Tuesday 27 September 2016

منتخب و متفرق اشعار: قسط نمبر ۵

🌹بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 🌹

!!! منتخب اور متفرق اشعار!!!

انتخاب کنندہ: عادل سعیدی دیوبندی

قسط نمبر: پانچ
........................................

1
اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پہ آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے
2
یہ عورت کا کرشمہ ہے تیرے وحشت کے پانی کو
بدن کی سیپ میں رکھ کر اسے انساں بناتی ہے
3
یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے
جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے
4
تم آسمان کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
ہمیں زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے
5
سازش میں مرے قتل کی کم ظرف لوگ تھے
قاتل کو مرے قتل کی اجرت نہیں ملی
6
ادھر وہ ہیں کہ جانے کو کھڑے ہیں
میرا  دل ہے کہ بیٹھا  جا   رہا   ہے
7
مخالفت سے شخصیت سنورتی ھے میری
میں دشمنوں کا بھت احترام کرتاھوں
8
کسی نے دی خبر کہ وہ آئیں گے رات کو
اتنا کیا چراغاں کہ گھر تک جلا دیا
9
یہ چاند ستارے مجھے کرتے ہیں نصیحت
راتوں کو پھیرا کرتے ہو سو کیوں نہیں جاتے
10
وہ تو خوشبُو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
11
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
12
رہزن ہے میرا رہبر، منصف ہے میرا قاتل
سہ لوں تو قیامت ہے، اور کہہ دوں تو بغاوت ہے
13
امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی 'ہاں' بھی اب 'نہیں' معلوم ہوتی ہے
14
شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے
زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے
15
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئ ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
16
محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدم
کچھ گفتگو تو کھل کے کرینگے خدا کے ساتھ
17
چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے
18
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈھتا تیری محفل میں رہ گیا
19
ہم نے یونہی دیکھا تھا دیدار شوق کی خاطر
تم دل میں اتر جاؤگے کبھی سوچا نہ تھا
20
اگر یہ وعدہ خلافی رہی یونہی قائم
تری زباں پہ رہے گا نہ اعتبار مجھے
21
سکھاؤن گا تجھے آداب خسروی اک دن
اگر خدا کبھی دے گا جو اختیار مجھے
22
میں سر سے پاؤں تک دنیا میں غرق رہتا ہوں
مگر وہ پھر بھی سمجھتے ہیں دیندار مجھے
23
صدا یہ آتی ہے ہر روز آسمانوں سے
مرے غلام کبھی دل سے تو پکار مجھے
24
ان کو بھی ہے کسی بھیگے ہوئے منظر کی تلاش
بوند تک بو نہ سکے جو کبھی صحراؤں میں
25
اے میرے ہمسفرو تم بھی تھکے ہارے ہو
دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کرو چھاؤں میں
26
حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں
27
جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے ترا بیمار مسیحاؤں میں
28
ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں
29
مجھ سے کرتے ہیں قتیلؔ اس لئے کچھ لوگ حسد
کیوں مرے شعر ہیں مقبول حسیناؤں میں
30
وہ خدا ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل میں ہو گا
مسجدوں میں اسے ڈھونڈو نہ کلیساؤں میں
31
ذرا وصل پر ہو اشارا تمہارا
ابھی فیصلہ ہے ہمارا تمہارا
32
محبت کے دعوے ملے خاک میں سب
وہ کہتے ہیں کیا ہے اجارا تمہارا
33
بتو! دین و دنیا میں کافی ہے مجھ کو
خدا کا بھروسا، سہارا تمہارا
34
اُن آنکھوں کی آنکھوں سے لوں میں بلائیں
میسر ہے جن کو نظارا تمہارا
35
رُکاوٹ نہ ہوتی تو دل ایک ہوتا
تمہارا ہمارا، ہمارا تمہارا
36
برائی جو کی تم نے غیروں کی ہم سے
ہوا حال سب آشکارا تمہارا
37
نکل کر مرے گھر سے یہ جان لو تم
نہ ہوگا کسی گھر گذارا تمہارا
38
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
39
لبریز ہو چاہت سے پیمانۂ دِل اُس کا
ہونٹوں سے چَھلک کر کچھ اِظہار بھی آجائے
40
اُس حُسن کے پیکر کو کچھ پیار بھی آجائے
ہونٹوں پہ محبّت کا اِقرار بھی آجائے
41
چُپ ہُوں ، کہ نہ ہُوں نالاں وہ میرے تواتر سے
ایسا نہ ہو لہجے میں دُھتکار بھی آجائے
42
رُت آئی ہے برکھا کی، ہیں پُھول کِھلے دِل میں
کیا خُوب ہو ایسے میں دِلدار بھی آ جائے
43
آتے ہیں سبھی سُننے محفِل میں خلِش کو تو !
جس کے لئے لکھے ہیں اشعار وہ بھی آجائے
44
یہ رات یوں ہی کٹے یارو
تذکرہ اسکا ہو اور وہ نہ رہے
45
کفر کے ہاتھ بکا ہے جو بھی
قبیلے کا اپنے سردار وہی ہے
46
تیر پہ تیر چلاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے
47
بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہو جانا
48
چہرہ بدلا ، کردار وہی ہے
ہم پہ قابض غدار وہی ہے
49
اے شمع، ہم سے سوزِ محبّت کے ضبط سیکھ
کمبخت، ایک رات میں ساری پگھل گئی
50
جان کر منجملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے
مُدّتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
51
زندگی میں آ گیا جب کوئی وقتِ امتحاں
اس نے دیکھا ہے جگرؔ بے اختیارانہ مجھے
52
وہ دنیا تھی جہاں تم روک لیتے تھے زباں میری
یہ محشر ہے یہاں سننی پڑے گی داستاں میری
53
آپ اُلٹئے تو سہی چہرۂ انور سے نقاب
انجمن میں کوئی شائِستہ نظر بھی ہوگا
54
حضرتِ ناصح گر آویں دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا
55
ان سے ملنے کی ہے یہی اک راہ
ملنے والوں سے راہ پیدا کر
56
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
غدر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا
57
اندھیری رات میں جب راستہ نہیں مِلتا
مَیں سوچتا ہوں، کہاں جا کے ڈھوُنڈ لاؤں اُسے
58
ندیم ترکِ محبت کو ایک عُمر ہوئی
مَیں اب بھی سوچ رہا ہوں، کہ بُھول جاؤں اُسے
59
لے اگر جھوم کر وہ انگڑائی
زندگی دار پر لٹک جائے
60
اس کے سینے کا زیرو بم، توبہ!
دیوتاؤں کا دل دھڑک جائے
61
ہائے اس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے
62
وہ اپنے دل کا تو پہلے غبار صاف کرے
پھر اسکے بعد کوئی مجھ سے اختلاف کرے
63
اب اسکے بس میں نہیں ہے چمن کی رکھوالی
یہ باغباں سے کہو جاکے اعتکاف کرے
64
جو میرے لہجہ پہ تنقید کرتا رہتا ہے
درست اپنا تو پہلے وہ شین قاف کرے
65
آپ بوسہ جو نہیں دیتے تو میں دِل کیوں دُوں
ایسی باتوں میں مِری جان مروّت کیسی
66
اچھا تمھارے شھر کا دستور ھو گیا
جسکو گلے لگا لیا وہ دور ھو گیا
67
ہم جان سے بے زار رہا کرتے ہیں، اکبر
جب سے دلِ بیتاب ہے دِیوانہ کسی کا
68
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر
69
اﷲ نے دی ہے جو تمھیں چاند سی صُورت
روشن بھی کرو جا کے سیہ خانہ کسی کا
70
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
71
جو کچھ ملا تھا مال غنیمت میں لٹ گیا
محنت سے جو کمائی تھی دولت وہی رہی
72
پوچھا، اکبرؔ ہے آدمی کیسا؟
ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں
73
کھانے کی چیزیں ماں نے جو بھیجی ہیں گاؤں سے
باسی بھی ہو گئی ہیں تو لذت وہی رہی
74
وہ خود نمائی پہ کتنا یقین رکھتا ہے
نہیں ہے ہاتھ مگر آستین رکھتا ہے
75
میں سر جھکا کے شہر میں چلنے لگا مگر
میرے مخالفین میں دہشت وہی رہی
76
وہ کہہ کے چلے اتنی ملاقات بہت ہے
میں نے کہا رک جاؤ ابھی رات بہت ہے
77
اقرار میں کہاں ہے انکار کی یہ خوبی
ہوتا ہے شوق غالب اسکی نہیں نہیں پر
78
آنسو میرے تھم جائیں تو پھر شوق سے جانا
ایسے میں کہاں جاؤگے برسات بہت ہے
79
ان نے کھینچا ہے مرے ہاتھ سے داماں اپنا
کیا کروں گر نہ کروں چاک گریباں اپنا
80
اب بھی دماغِ رفتہ ہمارا ہے عرش پر
گو آسمان نے خاک میں ہم کو مِلا دیا
81
گردشوں کے ہیں مارے ھوئے نہ دشمنوں کے ستائے ھوئے ہیں
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر، دوستوں کے لگائے ہوئے ہیں
82
کل تھے آباد پہلو میں میرے، اب ہیں غیروں کی محفل میں ڈیرے
میری محفل میں کرکے اندھیرے، اپنی محفل سجائے ہوئے ہیں
83
اپنے ہاتھوں سے خنجر چلا کر، کتنا معصوم چہرہ بنا کر
اپنے کاندھوں پہ اب میرے قاتل، میری میّت اٹھائے ہوئے ہیں
84
جب سے دیکھا تیرا قد و قامت، دل پہ ٹوٹی ہوئی ہے قیامت
ہر بلا سے رہے تو سلامت، دن جوانی کے آئے ہوئے ہیں
85
مہ و شوق کو وفا سے کیا مطلب، ان بُتوں کو خدا سے کیا مطلب
ان کی معصوم نظروں نے ناصرؔ! لوگ پاگل بنائے ہوئے ہیں
86
بے پردہ جو نکلی ہو کشمیر کی وادی میں
کیا آگ لگاؤ گی برفیلی چٹانوں میں
87
سنا ہے اسکو بہت سے اچکےدیکھتے ہیں،
سو ہم بھی دامنِ تقویٰ جھٹک کے دیکھتے ہیں،
88
سنا ہے وہ تو بدکتا ہے رِیش والوں سے،
جبھی تو شیخ جی اسکو تھپک کے دیکھتے ہیں،
89
سنا ہے بھول بھلیاں ہیں اسکی قربت میں،
سو جان بوجھ کے ہم بھی بھٹک کے دیکھتے ہیں
90
یہ بات راز کی ہے راز ہی میں رہنے دیں،
کہ وہ جھجکتا ہے یا ہم جھجک کے دیکھتے ہیں،
91
سُنا ہے کسی اور کو چاہتاہے
وہ دُشمن ہمارا، وہ پیارا تمہارا
92
ہم تو مجبور ہیں اس دل سے مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشّاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟
93
ہم ساتھ ہو لِئے تو کہا اُس نے غیر سے
آتا ہے کون اِس سے کہو یہ جُدا چلے
94
دل کے آئینہ میں ہے تصویر ِیار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
95
خُمارِ بَلا نوش ، تُو اور توبہ !
تُجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے
96
ہم نے اِس بستی میں جالب
جُھوٹ کا اُونچا سر دیکھا ہے
97
اُلجھا دِیا ہے مُجھ کو غمِ روزگار نے !
مُمکن نہیں ہے تُجھ سے مُلاقات اِن
98
وہ معجزات کی حد تک پُہنچ گیا ہے قتیل !
حرُوف کوئی بھی لِکھّوں اُسی کا اِسم بنے
99
دلِ مُضطر کی سادگی دیکھو
پھر انُھیں سے سوال کرتا ہے
100
غمِ دنیا نے ہمیں جب کبھی ناشاد کیا
اے غمِ دوست تجھے ہم نے بہت یاد کیا
101
اشک بہہ بہہ کے مِرے خاک پہ جب گرنے لگے
میں نے تُجھ کو، تِرے دامن کو بہت یاد کیا
102
بُھول کر حُکمِ خُدا، یادِ بُتاں رہنے لگی
کیا تمہیں کرنا تھا حسرت ، آہ کیا کرنے لگے
103
تجھ کو برباد تو ہونا تھا بہرحال خُمار
ناز کر ناز ، کہ اُس نے تُجھے برباد کیا
104
قید میں رکھّا ہمیں صیاد نے کہہ کہہ کے یہی
ابھی آزاد کیا ، بس ابھی آزاد کیا
105
اُس کی وعدہ شکنی سے وہ ہُوئی ہے عبرت
نہ زباں دیتا ہُوں میں اب نہ زباں لیتا ہُوں
106
کیا وفا اُس نے کِسی ایک سے بھی کی ہے قتیل
میں ذرا جا کے رقیبوں کا بیاں لیتا ہُوں
107
ایسا تو نہیں ہے کہ ، عنایت ہو خُدا کی !
زاہد کی اسی جبّہ و دستار پہ موقوف
108
اُن کے ہاتھوں پر مُنوّر مہر و ماہ
اپنی قسمت میں ، وہی تکرارِ شب
109
جان و دل ہین اُداس سے میرے
اُٹھ گیا کون پاس سے میرے
110
جا پھنسا دامِ زُلف میں آخر
دِل نہایت ہی بے تحمّل تھا
111
خوُب ہے صاحبِ محفِل کی ادا
کوئی بولا تو بُرا مان گئے
112
تم مُخاطب بھی ہو ، قرِیب بھی ہو
تم کو دیکھیں ، کہ تم سے بات کریں
113
دِل نے اگر چُھپا بھی لِیا داغِ آرزوُ
آنکھوں سے تو، یہ راز چُھپایا نہ جائے گا
114
لاکھ کر جَور و سِتم ، لاکھ کر احسان و کرم !
تجھ پہ ،اے دوست! وہی وہم و گُماں ہے ، کہ جو تھا
115
منہ حقائق سے وہ اپنا موڑ کر
خوش ہے کتنا آئینے کو توڑ کر
116
یہ حُسنِ اتفاق ہے یا حُسنِ اہتمام
ہے جس جگہ فرات وہیں کربَلا بھی ہے
117
جتنی بھی میکدے میں ہے ساقی پلادے آج
ہم تشنہ کام، زہد کے صحرا سے آئے ہیں
118
مِری خلوتوں کی یہ جنّتیں کئی بار سج کے اُجڑ گئیں
مجھے بارہا یہ گمان ہوا، کہ تم آرہے ہو کشاں کشاں
119
جی میں‌ آتا ہے کہ کُچھ اور بھی موزوں کیجئے
دردِ دل ایک غزل میں تو سُنایا نہ گیا
120
پتّھر مجھے کہتا ہے مِرا چاہنے والا
میں موم ہُوں ، اُس نے مجھے چُھو کر نہیں دیکھا
121
منظُور کِس کو ہے جو اُٹھائے بَلائے عَشق
جب سر پہ آ پڑے تو ، کہو کوئی کیا کرے
122
جب کلمہ گو بھی کفر کے فتوے کی زد پہ ہو
کافر کو کس غرض سے مسلماں کرے کوئی
123
زیست کی اس کتاب میں جاناں
ذکر ہر باب میں تمہارا ہے
124
ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں
خدا کے بندے سنبھال آنکھیں
125
یہ بھی نیا سِتم ہے ، حِنا تو لگائیں غیر !
اوراُس کی داد چاہیں وہ ، مُجھ کو دِکھا کے ہاتھ
126
ازل بیتے تیرے ہجر میں
اب تیرا دیدار ہونا چاہیے
127
اپنی انا کو بیچ کے اکثر لقمۂ تر کی چاہت میں
کیسے کیسے سچے شاعر درباری ہو جاتے ہیں
128
عجب نوع کے آدمی ہیں یہ شیخ
محبّت کو کہتے ہیں الحاد ہے
129
بعد مُدّت کے یہ ، اے داغ ! سمجھ میں آیا
وہی دانا ہے ، کہا جس نے ، نہ مانا دل کا
130
حُور کی شکل ہو تم ، نُور کے پُتلے ہو تم
اور اُس پر تمہیں ، آتا ہے جلانا دل کا
131
جو ہے بیدار یہاں ، اُس پہ ہے جینا بھاری
مار ڈالیں گے یہ حالات ، چلو سو جائیں
132
جب تلک تم تھے کشیدہ ، دل تھا شکووں سے بھرا
تم گَلے سے مِل گئے، سارا گِلہ جاتا رہا
133
سُنا ہے یہ جب سے کہ ، وہ آرہے ہیں
دِل و جاں دِوانے ہُوئے جارہے ہیں
134
معطّر معطّر ، خراماں خراماں !
نسیم آرہی ہے ، کہ وہ آرہے ہیں
135
اُنھیں بڑھ کے کیا نذر دیں ہم الٰہی!
متاعِ دل و جاں پہ شرما رہے ہیں
136
آپ ، بیٹھیں تو سہی آ کے مِرے پاس کبھی !
کہ میں ، فرصت میں حدیثِ دلِ دیوانہ کہوں
137
موت بر حق ہے مگر میری گزارش یہ ہے
زندہ انسان کا جنازہ نا اٹھایا جائے
138
جھوٹے عاشق ہیں، جو آہ و بکا کرتے ہیں
ہم شبِ ہجر میں اخبار پڑھا کرتے ہیں
139
مریضِ عشقِ جاناں کا مداوا وصلِ جاناں ہے
طبیبوں سے کہو لکھتے ہو کیوں نسخہ دوائی کا
140
ہاتھ باندھے کھڑے ہیں سب، گم خیالوں میں اپنے اپنے
امامِ مسجد سے کوئی پوچھے، نماز کس کو پڑھا رہا ہے
141
جُرم ہے اُس کی جفا کا ، کہ وفا کی تقصیر ؟
کوئی تو بولو میاں ، منہ میں زباں ہے کہ نہیں
142
ہائے، کافردِل کی یہ ، کافرجنُوں انگیزِیاں !
تم کو پیار آئے نہ آئے، مُجھ کو پیارآ ہی گیا
143
دُور جاکر قریب ہو جتنے
ہم سے کب تم قریب تھے اِتنے
144
سِکندر ہو ، کہ مالک سات اقلیموں کا ، آخر کو !
گیا دستِ تہی ، لے یاں سے کیا کُچھ کرگیا حاصل
145
علاج کرتے ہیں سودائے عشق کا، میرے
خلل پذیر ہُوا ہے دماغ یاروں‌ کا
146
رند ! حاضر ہیں شیشہ و ساغر !
مے نہ سمجھو اگر حرام ، تو لو
147
اے مرگ آ ، کہ میری بھی رہ جائے آبرو
رکھّا ہے اُس نے سوگ عدو کی وفات کا
148
خشک پتوں کی طرح ، لوگ اُڑے جاتے ہیں
شہر بھی اب تو نظر آتا ہے ، جنگل کی طرح
149
ہزار باندھ لیئے عقل وآگہی کے حصار
تیرا خیال نہ جانے کہاں سے آتا ہے
150
بزمِ احباب میں حاصل نہ ہُوا چَین مجھے
مطمئن دِل ہے بہت ، جب سے الگ بیٹھا ہُوں
151
بیوفائی کے سِتم تم کو سمجھ آجاتے
کاش تم جیسا اگر ہوتا تمہارا کوئی
152
اچھے عیسیٰ ہو ، مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں ، تم کہتے ہو حال اچھا ہے
153
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دِل میں ڈبولی ہیں اُنگلیاں میں نے
154
میں وہاں ہوں جہاں جہاں تُم ہو
تم کرو گے کہاں کہاں سے گُریز
155
کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گُفتگو کرے
جو مُستقل سکوت سے دِل کو لہو کرے
156
اُس کے بغیر آج بہت جی اُداس ہے
جالب ! چلو کہیں سے اُسے ڈھونڈ لائیں ہم
157
کُچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہے حسرت
اُن سے مِل کر بھی نہ اظہارِ تمنا کرنا
158
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خود دار ہُوا کرتے ہیں
159
زیست کے ہیں یہی مزے ، وللہ
چار دن شاد ، چار دن نا شاد
160
قامت سے تیرے صا نعِ قدرت نے اے حسِیں
دِکھلا دِیا ہے حشْر کو سانْچے میں ڈال کے
161
جھلس رہے ہیں کڑی دھوپ میں شجر میرے
برس رہا ہے کہاں ابرِ بے خبر میرے
162
ضمیرِ زُہد بھی ، آلودۂ رِیا ہو جہاں !
خُدا ہمیں نہ کبھی ایسی پارسائی
163
کیا فرض ہے کہ ، سب کو مِلے ایک سا جواب!
آؤ نہ ، ہم بھی سیر کریں کوہِ طُور کی
164
ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی ، تو کیا ہوگا
گھڑی گھڑی نہ اُٹھاؤ ، نظر گھڑی کی طرف
165
چرکے وہ دِیے دل کو محرومیٔ قسمت نے
اب ہجر بھی تنہائی ،اور وصل بھی تنہائی
166
غریب خانہ میں للہ دو گھڑی بیٹھو
بہت دِنوں میں، تم آئے ہو اِس گلی کی طرف
167
مِلنے کا وعدہ منہ سے تو اُن کے نِکل گیا
پُوچھی جگہ جو میں نے، کہا ہنس کے ، خواب میں
168
میرے لفظوں پہ حاوی ہے ترے ہجر کا موسم
میری غزلیں،میری نظمیں،میرے اشعار روتے ہیں
169
طوفانِ نوح لانے سے، اے چشم ! فائدہ؟
دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کُچھ اثر کریں
170
دیکھ کیا کر رہے ہیں اہلِ زمیں
آسماں کے ستم کی بات نہ کر
171
یہ اور بات کہ خود کو بہت تباہ کیا
مگر یہ دیکھ تیرے ساتھ تو نباہ کیا
172
زمانے کی گردش سے چارا نہیں ہے
زمانہ ہمارا تمہارا نہیں ہے
173
غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سُنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سُنا ہوتا
174
اے محتسب نہ پھینک ! مرے محتسب نہ پھینک
ظالم شراب ہے، ارے ظالم شراب ہے
175
ہم سے ناخوش نہ ہو خُدا کے لئے
سارا عالم خفا سا لگتا
176
آہی جائیں گے حسبِ وعدہ وہ
اعتبار اِس گُماں سے اُٹھتا
177
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کرکے
178
دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ
جینے مرنے کا مِرے ، اِک تو سبب بن
179
بہت عجیب روایت ہے بزرگوں کی مِری !
کہ پگڑیوں کو سروں سے عزیز رکھتے ہیں
180
ہونٹوں پہ تبسّم ہے ، کہ اِک برقِ بَلا ہے
آنکھوں کا اِشارہ ہے کہ سیلابِ فنا ہے
181
سن کے چرچے آپ کی مسیحائی کے
لوگ، بے دریغ بیمار ہوئے جاتے
182
زُلف و رُخسار کا منظر، توبہ
شام اور صبح کی یکجائی ہے
183
یاد ہے ماہر، مجھے اُن کا وہ کہنا یاد ہے !
آج تو بس رات بھر غزلیں سُناتے جائیے
184
اَچانک آئینہ حیرت سے بولا
تمہیں پہلے کہیں دیکھا ہُوا ہے
185
دلِ مضطر سے پوچھ اے رونقِ بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
186
تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں کوئی ترے جیسا نہیں ملتا
187
اے میں سو جان سے اِس طرزِ تکّلم کے نِثار
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کِیا
188
مجھ کو تو ہوش نہیں ، تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد
189
تمناؤں میں اُلجھایا گیا ہُوں
کھلونے دیکے بہلایا گیا
190
زندگی اپنی، ہو کے اُن سے جُدا
سخت گزرے گی ، اگر گزُرے
191
کچُھ نہیں اِس کے سِوا جوش حرِیفوں کا کلام
وصل نے شاد کیا ، ہجر نے نا شاد کیا
192
یاد اُس کی اِتنی خُوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ دل سے بُھلایا نہ جائے گا
193
اُن کے دیکھے سے جو آجاتی ہے مُنہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں، کہ بیمار کا حال اچھا ہے
194
اب تو جاتے ہیں میکدے سے میر
پھر مِلیں گے ، اگر خُدا لایا
195
کیفیتِ چشم اُس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مِرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
196
بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ !
وہ مِنّتوں سے کہے چُپ رہوخُدا کے لئے
197
وعدہ خلاف یار سے کہیو یہ نامہ بر
آنکھوں کو روگ دے گئے ہو اِنتظار کا
198
شیوۂ عشق نہیں حُسن کو رُسوا کرنا
دیکھنا بھی تو اُنھیں دُور سے دیکھا کرنا
199
تِری نظر کا کرشمہ ، تِرے شباب کا جوش
شراب پی بھی نہیں ، اور ہو گئے مدہوش
200
میں اِس احتیاطِ نظر کے تصدّق
نہ بیگانہ سمجھے نہ اپنا بنائے
201
یاں جگر پر چل گئیں چُھریاں کسی مُشتاق کی
واں خبر یہ بھی نہیں، ناز و ادا نے کیا کِیا

0 comments: