Monday, 28 March 2016

سورۂ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا

!!! سورۂ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا!!!

مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ،شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقل : عادل سعیدی پالن پوری

             
لوگوں میں ایک غلطی چل رہی ہے، اس کی اصلاح ہونی چاھئے، جب بھی سورۂ فاتحہ پڑھی جائے، ختم پر سب کو آمین کہنا چاھئے، ابھی میں نے سورۂ فاتحہ پڑھی، کسی نے آمین نہیں کہا، یہ ایک عام غلطی ہے، اس کی اصلاح ہونی چاھئے، جیسے کبھی حفظ کے بچوں کا قرآن کریم ختم ہوتا ہے، وہ اپنا قرآن کریم ختم کرکے الحمد شریف پڑھتا ہے، پھر سورۂ بقرہ سے شروع کا کچھ حصہ پڑھتا ہے، جب وہ الحمد شریف ختم کرتا ہے، تو کوئی آمین نہیں کہتا، پڑھنے والا بچہ بھی نہیں کہتا، ہاں کبھی کہتا ہے، جب کہ اس کو سکھایا گیا ہو؛ لیکن مجمع میں سے کوئی نہیں کہتا؛ کیونکہ ان کو بتایا نہیں گیا، پس جاننا چاھئے کہ جب بھی سورۂ فاتحہ پڑھی جائے، اس کے ختم پر پڑھنے والے کو بھی، اور سننے والوں کو بھی آمین پڑھنی چاھئے۔

خطیب کی شہادت کے ساتھ شہادت دینا:

             
ایسی ہی ایک غلطی اور ہے، جب میں نے خطبہ پڑھا، اور کہا أشھد أن لا الہ اِلا اللہ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، پس میں نے تو گواہی دی، مگر آپ حضرات خاموش بیٹھے رہے، آپ حضرات نے یہ گواہی نہیں دی، یہ ٹھیک نہیں، اذان میں سب گواہی دیتے ہیں، جب مؤذن پکارتا ہے: أشھد أن لا الہ الا اللہ، تو سننے والے کہتے ہیں: أشھد أن لا الہ الا اللہ، مگر دوسرے مواقع میں کوئی نہیں کہتا؛ حالانکہ دوسرے مواقع پر بھی کہنا چاھئے، اور جواب دینے کے دو طریقے ہیں: مفصل اور مختصر، پورا جملہ لوٹانا مفصل جواب ہے، اور صرف وَ أنَا: اور میں بھی( گواہی دیتا ہوں ) یہ مختصر جواب ہے، اور یہ بھی کافی ہے۔

             
بہرحال مقرر کی شہادت کے ساتھ ہر شخص کو شہادت دینی چاھئے، پھر ایک شہادت لمبی ہے، اور ایک مختصر، جس کا جی چاھے، لمبا جواب دے، اور جس کا جی چاہے، مختصر جواب دے، جمعہ کے دن خطیب کے سامنے اذان ہوتی ہے، نبی پاک منبر پر تشریف فرما ہوتے تھے، جب اذان ہوتی، اور مؤذن کہتا: أشھد أن لا الہ الا اللہ، تو آپ جواب دیتے: وَ أنَا، اور میں بھی( گواہی دیتا ہوں ) یہ مختصر جواب ہے، اگر اس طرح گواہی دی جائے، تو کافی ہے۔

ہر مجلس کے ختم پر کفارة المجلس پڑھنا:

                 
ایسی ہی ایک غلطی اور ہے، حدیث شریف میں ایک دعا آئی ہے، جس کا نام کفارة المجلس ہے، مجلس میں جو بھی لغو اور بےہودہ باتیں ہیں، اگر مجلس کے ختم پر یہ دعا پڑھ لی جائے، تو سب خطائیں معاف ہوجاتی ہیں، مگر وہ دعا ایک جگہ کےلئے خاص ہوکر رہ گئی ہے، جب فضائل کی کتاب پڑھتے ہیں، تو اہلِ مجلس کفارة المجلس پڑھتے ہیں، یہ ٹھیک کرتے ہیں، حالانکہ اس مجلس میں کوئی لغو اور بےہودہ بات نہیں ہوئی، اور جہاں پڑھنی چاھئے، وہاں نہیں پڑھتے، اس دعا کی اصل جگہ وہ مجلس ہے، جس میں لغو باتیں ہوئی ہوں، اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئی ہوں، ایسی مجلس کے ختم پر ہر ایک کو یہ دعا پڑھنی چاھئے: سُبْحَانک اللّٰھُمَ وَ بِحَمْدِکَ، أشْھَدُ أنْ لَّا اِلَہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَ أتُوْبُ اِلیْکَ: ائے اللہ! آپ کی ذات پاک ہے، اور آپ ہر کمال کے ساتھ متصف ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں آپ سے گناہوں کی معافی چاھتا ہوں، اور توبہ کرتا ہوں، یہ کفارة المجلس ہے، ہر شخص کو ختمِ مجلس پر یہ ذکر کرنا چاھئے، اس سے لغو باتیں معاف ہوجاتی ہیں۔

سراً آمین کہنا افضل ہے:

               
اور یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ سورۂ فاتحہ کے ختم پر جو آمین کہی جاتی ہے، وہ سراً کہنا افضل ہے، اگر زور سے کہی، تو جائز ہے؛ لیکن آہستہ کہنا افضل ہے، اور سب جگہ افضل ہے، جہاں بھی آمین کہیں، آہستہ کہیں، امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ  کے نزدیک جس طرح نماز میں سورۂ فاتحہ کے ختم پر آہستہ آمین کہنا افضل ہے، اسی طرح ہر جگہ آہستہ کہنا افضل ہے۔

             
مگر اس میں بھی لوگ غلطی کرتے ہیں، کبھی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھی جاتی ہے، خاص طور سے فجر میں، اس وقت آپ دیکھیں گے، کہ حنفی بھی زور سے آمین کہتے ہیں، جب قنوتِ نازلہ میں زور سے آمین کہتے ہو، تو سورۂ فاتحہ کے آخر میں زور سے آمین کیوں نہیں کہتے؟ آمین ہمیشہ سراً کہنا افضل ہے، آمین دعا ہے، اور دعا میں سر( آہستگی ) افضل ہے۔

             
اسی طرح جب مجمع میں دعا مانگی جاتی ہے، تو پورا مجمع آمین کہتا ہے، تبلیغی جماعت کے جلسہ میں آخر میں دعا ہوتی ہے، تو لوگ اتنی زور سے آمین کہتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، یہ بھی صحیح نہیں، آمین آہستہ کہنا افضل ہے، اور ہرجگہ آہستہ کہنا بہتر ہے۔

سر اور جہر کی حد:

               
نماز میں قرأت کی دو صورتیں ہیں، سرّی اور جہری، سرّی قرأت کی کم سے کم مقدار تصحیح حروف ہے، یعنی زبان حرکت کرے، مخارج پر لگے، اور حرف ادا ہو، مگر آواز پیدا نہ ہو، اور زیادہ سے زیادہ کی تعریف ہے: اِسماع نسفہ، یعنی خود اپنا پڑھنا سنے، اور جہری قرأت کی تعریف ہے: اِسماع غَیرہٖ، غیر کو سنانا، یعنی دوسرا سنے، دائیں طرف والا سنے، بائیں طرف والا سنے، یہ جہری قرأت کا ادنٰی درجہ ہے، اس سے نیچے کوئی درجہ نہیں، جہری نمازوں میں اگر اس سے کم جہر کیا، تو سجدۂ سہو واجب ہوگا، کیونکہ وہ جہر( زور سے پڑھنا ‌) نہیں، اور جہر کی زیادہ کی کوئی حد نہیں؛ بلکہ اِنَّ أنْکَرَ الأصْوَاتِ لَصَوْتُ الحَمِیْرَ، بےشک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہے، اس لئے بےضرورت جہرِ مفرط ٹھیک نہیں۔

               
پس بعض لوگ نماز پڑھتے ہیں، اور ان کے ہونٹ ساکن ہوتے ہیں، اس طرح پڑھنے سے، یعنی دل میں پڑھنے سے نماز نہیں ہوتی، کیونکہ ہونٹ نہیں ہل رہے، اس کا مطلب ہے زبان نہیں ہل رہی، زبان ہلے گی، تو لامحالہ ہونٹ بھی ہلیں گے، اور داڑھی اگر شرعی ہو تو وہ بھی ہلے گی۔

             
اور بعض لوگ تکبیرات اور رکوع و سجود کے اذکار اتنی زور سے کہتے ہیں، کہ دائیں بائیں والے سنتے ہیں، اور ان کی نمازوں میں خلل پڑتا ہے، یہ بھی غلط طریقہ ہے، یہ اذکار سراً سنت ہیں، اس لئے ان کو اتنا زور سے نہیں کہنا چاھئے، کہ دائیں بائیں والے سنیں۔

داڑھی میں دو واجب الگ الگ ہیں:

             
ابھی ابھی شرعی داڑھی کا تذکرہ آیا، اس موضوع پر بھی چند باتیں سن لو، داڑھی رکھنا واجب ہے، اور ایک مشت رکھنا واجب ہے، یہ دو الگ الگ واجب ہیں، ایک شخص بالکل داڑھی نہیں رکھتا، وہ دونوں واجب کا تارک ہے، اور ایک شخص خشخشی داڑھی رکھتا ہے، اس نے ایک واجب پر عمل کیا، کہ داڑھی رکھی، اور دوسرا واجب چھوڑ دیا اس نے، اس لئے کہ ایک مشت داڑھی رکھنا بھی واجب ہے، اور ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹ لینا سنت ہے، داڑھی میں سنت ایک مٹھی ہے: اس کا یہی مطلب ہے، غیر مقلدین کا عمل سنت کے خلاف ہے، وہ داڑھی جہاں تک جائے، چھوڑے رہتے ہیں، ایک مشت سے زائد کاٹتے نہیں، ان کا یہ عمل سنتِ نبوی کے خلاف ہے۔

ہر مسئلہ قرآن کریم میں ہونا ضروی نہیں:

               
ایک صاحب پوچھ رہے ہیں: حدیث شریف میں تو داڑھی کا ذکر ہے، مگر کیا قرآن کریم میں بھی داڑھی کا ذکر ہے؟

               
جواب: ہر مسئلہ کا قرآن کریم میں ہونا ضروری نہیں، فجر کی دو رکعتیں ہیں، بتاؤ! قرآن کریم میں کہاں ہے؟ ظہر، عصر اور عشاء کی چار چار رکعتیں ہیں، دکھاؤ! قرآن کریم میں کہاں ہیں؟ مغرب کی تین رکعتیں ہیں، قرآن کریم میں کہاں ہے؟ قرآن کریم میں تو بس اتنا ہے، کہ نماز کی پابندی کرو، اس کا اہتمام کرو، اور پانچ وقت کی نماز پڑھو، باقی تفصیل حدیثوں میں ہے، نماز میں کیا فرائض ہیں؟ کیا واجبات ہیں؟ کیا سنن و مستحبات اور آداب ہیں؟ کن چیزوں سے نماز فاسد ہوتی ہے؟ اور کونسی باتیں نماز کو مکروہ کرتی ہیں؟ یہ سب تفصیلات حدیثوں میں ہیں، ہر مسئلہ کا قرآن کریم میں ہونا ضروری نہیں، شریعت کے اصول تین ہیں، قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع، اور دین کا مدار تینوں پر ہے، اگر ان میں سے کسی بھی ایک سے مسئلہ ثابت ہوجائے، تو کافی ہے، ہر مسئلہ کی دلیل قرآن کریم سے مانگنا صحیح نہیں ہے۔

داڑھی کا ذکر قرآن کریم میں:

                 
اور داڑھی کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پر گئے، تو پیچھے بنی اسرائیل گمراہ ہوگئے، انہوں نے گوسالہ پرستی شروع کردی، حضرت ہارون علیہ السلام نے ان کو اس حرکت سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی، مگر قوم باز نہیں آئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور سے لوٹے، اور اپنی قوم کو گمراہی میں پایا، تو اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی سرزنش کی، انہوں نے خیال کیا کہ ہارون نے قوم کا خیال نہیں رکھا، اس لئے وہ گمراہ ہوئی، اور حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی پکڑ کر کھینچی، اس موقع پر حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا: لَا تَأخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَأسِیْ، بھائی جان! میری داڑھی اور سر کے بال پکڑ کر نہ کھینچیں، میں نے ایک مصلحت سے خاموشی اختیار کی، معلوم ہوا کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی اتنی لمبی تھی، کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو پکڑ کر کھینچا، ظاہر ہے خشخشی داڑھی پکڑ کر کھینچی نہیں جاسکتی، پس قرآن کریم میں داڑھی کا ذکر ہے، اور لمبی داڑھی کا ذکر ہے، حضرت ہارون علیہ السلام کی لمبی داڑھی تھی۔

شرعی داڑھی کیا ہے:

                 
بعض لوگ فیشن والی داڑھی رکھتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کر رہے ہیں، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہیں کر رہے ہیں، وہ فیشن پر فریفتہ ہیں، شرعی داڑھی کیا ہے؟ حضور اکرم کے داڑھی کتنی تھی؟ حدیث شریف میں ہے، ایک مرتبہ طالبِ علموں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ظہر اور عصر کی نماز میں قرأت ہے؟ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں، قرأت ہے، طالبِ علموں نے پوچھا: آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ان نمازوں میں قرأت ہے؟ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ نمازیں جب حضور اکرم   پڑھاتے تھے، تو آپ کی داڑھی ہلتی تھی، اس سے ہم نے سمجھا کہ آپ قرأت کر رہے ہیں، آپ تجربہ کرکے دیکھیں، کونسی داڑھی ہلتی ہے؟ وہی داڑھی ہلے گی، جو شرعی ہے، فیشن والی داڑھی نہیں ہلے گی، مگر بالکل داڑھی نہ ہونے سے یہ فیشن والی داڑھی بھی اچھی ہے، لیکن یہ شرعی داڑھی نہیں، جب رکھنی ہے، تو شریعت کا تقاضا پورا کرو، ایک بندہ وہ ہے، جو رکھتا ہی نہیں، اللہ تعالیٰ نے توفیق نہیں دی، لیکن ایک بندہ وہ ہے، جو داڑھی رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق دی ہے، پس اسے چاہئے کہ ڈھنگ سے رکھے، جب اس نے ہمت کرکے رکھ لی ہے، تو اتنی ہمت اور کرلے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن

0 comments: