Tuesday 27 September 2016

منتخب و متفرق اشعار: قسط نمبر ۴

🌹بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 🌹

!!! منتخب اور متفرق اشعار!!!

انتخاب کنندہ: عادل سعیدی دیوبندی

قسط نمبر: چار
........................................

1
مِرے لب سی مگر کل سامنے دُنیا کے، اے ظالم !
بَعُنوانِ سِتم یہ داستاں آئی تو کیا ہوگا
2
میرے سنگ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد
3
کچھ احتیاط کی تو، تِری احتیاط کو !
ترکِ تعلقات سمجھنے لگے ہیں لوگ
4
وے صورتیں الہیٰ کِس ملک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
5
مجھ کو گلے لگائیں گے یارانِ ذی وقار
جب میں پلٹ کے کوچۂ رسوا سے آؤں گا
6
اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے جیسے کہ ہُوا کچھ بھی نہیں
7
میں تو اِس واسطے چُپ ہُوں کہ، تماشہ نہ بنے
تُو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گِلہ کچھ بھی نہیں
8
اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے
9
مِٹ جائے گی مخلوق، تو اِنصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشراُٹھا کیوں نہیں دیتے
10
کتنی طویل ہوتی ہے اِنساں کی زندگی !
سمجھا ہُوں آج میں شبِ فرقت گزار کے
11
غیر ہی موردِ عِنایت ہے !
ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں
12
ایک بس تو ہی نہیں مجھ سے خفا ہو بیٹھا
میں نے جو سنگ تراشا وہ خدا ہو بیٹھا
13
شبِ ہجر کی تلخِیاں کچُھ نہ پُوچھو
نہیں داستاں یہ، سُنانے کے قابل
14
دِل کی بستی پُرانی دِلّی ہے
جو بھی گزُرا ہے اُس نے لوُٹا ہے
15
صاحبِ توقیر سودا کو نہ ہرگز سمجهیو
ایک وہ رُسوا خرابِ کوُچہ و بازار ہے
16
ہوتا ہے رازِ عِشق و محبّت اِنہیں سے فاش
آنکھیں زباں نہیں ہیں، مگر بے زباں نہیں
17
مِرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لئے
تُو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خُدا کے لئے
18
اُن سے ملتے تھے تو سب کہتے تھے کیوں مِلتے ہو
اب یہی لوگ نہ مِلنے کا سبب پُوچھتے ہیں
19
اے تصوّر کیوں بُتوں کو جمع کرتا ہے یہاں !
دل مِرا کعبہ ہے، کچھ بُت خانۂ آزر نہیں
20
کِس ہستیِ موہوم پہ نازاں ہے تُو اے یار !
کچھ اپنے شب و روز کی، ہے تجھ کوخبربھی
21
اِس عِشق، نہ اُس عِشق پہ نادِم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اِس دل میں، بجُز داغِ ندامت
22
تِرا غرور مِرا عجز تا کُجا ظالم
ہرایک بات کی آخر کچھ اِنتہا بھی ہے
23
کِس کِس کا نام لاؤں زباں پر کہ تیرے ساتھ
ہر روز ایک شخص نیا دیکھتا ہُوں میں
24
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
25
کیا جانے کس ادا سے لِیا توُ نے میرا نام
دنیا سمجھ رہی ہے کہ سب کچھ ترا ہوں میں
26
دیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہے
کبھی اس شخص کو ہم پیار کیا کرتے تھے
27
عزم مُحکم ہو تو منزل کوئی مشکل ہی نہیں
راستہ کتنا ہی دُشوار ہو، کٹ جاتا ہے
28
سرکہیں، بال کہیں، ہاتھ کہیں، پاﺅں کہیں !
ان کا سونا بھی ہے کِس شان کا سونا دیکھو
29
نِگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبیِ قِسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
30
مِرے خُدا تِرے مراسم اُن سے کِس طرح کے ہیں
وہ لوگ جو خُدا بنے ہوئے ہیں زیرِ آسماں
31
خِرد کا نام جنُوں پڑ گیا، جنُوں کا خِرد
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے
32
لوگ یوں بچ کے گُذر جاتے ہیں
جیسے گرتی ہوئی دیوار ہوں میں
33
ادب کی بات ہے، ورنہ مُنیر سوچو تو !
جو شخص سُنتا ہے وہ بول بھی تو سکتا ہے
34
میں بولتا ہُوں، تو اِلزام ہے بغاوت کا !
جو چُپ رہُوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے
35
اُنھیں راستوں نے جن پر کبھی تم تھے ساتھ میرے
مُجھے روک روک پُوچھا، تِرا ہمسفر کہاں ہے
36
میرے کمرے کو سجانے کی تمنّا ہے تمھیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سِوا کچھ بھی نہیں
37
تُجھ سے کِس طرح میں اِظہارِ تمنّا کرتا
لفظ سُوجھا، تو معانی نے بغاوت کردی
38
وعدہ خلاف آ کے مِلے گا بھی تُو کبھی
کب تک، سُنا کریں تِری ہر بار آج کل
39
میں تو سمجھا تھا، کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تُو نے تو جا کہ جُدائی مِری قسمت کردی
40
راہ میں ٹوکا تو جھنجلا کر بولے
دور ہو کمبخت یہ بازار ہے
41
ہم نے اوّل سے پڑھی ہے یہ کتاب آخر تک !
ہم سے پُوچھے کوئی ہوتی ہے محبّت کیسی
42
تو بھی اے ناصح کسی پر جان دے
ہاتھ لا اُستاد کیوں کیسی کہی !
43
مِری یہ فطرتِ معصومِ عشق، ارے توبہ !
کِسی نے جو بھی کہا، کرلِیا یقین میں نے
44
حُسن کامِل ہے تِرا، اور بھی کامِل ہو جائے
میری گُستاخ نِگاہی بھی جو شامل ہو جائے
45
انا مدِ مقابل ہو تو ہم پسپا نہیں ہوتے
محبت رو برو ہو تو سب کچھ ہار جاتے ہیں
46
بنا بلائے آ جاتا ہے کوئ سوال ہی نہیں کرتا
یہ تیرا خیال میرا خیال ہی نہیں کرتا
47
میرا سوال سُن کے جو خاموش ہو رہے
میں خوش ہُوا کہ وصْل کا اِقرار ہو چُکا
48
کرنا ہے آج حضرتِ ناصح سے سامنا
مِل جائے دو گھڑی کو تمھاری نظر مُجھے
49
ناصح، نصیحتوں کا زمانہ گُزر گیا
اب پیارے صرف تیری دُعا چاہیئے مجھے
50
جوآج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہونگے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
51
ایسے پڑھنے سے تو اچھا تھا کہ جاہل رہتا
نہ حیا تجھ میں ہے باقی، نہ مروّت واعظ
52
عجب چال چلتے ہیں دیوانگانِ عشق
آنکھ بند کرتے ہیں دیدار کے لیے
53
بُتوں کے عِشق میں کیونکر پھنسا اب یہ خدا جانے
بظاہر تو ہمارا دل، بڑا پکّا مُسلماں تھا
54
شام ہی سے گوش بر آواز ہے بزمِ سُخن
کچھ فراق اپنی کہو، کچھ زمانے کی کہو
55
جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے تِرے
ہم کہاں تک، تِرے پہلو سے سرکتے جاویں
56
پتہ پتہ ، بُوٹا بُوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
57
اب ایسے میں بھی کہیں نیک و بد کو دیکھتے ہیں
فراق جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، تمہارا ہے
58
اپنی محفِل سے اُٹھاتے ہیں عبَث ہم کو حضُور
چُپ کے بیٹھے ہیں الگ، آپ کا کیا لیتے ہیں
59
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
مِرا پیغام محبّت ہے جہاں تک پہنچے
60
اگر وہی تھا تو رُخ پہ وہ بے رُخی کیا تھی
ذرا سے ہجر میں یہ اِنقلاب کیوں آیا
61
افلاس نے بچوں کو بھی تہذیب سکھا دی
سہمے ہوئے بیٹھے ہیں شرارت نہیں کرتے
62
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے، اور بے آواز ہے
63
اغیار کی کوشش تھی کہ ویراں نظر آئے
دیوانے بڑھاتے ہی رہے دار کی سج دھج
64
اب اِس میں دین جائے، کہ ایمان و جان و دل
کرنا ہے مُجھ کو رام وہ کافر کِسی طرح
65
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی سے کسی کو مگر جدا نہ کرے
66
دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے،
ائے موت! تونے مجھ کو زمیندار کردیا
67
جو اہل نہ ہوں ،وہ مانگتے ہیں منصب
منصب کے جو اہل ہوں ،وہ کتراتے ہیں
68
چلو اچھا ہوا، کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
69
دو دِن کی جو باقی ہے، تحمّل سے بسر کر !
جو ہونا ہے، ہو جائےگا سوچا نہیں کرتے
70
ندامت کے چراغوں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں
71
کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
72
محبت میں ذرا سی بےوفائی تو ضروری ہے
وہی اچھا بھی لگتا ہے جو وعدے توڑ دیتا ہے
73
جسے نہ میری اُداسی کا کچھ خیال آیا
میں اس کے حُسن پہ اِک روز خاک ڈال آیا
74
قمر ذرا بھی نہیں تم کو خوفِ رُسوائی
چلے ہو چاندنی شب میں اُنہیں بُلانے کو
75
ہے منصفی کا تماشا عجب کہ عادل نے
رکھی ہے عدل کی زنجیر میرے ہاتھ سے دور
76
پتھر لیے ہر موڑ پہ کچھ لوگ کھڑے ہیں
اس شہر میں کتنے ہیں مرے چاہنے والے
77
سرکار کی سجدے میں گزر جاتی تھیں راتیں
اُمت کو مگر سجدے کی فرصت نہیں ملتی
78
کروں گا کیا جو محبّت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
79
وه هم سے ملتے نہ ملتے یہ انکی مرضی تهی
همارا کام یہی تها کہ جستجو کرتے
80
سرزرد اگر نہ ہوتی انسان سے خطائیں
بن جاتے سب ملائک کوئی بشر نہ ہوتا
81
کرتے ہیں اس طریق سے طے ہم رہِ سلوک
سر اس کے آستاں پہ، قدم رہگزر میں ہے
82
رقص مے تیز کرو،ساز کی لے تیز کرو
سوئے میخانہ سفیران حرم آتے ہیں
83
ہر دم جو خونِ تازہ مری چشمِ تر میں ہے
ناسور دل میں ہے کہ الٰہی جگر میں ہے
84
صیّاد سے سوال رہائی کا کیا کروں
اُڑنے کا حوصلہ ہی نہیں بال و پر میں ہے
85
ہو دردِ عشق ایک جگہ تو دوا کروں
دل میں، جگر میں، سینے میں، پہلو میں، سر میں ہے
86
ساقی مئے طہور میں کیفیّتیں سہی
پر وہ مزا کہاں ہے جو تیری نظر میں ہے
87
امیرِ شہر تیری طرح قیمتی پوشاک
مری گلی میں بھکاری پہن کے آتے ہیں
88
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
89
یہی عقیق تھے شاہوں کے تاج کی زینت
جو انگلیوں میں بھکاری پہن کے آتے ہیں
90
ہمارے جسم کے داغوں پہ تبصرہ کرنے
قمیص لوگ ہماری  پہن   کے   آتے ہیں
91
عبادتوں کا تقدس انہی کے دم سے ہے
جو مسجدوں میں سفاری پہن کے آتے ہیں
92
صبح تک نکل رہا تھا میرے ہونٹوں سے خون
رات اس قدر چوما تھا تیری تصویر کو میں نے
93
غضب ہے ان کا  ہنس کر نظریں  جھکا لینا
پوچھو  تو کہتے هے کچھ نہیں بس یوں ہی
94
یارویہ سناٹاتو توڑو،گیت نہیں توچیخ سہی
رلوانا قانون یہاں کا، رولینا معمول یہاں
95
دیکھو تو ہر ایک موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو تو کوئ شہر میں قاتل نہ ملے گا
96
تیری رسوائیوں کے ڈر سے فقط خاموش بیٹھے ہیں
اگر لکھنے پہ آ جائیں، قلم سے سر قلم کر دیں
97
مقامِ فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
98
تیری پاکیزہ نگاہوں میں فتور آجائے گا
آئینہ مت دیکھ تجھ میں بھی غرور آجائے گا
99
بُرا نہ مان ،مرے حرف زہر زہر سہی
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے
100
سلیقہ اور ادب اٹھ گیا اب قوم سے میری
میری اس قوم کو پھر سے اردو کی ضرورت هے

101
نہ تِرے حُسن کی خوشبو، نہ تِرے عِشق کا رنگ
یُوں تو گزُرے مِری نظروں سے ہزاروں گُل رُو
102
آواز دی گھبرا کے بہاروں نے خزاں کو
دیکھی نہ گئی جب مِرے دلدار کی سج دھج
103
مُدّت سے تھی دُعا، کہ ہوں بدنام شہر شہر
بارے ہُوئی قبول بہت التجا کے بعد
104
اب بھاگتے ہیں سایۂ عشقِ بُتاں سے ہم
کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے، کچھ آسماں سے ہم
105
تعزیزِ جرمِ عِشق ہے بے صرفہ محتسب !
بڑھتا ہے اور ذوقِ گُنِہ یاں سزا کے بعد
106
ہر سمت شہر میں ہے فقط قاتلوں کا راج
حاکم بھی ڈرکے دینے لگا ہے انہیں خراج
107
کوشش یہی ہے اُس کی، رہے اُسکا تحت و تاج
لفظی تسلیوں کے سِوا کیا بچا ہے آج
108
پیری میں ولولے وہ کہاں ہیں شباب کے
اِک دُھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
109
اے ساکنانِ کوئے ملامت مدد کرو
قلاش ہو گیا ہُوں میں دامن کو جھاڑ کے
110
حاکمِ شہر کو دن رات جھنجوڑا ہم نے
خوش کلامی کا قرینہ نہیں چھوڑا ہم نے
111
کیا قیامت ہے منیر اب یاد بھی آتے نہیں
وہ پُرانے آشنا، جن سے ہمیں اُلفت بھی تھی
112
دیوانہ بیخودی میں بڑی بات کہہ گیا
اِک حشر کی گھڑی کو ملاقات کہہ گیا
113
بہت ہی کم نظر آیا مجھے اخلاص لوگوں میں
یہ دولت بٹ گئی شاید، بہت ہی خاص لوگوں میں
114
چند معصوم سے پتوں کا لہو ہے شاکر
جسکو محبوب کے ہاتھوں کی حنا کہتے ہیں
115
خوش لباسی ہے بڑی چیز مگر کیا کیجیے
کام اس پل ہے ترے جسم کی عُریانی سے
116
پیاس کہتی ہے ک اب ریت نچوڑی جائے
اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا
117
جاو کہہ دو نثار جاکے اُسے
ہم سا اِک مہرباں تلاش کرے
118
سُنا ہے دِن کو اُسے تِتلیاں ستاتی ہیں
سُنا ہے رات کو جُگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
119
عزتِ نفس جس سے زخمی ہو
دھوپ بہتر ہے ایسی چھاؤں سے
120
وہ اب لاکھوں دلوں‌سے کھیلتا ہے
مجھے پہچان لے اتنا بہت ہے
121
شکوۂ آبلہ ابھی سے میر!
ہے پیارے ہنوز دلی دُور
122
حُسن کو احتیاط لازم ہے
ہر نظر پارسا نہیں ہوتی
123
کوشش کے باوجود بھلائے نہ جائیں گے
ہم پر جو دوستوں نے کیے ہیں کرم یہاں
124
جانتا ہُوں ایک ایسے شخص کو میں بھی مُنیر
غم سے پتھر ہو گیا ، لیکن کبھی رویا نہیں
125
کچھ فسانوں میں حقیقت کی جھلک ہوتی ہے
کچھ حقیقت سے بنا لیتے ہیں افسانے بھی
126
پلٹی جو راستہ ہی سے، اے آہِ نامُراد !
یہ تو بتا ، کہ بابِ اثر کِتنا دُور تھا
127
چشمِ ساقی کی عنایات پہ پابندی ہے
اِن دِنوں وقت پہ ، حالات پہ پابندی ہے
128
دِل شِکن ہو کے چلے آئے تِری محفل سے
تیری محفل میں تو ہر بات پہ پابندی ہے
129
بکھری بکھری ہُوئی زُلفوں کے فسانے چھیڑو
مے کشو! عہدِ خرابات پہ پابندی ہے
130
آگ سینوں میں لگی ساغر و مینا چھلکے
کوئی کہتا تھا کہ برسات پہ پابندی ہے
131
یاد ہے آج تک مجھے پہلے پہل کی رسم و راہ
کچھ اُنہیں اجتناب سا، کچھ مجھے احتمال سا
132
دِل پہ مِرے گرائی تھیں تم نے ہی بجلیاں، مگر
آؤ نظر کے سامنے، مجھ کو ہے احتمال سا
133
جتنے بند تھے اِک اِک کر کے سارے ٹوُٹ بہے
اب کے ایسا برسا پانی ، ڈوُب چلی برسات
134
یہ بھی درست کہ اُس کو بُھلانا اپنے بس کی بات نہیں
لیکن یاد کریں گے اُس کی کون کون سی بات
135
رہتا سُخن سے ، نام قیامت تلک اے ذوق !
اولاد سے رہے یہی ، دو پشت ،چار پشت
136
اُس گُلبدن کے لُطفِ رفاقت کا تھا اثر !
وہ بن گئے تھے پھول جو کانٹے تھے راہ میں
137
یہ لوگ مردہ پرستی کے فن میں ماہر ہیں
یہ مجھ کو روئیں گے کل ، آج ان کو رولوں میں
138
ہے مہوشوں کے حق میں زمانہ بہت خراب
رکھّے خُدا حضُور کو اپنی پناہ میں
139
قلب ، ادراک ، دماغ اور حواس !
مجھ سے منسُوب ہیں تجھ سے ملغُوب
140
حجاب اُٹھا زمیں سے آسماں تک چاندنی چھٹکی !
گہن میں چاند تھا، جب تک چھپے بیٹھے تھے چلمن میں
141
دلِ مجبُور بھی کیا شے ہے کہ ، در سے اپنے
اُس نے سو بار اُٹھایا تو میں سو بار گیا
142
وہ جب یہ کہتے ہیں، تجھ سے خطا ضرُور ہُوئی
میں بے قصُور بھی کہہ دُوں کہ ہاں حضُور ہُوئی
143
آو ناصرؔ !ہم بھی اپنے گھر چلیں
بند اُس گھر کے دریچے ہو گئے
144
دِکھادے باغ میں گُل رُو ، رگِ گُل کو کمر اپنی
کہ نازک اِس کو کہتے ہیں، نزاکت ایسی ہوتی ہے
145
تُو جو کرتا ہے ملامت ، دیکھ کر میرا یہ حال !
کیا کروں میں، تُو نے اُس کو ناصحا دیکھا نہیں
146
تابکے دیدِ حَسِیناں ؟ تابکے وارفتگِی ؟
آنکھ میں جب تک نظر ہے، سر میں جب تک ہوش ہے
147
یُوں تو، بہت ہیں اور بھی خُوبانِ دِل فریب !
پرجیسے پُرفن آپ ہیں، کم ایسے شخص ہیں
148
دِل خراشی و جگر چاکی و سینہ کاوی
اپنے ناخن میں ہیں سب ، اور ہنر مت پُوچھو
149
فُرقت میں تو مرنا بھی گوارا نہیں مجھ کو
تم سامنے آجاؤ تو، آجائے قضا بھی
150
زیست میری عذاب کربیٹھے
گھر، وہ مجھ سے حجاب کربیٹھے
151
ہر چند ، مجھ سے بے سبب آزردہ ہے، مگر
ڈرتا ہُوں میں ، منانے سے ، آزردہ تر نہ ہو
152
بات تو دل شکن ہے  پر یارو
عقل سچی تھی، عشق جھوٹا تھا
153
سب کی نظروں میں ہو ساقی یہ ضروری ہے مگر
سب پہ ساقی کی نظر ہو ، یہ ضروری تو نہیں
154
اس کا انجام بھی کچھ سوچ لیا ہے حسرت
تو نے ربط ان سے جو اس درجہ بڑھا رکھا ہے
155
کردِیا چُپ واقعاتِ دہر نے
تھی کبھی ہم میں بھی ، گویائی بہت
156
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
157
ہم نہ کہتے تھے ، کہ حالی چُپ رہو
راست گوئی میں ہے رُسوائی بہت
158
اپنی اپنی ضرورتیں ہیں میاں !
ورنہ احسان کون کرتا ہے
159
کبھی ہم سے یُوں بھی خطاب ہو ، نہ آپ ہو، نہ جناب ہو
کوئی نام لے کے پُکار لو ، کہ ہمارا نام کوئی تو ہو
160
کِس کام کی بَھلا وہ دِکھاوے کی زندگی
وعدے کیے کسی سے ، گُزاری کِسی کے ساتھ
161
اَوروں پہ بے وفائی کا اِلزام کیا دھریں
اپنی ہی نبھ سکی نہ بہت دن کِسی کے ساتھ
162
میں اُس مکان میں رہتا ہُوں اور زندہ ہُوں
وسیم ! جس میں ہَوا کا گُزر نہیں ہوتا
163
دِلوں میں گردِ کدورت ، لبوں پہ خاموشی
بڑے فساد کا ساماں سکوتِ شہر میں تھا
164
غنیمت ہے جہانِ عاشقی میں ذات دونوں کی
کہ نامِ جور قائم تم سے ہے رسمِ وفا مجھ سے
165
ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے
ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا
166
کِتنے دِنوں میں آئی تھی اُس کی شبِ وصال
باہم رہی لڑائی ، سو وہ رات بھی گئی
167
شروعِ عشق میں گستاخ تھے، اب ہیں خوشامد کو
سلیقہ بات کرنے کا ! نہ جب آیا، نہ اب آیا
168
اشارہ تو مدد کا کررہا تھا ڈوبنے والا
مگر یارانِ ساحل نے سلامِ الوداع سمجھا
169
میری ہربات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
170
اتنے مانوس صیّاد سے ہو گئے،
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
171
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
172
آپ سے ایسی بے وفائی ہو
یہ یقیں آپ پر نہیں آتا
173
کہتے ہيں تُم کو ہوش نہيں اِضطراب ميں
سارے گِلے تمام ہُوئے اِک جواب ميں
174
میر جنگل پڑے ہیں آج جہاں
لوگ کیا کیا یہیں تھے کل بستے
175
اِک نِگہ کر کے اُن نے مول لِیا
بک گئے، آہ ہم بھی کیا سستے
176
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
177
سُنے جاتے نہ تھے تم سے مِرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
178
کہتے ہیں جس کو حُور، وہ اِنساں تمہیں تو ہو
جاتی ہے جس پہ جان ، مِری جاں تمہیں تو ہو
179
جب جان پیاری تھی تب دشمن ہزار تھے
اب مرنے کا شوق ہے تو قاتل نہیں ملتا
180
رحم کر میرے حال پر واعظ !
کہ اُمنگیں بھی ہیں ، شباب بھی ہے
181
نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جا نتا ہوں کہ تم نہ آؤگے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے
182
مرے عزیزو! میرے رفیقو! چلو کوئی داستان چھیڑو
غم زمانہ کی بات چھوڑو یہ غم تو اب سازگار سا ہے
183
کبھی تو آؤ ! کبھی تو بیٹھو! کبھی تو دیکھو! کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے
184
جس طرح سے تهوڑی سی ترے ساتھ کٹی ہے
باقی بهی اسی طرح گزر جائے تو اچھا
185
یہ زلف بر دوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے
186
ویسے تو تمہی نے مجهے برباد کیا ہے
الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا
187
بھلا آنچل ہی کیا کم تھا رخ زیبا چھپانے کو 
کہ زلفوں کی سیاہ دیوار بھی لا کر کھڑی کر دی
188
مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے وہ ہیں محو آرائش
ادھر ہونٹوں کی لالی ہے ادھر جانوں کے لالے ہیں
189
ایک کتا دوسرے کتے سے یہ کہنے لگا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
190
‏سر پہ آ گرتا ہے تکمیل محبت کا پہاڑ
ورنہ اظہار تمنا تو کوئی مشکل نہ تھا
191
‏رخصت کے دن بھیگی آنکھوں اس کا وہ کہنا ہائے قتیل
تم کو لوٹ ہی جانا تھا تو اس نگری کیوں آئے تھے
192
‏اُڑنے لگے وجود کے ذرے ہوا کے ساتھ
میں اِس قدر خلوص سے بکھرا کبھی نہ تھا
193
دیکھا ہمیں تو برف بھی لَو دے اُٹھی قتیلؔ
کس نسل کی یہ آگ ہماری رگوں میں ہے
194
‏نکل ہی آتی ہے کوئی نہ کوئی گنجائش
کسی کا پیار کبھی آخری نہیں ہوتا!
195
‏جو بھی آتا ہے، بتاتا ہے، نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے تیرا بیمار مسیحاؤں میں
196
‏ایسا نہیں کہ غم نے بڑھا لی ہو اپنی عمر
موسم خوشی کا وقت سے پہلے گزر گیا
197
دل میں ہے قتیل اُنکی رسوائی کا ڈر ورنہ
میں جب بھی غزل کہتا وہ جانِ غزل ھوتے
198
یہ ہے میکدہ یہاں رند ہيں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شيخ جی ،یہاں پارسائی حرام ہے
199
برہم ہوا تھا میری کسی بات پر کوئی
وہ حادثہ ہی وجہِ شناسائی بن گیا
200
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو
یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے
201
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اس پہ کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے

0 comments: