Friday 29 January 2016

نمازوں کے بعد دعاؤں کا حکم

نمازوں کے بعد دعاؤں کا حکم
   
خطبۂ مسنونہ کے بعد:{ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا} (سورۂ فرقان آیت نمبر ٧٤ )

     بزرگانِ محترم: یہ سورۃ الفرقان کے آخری رکوع کی ایک آیتِ کریمہ ہے، جو امام صاحب نے آج نماز میں پڑھی ہے، اور مسلمان عام طور پر، بطور دعا یہ آیتِ کریمہ پڑھتے ہیں، جو عربی جانتے ہیں، اور اس کا مضمون سمجھتے ہیں، وہ سمجھ کر دعا مانگتے ہیں، مگر ہم عربی سے ناواقف ہیں، ہم کچھ نہیں سمجھتے، بس اتنا جانتے ہیں، کہ جن آیات کے شروع میں رَبَّنَا ہے، ان میں کوئی دعا ہے، اس لئے جن آیتوں کے شروع میں رَبَّنَا ہے، وہ آیتیں ہم نے یاد کرلی ہیں، اور ان کو ہم پڑھتے ہیں، مگر سمجھتے نہیں، اس سے دعا کا مقصد پورا نہیں ہوتا، اصل دعا یہ ہے کہ ہم سمجھ رہے ہوں، کہ ہم اللہ تعالیٰ سے کیا مانگ رہے ہیں، اگر ہم نے کچھ آیتیں، اور کچھ حدیثیں یاد کرلیں، جو از قبیل دعا ہیں، اور ہاتھ اٹھا کر ان کو پڑھ لیا، اور سمجھا نہیں، تو یہ کامل دعا نہیں۔

نمازوں کے بعد دعا مانگنا اچھا ہے:

       آج کل عربوں میں اور عجمیوں میں یہ مسئلہ بڑا اختلافی ہے، کہ نمازوں کے بعد دعا مانگنی چاہئے یا نہیں ‌؟ آپ حضرات حرمین شریفین میں دیکھتے ہونگے، کہ وہاں ائمہ نمازوں کے بعد دعا نہیں مانگتے، حرمین شریفین کے علاوہ عربوں کی جو دوسری مسجدیں ہیں، ان میں بھی ائمہ نمازوں کے بعد دعا نہیں مانگتے، وہ کہتے ہیں: نمازوں کے بعد ہیئتِ اجتماعی سے دعا مانگنا بدعت ہے، نہ آنحضرت ﷺ  سے ثابت ہے، اور نہ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے اس طرح دعا مانگی ہے، دوسری طرف چاروں فقھوں میں[ چار فقھیں چار مکاتبِ فکر ہیں، معین اشخاص کی رائیں نہیں ہیں، عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہبِ حنفی یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی رائیں، مذہبِ شافعی یعنی امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کی رائیں، مذہبِ مالکی یعنی امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کی رائیں، مذہبِ حنبلی یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کی رائیں، ایسا سمجھنا صحیح نہیں، یہ معین اشخاص کی رائیں نہیں ہیں، بلکہ یہ چار مکاتبِ فکر ہیں، قرآن و حدیث سے مسائل اخذ کرنے کےلئے چار اصول ہیں، چنانچہ فقہِ حنفی میں صرف امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول پر فتویٰ نہیں دیا جاتا، متعدد مسائل میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول موجود ہوتا ہے، مگر فتویٰ ان کے شاگردوں کے قول پر دیا جاتا ہے، یہی حال باقی فقھوں کا ہے، مثلا: مزارعت جائز ہے، یا نہیں ‌؟ مزارعت کے معنیٰ ہیں: زمین بٹائی پر دینا، ہم نے اپنی زمین کسی کو دی، کہ اس میں غلہ بوؤ، اور پیداوار آدھی آدھی، یا ایک تہائی تمہاری، دو تہائی میری، با برعکس، اس کو مزارعت کہتے ہیں، امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مزارعت جائز نہیں، امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتے ہیں، مگر فقہِ حنفی میں فتویٰ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول پر نہیں، صاحبین کے قول پر ہے، صاحبین مزارعت کو جائز کہتے ہیں، اور فقہِ شافعی میں بھی فتویٰ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول پر نہیں، بلکہ ان کے شاگردوں کے قول پر ہے، غرض چاروں فقھوں میں قرآن و حدیث سے مسائل اخذ کرنے کےلئے اصول ہیں، جو اصولِ فقہ کہلاتے ہیں، ان کی روشنی میں قرآن و حدیث سے خاص نہج پر مسائل مستنبط کئے جاتے ہیں، پس جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ معین اشخاص کی رائیں ہیں، اور ان کی اتباع، تقلیدِ شخصی ہے، وہ غلط سوچتے ہیں، یہ معین اشخاص کی تقلید نہیں، بلکہ معین مکتبِ فکر کی تقلید ہے ] جن کی مسلمانوں کی اکثریت پیروی کرتی ہے، یہ مسئلہ لکھا ہے کہ نمازوں کے بعد دعا مانگنا حسن (اچھا‌) ہے، سنت نہیں لکھا۔

           اور نمازوں کے بعد دعا مانگنے کو علماء نے حسن اس لئے کہا ہے کہ دورِ اول میں اسلام صرف عربوں میں تھا، عربی ان کی مادری زبان تھی، اور قرآن کریم عربی میں ہے، احادیثِ شریفہ بھی عربی میں ہیں، اور ان میں جو دعائیں آئی ہیں، وہ بھی عربی میں ہیں، دورِ اول کے مسلمان قرآن کریم کو سمجھتے تھے، احادیثِ شریفہ کو سمجھتے تھے، اور دعاؤں کو بھی سمجھتے تھے، اور خود نماز میں دعائیں مانگنے پر قادر تھے، اور وہ نماز کے آخری قعدہ میں سب دعائیں مانگ لیا کرتے تھے، اور سنن و نوافل میں رکوع و سجود اور قومہ و جلسہ میں بھی دعائیں مانگتے تھے، آنحضورﷺ کی نمازِ تہجد کے بارے میں مروی ہے کہ آپ سجدہ پچاس آیتوں کے بقدر فرماتے تھے، اور اس میں خوب دعائیں مانگتے تھے، صحابہ کا بھی یہی حال تھا، بلکہ آج بھی عرب علماء نماز میں اپنی ساری ضروتیں مانگ لیتے ہیں، آپ حضرات نے رمضان المبارک میں ائمۂ حرمین شریفین کو وتروں میں پون گھنٹہ دعا کرتے سنا ہوگا، وہ دعائیں ان کی پہلے سے رٹی ہوئی، اور یاد کی ہوئی نہیں ہوتی، بلکہ فی البدیہہ مانگی ہوئی ہوتی ہیں، ان کو اس پر قدرت ہے، پس جب انہوں نے وتروں میں، قعدہ میں، رکوع و سجود میں سب دعائیں مانگ لیں، تو اب نمازوں کے بعد الگ سے دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے ‌؟ اس لئے آنحضورﷺ  اور حضراتِ صحابۂ کرام نمازوں کے بعد اجتماعی طور پر دعا نہیں مانگتے تھے۔

          مگر جب اسلام عربوں سے نکل کر عجمیوں میں پہنچا، تو ان کےلئے پریشانی کھڑی ہوئی، اللہ تعالیٰ سے مانگنا ان کو بھی ہے، نہیں مانگیں گے تو بندوں کا اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا تعلق ٹوٹ جائےگا، پھر عبادتوں کا مغز دعا ہے، نبی پاک ﷺ  کا ارشاد ہے: الدُعَاءُ مُخُّ العِبَادَةِ، دعا عبادت کا مغز ہے، اگر بادام میں گری نہ ہو، تو بادام بےکار ہے، اس بادام کی کوئی قیمت نہیں، اصل چیز گری ہے، اسی کی وجہ سے بادام کی قیمت ہے، اسی طرح عبادت میں اصل دعا ہے، اس کی وجہ سے عبادت، عبادت ہے، دعا کے بغیر عبادت بےگری کی مونگ پھلی ہے، اور عجمی لوگ نمازوں میں دعا مانگ نہیں سکتے، اپنی زبان میں مانگیں گے، تو نماز ٹوٹ جائےگی، اور قرآن و احادیث کی دعائیں مانگیں گے، تو عجمیوں کے حق میں وہ اذکار ہیں، اس لئے کہ وہ ان دعاؤں کو سمجھتے نہیں، جب وہ بے سمجھے دعائیں پڑھیں گے، تو وہ دعا نہیں ہوگی، اذکار ہونگے، دعا وہ ہے، جسے بندہ سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے مانگے، یہ ایک بھت بڑی ضرورت عجمیوں کے سامنے تھی، اس لئے چاروں مکاتبِ فکر کے علماء نے اس کا حل یہ نکالا، کہ نمازوں کے بعد دعائیں مانگ لیا کریں، البتہ اجتماعی ہیئت کو لازم نہ بنایا جائے، گاہ بہ گاہ ناغہ بھی کیا جائے، اور کوئی سلام پھیر کر چلا جائے، تو اسے مطعون نہ کیا جائے، کوئی امام سے پہلے دعا شروع کردے، یا امام کے بعد تک دعا میں مشغول رہے، تو اس میں توسع برتا جائے، امام کے ساتھ دعا شروع کرنے کو، اور امام کے ساتھ دعا ختم کرنے کو لازم نہ بنایا جائے، ان باتوں کا خیال رکھ کر نمازوں کے بعد دعا مانگنا مستحب ہے، یہ چاروں فقھوں کے علماء کی رائے ہے، اور عجمیوں کی ضرورت ہے، اس لئے اس کو حسن قرار دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کو بندوں کا مانگنا پسند ہے:

        غرض میں یہ بیان کررہا تھا کہ نمازوں کے بعد دعا مانگنا حسن اور اچھا ہے، اس لئے کہ دعا عبادت کا خلاصہ، نچوڑ اور مغز ہے، اور دعاؤں ہی کے ذریعہ بندوں کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق جڑتا ہے، اور اللہ تعالٰی کو بندوں کی سب سے زیادہ پسندیدہ چیز دعا ہے، اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ بندے اپنی تمام چھوٹی بڑی حاجتیں اپنے مولیٰ سے مانگیں، حدیث شریف میں ہے کہ اگر چپل کا تسمہ ٹوٹ جائے، تو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگو، ظاہر ہے چپل کی پٹی معمولی چیز ہے، کوڑیوں کے دام مل جاتی ہے، مگر اسے بھی اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کا مانگنا پسند ہے، وہی بندہ اللہ تعالیٰ کو پیارا ہے، جو اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے، چاہے اوندھا مانگے، چاہے سیدھا، مگر مانگے ضرور ۔

اللہ تعالیٰ ہر شخص کے ساتھ اس کی عقل و فہم کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں:

         مولانا روم رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک واقعہ لکھا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر تشریف لے جارہے تھے، تو انہوں نے ایک چرواہے کو دیکھا، جو اپنی بکریاں چرا رہا تھا، وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا، ائے میرے خدا! تو کہاں ہے ‌؟ اگر تو مجھے مل جائے تو میں تجھے اپنی بکریوں کا دودھ پلاؤں، آئے میرے مولیٰ! تیرے سر میں جوئیں پڑگئی ہونگی، میں تیرے سر میں سے جوئیں نکالوں، ائے میرے خدا! ہوسکتا ہے تیرے گریبان میں بٹن نہ ہو، میں ببول کے کانٹوں کا اس میں بٹن لگاؤں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اس کو اس طرح دعا کرتے سنا تو ڈانٹا، اس نے دعا بند کردی، حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر پہنچے، اور اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہوئے، تو پہلی بات اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی، کہ موسیٰ! میرا ایک بندہ مجھ سے راز و نیاز کی باتیں کر رہا تھا، تم نے اس کو کیوں روک دیا ‌؟ اس کا مبلغِ علم اتنا ہی تھا، وہ اپنی دانست اور علم کے مطابق میری تعریف کررہا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ساتھ اس کی حیثیت کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں۔
ایک گناہ گار کی بخشش کا واقعہ:

          خیر یہ تو ایک بےسند قصہ تھا، مگر ایک اعلیٰ درجہ کی حدیث ہے، حضورِ اکرم ﷺ  نے فرمایا: پچھلی امتوں میں ایک شخص تھا، جس کی زندگی بھت خراب تھی، اس نے وصیت کی، کہ مجھے جلاکر میری آدھی راکھ سمندر میں ڈال دینا، اور آدھی ہَوا میں اڑادینا، تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ نہ آؤں، اگر میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ آگیا، تو وہ مجھے اتنی سخت سزا دیں گے، کہ اتنی سخت سزا کسی کو نہیں دی ہوگی، چنانچہ اس کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء نے اس کی وصیت کی تعمیل کی، اس کو جلادیا، آدھی راکھ سمندر میں ڈال دی، اور آدھی ہَوا میں اڑا دی، اللہ تعالیٰ نے راکھ کو حکم دیا، کہ 'اکٹھی ہوجا، وہ ہوگئی، اور وہ زندہ ہوکر اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہوگیا، اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا: میرے بندے! تو نے یہ حرکت کیوں کی ‌؟ اس نے عرض کیا: پروردگار! آپ کے ڈر سے، اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔

          یہ واقعہ حدیث شریف میں ہے، اگر ایسا عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کوئی سمجھ دار، اور عقلمند رکھے، تو وہ کافر ہوجائےگا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے منافی عقیدہ ہے، مگر وہ شخص زیادہ سمجھ دار نہیں تھا، اس لئے اس کے خیال کو کفر قرار نہیں دیا، اور اللہ تعالٰی نے اس کو معاف کردیا، اس حدیث کی وجہ سے علمائے کرام نے فرمایا: ہر شخص کے ساتھ اس کی عقل و فہم کے مطابق معاملہ کیا جائےگا۔

جو خوش حالی میں مانگے، وہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے:

        میں عرض یہ کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے مانگا نہ جائے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو وہی بندہ پسند ہے، جو مانگتا ہے، اور خوب مانگتا ہے، بلکہ جو بندہ خوشحالی میں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ کو وہ بندہ زیادہ پسند ہے، تنگ حالی میں اللہ تعالیٰ اس کو دے سکتے ہیں ، اور جو لوگ خوشحالی میں اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتے، اس کے سامنے نہیں روتے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے، کھانا، پینا، مکان، کپڑا اور ضرورت کی ہر چیز ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو سب کچھ دے رکھا ہے، اس لئے وہ مانگتے نہیں، وہ لوگ جب بیماریوں میں، اور آفتوں میں پھنسیں گے، اور یااللہ! یااللہ! پکاریں گے، تو اللہ ان کی نہیں سنیں گے، اللہ تعالیٰ کا بہترین بندہ وہ ہے، جو خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کو پکارے، اس سے تعلق رکھے، اس سے دعائیں مانگے، اس کے سامنے گڑگڑائے، تو مصیبتوں میں اللہ تعالیٰ اس کی پکار سنیں گے، اور اس کی مراد پوری کریں گے۔

           غرض اللہ تعالیٰ سے اپنی آرزوئیں اور خواہشیں مانگنا بھت ضروری ہے، اور یہ عبادت کا خلاصہ اور نچوڑ ہے، جب عجمیوں کے ساتھ یہ صورت پیش آئی، کہ وہ نماز میں اپنی مرادیں نہیں مانگ سکتے، اور دعائیں نہیں کرسکتے، تو علماء نے اس کا حل یہ نکالا، کہ نماز کے بعد دعائیں مانگیں، اپنی زبانوں میں مانگیں، علماء نے اس کو مستحب کہا ہے۔

حسن ہونے کی دلیل:

       حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے: مَا رَآہٗ المُسْلِمُوْنَ حَسَنَاً فَھَوَ عِنْدَ اللہِ حَسَنٌ، جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھی ہے، نمازوں کے بعد دعا کرنے کو چاروں مکاتبِ فکر کے علماء نے، جن کی مسلمانوں کی بڑی تعداد تقلید کرتی ہے، اچھا سمجھا ہے، پس نمازوں کے بعد دعا کرنا حسن ہے، اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں۔

نمازِ جنازہ کے بعد دعا:

        بعض لوگوں نے نمازِ جنازہ کے بعد بھی دعا شروع کردی ہے، حالانکہ نمازِ جنازہ خود دعا ہے، میت کےلئے دعا کرنے ہی کےلئے نمازِ جنازہ مشروع کی گئی ہے، مگر جب لوگوں نے اس دعا کو سمجھا نہیں، تو نمازِ جنازہ کے بعد بھی دعا شروع کردی، امام صاحب جہراً دعا کرتے ہیں، انہوں نے چند رَبَّنَا یاد کر رکھے ہیں، جن کو نہ امام صاحب سمجھتے ہیں، نہ لوگ، بس جہاں سانس ٹوٹتا ہے، لوگ آمین کہتے ہیں، یہ ایک رسم بن کر رہ گئی ہے، حالانکہ نمازِ جنازہ خود کامل دعا ہے، اس کے بعد کسی دعا کی ضرورت نہیں، جنازہ کی ایک چھوٹی سی دعا ہے، ہر شخص اس کو یاد کرسکتا ہے، پس وہ دعا کافی ہے، اس کے بعد میت کو دفن کردینا چاھئے، اب دوسری دعا کی ضرورت نہیں۔

تدفین کے بعد دعا:

            پھر تدفین کے بعد دعا ہے، ابوداؤد میں حدیث ہے کہ نبی پاک ﷺ  جب ایک میت کی تدفین سے فارغ ہوئے، تو آپ ﷺ  نے فرمایا: اپنے بھائی کےلئے مغفرت طلب کرو، اور خاص طور پر یہ دعا کرو، کہ اب جو سوال و جواب ہونگے، اللہ تعالیٰ ان میں اس کو ثابت قدم رکھیں، اور صحیح جواب دینے کی توفیق عطا فرمائیں، لوگوں کے قبر سے ہٹتے ہی سوال و جواب شروع ہونگے، لٰہذا میت کےلئے دو دعائیں کرنی چاہئیں، ایک: اس کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ بخش دیں، دوسری: اس سے جو تین سوال ہونگے، ان کے صحیح جواب دینے کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں، اور ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا ضروری نہیں، ابوداؤد کی حدیث میں اس طرف اشارہ ہے، کہ نبی پاک ﷺ  تدفین کے بعد اجتماعی اور جہری دعا نہیں کرتے تھے، ورنہ صحابہ کو تلقین کرنے کی ضرورت نہیں تھی، دیوبند، سہارنپور میں یہی معمول ہے، میں پچاس سال سے دیکھ رہا ہوں، جب قبر بھر جاتی ہے، تو ایک آدمی قبر کے سرہانے، اور ایک پائینتی کھڑے ہوکر سورۂ بقرہ کا اول و آخر پڑھتے ہیں ، اس وقت سب لوگ قبر کے پاس آجاتے ہیں، اور ہر شخص اپنے طور پر، مذکورہ دو دعائیں کرتا ہے، پھر لوگ چل دیتے ہیں۔

ایک مقصد ہو تو جہراً اجتماعی دعا مانگنا جائز ہے:

       فرض نمازوں کے بعد دعا مانگنی چاہئے، اللہ تعالیٰ سے اپنی آرزوئیں مانگنی چاہیئں، اور ہر شخص اپنی دعا خود مانگے، مقتدیوں کا امام کے ساتھ جو تعلق ہے، وہ سلام پر ختم ہوجاتا ہے، اب ہر شخص آزاد ہے، اس کو اپنے لئے دعا کرنی ہے، اور اپنی آرزوئیں مانگنی ہیں، اور اپنی زبان میں مانگنی ہیں، اور سمجھ کر مانگنی ہیں، البتہ اگر حاضرین کا ایک مقصد ہو، مثلا بارش نہیں ہورہی، اور بارشِ طلبی کےلئے لوگ جمع ہوئے ہیں، یا کوئی آفت اور مصیبت آئی ہے، اس کےلئے دعا مانگنی ہے، تو چونکہ سب کی مراد ایک ہے، اس لئے اجتماعی طور پر جہراً دعا کرنا جائز ہے، حدیث سے ثابت ہے۔

نمازوں کے بعد دعا کب کی جائے:

         اور یہ بات بھی جان لی جائے کہ جن تین نمازوں کے بعد سنتیں اور نوافل ہیں، ان میں فرض کے بعد مختصراً اذکار ہیں، دعا نوافل سے فارغ ہوکر ہر ایک کو کرنی چاہئے، اس کےلئے ہیئتِ اجتماعی نہ بنائی جائے، کیونکہ سب نمازی نوافل سے ایک ساتھ فارغ نہیں ہوتے، ہر شخص جب فارغ ہو، دعا کرے، سب کا ایک ساتھ دعا کرنا، جس کو دعائے ثانیہ کہتے ہیں، بدعت ہے، اور فجر و عصر کے بعد چونکہ نوافل نہیں، اس لئے تسبیحات سے فارغ ہوکر دعا کریں، اور ہر شخص جب فارغ ہوجائے، دعا شروع کردے، امام صاحب کے ہاتھ اٹھانے کا انتظار نہ کرے، ہیئتِ اجتماعی نہ بنائیں، اور جب کسی کی دعا ختم ہو، تو منہ پر ہاتھ پھیر لے، امام صاحب کے فارغ ہونے کا انتظار نہ کرے، اور کسی مقتدی کو، یا امام کو کوئی ضرورت ہو تو وہ دعا کے بغیر بھی جاسکتا ہے، پس التزام اور ہیئتِ اجتماعی نہ ہو، مگر دعا ضرور کی جائے، سری کی جائے، اور ہر شخص اپنی زبان میں اپنے دل کی مراد مانگے۔

دعا بند کرنا غلطی کی اصلاح نہیں، بلکہ دوسری غلطی ہے:

         غیر مقلد کہتے ہیں: اب نمازوں کے بعد دعا کا التزام ہوگیا ہے، اس لئے اس کو بند کردینا ضروری ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ آپ لوگوں نے عدمِ دعا کا التزام شروع کردیا ہے، لٰہذا اس کو بھی بند کرنا ضروری ہے۔

       ثانیاً: اصلاح کا یہ طریقہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے مانگنا بند کردیا جائے، یہ تو دوسری غلطی ہے، پہلی غلطی التزام دعا تھی، دوسری غلطی ترکِ دعا ہے، بلکہ اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ امام صاحب وقتاً فوقتاً لوگوں کو مسئلہ سمجھائیں، اور گاہ بہ گاہ اس پر عمل کرکے بھی دکھائیں، ان شاء اللہ تعالیٰ ایسا کرنے سے لوگ صحیح بات سمجھ لیں گے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْنَ

مقرر: حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند

ناقل: مولانا  عادل سعیدی پالن پوری مدظلہ

مکمل تحریر >>

حجیتِ حدیث و اجماع و قیاس : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم

حجیتِ حدیث و اجماع و قیاس 

 مقرر: حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند

ناقل: احمد سعید پالن پوری استاد جامعة الشیخ حسین احمد المدنی محلہ خانقاہ دیوبند


خطبۂ مسنونہ کے بعد: { وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا} { وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ}

حضرات علمائے کرام، عزیز طلبہ،معززینِ شہر!
     
         آج کی مجلس میں گفتگو کےلئے مجھے عنوان دیا گیا ہے "حجیتِ اجماع و قیاس " اجماع حجتِ شرعیہ ہے، اس کی کیا دلیل ہے ‌؟ قیاس حجتِ شرعیہ ہے، اس کی کیا دلیل ہے ‌؟ میں نے عنوان میں ایک تیسری چیز کا اضافہ کیا ہے، وہ ہے حجیتِ حدیث، اب عنوان یہ ہوا "حجیتِ حدیث و اجماع و قیاس " میں نے یہ اضافہ اس لئے کیا ہے کہ جس طرح ان دو چیزوں کی حجیت میں گمراہ فرقوں نے اختلاف کیا ہے، اسی طرح حجیتِ حدیث میں بھی گمراہ فرقوں نے اختلاف کیا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ تینوں کی حجیت ایک ساتھ سمجھ لی جائے۔

           دوسری وجہ یہ ہے کہ میں نے دو آیتیں پڑھی ہیں، پہلی سورۂ نساء کی آیت (‌١١٥) ہے، اس میں حجیتِ اجماع کے ساتھ حجیتِ حدیث کا بھی بیان ہے، اور دوسری سورۂ نحل کی آیت (‌٤٤) ہے، اس میں حجیتِ قیاس کے ساتھ حجیتِ حدیث کا بھی بیان ہے، پس جب سورۂ نساء کی آیت سے حجیتِ اجماع ثابت کرونگا، تو وہ آدھی آیت کا مطلب ہوگا، دوسری آدھی آیت جس میں حجیتِ حدیث کا بیان ہے، اسے بھی مجھے بیان کرنا ہوگا، اسی طرح جب سورۂ نحل کی آیت سے، میں حجیتِ قیاس ثابت کرونگا، تو اس میں حجیتِ حدیث کا بھی بیان ہے، اسے بھی مجھے بیان کرنا ہوگا، اس لئے میں نے اپنی طرف سے عنوان میں اضافہ کرلیا ہے، پس آج کی مجلس کا موضوع ہے "حجیتِ حدیث و اجماع و قیاس "۔

           میرے بھائیو! بات یہاں سے شروع کررہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی اور اصلاح کےلئے دین اور شریعت، دو چیزیں نازل کی ہیں، دین حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم النبین حضرت محمد ﷺ  تک ایک رہا، الگ الگ دین نہیں آئے، اور اس دین کا نام '' اسلام '' ہے، اور شریعتیں مختلف زمانوں کےلئے مختلف آئی ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت، حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت، یہ شریعتیں مختلف تھیں، دین سب نبیوں کا ایک تھا۔

       اس مضمون کو ایک حدیث میں نبی پاک ﷺ  نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ہم انبیاء علاتی بھائی ہیں، ایک حقیقی بھائی ہوتا ہے، ماں باپ دونوں میں شریک، ایک علاتی بھائی ہوتا ہے، جو صرف باپ میں شریک ہوتا ہے، ایک اخیافی بھائی ہوتا ہے، جو صرف ماں میں شریک ہوتا ہے، حضورِ اکرم ﷺ  نے فرمایا: ہم انبیاء علاتی بھائی ہیں، یعنی انبیاء کا دین ایک ہے، مائیں الگ الگ ہیں یعنی شریعتیں مختلف ہیں۔

       یہاں ایک بات سمجھ لی جائے، جب حضرت آدم علیہ السلام سے حضورِ اکرم ﷺ  تک دین ایک ہے، اور وہ اسلام ہے، تو سب مسلمان کیوں نہیں کہلاتے، صرف حضورِ اکرم ﷺ  کی امت کو مسلمان کیوں کہا جاتا ہے ‌؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت مسلمان نہیں، بلکہ یہودی کہلاتی ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت مسلمان نہیں، بلکہ نصاریٰ کہلاتی ہے۔

     اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، کہ ہم ہی مسلمان کہلاتے ہیں، اور اس سلسلہ میں اس امت پر سب سے بڑا احسان حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے، انہوں نے پچھلی کتابوں میں اس امت کےلئے امتِ مسلمہ نام تجویز کیا تھا، اور قرآن کریم میں بھی یہ نام رکھا گیا ہے، اس لئے اس امت کا یہ نام ہوا ہے، اور دوسری امتوں کو دوسرا لقب ملا، مثلا دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور، الباقیات الصالحات ویلور میں ایک ہی دین پڑھایا جاتا ہے، لیکن کسی کا نام '' قاسمی '' کسی کا "مظاہری " اور کسی کا "باقوی " ہے، اس سے یہ نہ سمجھا جائے، کہ ان تینوں اداروں میں تین دین پڑھائے جاتے ہیں، اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام سے حضورِ اکرم ﷺ  تک جو دین آیا ہے، وہ ایک ہی دین ہے، مگر یہود کےلئے ان کے پیغمبر نے کہا: { إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ } (‌سورة الاعراف آیت نمبر ١٥٦) اس سے ان کی امت کا نام یہودی ہوگیا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت سے کہا: { مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ }(سورة الصف آیت نمبر ١٤) اس سے ان کی امت کا نام نصاریٰ ہوگیا، ان کے پیغمبر نے جو لفظ استعمال کیا، وہی ان کا نام ہوگیا۔

      اور قرآن کریم میں، حضورِ اکرم ﷺ  جو دین لیکر آئے ہیں، اس دین کو کہا گیا ہے: { مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ } (‌سورة الحج آیت نمبر ٧٨ )  یہ جو ہماری امت کے سربراہ ہیں (حضرت ابراہیم علیہ السلام ‌) انہوں نے اس امت کےلئے لفظِ مسلم استعمال کیا ہے: { مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَٰذَا } غرض ہر امت کے بڑے نے جو نام استعمال کیا، وہی اس کا نام ہوگیا، ان ناموں کے فرق سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ دین الگ الگ ہیں، نہیں سب نبیوں کا دین ایک ہے، ہاں شریعتیں الگ الگ ہیں۔

       بزرگو اور بھائیو! شریعت اور دین میں رشتہ اصول و فروع کا ہے، دین اصل ہے، اور شریعت اس پر متفرع ہے، شریعت میں زمانہ کے احوال کی رعایت کی جاتی ہے، دین میں لوگوں کے احوال کی رعایت کی جاتی ہے، دین نفسِ اصول اور نفسِ حقیقت ہے، اس میں لوگوں کے احوال کی رعایت ملحوظ نہیں ہوتی، اس لئے دین کے مختلف ہونے کا سوال ہی نہیں، البتہ شریعتیں مختلف زمانوں میں مختلف نازل ہوئی ہیں، اس لئے ان میں اختلاف ناگزیز ہے۔

اس مضمون کو تھوڑا اور پھیلائیں:

       اللہ تعالیٰ ایک ہیں، وہی معبود برحق ہیں، اللہ تعالیٰ ہی پروردگار ہیں، اللہ تعالیٰ انسانوں کی روحانی ضروریات کی تکمیل کےلئے آسمان سے راہنمائی کا سلسلہ جاری کرتے ہیں، جس کا نام رسالت ہے، ہر ایک کو مرنا ہے، اور مرکر ختم نہیں ہوجانا، بلکہ ایک دن (قیامت کے دن ‌) زندہ ہونا ہے، اور اپنے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ پانا ہے، یہ دین کے تین بنیادی عقیدے ہیں: توحید، رسالت اور معاد (آخرت ‌) ان میں لوگوں کے احوال کی کیا رعایت کی جائے گی ‌؟ کیا بعض اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک ہیں، بعض دو خدا مانتے ہیں تو خدا دو ہیں، بعض سات مانتے ہیں تو خدا سات ہیں، اور بعض بیس کروڑ معبود مانتے ہیں تو معبود بیس کروڑ ہیں، لا حول و لا قوة! یہ کیا عقیدے ہوئے ‌؟ لٰہذا اصول اور عقائد میں لوگوں کے احوال کی رعایت نہیں ہوسکتی، نفس الامر میں جو حقیقتیں ہیں، ان ہی حقیقتوں کے ماننے کا نام عقیدہ ہے۔

     اور ان اصول پر شریعتیں متفرع ہوتی ہیں، ان میں زمانہ کے احوال کی رعایت کی جاتی ہے، مثلا حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بہن سے نکاح جائز تھا، کیونکہ بہن کے علاوہ عورتیں نہیں تھیں، پھر جب عورتیں بڑھ گئیں، تو بہن سے نکاح حرام ہوگیا، دیکھو حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت، اور بعد کی شریعت میں لوگوں کے احوال کی رعایت کی گئی، کسی امت میں تین نمازیں تھیں، ہماری امت میں پانچ ہوگئیں، یہ لوگوں کے احوال کی رعایت ہے، کسی امت پر تین روزے تھے، ہماری امت پر تیس روزے ہوگئے، یہ لوگوں کے احوال کی رعایت ہے، کسی امت پر ظلم کا بدلہ لینا ضروری تھا، معاف نہیں کرسکتے تھے، اور کسی امت پر یہ تھا، کہ بدلہ نہیں لے سکتے، معاف کرنا ضروری ہے، بلکہ ایک تھپڑ اِدھر مارا ہے، تو دوسرا گال بھی پیش کردے، کہ ایک تھپڑ اس طرف بھی مار، ہماری شریعت میں دونوں باتیں جمع کردیں، کہ معاف کرے تو سبحان اللہ، اور بدلہ لینا چاہے تو لے سکتا ہے، یہ مثالیں ہیں، لوگوں کے احوال کی رعایت کی، ان رعایتوں کی وجہ سے شریعتوں میں اختلاف ہوا۔

فرقۂ اہل قرآن:

     بزرگو اور بھائیو! اب یہ بات سمجھنی چاھئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو دین اور شریعت نازل فرمائی ہے، وہ کن ذرائع سے، کن اصولوں سے، اور کن دلائل سے ثابت ہے‌؟ اس سلسلہ میں یہ بات جاننی چاھئے کہ تین چیزیں ہیں: قرآن کریم، احادیث شریفہ، اور اجماعِ امت، تمام مسلمان متفق ہیں، کہ قرآن کریم حجت ہے، قرآن کریم سے دین بھی ثابت ہوتا ہے، اور شریعت بھی ثابت ہوتی ہے، پھر سب سے پہلا اختلاف یہ پیدا ہوا کہ قرآن کریم کے بعد کوئی اور چیز حجت ہے، یا نہیں ‌؟ جس سے دین اور شریعت ثابت ہو ‌؟ ایک فرقہ الگ ہوگیا، اس نے کہا: کوئی چیز حجت نہیں، صرف قرآن کریم حجت ہے، اسی قرآن کریم سے دین بھی ثابت ہوگا، اسی سے شریعت بھی ثابت ہوگی، یہ فرقہ پہلی صدی میں پیدا ہوگیا تھا، نبی پاک ﷺ  نے اس فرقہ کے وجود میں آنے کی جو پیش خبری دی ہے، اس میں یوشک لفظ استعمال کیا ہے، یعنی بھت جلد یہ فرقہ وجود میں آئے گا۔

       حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے یہ ارشادِ پاک مروی ہے کہ: أَلا إِنِّي أُوتِيتُ القران وَمِثْلَهُ مَعَهُ أَلا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ  يَقُولُ :  عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ ،  و اِن مَا حَرَّم رَسولْ اللہ صلی اللہ علیه و سلم کما حَرَّمَ اللہ (مشکوٰة شریف حدیث نمبر ١٦٣ ) سنو! میں قرآن کریم دیا گیا ہوں، اور اس کے مانند اس کے ساتھ (‌دیا گیا ہوں ) سنو! ایک شکم سیر آدمی اپنے چھپر کھٹ پر بیٹھا کہے گا، کہ تم یہ قرآن کریم مضبوط پکڑو، جو اس میں حلال ہے، اس کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام ہے، اس کو حرام سمجھو، حالانکہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ کے رسول نے حرام کی ہیں، وہ بھی ویسی ہی حرام ہیں، جیسی اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہیں۔

        اور حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں: أَيَحْسَبُ أَحَدُكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِه ِ ْ يَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ أَلا وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ ُ وَأَمَرْتُ و وُعِطْتُ  وَنَهَيْتُ عَنْ أَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَكْثر  (مشکوۃ حدیث نمبر ١٦٤ )  کیا تم میں سے ایک شخص اپنے چھپر کھٹ پر ٹیک لگائے گمان کرتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے بس وہی چیزیں حرام کی ہیں، جو اس قرآن کریم میں حرام ہیں ‌؟ سنو! بخدا! میں نے بھی احکامات دئیے ہیں، اور نصیحتیں کی ہیں، اور بھت سی باتوں سے روکا ہے، بیشک وہ قرآن کریم کے بقدر ہیں، یا اس سے بھی زیادہ۔

       لٰہذا جو صرف قرآن کریم کو حجت مانتا ہے، اور احادیث کے ذریعہ جو احکام دئیے گئے ہیں، ان کا انکار کرتا ہے، وہ گمراہ فرقہ ہے۔

        بھائیو! یہ فرقہ پہلی صدی میں وجود میں آیا ہے، اور آج بھی موجود ہے، پاکستان میں تو بڑی تعداد میں ہے، اور ہندوستان میں بھی ہے، آپ کے علاقہ میں ہے، یا نہیں، مجھے معلوم نہیں، ہمارے دیوبند کے پاس سہارنپور ہے، وہاں یہ فرقہ ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بس قرآن کریم کافی ہے، اور انہوں نے اپنا نام "اہل قرآن " رکھا ہے، یعنی قرآن کریم کے ماننے والے، ارے تم اکیلے اہل قرآن کیوں ہوگئے ‌؟ قرآن کریم تو ساری امت مانتی ہے (‌نام ایسا ہونا چاھئے جو خاص ہو، دوسروں میں وہ بات نہ ہو ) ‌تم اہلِ قرآن نہیں، منکرینِ حدیث ہو، دوسرے نمبر پر آنے والی چیز کا تم انکار کرتے ہو، لٰہذا تمہارا نام منکرِ حدیث ہے، یہ فرقہ آج بھی موجود ہے، اس فرقہ کے سامنے آپ کو حجیتِ حدیث ثابت کرنی پڑے گی، اسی لئے میں نے عنوان میں اضافہ کیا ہے۔
شیعہ سب سے بڑے منکرینِ حدیث ہیں:

      بھائیو! یہاں ایک خاص بات کی طرف، میں  آپ لوگوں کا ذہن متوجہ کروں، شاید اس کی طرف آپ لوگوں کا ذہن متوجہ نہ ہوا ہو، لوگ عام طور پر اہلِ قرآن اور منکرینِ حدیث، اس فرقہ کو کہتے ہیں، جو حدیث کو حجت نہیں مانتے، مگر یہ بات سمجھ لیں کہ سب سے بڑے منکرینِ حدیث شیعہ ہیں، کیوں ‌؟ اس لئے کہ وہ بخاری شریف کو نہیں مانتے، مسلم شریف کو نہیں مانتے، ابوداؤد شریف، ترمذی شریف کو نہیں مانتے، اہل السنہ والجماعہ کی جتنی حدیث کی کتابیں ہیں، ان کو نہیں مانتے، ان کی حدیث کی کتابیں الگ ہیں، اگر وہ اِن حدیث کی کتابوں کو مانتے، تو الگ کتابیں لکھنے کی کیا ضرورت تھی‌؟ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ  کے انتقال کے فورا بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ اور امام بنے، پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ امام بنے، اس طرح بارہ امام بنے، اور ان بارہ اماموں پر وحی آتی تھی، ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ان بارہ اماموں پر جو وحی آتی تھی، ان میں احکام بھی ہوتے تھے، ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ امام کی وحی سے، حضورِ اکرم ﷺ  کی وحی کے احکام منسوخ ہوسکتے ہیں، یہ سب ان کے عقائد ہیں، مگر جس طرح قادیانی، مرزا غلام احمد کو نبی کہتے ہیں، اسی طرح یہ بارہ اماموں کو نبی نہیں کہتے، مگر نبوت کی ساری حقیقت ثابت کرتے ہیں، وحی مانتے ہیں، وحی میں احکام مانتے ہیں، ان کی وحی سے حضورِ اکرم ﷺ  کے احکام منسوخ ہوسکتے ہیں، جیسے ہمارے یہاں حدیث کی کتاب بخاری شریف ہے، ایسے ہی ان کے یہاں یعقوب کلینی کی لکھی ہوئی کتاب "الکافی " چار جلدوں میں ہے، اس میں دس فیصد حضورِ اکرم ﷺ  کی حدیثیں ہیں، باقی نوے فیصد ان کے ائمہ کے اقوال ہیں، ان کے نزدیک ائمہ کے اقوال بھی حدیثیں اور وحی ہیں، انہوں نے ہماری نوے فیصد حدیثیں لی ہی نہیں، لٰہذا یہ شیعہ بھی منکرینِ حدیث ہیں، اسے ذہن میں رکھنا چاھئے، لٰہذا اہلِ قرآن یعنی منکرینِ حدیث کا جو شرعی حکم ہے، وہی شیعوں کا بھی ہے۔

        یہ دو فرقے یعنی منکرینِ حدیث اور شیعہ احادیث کو حجتِ شرعیہ نہیں مانتے، ان دو فرقوں کے علاوہ باقی ساری امتِ مسلمہ، قرآن کریم کے بعد احادیث کو بھی حجتِ شرعیہ مانتی ہے، یعنی جس طرح قرآن کریم سے دین ثابت ہوتا ہے، شریعت کے احکام ثابت ہوتے ہیں، اسی طرح احادیث شریفہ سے بھی دین ثابت ہوتا ہے، اور مسائل و احکامِ شرعیہ ثابت ہوتے ہیں۔

اہلِ حدیث اور انکارِ اجماع:

        پھر اگلا اختلاف شروع ہوا کہ اِن دو کے بعد اور کوئی چیز حجت ہے، یا نہیں ‌؟ بھت پہلے سے ایک فرقہ وجود میں آگیا ہے، اس نے کہا: قرآن کریم اور حدیث کے بعد تیسری کوئی چیز حجت نہیں، انہوں نے اجماعِ امت کا انکار کیا، کہا کہ یہ حجتِ شرعیہ نہیں، انہوں نے اپنا نام انگریز گورنمنٹ سے الاٹ کرایا، انہوں نے اپنا نام "اہلِ حدیث " رکھا، انہوں نے اس نام کے ذریعہ اہلِ قرآن سے امتیاز کیا کہ ہم صرف قرآن کریم کو حجت نہیں مانتے، بلکہ قرآن کریم کے بعد حدیث شریف کو بھی حجت مانتے ہیں۔

        بھائیو! جو فرقہ جہاں اٹک گیا، وہیں رہ گیا، وہ نیچے کی چیزیں نہیں مانے گا، اہلِ قرآن: قرآن کریم پر اٹک گئے، وہ حدیث کو نہیں مانیں گے، اجماع و قیاس کو بھی نہیں مانیں گے، اہلِ حدیث: حدیث پر اٹک گئے، وہ اجماع کو نہیں مانیں گے، قیاس کو بھی نہیں مانیں گے، ان کو کیا نام دیا جائے ‌؟ اس بدنما قامت پر کوئی نام فٹ نہیں آتا، اہلِ قرآن نے جو اپنا نام اہلِ قرآن رکھا ہے، وہ غلط ہے، اس لئے ہم نے ان کا نام منکرینِ حجیتِ حدیث رکھا، جو صحیح ہے۔

        مگر یہ فرقہ عجیب و غریب قسم کا ہے، وہ اپنا جو نام رکھتا ہے، وہ فٹ نہیں آتا، اور ہم نے اسے جو نام دیا ہے، وہ بھی فٹ نہیں آتا، ہم ان کو "غیر مقلدین " کہتے ہیں، حالانکہ وہ ہم سے پکے مقلد ہیں، یہ فرقہ چونکہ قیاس کو نہیں مانتا، اس لئے پہلے ان کا نام "اصحابِ ظواہر " رکھا گیا تھا، مگر وہ یہ نام پسند نہیں کرتے، اصحابِ ظواہر کے معنیٰ ہیں، نص کا سرسری مطلب لینے والے، جب ہمارا دیا ہوا نام ان کو پسند نہ آیا، تو انہوں نے اپنا دوسرا نام انگریز گورنمنٹ سے باقاعدہ درخواست دے کر الاٹ کرایا، اپنے لئے "اہلِ حدیث " نام رجسٹر کرایا، پھر زمانہ بدلا، سعودیہ میں پیڑول نکلا، تو انہوں نے اپنا نام اہلِ حدیث بھی چھوڑ دیا، اور اپنا نام "سلفی " رکھا، غرض کوئی نام اس جماعت پر ٹھیک سے چسپاں نہیں ہوتا۔

        یہ لوگ غیر مقلد اس لئے نہیں کہ وہ ہم سے زیادہ پکے مقلد ہیں، ہم جو چار اماموں کی تقلید کرتے ہیں، تو ضرورت کے وقت ایک دوسرے سے مسائل پوچھتے بھی ہیں، اور ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی فقہ سے اپنی فقہ میں مسائل لیتے بھی ہیں، میں یورپ و امریکہ میں جاتا ہوں، وہاں جنتے شوافع ہیں، وہ سب مجھ سے مسئلہ پوچھتے ہیں، میں ان کو انہیں کے مسلک کے مطابق مسائل بتاتا ہوں، اور ہماری فقہ میں گم شدہ شوہر کے مسائل اور متعنت شوہر کے مسائل حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے "الحیلة الناجزة " میں فقہِ مالکی سے لئے ہیں، مگر اس فرقہ کا کوئی شخص حنفی، مالکی، شافعی اورحنبلی سے مسائل پوچھ ہی نہیں سکتا، ان کا ایک مکتبۂ فکر ہے، جو اہلِ حدیث اور سلفی عالم ہوگا، اسی سے مسئلہ پوچھیں گے، اس دائرہ سے نکلتے ہی نہیں، پس ہم مقلد ہیں، یا وہ ‌؟ لٰہذا غیر مقلد کہنا صحیح نہیں۔

          مقلدین تو ائمۂ حق کی تقلید کرتے ہیں، اور یہ لوگ اپنے ان ائمہ کی تقلید کرتے ہیں جو خود گمراہ ہیں، عربوں نے ان کو ایک نام دیا ہے "لامذہب " یہ غیر مقلدین کا عربی ترجمہ ہے، اور صحیح ہے، لیکن اردو میں ان کو لامذہب کہا جائے تو درست نہیں، آج سے بھت پہلے کسی نے ان کو لامذہب کہا تو وہ سخت ناراض ہوئے، کہنے لگے: ہم مسلمان نہیں ‌؟ پس عربی میں تو ان کو لامذہب کہہ سکتے ہیں، یہ غیر مقلد کا ترجمہ ہے، بعض الفاظ ایسے ہیں کہ عربی میں ان کے ایک معنیٰ ہیں، اردو میں اس کے معنیٰ بدل گئے ہیں، عربی میں مذہب کہتے ہیں مسلک کو، کتابوں میں ہے کذا فی مذھب أبی حنیفة، کذا فی مذھب الشافعی، کذا فی مذھب مالک، یہاں مذہب، مسلک کے معنیٰ میں ہے، مگر اردو میں مذہب، مسلک کے معنیٰ میں نہیں ہے، دین کے معنیٰ میں ہے، تعلیم الاسلام کے شروع میں ہے، سوال: تم کون ہو ‌؟ یعنی مذہب کے لحاظ سے تمہارا کیا نام ہے ‌؟ جواب: مسلمان، پس اردو میں مذہب دین کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے، اس لئے اردو میں لامذہب کہنا صحیح نہیں، عربی میں صحیح ہے۔

اہل السنة و الجماعة:

        اور امت کے سوادِ اعظم نے اپنا نام "اہل السنة و الجماعة " رکھا، کیونکہ قرآن کریم کو تو سبھی مانتے ہیں، ہم قرآن کریم کے بعد سنت کو بھی مانتے ہیں (‌حدیث کو نہیں، اس کی شرح ان شاء اللہ تعالیٰ  ابھی کرونگا، ہم سنت کے ماننے والے ہیں، حدیث کے نہیں ) امت کے سوادِ اعظم نے کہا کہ ہم اہلِ سنت ہیں، اہلِ حدیث نہیں، اور "الجماعة " سے جماعتِ مسلمین مراد ہے، یعنی امتِ مسلمہ کے جو اجماعی فیصلے ہیں، ہم ان کو بھی مانتے ہیں، اس لئے ہم اہل السنة و الجماعة ہیں۔

حدیث اور سنت میں فرق:

       بھائیو! حدیث کیا ہے ‌؟ اور سنت کیا ہے ‌؟ اور دونوں میں فرق کیا ہے ‌؟ یہ بھت اہم مضمون ہے، اور آسان ہے، علمائے کرام سے گذارش ہے کہ اسے اچھی طرح سمجھیں۔

       حدیث چار چیزوں کا نام ہے (‌١) نبی پاک ﷺ  کے ارشادات، جو آپ نے فرمائے{ جب نبی پاک ﷺ  کا نامِ پاک لیا جائے، تو مجمع کو ذرا جہر سے درود پڑھنا چاھئے، اس سے مجمع پرنور بن جاتا ہے } (‌٢) نبی پاک ﷺ  کے افعال: یعنی کئے ہوئے کام (‌٣) نبی پاک ﷺ  کی تقریرات و تائیدات: یعنی آپ ﷺ  کے سامنے کسی مسلمان نے کوئی کام کیا، اور آپ ﷺ  نے اس پر کوئی نکیر نہیں کی، روکا ٹوکا نہیں، تو یہ تقریری حدیث ہے، (٤‌) نبی پاک ﷺ  کے ذاتی اوصاف: یعنی حضورِ اکرم ﷺ  کا چہرۂ مبارک ایسا تھا، بال مبارک ایسے تھے، دانت مبارک ایسے تھے، قدِ مبارک ایسا تھا، چال ایسی تھی، سوتے ایسے تھے، یہ سب اوصاف النبی ﷺ  ہیں، ان چاروں چیزوں کا نام حدیث ہے۔

        اور سنت کا مطلب: فرض اور واجب کے بعد والی سنت نہیں ہے، اہل السنہ کا یہ مطلب نہیں ہے، کہ وہ فرض و واجب کے ساتھ سنت کو کو بھی مانتے ہیں، اس کے بعد مستحبات کو نہیں مانتے، بلکہ سنت کے معنیٰ ہیں الطریقة المسلوکة فی الدین یعنی دینی راہ۔

       پس حدیث اور سنت میں عام خاص من وجہٍ کی نسبت ہے، یہ علماء کے سمجھنے کی بات ہے، اور جہاں عام خاص من وجہٍ کی نسبت ہوتی ہے، وہاں تین مادّے ہوتے ہیں، دو افتراقی اور ایک اجتماعی۔

      پہلا افتراقی مادّہ: وہ حدیثیں (خواہ اقوال ہوں یا افعال ) جو حضورِ اکرم ﷺ  کے ساتھ خاص ہیں، وہ احکام امت کےلئے نہیں ہیں، جیسے صومِ وصال، چار سے زیادہ بیویوں سے نکاح کا جواز وغیرہ، یہ سب حدیثیں ہیں، سنت نہیں ہیں۔

      دوسرا افتراقی مادّہ: اور چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم اجمعین نے ملک و ملت کی تنظیم و ترتیب کےلئے جو کام کئے ہیں، وہ سب سنت ہیں، حدیثیں نہیں ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ٢٠ رکعت تراویح کا نظام بنا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمعہ کی ایک اذان بڑھائی گئی، یہ سنت ہیں، حدیث نہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جاری کی ہوئی سنتیں:


       لوگ سوچتے ہونگے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوئی سنت جاری نہیں کی! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو اتنی سنتیں جاری کی ہیں کہ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے، وہ سنتیں یہ ہیں: جب دو مسلمان فرقے کسی وجہ سے باہم لڑیں تو تین مسئلے پیدا ہونگے، ایک: فریقین کے جو افراد مارے جائیں، وہ جنت میں جائیں گے، یا جھنم میں ‌؟ دوسرا اور تیسرا مسئلہ: جب ایک فریق ہارے، اور دوسرا فریق جیتے، اور ہارنے والے کے قیدی اور مال ہاتھ آئے تو اس کو مالِ غنیمت بناکر فوج میں تقسیم کیا جائےگا، یا نہیں ‌؟ اور جو قیدی پکڑے جائیں، ان کو غلام باندی بنانا جائز ہے یا نہیں ‌؟ یہ تمام مسائل حضرت علی رضی اللہ عنہ نے طے کئے ہیں۔

         حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلمان آپس میں لڑے، پہلے جنگِ جمل ہوئی، اس میں قیدی پکڑے گئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی قیدیوں میں تھیں، اور مالِ غنیمت بھی ہاتھ آیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج نے مطالبہ کیا کہ مالِ غنیمت تقسیم کیا جائے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم میں کون منحوس ہے، جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو باندی بنائے گا ‌؟ مالِ غنیمت تقسیم ہوگا، تو قیدی بھی غلام باندی بنائے جائیں گے، سب خاموش ہوگئے، اور طے ہوگیا کہ نہ مالِ غنیمت تقسیم ہوگا، نہ قیدی غلام باندی بنائے جائیں گے، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوری حفاظت کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ پہنچادیا، دوسرے جو قیدی تھے، ان کو بھی چھوڑدیا، جو شہید ہوئے تھے، ان کا مال ان کے ورثاء تک پہنچایا، اور جو میدان سے بھاگ گئے تھے، ان کا سامان بھی ان کے گھر تک پہنچایا، معلوم ہوا کہ جب مسلمان فرقے آپس میں لڑیں، تو ان کا مال: مالِ غنیمت نہیں ہوگا، اور ان کے قیدی: غلام باندی نہیں بنائے جائیں گے۔

      پھر دوسری جنگ، صفین ہوئی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: لوگ دونوں طرف مررہے ہیں، کون جنت میں جائےگا ‌؟ کون جھنم میں ‌؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: قتلانا و قتلاھم فی الجنة ہمارے جو لوگ مررہے ہیں وہ بھی، اور معاویہ ؓ کی طرف جو لوگ مررہے ہیں وہ بھی جنت میں جائیں گے۔

         دیکھو یہ ایسا مسئلہ ہے، جسے قیامت تک کوئی حل نہیں کرسکتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حل کردیا کیونکہ تمام صحابہ نہ صرف ناجی (نجات پانے والے ‌) ہیں، بلکہ جنت کے اونچے مقامات انہی کےلئے ہیں، یہ بات اہل السنة و الجماعة کے نزدیک طے شدہ ہے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں صحابہ بھی تھے، اور غیر صحابہ بھی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں بھی صحابہ تھے، اور غیر صحابہ بھی، اِدھر جو مارے گئے، وہ سب صحابہ و غیر صحابہ دونوں شہید ہوئے، اُدھر جو مارے گئے، صحابہ و غیر صحابہ دونوں شہید ہوئے، پس صحابہ کا تو جنت میں جانا طے ہے، اِدھر کے صحابہ بھی جنت میں گئے، اُدھر کے صحابہ بھی جنت میں گئے، پھر غیر صحابہ جھنم میں کیسے جائیں گے ‌؟ دخولِ جنت میں تجزّی نہیں، پس مسئلہ طے ہوگیا کہ قتلونا و قتلاھم فی الجنة۔

            میں نے یہ مثال اس لئے دی ہے کہ لوگوں کے ذہن میں آتا ہی نہیں، وہ سوچتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے، اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سنتیں جاری کیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کونسی سنت جاری کی ‌؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہ سنتیں جاری کیں ہیں کہ اگر وہ نہ کرتے، تو قیامت تک وہ مسئلے حل نہ ہوتے، بہرحال خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم اجمعین نے امت کی تنظیم و ترتیب کےلئے جو احکام جاری کئے ہیں، وہ سب سنت ہیں، ان کو حدیث نہیں کہیں گے۔

مادّۂ اجتماعی:

       اور جو حدیثیں معمول بہا ہیں، منسوخ یا خاص نہیں ہیں، وہ سنت بھی ہیں، اور حدیثیں بھی۔

        لٰہذا ہم اہلِ حدیث نہیں ہیں، ہم اہلِ سنت ہیں، وہ حدیثیں جو معمول بہا ہیں، ہم ان کو مانتے ہیں، اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم اجمعین کی سنتوں کو بھی مانتے ہیں، اس لئے ہم اہل السنة ہیں، اگر ہم اپنا نام اہلِ الحدیث رکھیں تو دو نقصان ہونگے، ایک: یہ کہ جو منسوخ حدیثیں ہیں، ان پر بھی عمل کرنا ہوگا، حالانکہ وہ عمل کےلئے نہیں ہیں، دوسرا نقصان: یہ ہوگا کہ ہم خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم اجمعین کی سنتوں کو نہیں لیں گے، حالانکہ حدیث میں ان کی سنتوں کو اپنانے کا حکم ہے، اس لئے ہم اہل الحدیث نہیں ہیں، ہم اہل السنة و الجماعة ہیں۔
ایک اہم بات:

         قیامت کی صبح تک چلینچ ہے، کوئی ایک حدیث ایسی لے آؤ، جس میں حضورِ اکرم ﷺ  نے حدیث کو مضبوط پکڑنے کا حکم دیا ہو، ایک حدیث بھی نہیں ہے، جتنی حدیثیں ہیں، سب میں حضورِ اکرم ﷺ  نے سنت کو مضبوط پکڑنے کا حکم دیا ہے، اور صرف اپنی سنت نہیں، خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم اجمعین کی سنت بھی، ارشاد ہے:  فَعَلَکُم بِسُنتی، وَ سُنَّةِ الخُلفاءِ الرّاشِدِینَ المَھْدِیِّین عَضُّوا عَلیھَا بِالنَّواجِذ، دیکھو عَلَیْکُمْ بِسُنتی کہا عَلَیْکُم بِحَدِیْثی نہیں کہا، اور فرمایا: مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِی عِنْدَ فَسادِ أُمّتي فلَهُ أجرُ مِاْئةِ شَهيدٍ، دیکھو مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنّتِیْ کہا، مَنْ تَمَسَّکَ بِحَدِیْثِی نہیں فرمایا، اور فرمایا: اِنّیْ تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّتی، دیکھو سُنّتِیْ کہا، أحَادِیْثِیْ نہیں فرمایا، احادیث کو یاد کرنے کے فضائل بیشک آئے ہیں، یاد کرکے دوسروں تک پہنچانے کے بھی فضائل آئے ہیں، لیکن احادیث کو مضبوط پکڑنے کا حضورِ اکرم ﷺ  نے حکم نہیں دیا، ذخیرۂ حدیث میں ایک بھی حدیث نہیں ہے، جتنی حدیثیں ہیں، ان سب میں سنت کو مضبوط پکڑنے کا حکم دیا ہے، لٰہذا ہم اہلِ السنة و الجماعة ہیں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سنتیں:

       اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجمع میں طلبہ بھی ہیں، کسی مسئلہ میں ذرا کمی چھوڑی جائے تو سبق کے بعد طلبہ پیچھا کرتے ہیں، سوالات کرنے لگتے ہیں، وہ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت بتائی: تراویح، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سنت بتائی: نمازِ جمعہ کی اذانِ اول، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنتیں بتائیں ، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کونسی سنتیں جاری کیں ‌؟

         حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دو اہم سنتیں ہیں، شاید بعد کے خلفاء وہ اہم سنتیں جاری نہ کرسکتے، ایک سنت یہ ہے کہ اسلام کا کوئی شعار کسی جگہ کے لوگ اجتماعی طور پر ترک کردیں، تو ان سے جنگ کی جائےگی، مثلا اذان اسلام کا شعار ہے، اگر کسی جگہ کے لوگ اجتماعی طور پر اذان دینا چھوڑدیں، تو ان سب سے جنگ کی جائےگی، ختنہ اسلام کا شعار ہے، اگر کسی جگہ کے لوگ اجتماعی طور پر اسے چھوڑدیں، تو ان کے ساتھ بھی جنگ کی جائےگی، زکوٰۃ فرض ہے، حضورِ اکرم ﷺ  کے زمانے میں زکوٰۃ گورنمنٹ (بیت المال‌) وصول کرتی تھی، یہ ایک طریقہ تھا، اور یہ اس وقت کا شعار تھا، حضورِ اکرم ﷺ  کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے کہا: ہم حضور‌ِ اکرم ﷺ  کو زکوٰۃ دیتے تھے، اب ہم ابوبکر ؓ کو نہیں دیں گے، اپنے طور پر خرچ کریں گے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا: اگر حضورِ اکرم ﷺ  کے زمانے میں ایک رسی دیتے تھے، اور اب وہ انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ کرونگا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک کو سمجھ نہیں آیا، کیونکہ چاروں طرف مخالفت کی بادِ سموم چل رہی تھی، ارتداد پھیل رہا تھا، اس لئے معمولی بات پر جنگ کرنا مناسب نہیں تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: حضرت! اس وقت ان سے جنگ نہ کیجئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو طعنہ دیا: أحْبَارٌ فِی الجَاھِلِیْةِ، خَوارٌ فِی الاسْلَامِ، زمانۂ جاہلیت میں تو سورما بنتے تھے، اب بھیگی بلی بن گئے، بہرحال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لشکر روانہ کردیا، اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ مسئلہ طے نہ کرتے، تو بعد کے خلفاء طے نہیں کرسکتے تھے، دیکھنے میں معمولی مسئلہ ہے، لیکن ملت کی تنظیم کے سلسلہ میں نہایت اہم بات ہے، کسی جگہ کے لوگ اذان نہیں دیتے، انہوں نے طے کردیا ہے کہ ہم اذان نہیں دیں گے، کسی جگہ کے لوگ ختنہ نہیں کراتے، تو ان کو ان کے حال پر نہیں چھوڑا جائےگا، کہ چاھیں ختنہ کرائیں، چاھیں نہ کرائیں نماز پڑھتے ہیں ٹھیک ہے، اذان دیں، یا نہ دیں، یہ چھوٹی باتیں ہیں، لیکن تنظیمِ ملت کے تعلق سے چھوٹی باتیں نہیں ہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کے ساتھ لڑنے کےلئے لشکر بھیجا، لڑنے کی نوبت نہیں آئی، لشکر گیا، وہ مان گئے، زکوٰۃ دینے کا انہوں نے اقرار کرلیا۔

           دوسری ایسی ہی اہم سنت: یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے پیچھے آنے والے خلیفہ کو نامزد کردیا، ایک تحریر لکھی کہ میرے بعد حضرت عمر ؓ خلیفہ ہونگے، تحریر کو بند کیا، لفافہ کو چپکادیا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بلایا، کہ مسجد میں لوگوں کو اکٹھا کرو، اور اس لفافہ میں آئندہ خلیفہ کےلئے نام لکھا گیا ہے، اس کےلئے بیعت لو، نام نہیں بتایا، وہ لفافہ کھلے گا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد، چنانچہ سب صحابہ نے بیعت کی، جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا، اور لفافہ کھولا گیا، تو اس میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نام تھا، یہ جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نام زدگی کی ہے، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کا حصہ تھا، دوسرا کوئی نہیں کرسکتا تھا، چنانچہ خلافت کے انعقاد کی جو تین شکلیں ہیں، ان میں ایک نام زدگی بھی ہے، اس کی صریح دلیل قرآن و حدیث میں نہیں ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سنت جاری کی ہے۔

      سوال: یہاں طالبِ علم پھر سوال کرسکتا ہے کہ یہ نام زدگی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کیوں کرسکتے تھے ‌؟ بعد کے خلفاء کیوں نہیں کرسکتے تھے ‌؟ وہ بھی صحابہ تھے، وہ بھی تو خلفاء تھے۔

       جواب: یہ ہے کہ جوں جوں زمانہ آگے بڑھے گا، رعیت میں صحابہ کم ہوتے جائیں گے، غیر صحابہ زیادہ ہونگے، صحابہ سے تو بات منوانا آسان ہے، مگر غیر صحابہ سے بات منوانا آسان نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کی خلافت تو ایسی نہ تھی، اس وقت تو مسلمانوں میں اتحاد تھا، اور آپ کی خلافت میں جھگڑے ہیں، آپ کی خلافت ایسی کیوں ہے ‌؟ آپ ؓ نے فرمایا: ابوبکر و عمر جب خلیفہ تھے، تو رعیت، میں تھا، اور میں جب خلیفہ بنا ہوں، تو رعیت تو ہے، کتنی گہری بات کہی ہے، ابوبکر و عمر جب خلیفہ تھے، تو رعیت علی تھا، علی میں بات ماننے کی صلاحیت اور شان تھی، اور جب میں خلیفہ بنا ہوں، تو رعیت تجھ جیسا ناہنجار ہے، میں کہتا ہوں، تو مانتا نہیں، پس میری خلافت میں جھگڑے نہیں ہونگے تو اور کیا ہوگا ‌؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات تو حضورِ اکرم ﷺ  کی وفات کے دو سال بعد ہوئی ہے، اس وقت نوے فیصد لوگ صحابہ تھے، اس لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا، اور صحابہ نے مان لیا، لیکن بعد کے خلفاء اگر Nomination  کرتے تو پبلک نہ مانتی، غرض حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ دو بڑی سنتیں جاری کیں، یہ ان ہی کا حصہ تھا، بعد کے خلفائے راشدین یہ کام نہ کرسکتے۔

اہل السنة و الجماعة کے نام کا ماخذ:

          میرے بھائیو! یہ جو ہمارا یعنی چار اماموں کے ماننے والوں کا نام "اہل السنة و الجماعة " ہے، یہ نام اس حدیث سے لیا گیا ہے  جس میں نبی پاک ﷺ  نے فرمایا ہے کہ یہود کے اتنے فرقے ہوئے، نصاریٰ کے اتنے ہوئے، اور میری امت کے تہتر فرقے ہونگے، جن میں سے جنت میں ایک جائےگا، باقی سب جھنم میں جائیں گے، پوچھا گیا: یا رسول اللہ! وہ ایک فرقہ جو جنت میں جائےگا، کونسا ہے ‌؟ دیکھو صحابہ نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ بہتر فرقے جو جھنم میں جائیں گے، وہ کونسے ہیں ‌؟ اس سوال کا جواب لمبا ہے، ہر فرقہ کے عقائد تفصیل سے بیان کرنے ہونگے، البتہ وہ ایک فرقہ جو جنت میں جائےگا، اس کے بارے میں پوچھا، تاکہ ہم خود کو اس میں شامل رکھیں، اور اس کا جواب بھی مختصر ہے، حضورِ اکرم ﷺ  نے فرمایا: مَا أنَا عَلَیْہ وَ أصْحَابِیْ، غور کرو! مَا أنَا عَلَیْہ، یعنی وہ راستہ اور طریقہ جس پر میں ہوں، یہ نہیں فرمایا کہ میری حدیثیں، اور فرمایا: وَ أصْحَابِیْ، یعنی وہ راستہ جس پر میرے صحابہ ہیں، جس راستے پر نبی پاک ﷺ  چلے، اس کا نام سنت ہے، اور جس راستے پر صحابہ چلے، اس کا نام اجماع ہے، یہاں سے ہمارا نام لیا گیا ہے۔

           علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشہور کتاب "منہاج السنة " میں اہل السنة و الجماعة کے یہی معنیٰ بیان کئے ہیں، فرمایا: سنت سے مراد حضورِ اکرم ﷺ  کا طریقہ ہے، اور جماعت سے مراد صحابہ کا اجماع ہے، اہل حدیث کے نواب وحیدالزماں صاحب نے بھی اپنی کتاب "نزول الابرار " میں یہی معنیٰ بیان کئے ہیں، کہ سنت سے مراد حضور کا طریقہ، اور جماعة سے مراد اجماعِ امت ہے، غرض ہم قرآن کریم کو بھی مانتے ہیں، اس کے بعد سنت کو بھی مانتے ہیں، اور اجماعِ امت کو بھی مانتے ہیں۔

اصولِ شرع تین ہیں:

       اب ایک اہم مضمون سماعت فرمائیں، اصولِ شرع تین ہیں، کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ اور اجماعِ امت، نور الانوار کے متن منار الانوار میں، اور حسامی میں ہے: اِعْلم أنَّ اُصُوْلَ الشَرْعِ ثَلَاثَةٌ: کِتَابُ اللہ، و سُنَّةُ رَسُوْلِہٖ و اِجْماعُ الاُمَّةِ، پھر آگے ہے: وَ اَصْل الرَابِعِ القِیاسُ المُسْتَنْبِطُ مِنْ ھٰذہ الاُصُوْل الثلاثۃ، چوتھی اصل وہ قیاس ہے، جوان تین بنیادی اصولوں سے مسائل نکالنے والا ہے، دین و شریعت، علمِ کلام اور علمِ فقہ یہ سب جن مصادرِ اصلیہ سے ثابت ہوتے ہیں، وہ تین ہیں، کتاب، سنت اور اجماع امت، اور قیاس اس درجہ کا نہیں ہے، اس لئے قیاس کو الگ کردیا۔

       بزرگو اور بھائیو! ایک مثال سماعت فرمائیں، مہمانوں کی دعوت کےلئے ، تین دیگیں پکائیں، پلاؤ کی، قورمہ کی، اور زردہ کی، گرم گرم دیگیں ہیں، مہمان آکر بیٹھ گئے، دیگوں میں سے پلیٹوں میں کھانا نکالنا ہے، تو کیا ہاتھ ڈال کر نکالوگے‌؟ ہاتھ ڈالیں گے تو جل جائیں گے، کھانا نکالنے کےلئے لمبا چمچا (‌ڈوئی، کف گیر) چاھئے، لمبے چمچے سے ان دیگوں سے کھانا نکالا جائےگا، یہی چمچا قیاس ہے، اور یہ تین دیگیں قرآن و حدیث اور اجماعِ امت ہیں، ان میں کھانا بھرا ہوا تیار رکھا ہے، مگر ہاتھ ڈال کے نہیں نکالا جاسکتا، لمبا چمچا چاھئے، اس کے ذریعہ نکالیں گے، اور مہمانوں کے سامنے رکھیں گے۔

         غرض قیاس ایک آلہ (‌Tool) ہے، اب اگر آپ نے آنکھ کھول کر دیگ کے اندر چمچہ ڈالا تو ٹھیک ہے، اور اگر آنکھ بند کرکے چمچہ ڈالا، اور چمچہ اندر گیا ہی نہیں، نیچے گیا، اور مٹی بھر لایا، تو یہ اَوّلُ مَنْ قَاسَ قَاسَ ابْلِیس ہے، یہ قیاسِ شرعی نہیں، یہ قیاسِ شیطانی ہے، لیکن جو چمچا قرآن کریم کی دیگ میں گیا، اور اندر سے بھر لایا، اس کو ابلیس کا قیاس کیسے کہوگے ‌؟ اگر اس کو ابلیس کا قیاس کہوگے تو العیاذ باللہ! قرآن کریم کو ابلیس کا کلام کہنا پڑے گا، جو چمچہ حدیثوں کی دیگ کے اندر گیا، اور مسئلہ لایا، اس کو آپ شیطانی قیاس کیسے کہیں گے ‌؟ یہی حال اجماع کا ہے، حدیث میں ہے کہ۔ میری امت گمراہی پر اکھٹا نہیں ہوگی، غرض یہ تین دیگیں ہیں، ان میں مسائل بھرے پڑے ہیں، قیاس مُثبِت (‌ثابت کرنے والا) نہیں ہے، بلکہ مُظہھِر (ظاہر کرنے والا‌) ہے۔

اصولِ شرع میں ارتباط:

      بھائیو! اس کے بعد ایک اہم مضمون ہے، جو ایک گھنٹہ کا ہے، مگر مجھے اس کو پانچ منٹ میں بیان کرنا ہے، کیونکہ وقت اب زیادہ نہیں ہے، اس لئے مختصر عرض کرتا ہوں، علماء غور سے سن لیں، پھر ذہن میں اس کو پھیلائیں۔

       یہ جو چار اصول ہیں: قرآن کریم، حدیث، اجماع اور قیاس، ان میں پہلے تین کا درجہ الگ ہے، اور قیاس کا درجہ الگ ہے، مگر یہ چاروں باہم جُڑے ہوئے ہیں، یہ چار، چار نہیں ہیں، ایک ہیں، اس لئے کہ اصل شارع اللہ تعالیٰ ہیں، شارع کے معنیٰ ہیں احکام دینے والا، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو احکام دینے کا حق نہیں پہنچتا، پس یہ چار چیزیں پھیلانے سے چار ہیں، ورنہ حقیقت میں ایک ہیں۔

تمام حدیثیں قرآن کریم کی طرف راجع ہیں:

       حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک وعظ میں ایک حدیث سنائی، کہ رسول اللہ ﷺ  نے واصلہ، مستوصلہ، واشمہ اور مستوشمہ پر لعنت فرمائی ہے، حدیث لمبی ہے، جو عورت اپنے بالوں میں دوسرے انسان کے بال ملواتی، جو عورت یہ پیشہ کرتی ہے، یعنی بالوں میں بال ملاکر لمبے کرتی ہے، دونوں پر لعنت ہے، اسی طرح جو عورتیں بدن گدواتی ہیں، گال وغیرہ پر تل بنواتی ہیں، اور جو یہ پیشہ کرتی ہے، دونوں ملعون ہیں۔

        تقریر کے بعد ایک خاتون نے سوال کیا کہ آپ اپنی تقریر میں ایسی حدیثیں بیان کرتے ہیں، جو ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں نہیں پاتے، اس سے معلوم ہوا کہ ہر حدیث کا کتاب اللہ میں پایا جانا ضروری ہے، یہی میں کہہ رہا ہوں کہ تمام حدیثیں قرآن کریم کی طرف راجع ہیں، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوْ قَرأتِ القُرآن لوَجَدت فِیہ، اگر تو قرآن کریم پڑھی ہوئی ہوتی، تو تجھے یہ باتیں قرآن کریم میں مل جاتیں، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے انکار نہیں کیا کہ ہر حدیث کا قرآن کریم میں ہونا ضروری نہیں، وہ کہنے لگی، میں قرآن کریم کی حافظہ ہوں، عربی میری مادری زبان ہے ، جو قرآن کریم کا حافظ ہو، خواہ مرد ہو، یا عورت، تو وہ سارے قرآن کریم کا مفہوم سمجھ لے گا، قرآن کریم میں یہ بات کہیں نہیں ہے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تونے قرآن کریم میں یہ آیت نہيں پڑھی: {وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا }(سورۂ حشر ایت نمبر ٧ ) جو کچھ رسول تمہیں دیں اسے لے لو، اور جس سے روکیں، اس سے رک جاؤ، کہنے لگی، یہ آیت تو ہے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ جو حضورِ اکرم ﷺ  نے لعنت فرمائی ہے، اس کا تعلق اس آیت سے ہے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حدیث کو قرآن کریم کی طرف لوٹا دیا، کوئی عالم نہیں لوٹا سکتا، یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہی کا مقام تھا، کہ انہوں نے اس حدیث کو اس آیت کی طرف لوٹا دیا۔
 اجماع بھی قرآن و حدیث کی طرف راجع ہے:

           اور علماء یہ بات جانتے ہیں، اور کتابوں میں بھی یہ بات لکھی ہے کہ کوئی اجماع مستند کے بغیر نہیں ہوسکتا، یعنی کوئی بنیاد چاھئے، جس کے ذریعہ اجماع ہو، سوال یہ ہے کہ جب آیت یا حدیث موجود ہے تو اجماع کی کیا ضرورت ہے‌؟ اجماع کی ضرورت اس لئے ہے کہ بعض مرتبہ آیت یا حدیث واضح نہیں ہوتی، اشارہ ہوتا ہے، جب اس پر اجماع ہوجاتا ہے تو وہ قطعی ہوجاتی ہے، جیسے حضورِ اکرم ﷺ  نے اپنے پیچھے خلیفہ متعین نہیں کیا، مگر اپنے مصلّے پر اپنی زندگی میں چودہ دن تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نمازیں پڑھوائیں، جب حضورِ اکرم ﷺ  کا انتقال ہوا، اور سقیفۂ بنی ساعدہ میں میٹنگ ہوئی تو انصار نے کہا: مِنَّا أمِیْرٌ وَ مِنْکُم أمِیرٌ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے بندو! حضورِ اکرم ﷺ  نے اپنی زندگی میں اپنے مصلّے پر امامتِ صغریٰ کےلئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کھڑا کیا، امامتِ کبریٰ ان کا حق نہیں ہے ‌؟ لوگوں کی سمجھ میں بات آگئی، اور مِناَّ أمِیْرٌ وَ مِنْکُم أمِیرٌ والی بات ختم ہوگئی، اور سب نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی، اور یہ اسلام میں پہلا اجماع منعقد ہوا، دیکھو! صرف اشارہ تھا، نماز میں امام و قائم مقام بنانا، اور اس سے خلیفہ اور امیر المؤمنین کا مسئلہ لینا یہ استدلال اور قیاس ہے، حدیث میں اس کی طرف اشارہ ہے، صراحت نہیں ہے، مگر تمام صحابہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو اب اجماعی مسئلہ بن گیا، قطعی مسئلہ بن گیا، اب اگر کوئی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی امامت کا انکار کرتا ہے تو وہ گمراہ ہے۔

         غرض کوئی اجماع مستند کے بغیر نہیں ہوتا، پس سارے اجماع احادیث کی طرف لوٹ گئے، یا قرآن کریم کے کسی اشارہ پر اجماع ہوتا ہے، بہرحال ہر اجماع اُدھر لوٹ جاتا ہے۔

قیاس کا تعلق اصولِ ثلاثہ سے ہے:

         اور میں یہ بتلاچکا ہوں کہ قیاس کے ذریعہ دیگوں سے کھانا یعنی مسائل نکالے جاتے ہیں، اس لئے قیاس بھی ادھر لوٹ گیا، بس چار، چار نہیں رہے، ایک ہوگئے ہیں، انہوں نے قرآن کریم نازل کیا، وہی اصل ہے، اور وہ پھیلتے پھیلتے چار ہوگئے۔

       میرے بھائیو! میں اپنا موضوع پورا کرچکا، میں چاروں کی حجیت ثابت کرچکا، قرآن کریم تو حجت ہے ہی، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اور جب حدیثیں ادھر راجع ہیں تو کیا حدیثیں حجت نہیں ہونگیں ‌؟ اور جب اجماع کسی نص کی بنیاد پر ہوگا، تو کیا اجماع حجت نہیں ہوگا ‌؟ اور قیاس انہیں تین دیگوں سے مسائل کا نکالنا ہے، تو کیا قیاس حجت نہیں ہوگا ‌؟ چاروں کی حجیت ثابت ہوگئی۔

          اب میں نے جو دو آیتیں پڑھی ہیں، ان کا ترجمہ اور مختصر تشریح کرونگا، سورۂ نساء کی آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور وہ شخص جو رسول اللہ ﷺ  کی مخالفت کرتا ہے، اس کے بعد کہ اس کےلئے ہدایت واضح ہوگئی، یعنی قرآن کریم نازل ہوگیا، اور وہ شخص اللہ تعالیٰ پر، اور اللہ تعالٰی کی کتاب پر ایمان لے آیا، وہ رسول پر بھی ایمان لایا ہے، ان ہی کے ذریعہ یہ قرآن کریم اس کو پہنچا ہے، جب رسالتِ محمدی کو اس نے مان لیا، تو اس کو جاننا چاھئے کہ حضورِ اکرم ﷺ  اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے، وہ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں، وہ جو باتیں انسانوں کو بتاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتاتے ہیں، پھر وہ یہ کہے کہ حضورِ اکرم ﷺ  نے احادیث میں جو باتیں بتائی ہیں وہ حجت نہیں، تو حضورِ اکرم ﷺ کو رسول ماننے کا مطلب کیا رہا ‌؟ کوئی اقرار کرے کہ یہ شخص بادشاہ کا بھیجا ہوا ہے، اس نے بادشاہ کا پیغام پہنچایا ہے، مگر وہ اس پیغام کی تشریح نہیں مانتا، تو اس سے کہا جائےگا، اللہ کے بندے! تو بادشاہ کے پیغمبر کو مانتا ہے، اور وہ جو پیغام کی تشریح کر رہا ہے، اس کو نہیں مانتا، جبکہ وہ تشریح بھی بادشاہ ہی کی طرف سے کر رہا ہے، اپنی طرف سے نہیں کر رہا ہے تو یہ کس قدر نامعقول بات ہے ‌؟ اسی طرح قرآن کریم کا جو مطلب اللہ تعالیٰ کا رسول بتاتا ہے،وہ اسے نہیں مانتا، تو ایسا شخص اپنا انجام سوچے۔
 
        اس کے بعد فرمایا: {وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ } یعنی مسلمانوں کا جو راستہ ہے، اسے چھوڑ کر دوسرے راستہ پر چل رہا ہے، اجماعِ امت کی خلاف ورزی کر رہا ہے، ساری امت مجتمع ہوکر جس راستے پر چل رہی ہے، وہ اس کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کئے ہوئے ہے، تو ان دونوں باتوں پر فرمایا: {نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ } وہ جدھر جاتا ہے، ادھر ہم جانے دیں گے، { وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ } آئےگا تو ہمارے پاس، ہم اسے جھنم رسید کریں گے، {وَسَاءَتْ مَصِيرًا} اور دوزخ بھت برا ٹھکانا ہے۔

         اس آیتِ کریمہ سے حدیث کی حجیت بھی ثابت ہوئی، اور اجماعِ امت کی بھی، اور سب سے پہلے اس آیتِ کریمہ سے اجماعِ امت کی حجیت پر سیدنا حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشہور کتاب "الرسالہ " میں استدلال کیا ہے، لٰہذا دو چیزوں کی حجیت قرآن کریم سے ثابت ہوگئی، حدیث کی بھی، اور اجماع کی بھی۔

         اب دوسری آیت سورۂ نحل کی لیجئے، اللہ تعالیٰ نے ایک سوال کے جواب میں یہ آیت نازل فرمائی ہے، مشرکینِ مکہ کہتے تھے کہ اگر اللہ تعالٰی کو انسانوں کی طرف پیغام بھیجنا تھا، تو اللہ تعالیٰ کے یہاں فرشتوں کی کمی نہیں تھی، کسی فرشتے کے ذریعہ پیغام بھیجتے، ایک انسان جو ہماری طرح کھاتا پیتا ہے، بازاروں میں ضرورتیں پوری کرنے کےلئے چلتا پھرتا ہے، اس کو رسول کیوں بنایا ‌؟ سورۂ نحل میں اس کا جواب دیا ہے کہ یہود و نصاریٰ سے پوچھو، گذشتہ زمانوں میں جب بھی رسول آیا، کون آیا ‌؟ ہمیشہ مرد ہی رسول آئے ہیں، انسان ہی رسول بن کر آئے ہیں، عورتیں یا فرشتے کبھی رسول بناکر نہیں بھیجے گئے، حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آج تک اللہ تعالیٰ کی یہی سنت جاری ہے، پس اب تم یہ کیا مطالبہ کر رہے ہو کہ انسان کو کیوں رسول بناکر بھیجا گیا‌؟ فرشتے کو کیوں نہیں بھیجا ‌؟ اللہ تعالیٰ کی سنت فرشتوں کو رسول بناکر بھیجنے کی نہیں ہے۔

          اس کے بعد حکمت بتائی کہ ہم نے انسان کو رسول بناکر کیوں بھیجا ہے ‌؟ بات لمبی ہے، میں تفصیل نہیں کرونگا، غور سے ترجمہ سنیں، فرمایا: { وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ } انسان کو رسول بناکر انسانوں کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام سمجھائے، جس طرح کھیت میں بارش ہوتی ہے، اسی طرح براہ راست اگر اللہ تعالٰی کی طرف سے انسانوں کے پاس قرآن کریم آجاتا تو اس کو سمجھاتا کون ‌؟ اس لئے فرمایا: یہ قرآن لوگوں کی طرف نازل کیا گیا ہے، یہ قرآن لوگوں کی طرف آپ ﷺ  کے ذریعہ بھیجا گیا ہے، آپ ﷺ  کے ذریعہ کیوں بھیجا گیا ہے ‌؟ تاکہ آپ لوگوں کو قرآن کریم پہنچائیں بھی، اور سمجھائیں بھی { لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ} آپ لوگوں کو کھول کر سمجھائیں، اس قرآن کریم کو جو لوگوں کی طرف اتارا گیا ہے۔

          فرشتے کے ذریعہ بھیجا جاتا تو فرشتے کھول کر نہیں سمجھا سکتے تھے، انسان، انسان کے جذبات جانتا ہے، انسان کے حالات جانتا ہے، اس کے حالات سمجھ کر قرآن کریم کی وضاحت کرسکتا ہے، فرشتے ہمارے حالات نہیں جانتے، نہ وہ بھوک جانیں، نہ پیاس، وہ ہمارے لئے روزوں کے مسائل کیا بیان کریں گے ‌؟ اللہ تعالیٰ کے رسول نے قرآن کریم کھول کر سمجھایا ہے، اسی کا نام حدیث ہے، پس قرآن کریم اگر حجت ہے، اور یقینا ہے تو احادیث بھی حجت ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی وضاحت کےلئے رسول کو واسطہ بنایا ہے، پس اس رسول نے قرآن کریم کی جو وضاحتیں کی ہیں، وہ بھی حجت ہیں۔

       اس کے بعد فرمایا: { وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ} اور تاکہ وہ سوچیں، نبی پاک ﷺ  قرآن کریم کے احکام کھول کر سمجھائیں گے، لیکن قیامت تک کے تمام احوال کھول کر نہیں سمجھائیں گے، وقت سے پہلے ساری تفصیلات بیان کردی جائیں تو اسے کون سمجھے گا ‌؟ اور ان کو کیسے محفوظ کریں گے ‌؟ حضورِ اکرم ﷺ  کے زمانے کی جو ضرورتیں تھیں، وہ حضورِ اکرم ﷺ  نے کھول کر سمجھائیں، اور صحابہ نے سنیں، اور سمجھیں، پھر صحابہ کے دور میں جو ضرورتیں پیش آئیں، ان ضرورتوں کے احکام صحابہ نے قرآن و حدیث میں غور و فکر کرکے نکالے، لیکن صحابہ اپنے زمانے کے حالات کے احکام نکالیں گے، اسی طرح ہر زمانہ کی ضرورتیں: اس زمانہ کے فقہاء قرآن و حدیث میں غور و فکر کرکے پوری کریں گے، آج پندرہویں صدی ہے، اس صدی میں جو مسائل پیش آرہے ہیں، مثلا: کلونک کا کیا حکم ہے ‌؟ ٹیوب بے بی کا کیا حکم ہے ‌؟ چاند پر آدمی گیا تو راستہ میں نماز کس طرح پڑھے گا ‌؟ یہ سارے مسائل آج کا مفتی بیان کرے گا، کہاں سے بیان کرے گا ‌؟ اسی قرآن و حدیث اور صحابہ کے اقوال اور فقہ میں غور و فکر کرکے بیان کرے گا، اسی کا نام قیاس ہے، پس آیت کے اس آخری حصہ سے قیاس کی حجیت بھی ثابت ہوئی۔

      اور قیاس کے بغیر چارہ ہی نہیں، غیر مقلدین ہم سے زیادہ قیاس کرتے ہیں، باب القیاس پڑھتے نہیں، بغیر پڑھے قیاس کرتے ہیں، آنکھ بند کرکے، مٹھی بھر کر مٹی لے آتے ہیں، ان کی فقہ کی کتابوں کو دیکھو، عجیب استنباطات ملیں گے، اللہ تعالیٰ انکو اور دیگر گمراہ فرقوں کو راہِ راست کی طرف لوٹنے کی توفیق عطا فرمائیں، اور آخرت کے  انجامِ بد سے بچائیں، موضوع کی تفصیل کی ضرورت تھی، مگر وقت کی کمی مانع ہے، اسی لئے اسی پر بس کرتا ہوں۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا أنِ الحَمْدُ للہِ رَبّ العَالَمین
مکمل تحریر >>