Tuesday 27 September 2016

منتخب و متفرق اشعار: قسط نمبر ۳

🌹بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 🌹

!!! منتخب اور متفرق اشعار!!!

انتخاب کنندہ: عادل سعیدی دیوبندی

قسط نمبر: تین
........................................

1
ائے دل! تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے، سو ایسا زیاں نہیں
2
اتنے قریب رہ کے بھی کیا جانے کس لئے
کچھ اجنبی سے آپ ہیں کچھ اجنبی سے ہم
3
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
4
قسمت کو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا
5
اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
6
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے کل کی خبر نہیں
7
ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی تو کیا ہوگا
گھڑی گھڑی نہ اُٹھاؤ نظر گھڑی کی طرف
8
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
9
حجاب اُٹھا زمیں سے آسماں تک چاندنی چھٹکی !
گہن میں چاند تھا، جب تک چھپے بیٹھے تھے چلمن میں
10
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر
11
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
12
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
13
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مِرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے
14
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
15
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اسطرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں
16
کوئی کیوں کسی سے لگائے دل، کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے
17
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدرِ سخن
کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر
18
اک ہمیں خار تھے آنکھوں میں سبھی کے سو چلے
بلبلو خوش رہو اب تم گل و گلزار کے ساتھ
19
مصلحت ترکِ عشق ہے ناصح!
لیک ، یہ ہم سے ہو نہیں سکتا
20
الہیٰ خالِ لبِ یار میں ہے کیا نکتہ
سمجھ میں نکتہ وروں کے ذرا نہیں آتا
21
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
22
جام ایسا تری آنکھوں سے عطا ہوجائے
ہوش موجود رہے اور نشہ ہوجائے
23
اُس کو میں دیکھوں تو اِس طرح سے دیکھوں نزہت
شرم آنکھوں میں رہے اور خطا ہوجائے
24
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتادو مُجھ کو
دُوسرا کوئی تو اپنا سا دِکھا دو مُجھ کو
25
چل مان لیا تیرا کوئی دوش نہیں تھا
حالانکہ کے دلیلوں میں تری دم تو نہیں ہے
26
اتنا بھی کرم اُن کا کوئی کم تو نہیں ہے​
غم دے کہ وہ پوچھے ہیں کوئی غم تو نہیں ہے
27
کچھ کچھ میں پہچان رہا ہوں، غور سے دیکھو بادہ کشو
شاید شیخ حرم بیٹھے ہیں، وہ جو کونے والے ہیں​
28
ہاتھوں میں کشکول، زباں پر تالا ہے
اپنے جینے کا انداز نیرالا ہے
29
رہتا ہے مےخانے ہی کے آس پاس
شیخ بھی ہے آدمی پہنچا ہوا​
30
گھر ہوا، گلشن ہوا، صحرا ہوا
ہر جگہ میرا جنوں رسوا ہوا
31
اس طرح رہبر نے لوٹا کارواں
اے فنا رہزن کو بھی صدمہ ہوا
32
یُوں اُٹھے، آہ ! اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے
33
کرے ہے عداوت بھی وہ اس اداء سے
لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے
34
قباایک دن چاک اس کی بھی ہوگی
جنون کب کسی کی رعایت کرے ہے
35
ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے
کہیں کاروبار سی دو پہر کہیں بد مزاج سی شام ہے ہے
36
یہ فتنے جوہرایک طرف اٹھ رہے ہیں
وہی بیٹھابیٹھاشرارت کرے ہے
37
یوں ہی روز ملنے کی آرزو بڑی رکھ رکھاؤ کی گفتگو
یہ شرافتیں نہیں بے غرض اسے آپ سے کوئی کام ہے
38
نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے
39
دوسروں پر اگر تبصرہ کیجئے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجئے
40
کوئی دهوکہ نہ کها جائے میری طرح
ایسے کهل کے نہ سب سے ملا کیجئے
41
کچھ تو مجبورياں رہیں ہونگیں
يوں کوئی بے وفا نہيں ہوتا
42
اس سلیقے سے ان سے گلہ کیجئے
جب گلہ کیجئے ہنس دیا کیجئے
43
چند موتی مجهےخوشیوں کے تو دیدے اللہ!
تجھ سے بڑھ کرهے کہاں کوئ خزانے والا
44
غضب کِیا ، تِرے وعدے پہ اعتبار کِیا
تمام رات ، قیامت کا اِنتظار کِیا
45
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہُوں میں
روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
46
یہ جانور ہے جو غیبت کبھی نہیں کرتا
زبان والوں سے یہ بے زبان اچھا ہے
47
لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کمبخت تُو نے پی ہی نہیں
48
دل لگی، دل لگی نہیں ناصح
تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں
49
بڑے مزے سے گُزرتی ہے بیخودی میں امِیر
خدا وہ دن نہ دِکھائے کہ ہوشیار ہوں میں
50
اک ہم ہیں کہ غیروں کو بھی کہہ دیتے ہیں اپنا
اک تم ہو کہ اپنوں کو بھی اپنا نہیں کہتے
51
میری کمزوریوں پر جب کوئی تنقید کرتا ھے
وہ دشمن کیوں نہ ھو اس سے محبّت اور بڑھتی ھے
52
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
53
سفر میں مشکلیں آئے تو ہمّت اور بڑھتی ھے
کوئی جب راستہ روکے تو جرأت اور بڑھتی ھے
54
بن جائے اگر بات تو سب کہتے ہیں کیا کیا
اور گر بات بگڑ جائے تو کیا کیا نہیں کہتے
55
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
56
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے.
57
ہمارے عہد کے بچوں کو انگلش سے محبت ہے
ہمیں یہ غم ہے مستقبل میں اردو کون بولے گا
58
آگرے کے شعلہ رو ہیں آگ رے
بھاگ رے مرزا یھاں سے بھاگ رے
59
خطا وار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے
60
میں نے بدل لئے اصول زندگی ہم نشین
لوگوں سے گلہ کرنا تو کب کا چھوڑ دیا
61
لے کر پھر پیر مغاں ساغر و مینا آیا
میکشو شرم تمہیں پھر بھی نہ پینا آیا
62
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
63
کیا حُسنِ اِتفاق ہے اسکی گلی تلک
ہم کام سے گئے تھے، پھر کام سے گئے
64
نہ دیکھ ان آتشیں رخوں کو تو زنہار
پڑھ ربنا وقنا عذاب النار
65
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
66
حَسین آنکھوں، مُدھر گیتوں کے سُندر دیس کو کھوکر
میں حیراں ہُوں وہ ذکرِ وادئ کشمیر کرتے ہیں
67
کچھ اور جزبوں کو بے تاب کیا اس نے
آج مہندی والے ہاتھوں سے آداب کیا اس نے
68
ہر روز تیرے نئے وعدوں سے تنگ آ گیا ہوں میں
تیری محبت میں مجھے مودی دکھائی دیتا ہے
69
نہ خوشبوئیں نہ عطردان رکھتے ہیں
ہم اپنے ہونٹوں پہ اردو زبان رکھتے ہیں.
70
عمر بھر با وضو مئے نوشی
خودکوواعظ نےاسطرح محترم رکھا
71
عرضِ مطلب کے لئے، اے دِل! زباں کُھلتی نہیں
کچھ اِشارے میں کرُوں گا، وہ سمجھ جائیں گے کیا
72
چلو چلتے ہیں مل جل کر وطن پہ جان دیتے ہیں
بڑا آسان ہے کمرے میں وندے ماترم کہنا
73
دیکھا جو حسنِ یار طبیعت مچل گئی
آنکھوں کا تھا قصور، چھری دل پہ چل گئی
74
پینے سے کرچُکا تھا میں توبہ، مگر جلیل !
بادل کا رنگ دیکھ کے نِیّت بدل گئی
75
میرا مرنا سُنا جو اُس بُت نے
ہنس کے بولا غریقِ رحمت ہو
76
ہائے اُس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے
77
نفرتوں کے جہان میں ہم کو پیار کی بستیاں بسانی ہیں
دور رہنا کوئی کمال نہیں، پاس آؤ تو کوئی بات بنے
78
میری گستاخیوں پہ بولے نظام
تُو بھی ہے کتنا بے حیا، توبہ!
79
دستار کو هاتوں سے سنبهالیں گے یہ واعظ
جب اهل جنوں عشق کی تفسیر کریں گے
80
پوچھا جو ہم نے ان سے بھلا دیا ہم کو کیسے؟
چٹکیاں بجا کے بولے ایسے ، ایسے ، ایسے
81
اے ادب نا آشنا! یہ بھی نہیں تجھ کو خیال
ننگ ہے بزمِ سخن میں مدرسہ کی قیل و قال
82
جنہیں شعور نہیں جام تک اٹھانے کا,
انہیں غرور ھیکہ میکدہ ھمارا ہے
83
بات چاہے بے سلیقہ ہو مگر
بات کرنے کا سلیقہ چاہیئے
84
کسی نے دھول کیا آنکھوں میں جھونکی
اب میں پہلے سے بہتر دیکھتا ہوں،
85
دیکھ سکتا نہیں ساقی میری محرومی کو
جام خالی نہیں ہوتا ہے کہ بھر دیتا ہے
86
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
87
نہ دیکھو اتنی بے باکی سے کہی افسانہ نہ بن جائے
نگاہوں کے تصادم میں بڑی تأثیر ہوتی ہے،
88
دل کے چراغ ہم نے جلائے ہیں راه میں
کم کم سہی کہیں نہ کہیں روشنی تو ہے!
89
اب سنورتے رہو بلا سے مری
دل نے سرکار خودکشی کر لی
90
ذرا خاموش تم بیٹھو کے دم آرام سے نکلے
ادھر ہم ہچکی لیتے ہیں ادھر تم رونے لگتے ہو
91
موت کو سمجھے ہے غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی
92
بوئے گل، نالہ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
93
میں سچ کہوں گا مگر پھر بھی ہار جاؤں گا
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
94
 نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
95
ہم با وفا تھے اس لئے نظروں سے گر گئے
شاید انہیں تلاش تھی کسی بےوفا کی
96
قد اس قدر دراز تھا میرے  رقیب کا
سیڑھی لگا کے منہ پہ چپت مارنا پڑا
97
دوست مصروف ہوگئے اتنے
میں نے دشمنوں سے راز کہ ڈالا
98
چراغ دل کو زرا احتیاط سے رکھنا
کہ آج رات چلے گی ہوا اداسی کی
99
جب وہ خاموش ہوتا ہے مجھے دنیا کی
سب سے مہنگی چیز اسکی آواز لگتی ہے

100
آئینہ پھیلا رہاخود فریبی کا یہ مرض
ہر کسی کو کہہ رہا ہے آپ سا کوئی نہیں
101
زاہد نے اس خیال سے تسبیح توڑ دی
کیا گن کے اسکا نام لے جو بے حساب دے
102
اس نے اس ادا سے میرے ہونٹوں کو چوما
کہ روزہ بہی نہ ٹوٹا اور افطاری بهی ہوگئی
103
دوزخ اگر وسیع ہے، جنت وسیع تر
لاتقنطو جواب ہے ہل من مزید کا
104
نگاہوں کو ذرا جھوکا لیجئے جناب
میرے مذہب میں نشہ حرام ہے
105
شام ہوتے ہی رکھ دئے اس نے مرے ہونٹوں پر ہونٹ
عشق کا روزہ تھا اور غضب کی افطاری تھی
106
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
107
ادھر سے چاند تم دیکھو ادھر سے چاند ہم دیکھیں
نگاہیں جوں ہی ٹکرائیں ہماری عید ہو جائے
108
اس کے ہونٹوں کی عزت کا خیال آتا ہے غالب
ورنہ ایسے پهولوں کو تو ہم سر عام چوم لیا کرتے ہیں
109
بارشِ غم نہ ہو آنکھوں سے اگر
دل وہ بستی ہے اجڑ جاتی ہے
110
تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت
ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پہرتے ہیں
111
بارش شرابِ عرش ہے یہ سوچ کر عدم ؟؟
بارش کے سب حروف کو اُلٹا کے پی گیا
112
پہلے بارش ہوتی تھی تو یاد آتے تھے
اب جب یاد آتے ہو تو بارش ہوتی ہے
113
صحنِ غربت میں قضا دیر سے مت آیا کر
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر
114
چاند کا کردار اپنایا ہے ہم نے دوستو
داغ اپنے پاس رکھے، روشنی بانٹا کئے
115
مجھے گفتگو سے بڑھ کر غم اذن گفتگو ہے
وہی بات پوچھتے ہیں جو نہ کہہ سکوں دوبارہ
116
ایں سخن را نیست ہرگز اختتام
ختم کن واللہ اعلم بالسلام
117
اُس کی نگاہ میں تباہی کے واسطے 
اتنا خلوص تھا کہ شکایت نہ ہو سکی 
118
یہ اڑی اڑی سے رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تیری صبح کہہ رہی ہے تیری شام کا فسانہ
119
وہی کارواں‘ وہی راستے‘ وہی زندگی‘ وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں
120
تمهاری کن انکهیوں سے دل لرزتا هے                                                        تم اپنے زلف سنوارو مجھے فریب نہ دو
121
ترے کاندهے په تری زلف کا بل اچھا هے                                                 کسنے رکھا هے ترا نام غزل اچھا هے,
122
وہ جن کی خاطر ہم نے تمام سرحدیں تُوڑیں 
آج اُنہی نے کہا ہے کہ اپنی حد میں رہو
123
کس بات پہ روٹھا ہے پتہ ہو تو مناؤں غالب
وہ روٹھ تو جاتا ہے شکایت نہیں کرتا
124
گهر بنا کر میرے دل میں وہ چهوڑ گیا
نہ خود رہتا ہے اور نہ کسی اور کو بسنے دیتا ہے
125
مطربہ! دیکھ کہیں وہ مری شہ رگ تو نہیں
تیری انگشتِ حسین، ساز کے جس تار پہ ہے
126
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گذرا ۔
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی۔
127
تقسیم کررہا ہے جو تکمیل کی سند
پہلے خود اپنے آپ کو وہ مستند کرے
128
ایڑیاں ٹکنے نہیں دیتا زمیں پہ اپنی
قد بڑہانے کا اسے خوب ہنر آتا ہے
129
عشق میں کہتے ہیں فرہاد نے کاٹا تھا پہاڑ
ہم نے دن کاٹ دیے، یہ بھی ہنر ہے سائیں
130
ہر شخص کو یہ حق ہے بلند اپنا قد کرے
لیکن کسی کی بالا قدی کو نہ رد کرے
131
حالاتِ پریشانی تو گزر جائیں گے اک روز
احباب کے ہونٹوں کی ہنسی یاد رہے گی
132
حال ہے اک عجب فراغت کا
اپنا ہر غم منا چُکا ہوں میں
133
یہاں کسی کو کبھی حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہمکو تو نہ ملا
134
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
135
ذرے  ذرے  سے  عیاں  ھے جلوہ تیرا
واہ رے پردہ نشیں خوب ھے پردہ تیرا
136
اے فخر رسل یہ بھی اعجاز تمہارا ہے
خنجر سے نہیں مارا اخلاق سے مارا ہے
137
جس آگ کو خالق نے دوزخ مین جلائی ہے
اس آگ کو آقا نے رو رو کے بجھائی ہے
138
الزام محبت کے ڈر سے چھوڑ دیا شہر اپنا
ورنہ یہ چھوٹی سی عمر پردیس کے قابل تو نہ تھی
139
اے وطن پیارے وطن! وہ بھی تجھے دے دینگے
بچ گیا ہے جو لہُو، پچھلے فسادات کے بعد
140
آج اس نے عجیب سوال کیا
مجھ پہ مرتے ہو تو زندہ کیوں ہو
141
دل میں کسی کا درد نہیں غبار ہے
ہر شخص اپنی اپنی انا کا شکار ہے
142
اُس کے عارض کو لغت میں دیکھو
کہیں  مطلب  نہ  عارضی   نکلے
143
اس صدی میں تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی لکیر
مسکرانے والے تیرا پتھر کا کلیجا ہوگا
144
اک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا
ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے
145
انکار کی سی لذّت اقرار میں کہاں ہے
بڑھتا ہے پیار غالب ان کی نہیں نہیں سے
146
بے غرض پرسش پہ بھی ہوتی ہے اب سرگوشیاں
اس زمانہ میں خلوص واقعی بھی جرم ہے
147
مرے عشق کو مقدر درجات دے رہا ہے
کبھی ابتدا سمجھ کر ، کبھی انتہا سمجھ کر
148
جویقیں کی راہ پہ چل پڑےانہیں منزلوں نےپناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پہ بہک گئے
149
دیکھ ساقی تیرے میکدے کا ایک پہنچا ہوا رند ہوں میں
جتنے آئے ہیں میت پہ میری سب کے سب لگائے ہوئے ہیں
150
وقت آنے پر بتادینگے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
151
گل کی شاخ ہے نازک حصول گل بڑی مشکل
ادب سے رکھ قدم منفی یہ منزل عارفانہ ہے
152
گفتگو ان سے روز ہوتی ہے
مدتوں سامنا نہيں ہوتا
153
مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے  
مرے تھےجن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے
154
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا
155
تم تو نگاہ پھیر کے خوشیوں میں کھوگئے
ہم پر اداس رات کے بادل سے  چھا گئے
156
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
157
دیکھئے جس کو اُسے دھن ہے مسیحائی کی
آج کل شہروں کے بیمار مطب کرتے ہیں
158
نام لکھوا دیا یوسف کے خریداروں میں
رُت بدلتی ہے تو معیار بدل جاتے ہیں
159
شعر کہنا ھے تو یُوں کہہ کہ ترا دُشمن بھی
دُشمنی بھول کے چِلا اُٹھے  آھا ، آھا  !!
160
دلِ تباہ کو تجھ سے بڑی شکایت ہے
اے میرے حسنِ نظر ! تیرے اعتبار پہ تف
161
کسی دشمن نے اب تک مجھے یہ عزت نہیں بخشی
ہمیشہ دوست ہی کا ہاتھ پہونچا ہے گریباں تک
162
تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ مرگیا ہوں میں
اے میرے دوست ترے جیسے غمگسار پہ تف
163
آنکھوں میں حیا ہو تو پردۂ دل ہی کافی ہے
نہیں تو نقابوں سے بھی ہوتے ہیں اشارے محبت کے
164
اس کی چاہت کے وہ دو لمحے جان لیوا تھے
پہلا محبت سے اقرار، پہر محبت سے انکار
165
سنا ہے چادرِ زہرا کو بیچ آیا ہے
جناب شیخ کی دستارِِ بدقمار پہ تف
166
تیرے جانے کا سبب نہیں پوچھیں گے ہم
مگر لے جانا اپنی یادیں بھی جانے سے پہلے
167
رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
168
ترے لباس نے دنیا برہنہ تن کر دی
ترے ضمیر پہ تھو،تیرے اختیار پہ تف
169
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں     
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے
170
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی، اور کافری کیا ہے
171
مرے گھرانے کی سنت یہی غریبی ہے
ترے خزانے پہ تھو مالِ بے شمار پہ تف
172
حقیقت خرافات میں کھوگئی
یہ امت روایات میں کھوگئی
173
دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج مے کدے کی ہوا کھانے آئے ہیں
174
مری گلی میں اندھیرا ہے کتنے برسوں سے
امیرِشہر! تیرے عہدِ اقتدار پہ تف
175
جسے بھلا ئے ز مانے گزر گئے کامل
میں آج اس کی گلی  سے گزر گیا کیسے؟
176
گُزرے ہیں مے کدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دُور عادتاً بھی قدم لڑکھڑائے ہیں
177
جتنی بھی مے کدے میں ہے ساقی پلا دے
آج ہم تشنہ کام زُہد کے صحرا سے آئے ہیں
178
سمجھاتے قبلِ عشق تو ممکن تھا بنتی بات
ناصح غریب اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں
179
کعبے میں خیریت تو ہے سب حضرتِ خمار
یہ دیر ہے جناب یہاں کیسے آئے ہیں
180
تُم اپنی انجمن کا ذرا جائزہ تو لو
کہنے کو تو چراغ بہت تھے، جلا ہے کون؟
181
سب دیکھتے جدھر ہیں اُدھر کیا ہے؟ کچھ نہیں!
ہم دیکھتے جِدھر ہیں اُدھر دیکھتا ہے کون؟
182
ہم خود بھی جُدائی کا سبب تھے
اُس کا ہی قصور سارا کب تھا
183
ہم تو تیرے عاشق ہے صدیوں ُپُرانے
چاہے تو مانے چاہے نہ مانے
184
گھر بھی ترا، گلی بھی تری، شہر بھی ترا
جو چاہے جِس کو کہہ دے، تُجھے روکتا ہے کون؟
185
اِک نام پہ زخم کھل اٹھے تھے
قاتل کی طرف اشارا کب تھا
186
بہتر دنوں کی آس لگاتے ہوئے قتیل
ہم بہترین دن بھی گنواتے چلے گئے
187
سب دوست ایک ایک کرکے مُجھے چھوڑتے گئے
دُشمن بھی دنگ ہے کہ یہ تنہا کھڑا ہے کون
188
کوئی فریب نہ کھائے سفید پوشی سے
نہ جانے کتنے ستارے نگل گئی ہے سحر
189
آج چپ ہو جو حضرت ’’وشواس،،
’کچھ تو ہے جس کی پرده داری ہے ،
190
عاجؔز یہ کِس سے بات کرو ہو غزل میں تُم؟
پردہ اُٹھاؤ ہم بھی تو دیکھیں چُھپا ہے کون؟
191
آئے عشاق، گئے وعدہ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈو چراغ رخ زیبا لے کر
192
بات  بے  بات  بولنے  والے
کیوں زباں پر سکوت طاری ہے
193
پوچھا کہ ہم نے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے چھٹکا دیا کہ یوں
194
دل کشادہ ہے میرا گاؤں کے آنگن کی طرح
تیری سوچیں ہیں تیرے شہر کی گلیوں کی طرح
195
اتنی دوستی نا کرو کہ بگڑ جائیں ہم
تھوڑا ڈانٹا بھی کرو کہ سدھر جائیں ہم
196
ہو جائے گر ہم سے کوئی خطا تو ہو جانا خفا
مگر اتنا بھی نہیں کے مر ہی جائیں ہم
197
ہم قلندر ہیں ہماری صحبتوں میں آ کے بیٹھ
زندگی جینے کا تجھ میں بھی شعور آجائے گا
198
ہم سخن والوں کی محفل میں ذرا کچھ دن گزار
گفتگو کرنے کا فن تجھ میں ضرور آ جائے گا
199
پھولوں کی رُت ہے ٹھنڈی ہوائیں
اب ان کی مرضی وه آئیں نہ آئیں
200
اتنا بتا دے غم دینے والے
آنسو بہائیں یا مسکرئیں
201
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
پھر ڈھونڈ انہیں چراغ رخ زیبا لے کر

0 comments: