Tuesday 27 September 2016

منتخب و متفرق اشعار : قسط نمبر ۷

🌹بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 🌹

!!! منتخب اور متفرق اشعار!!!

انتخاب کنندہ: عادل سعیدی دیوبندی

قسط نمبر: سات
..................................................

1
بُوئے گُل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزمِ تو برخاست، پریشاں برخاست
منظوم ترجمہ
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
..................................................
2
گرفتم آں کہ بہشتم دہند بے طاعت
قبول کردن و رفتن نہ شرط انصاف ست

میں نے مان لیا کہ مجھے بہشت بغیر عمل کے ہی مل جائے گی لیکن اسے قبول کرنا اور اس میں اسطرح جانا انصاف کے خلاف ہے۔
..................................................
3
گر از بسیطِ زمیں عقل منعدم گردد
بخود گماں نبرد ہیچ کس کہ نادانم

اگر روئے زمین سے عقل معدوم بھی ہو جائے تو پھر بھی کوئی شخص اپنے بارے میں یہ خیال نہیں کرے گا کہ میں نادان ہوں
..................................................
4
در کعبہ اگر دل سوئے غیرست ترا
طاعت ہمہ فسق و کعبہ دیرست ترا

ور دل بہ خدا و ساکنِ میکده ‌ای
مے نوش کہ عاقبت بخیرست ترا

کعبہ میں اگر تیرا دل غیر کی طرف ہے، (تو پھر) تیری ساری طاعت بھی فسق ہے اور کعبہ بھی تیرے لیے بتخانہ ہے۔ اور (اگر) تیرا دل خدا کی طرف ہے اور تو (چاہے) میکدے میں رہتا ہے تو (بے فکر) مے نوش کر کہ (پھر) تیری عاقبت بخیر ہے
..................................................
5
مےِ دیرینہ و معشوقِ جواں چیزے نیست
پیشِ صاحب نَظَراں حور و جَناں چیزے نیست

پرانی شراب اور جوان معشوق کوئی چیز نہیں ہے، صاحبِ نظر کے آگے حور اور جنت کوئی چیز نہیں ہے
..................................................
6
مُطرب از دردِ مَحبّت غزلے می پرداخت
کہ حکیمانِ جہاں را مژہ خوں پالا بود

مطرب محبت کے درد سے ایسی غزل گا رہا تھا کہ دنیا کے حکیموں (عقل مندوں) کی پلکیں خون سے آلودہ تھیں
........................................
7
جاں بہ جاناں کی رسد، جاناں کُجا و جاں کُجا
ذرّه است ایں، آفتاب است، ایں کجا و آں کجا

(اپنی) جان، جاناں پر کیا واروں کہ جاناں کہاں اور (میری) جان کہاں۔ یہ (جان) ذرہ ہے، (وہ جاناں) آفتاب ہے، یہ کہاں اور وہ کہاں
..................................................
8
خواہی کہ ترا دولتِ ابرار رسَد
مپسند کہ از تو بہ کس آزار رسَد

از مرگ مَیَندیش و غمِ رزق مَخور
کایں ھر دو بہ وقتِ خویش ناچار رسَد

اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے نیک لوگوں کی دولت مل جائے (تو پھر) نہ پسند کر کہ تجھ سے کسی کو آزار پہنچے، موت کی فکر نہ کر اور رزق کا غم مت کھا، کیوں کہ یہ دونوں اپنے اپنے وقت پر چار و ناچار (لازماً) پہنچ کر رہیں گے۔
..................................................
9
بحرفِ ناملائم زحمتِ دل ہا مشو بیدل!
کہ ہر جا جنسِ سنگی ہست، باشد دشمنِ مینا

بیدل! تلخ الفاظ (ناروا گفتگو) سے دلوں کو تکلیف مت دے، کہ جہاں کہیں بھی کوئی پتھر ہوتا ہے وہ شیشے کا دشمن ہی ہوتا ہے۔
..................................................
10
واللہ کہ شہر بے تو مرا حبس می شوَد
آوارگی و کوہ و بیابانم آرزوست

واللہ کہ تیرے بغیر شہر میرے لئے حبس (زنداں) بن گیا ہے، (اب) مجھے آوارگی اور دشت و بیابانوں کی آرزو ہے
..................................................
11
بہ لبم رسیدہ جانم تو بیا کہ زندہ مانم
پس ازاں کہ من نمانم بہ چہ کار خواہی آمد

میری جان ہونٹوں پر آ گئی ہے، تُو آ کہ میں زندہ رہوں، جب میں نہیں ہونگا تو اسکے بعد تیرا آنا کس کام کا۔
..................................................
12
قبولِ خاطرِ معشوق شرطِ دیدار است
بحکمِ شوق تماشا مکن کہ بے ادبی است

دوست جس حد تک پسند کرے اسی حد تک نظارہ کرنا چاہیئے، اپنے شوق کے موافق نہ دیکھ کہ یہ بے ادبی ہے۔
..................................................
13
بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مَجو
در سینہ ہائے مردمِ عارف مزارِ ما

وفات کے بعد میری قبر زمین میں تلاش مت کرنا، کہ عارف لوگوں کہ سینوں میں میرا مزار ہے
..................................................
14
چہ خوش است از دو یکدل سرِ حرف باز کردن
سخنِ گذشتہ گفتن، گلہ را دراز کردن

کیا ہی اچھا (ہوتا) ہے دو گہرے دوستوں کا (آپس میں) گفتگو کا آغاز کرنا، بیتی باتیں کرنا اور گلوں کو دراز کرنا۔
..................................................
15
من نگویم کہ مرا از قفَس آزاد کُنید
قفسم بردہ بہ باغی و دلم شاد کنید

میں نہیں کہتا کہ مجھے قفس سے آزاد کر دو، (بلکہ) میرا پنجرہ کسی باغ میں لے جاؤ اور میرا دل شاد کر دو۔
..................................................
16
خموش حافظ و از جورِ یار نالہ مکُن
ترا کہ گفت کہ بر روئے خوب حیراں باش

حافظ خاموش رہ اور یار کے ظلم سے نالاں نہ ہو، تجھ سے کس نے کہا تھا کہ خوبصورت چہرے پر عاشق ہو جا۔
..................................................
17
عشق می خوانم و می گریم زار
طفلِ نادانم و اول سبق است

عشق کا سبق لیتا ہوں اور زار زار رو رہا ہوں جیسے نادان بچے کا پہلا سبق ہوتا ہے
..................................................
18
ناخدا در کشتیٔ ما گر نباشد گو مباش
ما خدا داریم، ما را ناخدا درکار نیست

اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کوئی ڈر اور فکر نہیں کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔
..................................................
19
حافظ! از بادِ خزاں در چمنِ دہر مرنج
فکرِ معقول بفرما، گلِ بے خار کجاست

حافظ! زمانے کے چمن میں خزاں کی ہوا سے رنج نہ کر، صحیح بات سوچ، بغیر کانٹے کے پھول کہاں ہے؟
..................................................
20
تو اے پروانہ، ایں گرمی ز شمعِ محفلے داری
چو من در آتشِ خود سوز اگر سوزِ دلے داری

اے پروانے تُو نے یہ گرمی محفل کی شمع سے حاصل کی ہے، میری طرح اپنی ہی آگ میں جل (کر دیکھ) اگر دل کا سوز رکھتا ہے۔
..................................................
21
بیک آمدن ربودی دل و دین و جانِ خسرو
چہ شود اگر بدینساں دو سہ بار خواہی آمد

تیرے ایک بار آنے نے خسرو کے دل و دین و جان سب چھین لیے ہیں، کیا ہوگا اگر تو اسی طرح دو تین بار آئے گا۔
..................................................
22
شب ہمی دانم کو آمد و بس
بیش ازین خویشتم یاد نبود
منظوم ترجمہ
رات کو یاد ہے وہ آئے تھے
اور کچھ اس کے سوا یاد نہ تھا
..................................................
23
تا قیامت شکر گویم کردگارِ خویش را
آہ گر من باز بینم روٕے یارِ خویش را

میں قیامت تک خدا کا شکر ادا کرتا
اگر میں اپنے محبوب کے چہرہ کا دیدار کر سکتا
..................................................
24
قوی شدیم، چہ شُد؟ ناتواں شدیم، چہ شُد؟
چنیں شدیم، چہ شد؟ یا چناں شدیم، چہ شد؟

بہیچ گونہ دریں گلستاں قرارے نیست
تو گر بہار شدی، ما خزاں شدیم، چہ شُد؟

تُو اگر طاقت ور ہے تو کیا ہوا؟ میں اگر کمزور ہوں تو کیا ہوا؟ اِسطرح ہوا تو کیا ہوا اور اگر اُسطرح ہوا تو کیا ہوا؟

اس گلستان (کائنات) میں کسی بھی چیز کو قرار نہیں ہے، (آج) تو اگر بہار ہے اور میں خزاں ہوں تو پھر کیا ہوا؟
..................................................
25
اے دوائے نخوت و ناموسِ ما
اے تو افلاطون و جالینوسِ ما

(تو جو کہ) ہماری نفرت اور ناموس (حاصل کرنے کی ہوس) کی دوا ہے، تو جو ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے۔
..................................................
26
اگر عشقِ بُتاں کفر است بیدل!
کسے جز کافر ایمانی ندارد

بیدل! اگر عشقِ بتاں کفر ہے تو کافر کے سوا کوئی ایمان نہیں رکھتا۔
..................................................
27
سرکشی با ہر کہ کردی رام او باید شدن
شعلہ ساں از ہر کجا برخاستی آنجانشیں

تُو نے جس کے ساتھ سرکشی کی ہے پھر اس کی اطاعت کر لے، شعلے کی طرح جس جگہ سے اٹھا تھا اُسی جگہ پر بیٹھ جا۔
..................................................
28
نیست در خشک و ترِ بیشۂ من کوتاہی
چوبِ ہر نخل کہ منبر نشَوَد دار کنم

نہیں ہے میرے جنگل ( خدا کی دنیا) میں کوئی بھی خشک و تر چیز بیکار، جس درخت کی لکڑی سے منبر نہیں بن سکتا میں اس سے سولی بنا لیتا ہوں
..................................................
29
حافظ اگر سجدہ تو کرد مکن عیب
کافرِ عشق اے صنم گناہ ندارد

حافظ نے اگر تجھے سجدہ کیا تو کوئی عیب نہیں کہ اے صنم عشق کے کافر پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
..................................................
30
کسے را کہ شیطاں بَوَد پیشوا
کجا باز گردد براہِ خدا

جس کا راہ نُما شیطان ہو، وہ کب خدا کی راہ پر واپس آتا ہے
..................................................
31
گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را

کبھی کبھی یہ پرانے قصے پھر سے پڑھ لیا کر، اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں
..................................................
32
شورے شُد و از خوابِ عدم چشم کشودیم
دیدیم کہ باقیست شبِ فتنہ، غنودیم

ایک شور بپا ہوا اور ہم نے خوابِ عدم سے آنکھ کھولی، دیکھا کہ شبِ فتنہ ابھی باقی ہے تو ہم پھر سو گئے
..................................................
33
من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری

میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے
................................................
34
نہ شیخِ شہر، نہ شاعر، نہ خرقہ پوش اقبال
فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد

اقبال نہ شیخِ شہر ہے، نہ شاعر اور نہ ہی خرقہ پوش (صوفی) ہے۔ وہ تو راہ نشیں فقیر ہے اور دل غنی رکھتا ہے
..................................................
35
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من

میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا، کیا ہی اچھا ہو اگر اسکی زبان میرے منہ میں ہو۔
........................................
36
عرفی! تو میندیش زغوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند ، رزقِ گدارا

عرفی! رقیبوں کے شور و غوغا کا اندیشہ (غم) نہ کر ( کیونکہ) کتوں کی آواز (کتوں کا بھونکنا) گدا (فقیر) کے رزق میں‌ کمی نہیں کر سکتی
..................................................
37
ہر دو عالم قیمتِ خود گفتہ ای
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز

تُو نے اپنی قیمت دونوں جہان بتائی ہے، نرخ زیادہ کرو کہ ابھی بھی یہ کم ہے
..................................................
38
رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد

میں نے پاؤں سے کانٹا نکالنا چاہا (اور اتنے میں) محمل نظر سے پوشیدہ ہو گیا، میں ایک لمحہ غافل ہوا اور راہ سے سو سال دور ہو گیا
..................................................
39
برگِ درختانِ سبز پیش خداوند ہوش
ہر ورقے دفتریست معرفتِ کردگار

صاحبِ عقل و دانش کے سامنے سبز درختوں کا ایک ایک پتا کردگار کی معرفت کے لیے ایک بڑی کتاب ہے۔
..................................................
40
چہ لازم با خرد ہم خانہ بودن
دو روزے می تواں دیوانہ بودن

کیا ضروری ہے کہ ہر وقت عقل کے ساتھ ہی رہا جائے (عقل کی بات ہی سنی جائے)، دو روز دیوانہ بن کر بھی رہنا چاہیئے
..................................................
41
حسنِ تو دیر نپاید چو ز خسرو رفتی
گل بسے دیر نماند چو شد از خار جدا

تیرا حسن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جب تو خسرو کے پاس سے چلا گیا کہ جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا
..................................................
42
چہ وَصفَت کُنَد سعدیِ ناتمام
علیکَ الصلوٰۃ اے نبیّ السلام

سعدی ناتمام و حقیر آپ ﷺ  کا کیا وصف بیان کرے، اے نبی ﷺ  آپ پر صلوۃ و سلام ہو
..................................................
43
مرا گویند عاقل گرد و ترک عشق کن سلمان
من آن کس را که عاشق نیست خود عاقل نمی‌دانم

مجھ سے لوگ کہتے ہیں کہ اے سلمان! عاقل بنو، اور عشق کو ترک کر دو؛ جبکہ میں اُس شخص کو عاقل ہی نہیں مانتا جو عاشق نہ ہو
........................................
44
بہ قمار خانہ رفتم، ہمہ پاک باز دیدم
چو بصومعہ رسیدم، ہمہ یافتم دغائی

جو میں قمار خانے میں گیا تو سبھی پاکباز یعنی ایماندار لوگ نظر آئے اور جو میں عبادت گاہوں میں پہنچا تو سب کو دغا باز و ریاکار پایا
........................................
45
فقیہِ مدرسہ فتویٰ ہمی دہد در شہر
کہ خونِ خلق حلالست و آبِ بادہ حرام

مدرسہ کا فقیہ، شہر میں یہی فتویٰ دیتا پھرتا ہے کہ خلق کا خون حلال ہے اور شراب کا پانی حرام۔
..................................................
46
گواہ اینکہ نہ رند و نہ زاہدیم بس است
پیالہٴ تہی و سبحہٴ گسستہٴ ما

ہم نہ رند ہیں اور نہ ہی زاہد، اور اس (دعوے) پر گواہی یہی ہے کہ ہمارا جام خالی ہے اور تسبیح ٹوٹی ہوئی ہے
..................................................
47
سینہٴ گرم نداری مَطَلب صُحبتِ عشق
آتشے نیست چو در مجمرہ ات، عود مَخَر

تیرے سینے میں حدت ہی نہیں ہے، صحبت عشق طلب نہ کر۔ جب تیرے آتشدان میں آگ ہی نہیں ہے تو پھر عود مت خرید ۔
............................................
48
ہلاکِ خنجرِ آں قاتلم کہ خونِ مرا
چناں بریخت کہ یک قطرہ بر زمیں نہ چکید

میں ایسے قاتل کے خنجر کا ہلاک شدہ ہوں کہ جب میرا خون بہایا گیا تو ایک قطرہ بھی زمین پر نہ ٹپکا
..................................................
49
گفتم کہ مرگِ ناگہاں؟ گفتا کہ دردِ ہجرِ من
گفتم علاجِ زندگی؟ گفتا کہ دیدارِ منست

میں نے کہا مرگ ناگہانی کیا ہے، کہا میرے ہجر کا درد۔ میں نے کہا علاجِ زندگی کیا ہے، کہا کہ میرا دیدار
..................................................
50
عشق آں شعلہ است کو چوں بر فروخت
ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت

عشق وہ شعلہ ہے جب وہ روشن ہوگیا۔ جو کچھ معشوق کے علاوہ ہے، سب جل گیا
..................................................

0 comments: