Tuesday, 29 March 2016

نبوت سے انسان کو کیوں سرفراز کیا گیا؟

 نبوت سے انسان کو کیوں سرفراز کیا گیا؟ 

مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ،شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند

ناقل : عادل سعیدی پالن پوری

       
خطبۂ مسنونہ کے بعد: { وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

       
بزرگو اور بھائیو! یہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے، جو سورۂ نحل میں آئی ہے، اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعاليٰ نے مشرکین کے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے، آنحضورﷺ نے جب نبوت کا دعویٰ کیا، تو مشرکین نے کہا: آپ ؑ ہمارے جیسے ایک انسان ہیں، آپ ؑ میں کیا سرخاب کا پر لگا ہے، جو اللہ نے آپ کو نبوت سے سرفراز کیا؟ اللہ کے یہاں فرشتوں کی کمی نہیں، اگر اللہ کو رسول بھیجنا تھا، تو کسی فرشتہ کو رسول بناکر بھیجتے، آپ کو ہی رسول بناکر کیوں بھیجا؟

       
یہ مشرکین کا ایک اعتراض تھا، قرآن کریم میں جگہ جگہ مختلف انداز سے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، تاکہ انسان کو رسالت کے ساتھ سرفراز کرنے کی وجہ، مشرکین کے سمجھ میں آئے، اس آیت میں بھی مشرکین کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، اور قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ اصل مسئلہ کے ساتھ ضمناً اور بھی مسائل بیان کرتا ہے۔

       
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ، اور نہیں بھیجا ہم نے آپ سے پہلے، مگر مردوں کو، جن کی طرف ہم وحی بھیجتے ہیں، یعنی جب سے نبوت و رسالت کا سلسلہ شروع ہوا ہے، ہمیشہ انسان ہی رسول بن کر آئے ہیں، اور مرد ہی رسول بن کر آئے ہیں، نہ کبھی کوئی فرشتہ رسول بن کر آیا، اور نہ کبھی کوئی عورت رسول بن کر آئی۔

عورتوں کو بھاری ذمہ داری سے سبکدوش رکھا گیا ہے:

       
کبھی کوئی عورت رسول بن کر نہیں آئی، یہ بات ضمناً آئی ہے، اور عورتوں کو رسالت سے سرفراز اس لئے نہیں کیا گیا، کہ ان میں نبوت کے ساتھ متصف ہونے کی صلاحیت نہیں، عورت صنفِ نازک ہے، ناتواں اور کمزور ہے، اور نبوت و رسالت کی ذمہ داری بھاری ذمہ داری ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم فرمایا، اور ان کے ناتواں کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری نہیں رکھی، جیسے جہاد عورتوں پر فرض نہیں؛ کیونکہ جہاد پتہ مار کام ہے، جب میدانِ کارزار گرم ہوتا ہے، تو بڑے بڑے سورماؤں کے پتے، پانی ہوتے ہیں، اور کلیجہ منھ کو آتا ہے، غرض جہاد بڑا صبر آزما اور مشکل کام ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر جہاد فرض نہیں کیا۔

       
اسی طرح رسالت کا کام ہے، آپ نبی پاک ﷺ کی مکی زندگی پڑھیں، کن احوال سے آپ ﷺ کو گذرنا پڑا ہے، مدنی دور کی آٹھ سالہ تاریخ، فتحِ مکہ تک پڑھیں، کوئی رات آپ ﷺ نے چین اور سکون سے نہیں گذاری، اتنا بھاری اور سخت کام عورتوں کے بس کا نہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پڑھیں، حضرت نوح علیہ السلام کی تاریخ پڑھیں، جو احوال ان حضرات پر گذرے ہیں، کیا عورت ان کا تحمل کرسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑا کرم فرمایا، ان کی کمزوری کو ملحوظ رکھ کر، ان پر نہ جہاد فرض کیا، نہ نبوت کی ذمہ داری ان کو اوڑھائی۔

اہل الذکر سے یہود و نصاریٰ اور مسلمان علماء مراد ہیں:

       
بہرحال یہ مسئلہ ضمناً آیا ہے کہ عورتوں کو نبوت سے سرفراز نہیں کیا گیا ہے، ہمیشہ مردوں ہی کو رسول بنایا گیا ہے ، کبھی کوئی فرشتہ رسول بن کر نہیں آیا ہے ، یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ، اگر یہ بات کہ ہمیشہ مرد ہی رسول بن کر آئے ہیں، تمہیں معلوم نہ ہو، تو اہل الذکر یعنی یہود و نصاریٰ کے علماء سے پوچھو، جزیرة العرب میں یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے، مدینہ منورہ یہودیوں سے بھرا پڑا تھا، اور نصاریٰ بھی آباد تھے، خود مکہ مکرمہ میں عیسائی تھے، ورقہ بن نوفل جن کے پاس حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا آنحضورﷺ کو لے گئی تھیں، وہ عیسائی تھے، اور انجیل کا عربی میں ترجمہ کرکے لوگوں میں تقسیم کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہود و نصاریٰ اہلِ کتاب ہیں، ان کے پاس تورات و انجیل کا علم ہے، وہ ان کو پڑھتے ہیں، وہ اس حقیقت سے واقف ہیں، اگر تم یہ بات کہ ہمیشہ مرد ہی رسول بن کر آئے ہیں، نہیں جانتے تو اہلِ کتاب، یہود و نصاریٰ سے پوچھو، وہ تمہیں بتائیں گے کہ ہمیشہ مرد ہی رسول بن کر آئے ہیں، کبھی کوئی فرشتہ رسول بن کر نہیں آیا۔

       
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کو اہلِ کتاب نہیں کہا، اہل الذکر کہا، قرآن کریم کے ایک ایک لفظ میں بڑے بڑے مسائل ہوتے ہیں، اگر اللہ تعالٰی اہل الکتاب فرماتے، تو آیت، یہود و نصاریٰ کے ساتھ خاص ہوجاتی، اللہ تعالیٰ نے اہل الذکر، عام لفظ استعمال کیا ہے، پس تورات والے بھی، انجیل والے بھی، زبور والے بھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں والے بھی، حضرت نوح علیہ السلام کے صحیفوں والے بھی، حتیٰ کہ قرآن کریم کے جاننے والے بھی، سب اس آیت کے مصداق ہیں، کیونکہ قرآن کریم بھی الذکر ہے، اور اللہ تعالٰی کی تمام کتابیں، جو آسمان سے نازل ہوئی ہیں، الذکر ہیں، اس لئے سب آسمانی کتابوں کے جاننے والے، آیتِ کریمہ کا مصداق ہیں۔

قرآن و حدیث اور ان سے مستنبط ہونے والے مسائل کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے:

       
اور سورۂ حج میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْر وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ہم نے الذکر یعنی قرآن کریم اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے القرآن کے بجائے الذکر فرمایا، جو عام ہے، اگر اللہ تعالٰی اِنا نحن نزلنا القرآن فرماتے، تو آیت خاص ہوجاتی، مگر اللہ تعالٰی نے عام لفظ استعمال کیا ہے، چنانچہ علماء فرماتے ہیں، کہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے، احادیثِ شریفہ کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے، اور قرآن و حدیث سے جو دین مستنبط ہوتا ہے، اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے، بلکہ قرآن و حدیث اور فقہ پر عمل کرنے والی جماعت کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے، یہ سب الذکر میں درجہ بدرجہ داخل ہیں۔

ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی:

       
پہلا درجہ قرآن کریم کا ہے، اس کے حرف حرف کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہے، پھر احادیث شریفہ کا درجہ ہے، لوگوں نے صحیح حدیثوں کے ساتھ غلط حدیثیں ملائیں، تو اللہ تعالیٰ نے ایسے رجال کار اور علماء و محدثین پیدا کئے، جنہوں نے چھان پھٹک کر، گیہوں الگ کردیئے، اور کنکر الگ کردئیے، صحیح حدیثوں کو الگ کردیا، اور گھڑی ہوئی حدیثوں کو الگ کردیا، یوں اللہ تعالیٰ نے حدیثوں کی حفاظت فرمائی، اسی طرح قرآن و حدیث سے مستنبط ہونے والے فقہی مسائل کو علماء نے نکھارا، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لاتزال طائفة من أمتی ظاہرین علی الحق لایضرھم من خذلھم، میری امت کا ایک گروہ قیامت تک صحیح دین پر قائم رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائیں گے، قیامت تک کوئی وقت ایسا نہیں آئے گا، کہ اہلِ حق ختم ہوجائیں، تمام مسلمان گمراہ ہوجائیں، کوئی بھی حق پر باقی نہ رہے، ایسا وقت قیامت تک نہیں آئےگا، اللہ تعالیٰ اہلِ حق کی حفاظت فرمائیں گے، اور صحیح دین پر عمل کرنے والے، ہمیشہ موجود رہیں گے، خواہ وہ مٹھی بھر کیوں نہ ہوں، کسی کی مخالفت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی، وہ حق پر ثابت قدم رہیں گے۔

       
بہرحال اللہ تعالیٰ نے الذکر کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، اور الذکر: القرآن سے عام ہے، اس میں قرآن و حدیث، فقہ اور ان پر عمل کرنے والی امت، سب داخل ہیں، لٰہذا قرآن کریم کے محافظ بھی اللہ تعالیٰ ہیں، حدیثوں کے محافظ بھی اللہ تعالیٰ ہیں، فقہ کے محافظ بھی اللہ تعالیٰ ہیں، اور ان پر عمل کرنے والی جماعت کے محافظ بھی اللہ تعالیٰ ہیں، اور یہ سب آیتِ کریمہ کا درجہ بدرجہ مصداق ہیں، اور آیتِ کریمہ کا یہ مطلب نہیں ہے، کہ دنیا میں سبھی مسلمان ہمیشہ حق پر رہیں گے، کوئی گمراہ نہیں ہوگا، بلکہ اہلِ حق بھی رہیں گے، اور اہلِ باطل بھی، اور اہلِ حق دلائل سے غالب رہیں گے، ان کو کوئی زیر نہیں کرسکے گا۔

دینی مسائل جاننا اور نہ جانتے ہوں، تو پوچھنا فرض ہے:

       
اور اس آیتِ کریمہ سے یہ مسئلہ بھی نکلا، کہ اگر کوئی دین کی کوئی بات نہیں جانتا، تو علمائے کرام سے پوچھنا فرض ہے، بعض لوگ مسئلہ جانتے نہیں، اور کسی عالم سے پوچھتے بھی نہیں، اس لئے عمل بھی نہیں کرتے، وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں، کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ سے کہہ دیں گے، کہ پروردگار! ہمیں پتا نہیں تھا، اس لئے ہم نے عمل نہیں کیا، یہ عذر چلنے والا نہیں، دنیوی ضرورت کی چیزیں سب جانتے ہیں، اور جاننے کےلئے محنتیں کرتے ہیں، پھر علماء سے پوچھ کر دین پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ اس لئے یہ عذر چلنے والا نہیں، ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ دین کا علم رکھنے والے علماء سے ضروری باتیں دریافت کرے، لوگ ان سے مسائل سیکھیں، پھر ان پر عمل کریں۔

دین سکھانا علماء پر فرض ہے:

        اور علماء کا فریْضہ ہے کہ محنت کریں، لوگوں کو دین پہنچائیں، انہیں مسائل بتلائیں، نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے: بلِّغُوا عنِّی وَ لو آیة، اس حدیث شریف میں علماء پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے، کہ اگر انہیں ایک بھی حکمِ شرعی معلوم ہے، تو اسے دوسروں تک پہنچائیں، پس ذمہ داری دو طرفہ ہے، ایسا نہیں کہ علماء پر کوئی ذمہ داری نہیں، ساری ذمہ داری لوگوں کی ہے، کہ پوچھیں، بلکہ علماء کی ذمہ داری ہے، کہ لوگوں کو دین پہنچائیں، انہیں اللہ و رسول کی مرضیات سے واقف کریں، اور لوگوں کی ذمہ داری ہے، کہ اپنی ضرورت کی باتیں علماء سے پوچھیں، ظاہر ہے میں تقریر میں وہی باتیں بیان کرونگا، جو میرے خیال میں آپ لوگوں کےلئے ضروری ہیں، اور ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کی ایسی ضروریات ہوں، جو میرے ذہن میں نہ آئیں، اور میں ان کو بیان نہ کروں، تو ان کو اپنی ضرورتیں کیسے معلوم ہونگی؟ اس کا صرف ایک راستہ ہے، کہ پوچھیں، جب دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے، تو ہر شخص کو دین سے واقفیت ہوگی، اور دین پھیلے گا۔

سوال پانچ مقاصد سے کیا جاتا ہے:

       
میرے بھائیو! لوگ پوچھتے ہیں، اور خوب پوچھتے ہیں، مگر پانچ مقاصد سے پوچھتے ہیں، ان میں سے چار مقاصد غلط ہیں، اور ایک مقصد صحیح ہے، وہ ایک مقصد جو صحیح ہے، اگر اس مقصد سے پوچھا جائے، تو سوال کرنا بھی مفید ہے، اور جواب دینا بھی مفید ہے، باقی چار مقاصد سے پوچھا جائے، تو پوچھنا بھی بیکار ہے، اور میرا بیان کرنا بھی لاحاصل ہے۔

مبلغِ علم جاننے کےلئے سوال کرنا:

       
بعض لوگ مبلغِ علم جاننے کےلئے سوال کرتے ہیں، وہ جاننا چاھتے ہیں کہ مولانا صاحب کتنے پانی میں ہیں، ان لوگوں کے پاس دو چار سوال ہوتے ہیں، جو بھی نیا مولوی آتا ہے، اس سے وہی سوال کرتے ہیں، ان کا مقصد، دین جاننا نہیں، وہ اس کو پہلے سے جانتے ہیں، بلکہ عالم صاحب کا امتحان کرنا مقصود ہے، ہندوستان میں دیہاتوں میں بعض بوڑھے بالکل ان پڑھ ہوتے ہیں، لیکن بزرگوں کے صحبت یافتہ ہوتے ہیں، انہیں مسائل کی جانکاری ہوتی ہے، اس لئے گاؤں میں جو بھی مولوی آتا ہے، اس سے وہی مسائل پوچھتے ہیں، اس مقصد سے سوال و جواب بیکار اور لاحاصل ہیں۔

ذہنی عیاشی کےلئے سوال کرنا:

       
سوال کرنے کا دوسرا مقصد ذہنی عیاشی ہے، یعنی ایسا سوال کرنا، جس کا کوئی فائدہ نہیں، مثلا: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کنویں پر بلانے کےلئے جو لڑکی آئی تھی، وہ چھوٹی تھی، یا بڑی؟ یہ بیکار سوال ہے، چھوٹی تھی، تو کیا؟ بڑی تھی، تو کیا؟ اصحابِ کہف جو کتا ساتھ لے گئے تھے، وہ کالا تھا، یا بھورا؟ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جس چیونٹی سے بات کی تھی، وہ مذکر تھی، یا مؤنث؟ یہ بیکار سوالات ہیں، بعض لوگ ایسے ہی سوال کرتے ہیں، ان کا مقصد محض ذہنی عیاشی ہوتا ہے، ایسے فضول سوالات نہیں کرنے چاہئیں، اور اگر کوئی کرے، تو علماء کو قطعاً جواب نہیں دینا چاھئے۔

گنجائش تلاش کرنے کےلئے سوال کرنا:

       
اور بعض لوگوں کا مقصد سوال سے گنجائش تلاش کرنا ہوتا ہے، مسئلہ پوچھتے ہیں، خواہش کے مطابق جواب ملا، تو ٹھیک ہے، ورنہ دوسرے مفتی صاحب سے پوچھیں گے، شاید کوئی گنجائش والی بات بتادے، میرے بھائیو! یہ دین پر عمل نہیں، خواہش پر عمل ہے۔

بات سمجھ میں نہ آئے، تو دوبارہ پوچھے:

       
ایک صاحب نے مجھ سے فون پر پوچھا، کہ ایک شخص ایک مسئلہ کسی عالم سے، یا مفتی سے پوچھ چکا ہے، اب وہ اس مسئلہ کو دوسرے مفتی، یا عالم سے پوچھ سکتا ہے؟ میں نے کہا: دوسرے مفتی سے کیوں پوچھنا چاھتا ہے؟ اس نے کوئی جواب نہیں دیا، میں نے کہا: اس کی دو صورتیں ہیں، ایک: پہلے مفتی نے، یا عالم نے جو مسئلہ بتایا ہے، اس میں کچھ تردد ہے، کیونکہ اس نے اس کے خلاف پڑھا ہے، یا سنا ہے، تو اس کو مفتی صاحب کی بات پر فورا عمل نہیں کرنا چاھئے، بلکہ مزید تحقیق کرنی چاھئے، اور بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی مفتی صاحب سے دوبارہ مسئلہ پوچھے، اور جو اشکال ہو، ان کے سامنے رکھے، کہ میں نے فلاں کتاب میں، یا فلاں حدیث میں اس طرح پڑھا ہے، اور اگر مفتی صاحب مسافر تھے، اور چلے گئے، تو دوسرے مفتی صاحب سے پوچھے، اور اس کے سامنے دونوں باتیں رکھے، کہ فلاں صاحب سے میں نے یہ مسئلہ پوچھا تھا، انہوں نے یہ جواب دیا، مگر میں نے فلاں کتاب میں یہ پڑھا ہے، پھر مفتی صاحب تحقیق کے بعد جو مسئلہ بتائیں، اس پر عمل کرے۔

مسائل کی تحقیق کرنا اللہ کے نیک بندوں کی صفت ہے:

       
سورة الفرقان میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا } اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کی ایک صفت یہ ہے، کہ جب ان کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ذریعہ نصیحت کی جاتی ہے، تو وہ ان پر اندھے بہرے ہوکر نہیں گرتے، بلکہ جو دینی مسائل ان کو بتائے جاتے ہیں، ان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، سمجھنے کے بعد مطمئن ہوکر ان پر عمل کرتے ہیں، پس اگر پوچھتے ہوئے مسئلہ میں کوئی الجھن، یا شک ہو تو اسے ضرور دوبارہ پوچھنا چاھئے۔

       
دوسری: اور کبھی گنجائش تلاش کرنے کےلئے دوسرے مفتی سے مسئلہ پوچھت ہے، پہلے مفتی نے ناجائز کہا ہے، اس لئے دوسرے سے پوچھتا ہے کہ شاید وہ جائز کہہ دے، اور کام بن جائے، اس نیت سے دوسرے سے پوچھنے کی اجازت نہیں ہے۔

       
جب میں نے یہ بات کہی، تو انہوں نے فون رکھ دیا، میں یہ واقعہ سناکر آپ کو یہ سمجھانا چاھتا ہوں، کہ اگر آپ نے ایک مرتبہ مسئلہ پوچھ لیا ہے، پھر کسی وجہ سے مفتی صاحب کے بتائے ہوئے مسئلہ میں، آپ کو کچھ تردد ہے، تو ایک مرتبہ نہیں، دس مرتبہ تحقیق کرو، آپ کو شریعتِ مطہرہ نے یہ حق دیا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی یہ ایک خوبی ہے، مگر چور دروازہ تلاش کرنا، گنجائش کی راہیں ڈھونڈھنا، مؤمنِ کامل کا مزاج نہیں ہونا چاھئے، اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا مزاج تو یہ ہونا چاھئے، کہ وہ اللہ تعالیٰ کا جو بھی حکم ہو، اس پر عمل کرے، اور نفسانی خواہشات کے پیچھے نہ پڑے۔

دوسروں کی خاطر مسئلہ پوچھنا:

       
اور بعض لوگ اس لئے مسئلہ پوچھتے ہیں، کہ دوسروں کو مسئلہ معلوم ہوجائے، یعنی انہیں مسئلہ نہیں جاننا، وہ تو پہلے سے جانتے ہیں، میرے بھائیو! اس مقصد سے پوچھنا برا نہیں ہے، مگر اچھا بھی نہیں، تم نے دوسروں کی ذمہ داری کیوں لی؟ ہر شخص کو اپنے فائدے کےلئے پوچھنا چاھئے، دوسروں کے فائدے کےلئے پوچھنا کوئی اچھا مقصد نہیں، صحابۂ کرام آنحضورﷺ سے سوال کرتے تھے، تو ہر صحابی اپنی ذات کو پیش نظر رکھ کر سوال کرتا تھا، پھر حضور اکرم ﷺ جو جواب دیتے تھے، اس کا فائدہ سب کو پہنچتا تھا، لیکن پوچھنے والے کے پیشِ نظر یہ نہیں ہوتا تھا، کہ حضور اکرم ﷺ جواب دیں، اس کا فائدہ دوسروں کو پہنچے، اس مقصد کےلئے کبھی کسی صحابی نے سوال نہیں کیا، لیکن اگر کوئی کرے، تو میں اس کو برا نہیں کہتا، اس لئے میں نے کہا کہ اس مقصد سے سوال کرنا، نہ اچھا ہے، نہ برا، غرض ان چار مقاصد سے سوال کرنا ٹھیک نہیں۔

دین سیکھنے کےلئے سوال کرنا:

     
اور ایک پانچواں مقصد ہے، جو اس آیتِ کریمہ میں ہے: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ } علم رکھنے والوں سے پوچھو، اگر تمہیں معلوم نہ ہو، پوچھ کر دین سیکھو، اس پر عمل کرو، دین جاننے کی نیت سے، اور عمل کی نیت سے پوچھنا بہترین مقصد ہے، اس آیتِ کریمہ میں اسی کا تذکرہ ہے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن

0 comments: