھی بدگمانی کم نہیں ہے
10
مِری بربادیوں کا ہم نشینوں!
تمہیں کیا خود مجھے بھی غم نہیں
11
صُبْح خیزوں کو موت آگئی کیا ہجر کی شب
مُرغ بولے ہے، نہ مُلّا ہی اذاں دیتا
12
میں رضامند ہُوں، تُو، دوزخ و جنّت جو دے
ایک ہے عدل تِرا، دوسرا احساں تیرا
13
بے آبرُو، نہ تھی کوئی لغزش مِری قتیل !
میں جب گِرا، جہاں بھی گِرا ہوش میں گِرا
14
اے شمع، ہم سے سوزِ محبّت کے ضبط سیکھ
کمبخت، ایک رات میں ساری پگھل گئی
15
حشر میں اِنصاف ہوگا، بس یہی سُنتے رہو !
کچُھ یہاں ہوتا رہا ہے، کچُھ وہاں ہو جائے گا
16
آخر ہے عمر، زیست سے دل اپنا سیر ہے
پیمانہ بھر چکا ہے، چھلکنے کی دیر ہے
17
خموشی سے مُصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل ، تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے
18
بدلی وہ وضع، طور سے بے طور ہو گئے !
تم تو، شباب آتے ہی ، کچھ اور ہو گئے
19
افسوس ہے، اِنساں نہ ہُوا عِلم کا جویا
وہ مال ہے یہ صرف سے جو کم نہیں ہوتا
20
ہم، اور سیرِلا لہ و گُل ہجرِ یار میں !
کیسی بہار، آگ لگا دو بہار میں
21
ہم سے ناخوش نہ ہو خُدا کے لئے !
سارا عالم خفا سا لگتا ہے
22
بزمِ الست دارِ فنا جلوہ گاہِ حشر
پہنچی ہے لے کے اُن کی تمنّا کہاں کہاں
23
جہاں تیرے جلوہ سے معمُور نکلا
پڑی آنکھ جس کوہ پر طُور نکلا
24
بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہُوا !
لاکھ رنجش سہی، اِک عمر کا یارانہ تھا
25
خیالِ خاطرِ احباب چاہئے ہر دم !
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
26
گُلوں سے رنگ، سِتاروں سے روشنی لے کر
جمالِ یار کا نقشہ اُتار لیتا ہُوں
27
پیامِ مرگ ہے مُوئے سفید، اے غافِل !
کبھی سُنا ہے کہ ، پیری گئی شباب آیا
28
رنگِ بہار، نظمِ چمن، ہم سے ہی رہا
پھر بھی ہمِیں سے اہلِ چمن بدگماں رہے
29
جب سے وہ چشمِ التفات نہیں !
جی رہا ہُوں، مگر وہ بات نہیں
30
استعاروں سے بات کرتے ہیں
آسمانوں پہ رات کرتے ہیں
اچھے شاعر تو ایک مصرعے میں
بند اِک کائنات کرتے ہیں
31
نہ اب وہ طشتِ زرّیں ہیں، نہ وہ چاندی کے کلسے ہیں
کمیٹی خوانِ نعمت ہے، فقط لفظوں کے جلسے ہیں
32
بیگانگیِ خلق سے بے دل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا تو مِری جان خُدا ہے
33
فیض دُنیا میں غم نصیبوں کو
شاعری بھی بڑا سہارا ہے
34
کرو سکوت، نہیں وقتِ اعتراض اکبر
فضُول، بحث سے اپنوں کو تم نے غیرکِیا
35
سارے عالم پہ ہُوں میں چھایا ہُوا
مُستنِد ہے میرا فرمایا ہُوا
36
یہ مسائلِ تصوُّف، یہ تِرا بیان غالب !
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا
37
ہم کو معلوُم ہے جنّت کی حقِیقت، لیکن !
دِل کے خوش رکھنے کوغالب یہ خیال اچّھا ہے
38
مے سے غرض نِشاط ، ہے کِس رُو سِیاہ کو !
یک گو نہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
39
نہ تو بُلبُل نظر آتا ہے چمن میں، نہ تو گُل
اِک طرف برگِ خزاں ڈھیر ہیں اِک سُو کانٹے
40
کیا بگڑ جائے تِرا، اے مہِ خُوبی و جمال !
گر یہاں بھی کوئی دم رونقِ محفِل ہوجائے
41
راتوں کو تجھے نیند میسّر جو نہیں ہے !
وہ پھر سے تِرے ذہن کا محور تو نہیں ہے
42
بات اسکو عدیم آتی ہے
بات کرنے کا ڈھب نہیں آتا
43
ہوگا سُکوں بھی ہوتے ہوتے
سو جاؤں گا، روتے روتے
44
کچُھ احتیاط کی تو، تِری احتیاط کو !
ترکِ تعلقات سمجھنے لگے ہیں لوگ
45
اے ذوقِ تماشا محفِل میں، لانے کو تو لے آیا کیفی
پردے پہ نِگاہیں رُکتی نہیں، دِیدار کا عالم کیا ہوگا
46
باتوں میں ایک بات سمجھنے لگے ہیں لوگ
تم کو ، مِری حیات سمجھنے لگے ہیں لوگ
47
نہ گُل کِھلے ہیں، نہ اُن سے مِلے، نہ مے پی ہے !
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
48
دشمنوں کے سِتم کا خوف نہیں !
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں
49
دل محرمِ اَسرار ہے، پردہ نہ اُٹھاؤ
اب درد ہی دیدار ہے، پردہ نہ اُٹھاؤ
50
کِس محبّت سے گلے مِل کے بٹھایا نزدیک
ہم کو مجنُوں جو مِلا نجد کے ویرانے میں
51
کسی بے وفا کی خاطر یہ جُنوں فراز کب تک
جو تمہیں بھُلا چُکا ہے، اُسے تم بھی بُھول جاؤ
52
ٹُوٹ جائیں نہ رگیں ضبط مُسلسل سےکہیں
چھپ کےتنہائی میں کچھ اشک بہالے تُو بھی
53
اُس حُورِ لقا کو گھر لائے، ہو تُم کو مُبارک اے اکبر!
لیکن یہ قیامت کی تم نے، گھر سے جو نِکلنا چھوڑ دیا
54
وہ ادائے دِلبری ہو، کہ نوائے عاشقانہ
جو دِلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ
55
اے حشر دیکھنا تو، یہ ہے چودھویں کا چاند
یا، آسماں کے ہاتھ میں تصویر یار کی
56
اے میرے دل کے چین، مِرے دل کی روشنی
آ اور صبح کردے شبِ اِنتظار کی
57
شہزاد اُس کے دام میں آتا نہ کِس طرح
صیّاد خوش کلام تھا، رنگِیں لِباس تھا
58
زمینِ چمن گُل کِھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
59
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مِٹے نامیوں کے نِشاں کیسے کیسے
60
لگے ہیں شمع پر پہرے، زمانے کی نِگاہوں کے
جنھیں جلنے کی حسرت ہے وہ پروانے کہاں جائیں
61
شروعِ عشق میں گستاخ تھے اب ہیں خوشامد کو
سلیقہ بات کرنے کا نہ جب آیا ، نہ اب آیا
62
سُنا ہے غیر کی محفِل میں تم نہ جاؤگے
کہو تو آج سجا لوُں غریب خانے کو
63
وعدے بھی یاد دِلانے ہیں، گِلے بھی ہیں بہت
وہ دِکھائی بھی تو دیں، اُن سے ملاقات تو ہو
64
کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی !
ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں
65
کارگر اُس بُت کی تدبیریں بالآخر ہوگئِیں
گو ہُوں مُسلِم خواہشیں میری بھی کافرہوگئِیں
66
عشق میں جان سے گزُر جائیں
اب یہی جی میں ہے، کہ مر جائیں
67
اُن کو مدّ ِ نظر ہُوا پردا
اہلِ شوق اب کہو کِدھر جائیں
68
شب وہی شب ہے، دن وہی دن ہیں
جو تِری یاد میں گزُر جائیں
69
دوش تک بھی بلائے جاں ہیں وہ بال
جانے کیا ہو جو، تا کمر جائیں
70
سرِ تسلِیم ہےخم، اِذن ِ عقُوبت کے بغیر
ہم تو سرکار کے مدّاح ہیں خِلعت کے بغیر
71
شعر دراصل، ہیں وہی حسرت !
سُنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں
72
سر بَرہنہ ہُوں تو کیا غم ہے، کہ اب شہر میں لوگ
برگزیدہ ہُوئے دستارِ فضِیلت کے بغیر
73
دیکھ ! تنہا مِری آواز کہاں تک پہنچی
کیا سفر طے نہیں ہوتے ہیں رفاقت کے بغیر
74
سب کے دل میں ہے جگہ میری، جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا ایک زمانہ مہرباں ہوجائے گا
75
عِشق میں میرؔ کے آداب نہ برتو، کہ یہاں !
کام چلتا نہیں اعلانِ محبّت کے بغیر
76
میں لوگوں سے ملاقات کے لمحے یاد رکھتا ہوں
میں باتیں بھول بھی جاؤں تو لہجے یاد رکھتا ہوں
77
جھلک رہی تھی نگاہوں سے اجنبیّت بھی
ہم اپنا جان کے، کیا اُن سے گفتگو کرتے
78
اُمیدِ بوسۂ ابرو و زُلف و چشم کِسے
مِرے نصیب کہاں اور یہ بلائیں کہاں
79
کچھ تصاویر بول پڑتی ہیں !
سب کی سب بے زباں نہیں ہوتیں
80
ہمنشیں! پُوچھ نہ مجھ سے کہ، محبّت کیا ہے ؟
اشک آنکھوں میں اُبل آتے ہیں، اِس نام کے ساتھ
81
میں چاہتا ہُوں کہ، بس ایک ہی خیال رہے
مگر خیال سے پیدا خیال ہوتا ہے
82
دباو کیا ہے سنے وہ جو آپ کی باتیں
رئیس زادہ ہے داغ آپ کا غلام نہیں
83
سنائی جاتی ہیں درپردہ گالیاں مجھ کو
جو میں کہوں توکہیں آپ سے کلام نہیں
84
جو کہتا ہوں کہ مرتا ہوں تو فرماتے ہیں مر جاو
جو غش آتا ہے تو مجھ پر ہزاروں دم بھی ہوتے ہیں
85
ناصحوں سے کلام کون کرے
اپنی ایسوں سے گفتگو ہی نہیں
86
نہیں آتی، تو یاد اُن کی مہینوں تک نہیں آتی !
مگر جب یاد آتے ہیں، تو اکثر یاد آتے ہیں
87
حقیقت کُھل گئی حسرت، تِرے ترکِ محبّت کی
تجھے تو، اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
88
اب کون سے موسم سے، کوئی آس لگائے
برسات میں بھی، یاد نہ جب اُن کو ہم آئے
89
طے کرتے ہیں، نِگاہ سے دل کے مُعاملے !
کُھلتے ہیں گفتگو میں حسینوں کے لب کہاں
90
آیا وطن میں پھر کے مگر اِس کی کیا خوشی!
جن جن کو پُوچھتا ہُوں، یہ سُنتا ہُوں مر گئے
91
باتیں بھی مجھ سے کِیں، مِری خاطر بھی کی بہت
لیکن، مجال کیا، جو نظر سے نظر ملے
92
کُلاہِ کِذب و قبائے رِیا سے بہتر ہے
کہ آدمی کے بدن پر کوئی لباس نہ ہو
93
بھیگ جاتی ہیں اِس اُمّید پر آنکھیں ہر شام
شاید اِس رات وہ مہتاب لبِ جُو آئے
94
ہزاروں طب کے نسخوں سے
نگاہ یار بہتر ہے
95
کیا کہوں گُل ہے کہ شبنم ، وہ غزل ہے کہ غزال
تم نے دیکھا ہی نہیں اُس کا سراپا یارو
96
اُس سرو قد پہ اکبر، مُدّت سے مر رہا ہُوں
الله راست لائے، کوشِش تو کر رہا ہُوں
97
اے قبلہ ! آپ مجھ پہ چڑھے آتے ہیں یہ کیوں
ممبر اِس انجمن کا ہُوں، منبر نہیں ہُوں میں
98
میں نے کچُھ اِختلاف کِیا آپ سے اگر !
غصہ عبث ہے، آپ کا نوکر نہیں ہُوں میں
99
اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا، محسن
میرے قاتل تو میرے اپنے حواری نکلے
100
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہونگے کوئی ہم سا ہو گا

101
اُڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں
102
ہر صبْح ایک سی ہے، ہر شام ایک سی ہے
کیا خاک زندگی ہے، اِک بوجھ ڈھو رہا ہوں
103
اب تو بس جان ہی دینے کی ہے باری، اے نُور
میں کہاں تک کروں ثابت کہ وفا ہے مُجھ میں
104
دل کی اُجڑی اُداس بستی میں
چاہتے تھے کئی مکیں رہنا
105
حشر میں بھی وہ کیا مِلیں گے ہمیں
جب مُلاقات عُمر بھر نہ ہوئی
106
فسانہ کہہ رہے ہیں آج، وہ اپنی محبّت کا
خُدا ایسا کرے، میرا کہیں پر نام آجائے
107
خلق، صُورت میں ہی کرتی ہے معانی کی تلاش !
وہ معانی سے بھی کرلیتے ہیں، صُورت پیدا
108
دل مِرا جس سے بہلتا، کوئی ایسا نہ مِلا
بُت کے بندے مِلے ، الله کا بندہ نہ مِلا
109
ہوشیاروں میں تو اک اک سے سوا ہیں اکبر
مجھ کو دیوانوں میں لیکن کوئی تجھ سا نہ مِلا
110
شکوۂ ہجر پہ سر کاٹ کے فرماتے ہیں
پھر کروگے کبھی، اِس منہ سے شکایت میری
111
قیامت کے دیوانے کہتے ہیں ہم سے
چلو ان کے چہرے سے پردہ ہٹا دیں
112
وضو کو مانگ کے پانی، خجل نہ کر اے میر
وہ مُفلسی ہے، تَیَمُّم کو گھر میں خاک نہیں
113
تمام عمر کبھی جس سے کھُل کے بات نہ کی
ہر اِک سُخن میں اُسی سے مِرا خطاب رہا
114
امیدیں ٹُوٹتی ہیں، تو بہت صدمہ پہنچتا ہے !
جو اُمیدیں کریگا کم، اُسے صدمے بھی کم ہونگے
115
بخدا ہند کے پُرزے بھی غضب ڈھاتے ہیں !
یہ غلط ہے کہ، ولایت کا ہی مال اچھا ہے
116
توبہ کِیے زمانہ ہُوا، لیکن آج تک
جب شام ہو تو کچھ بھی بنائے نہیں بنے
117
جاتے تو ہیں صنم کدے سے حضرتِ خمار
لیکن خُدا کرے کہ، بِن آئے نہیں بنے
118
جو پیکرِ وفا تھے، سراپا خُلوص تھے!
وہ لوگ کیا ہُوئے، وہ زمانہ کدھر گیا
119
ہر روز، روزِ عید تھی، ہر شب، شبِ برات
وہ دن کہاں گئے، وہ زمانہ کدھر گیا
120
انتظارِ فصلِ گُل میں کھو چُکے آنکھوں کا نُور
اور بہارِ باغ، لیتی ہی نہیں آنے کا نام
121
عشق کرتا ہے، تو پھرعشق کی توہین نہ کر
یا تو بے ہوش نہ ہو، ہو تو نہ پھر ہوش میں آ
122
جب سے پہلوُ میں ہمارے وہ دل آرام نہیں
چین دم بھر کو ہمیں صبح نہیں، شام نہیں
123
کون سی شب ہے ہماری کہ، تڑپتے نہ کٹی !
کون سا دن ہے، کہ وقفِ غم و آلام نہیں
124
سات نسلوں کا تعارف ہے یہ لہجہ شاید
آدمی جب بولے تو نام نسب کھلتا ہے
125
لاؤں گا میں کہاں سے جدائی کا حوصلہ
کیوں اسقدر قریب میرے آ گئے ہو تم؟
126
ہونٹ پتھر کے تو آنکھوں کی جگہ تھے ناسور
یوں بنائی میری تصویر خیالی اس نے
127
میری میت سے اسے آئے گی اپنی خوشبو
بس یھی سوچ کے مٹی نہیں ڈالی اس نے
128
کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ مِلنے کا رات کے
پُوچھیں گے ہم سبب، تو بتایا نہ جائے گا
129
کل بھی گھر سے خط آیا ہے درد بھرا
تم نہیں آتے پیسے آتے رہتے ہیں
130
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
131
روز مر مر کے یُوں مِرا جینا
کیا تمھیں معجزہ نہیں لگتا
132
چاہے نظریں ہوں آسمانوں پر
پاؤں لیکن زمین پر رکھیے
133
سو بلا ٹال گیا، چُپ رہنا
بولنے والے ہی ٹھہرے جُھوٹے
134
بعد مرنے کے مِری قبر پہ آیا وہ میر
یاد آئی مِرے عیسٰی کو دوا میرے بعد
135
کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل ، کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ، وہ دکان اپنی بڑھا گئے
136
بہاروں میں بھی مے سے پرہیز توبہ !
خمار آپ کافر ہُوئے جا رہے ہیں
137
اِک نظر دیکھ لوُں آجاؤ قضا سے پہلے
تم سے مِلنے کی تمنّا ہے خُدا سے پہلے
138
بیگانہ وار اُن سے ملاقات ہو تو ہو
اب دُوردُور ہی سے کوئی بات ہو تو ہو
139
قند سے شیریں تِری پہلی نگاہ
دوسری قندِ مکرر سے لذیذ
140
مشکل ہے پھرمِلیں کبھی یارانِ رفتگاں
تقدیر ہی سے اب یہ کرامات ہو تو ہو
141
الہٰی ایک دِل ہے، تُو ہی اِس کا فیصلہ کر دے
وہ اپنا دِل سمجھتے ہیں، ہم اپنا دِل سمجھتے ہیں
142
ہر کہ عیب دگراں پیش تو آورد و شمرد
بیگماں عیب تو پیش دگراں خواہد برد
143
انجمن انجمن شِناسائی
دِل کا پھر بھی نصیب تنہائی
144
جب کبھی تُم کو بُھولنا چاہا
انتقاماً تمہاری یاد آئی
145
شراب رب نے حرام کر دی
مگر کیوں رکھی حلال آنکھیں
146
لُطف وہ عِشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اُٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
147
سادگی، بانکپن، اغماز، شرارت، شوخی
تُو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
148
وہ اور ہیں جو طلب گارِ خُلد ہیں واعظ
نگاہِ یار سلامت، مُجھے کمی کیا ہے
149
خُدا بچائے تِری مست مست آنکھوں سے
فرشتہ ہو تو بہک جائے، آدمی کیا ہے
150
اے دوست آ بھی جا کہ میں تصدیق کر سکوں
سب کہہ رہے ہیں آج فضا خوشگوار ہے
151
غُنچے ہیں ، گُل ہیں ، سبزہ ہے، ابر بہار ہے
سب جمع ہو چکے ہیں، تِرا انتظار ہے
152
یہ عہد ترکِ محبّت ہے کس لیے آخر
سکونِ قلب اِدھر بھی نہیں اُدھربھی نہیں
153
زبان پر تو بظاہر خوشی کے جُملے ہیں
دہک رہا ہے حسد کا الاؤ لہجے میں
154
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جُدا
قبر میں تنہا مُجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا
155
محبّت کیا ہے، تاثیرِ محبّت کِس کو کہتے ہیں ؟
تِرا مجبُور کردینا، مِرا مجبُور ہو جانا
156
نوحہ گر چُپ ہیں کہ روئیں بھی تو کِس کو روئیں
کوئی اِس فصلِ ہلاکت میں سلامت بھی تو ہو
157
حسن والوں کو دیکھ کر ساغر
بے پِئے ہی سُرُور رہتا ہے
158
وہ دلوں میں آگ لگائے گا میں دلوں کی آگ بجهاونگا
اسے اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے
159
صحبتِ رِنداں سے واعظ کچھ نہ حاصل کرسکا
بہکا بہکا سا مگر طرزِ کلام آ ہی گیا
160
نہ حرفِ تکلّم، نہ سعیِ تخاطب، سرِ بزم لیکن بہم ہمکلامی
اِدھر چند آنسو سوالی سوالی، اُدھر کچھ تبسّم جوابی جوابی
161
ارے پاگل ! اب اس کے واسطے رونے سے کیا حاصل
جسے دل میں بسایا تھا اسے دل سے نکالا کیوں ؟
162
خود کو دیتے بھی رہے ترکِ تعلّق کا فریب ​
اور درپردہ ، کسی کو یاد بھی کرتے رہے
163
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
164
رات کی تنہائیوں میں تو کوئی بھی یاد کر لیتا ہے غالب
جو دنیا کی بھیڑ میں یاد رکھےمحبت اس کو کہتے ہیں
165
جدا ہو کر میرے دل سے کہاں جاؤگے جان من
بھٹک جاؤگے راہوں میں بڑا ظالم زمانہ ہے
166
قسم کھاکر یہ کہتاہوں نہیں ہر گز فسانہ ہے
صمیم دل میں تم ہی ہو محبت غائرانہ ہے
167
دیمک زدہ کتاب تھی یادوں کی زندگی
ہر ورق کھولنے کی خواہش میں پھٹ گیا
168
للہ اِس خلُوص سے پُرسِش نہ کیجئے ​
طُوفان کب سے بند مِری چشمِ ترمیں ہیں
169
وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان پہ مرے بیٹھے ہیں
ہم تو ان پہ مرے بیٹھے ہیں جو ان سے پرے بیٹھے ہیں
170
اپنے مرکز سے اگر دُور نِکل جاؤ گے
خواب هوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
171
دے رهے هیں تمهیں جو لوگ رفاقت کا فریب
اُن کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے
172
اپنی مٹی هی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھِسل جاؤ گے
173
خواب گاہوں سے نِکلتے هوئے ڈرتے کیوں هو.؟
دھُوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پِگھل جاؤ گے‌؟
174
تیز قدموں سے چلو اور تصادُم سے بچو
بھِیڑ میں سُست چلو گے تو کُچل جاؤ گے
175
ہمسفر ڈھُونڈو نہ منزل کا سہارا چاهو
ٹھوکریں کھاؤ گے تو خود هی سنبھل جاؤ گے
176
آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں
ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں
177
ہم نے دل دے بھی دیا، عہدِ وفا لے بھی لیا
آپ اب شوق سے دے لیں جو سزا دیتے ہیں
178
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں، لا الہ الا اللہ
179
دُنیا میں قتیل اُس سا مُنافِق نہیں کوئی
جو درد تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
180
خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں !
کاش تُجھ کو بھی، اِک جَھلک دیکھوں
181
ہزار خوف ہو، لیکن زباں ہو دل کی رفِیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طرِیق
182
قیدِ آدابِ محبّت مُجھے منظوُر نہیں
عِشق دستوُر ہے خود، عِشق کا دستوُر نہیں
183
اِک جگہ بیٹھ کے پی لوُں، مِرا دستوُر نہیں
میکدہ تنگ بنا دُوں، مُجھے منظوُر نہیں
184
برقِ غیرت مِری ہستی کو جَلادے، تسلیم!
چُھپ کے پردہ میں رہے حُسن، یہ منظوُر نہیں
185
یونہی حیراں پریشاں روز صبح و شام کرتے ہیں
جنونِ عِشق کے مارے کہیں آرام کرتے ہیں
186
یہ نگاہِ شرم جھکی جھکی ، یہ جبینِ ناز دُھواں دُھواں ​
مِرے بس کی اب نہیں داستاں، مرا کانپتا ہے رُواں رُواں
187
ان نے کھینچا ہے مرے ہاتھ سے داماں اپنا
کیا کروں گر نہ کروں چاک گریباں اپنا
188
بُرا نہ مان اگر یار کچُھ بُرا کہہ دے !
دِلوں کے کھیل میں خود داریاں نہیں چلتیں
189
ہم اہلِ دل سے اہلِ جہاں کے تعلّقات
ہیں تو سہی فراز، مگرخط کشیدہ ہیں
190
وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا!
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیو ں ہو؟
191
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام تِرے ​
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
192
حکمت کو ایک گمشدہ لعل سمجھو
جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو
193
مِل ہی جائے گا کبھی دِل کو یقیں رہتا ہے ​
وہ اِسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
194
اِک تِری دید چِھن گئی مجھ سے
ورنہ دُنیا میں کیا نہیں باقی
195
ناکامِ تمنّا دل، اِس سوچ میں رہتا ہے !
یُوں ہوتا تو کیا ہوتا، یُوں ہوتا تو کیا ہوتا
196
غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سُنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سُنا ہوتا
197
کہنے کو زندگی تھی بہت مُختصر مگر
کچھ یُوں بسر ہوئی، کہ خُدا یاد آ گیا
198
دمِ واپسیں بر سرِ راہ ہے
عزیزو! اب الله ہی الله ہے
199
‏رخصت کے دن بھیگی آنکھوں اس کا وہ کہنا ہائے قتیل
تم کو لوٹ ہی جانا تھا تو اس نگری کیوں آئے تھے
200
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
201
میخانہ کی توہین ہے، رِندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائےر

0 comments: