!!! تلک عشرة کاملة!!!
مقرر : حضرت اقدس مولانا
مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ،شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم
دیوبند
ناقل : عادل سعیدی پالن پوری
❶ بےروزگاری کے وظیفہ کا حکم:
سوال: حکومت کی طرف سے بےروزگاروں کو جو وظیفہ ملتا ہے، اس کا لینا کیسا ہے؟
جواب: بےروزگاری کا وظیفہ( ویلفیر ) لینے کی دو صورتیں ہیں: ایک: مستحق کا لینا، یعنی واقعی بےروزگار ہے، تو لے سکتا ہے، اور اس رقم کو ہر مصرف میں خرچ کرسکتا ہے، دوسری: غیر مستحق کا لینا، یعنی جو برسرِ روزگار ہے، ویلفیر کا مستحق نہیں؛ مگر اپنا ذریعۂ معاش چھپاکر، اور جھوٹ بولکر وظیفہ لیتا ہے، تو یہ حکومت کے خزانے پر ایک طرح سے ڈاکہ ڈالنا ہے، اور اس کا حکم واضح ہے۔
❷ حکومت بوڑھوں کو جو وظیفہ دیتی ہے، اس کا لینا جائز ہے؟
سوال: یہاں ( برطانیہ میں ) ساٹھ سال کے بعد حکومت بوڑھوں کو وظیفہ دیتی ہے، تو کیا اس رقم کو حج، یا عمرہ میں استعمال کرسکتے ہیں؟ اور مسجد کے چندہ میں دے سکتے ہیں؟
جواب: حج بھی کرسکتے ہیں، عمرہ بھی کرسکتے ہیں، اور مسجد کے چندے میں بھی دے سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ یہ ایک قانون ہے، کہ جو ساٹھ سال کا ہوجائے گا ، اسے وظیفہ دیا جائےگا ، پس اس قانون سے جو وظیفہ ملتا ہے، اسے لیکر استعمال کرسکتے ہیں۔
اور اگر کسی کے ذہن میں شبہ ہو کہ حکومت کا مال، معلوم نہیں کن ذرائع سے حاصل ہوتا ہے؟ ہوسکتا ہے وہ ناجائز ذرائع سے حاصل ہوا ہو، ایسا مال ہمارے پاس آتا ہے، اس لئے اس کو حج، یا عمرہ میں، یا مسجد میں دینا کیسے مناسب ہوگا؟
اگر یہ شبہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ملکیت بدلنے سے حکم بدل جاتا ہے، مثلاﹰ ٹیکَس کی رقم گورنمنٹ نے لوگوں پر ظلم کرکے لی، یا جرمانہ کرکے لی، تو گورنمنٹ مالک ہوگئی، پھر وہ بوڑھے کو دیتی ہے، تو ملکیت بدل گئی، اور ملکیت بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔
دلیل: حدیث شریف میں ہے: حضور اکرم ﷺ گھر میں تشریف لائے، اور کچھ کھانے کو مانگا، چنانچہ روٹی اور سرکہ پیش کیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا: گوشت پکنے کی خوشبو آرہی ہے، کیا ہمارا اس میں کوئی حصہ نہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ گوشت کسی نے بریرہؓ کو صدقہ دیا ہے( حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا ایک باندی تھیں، ان کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خرید کر آزاد کیا تھا، وہ آزاد ہونے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں رہتی تھیں، اور ان سے پڑھتی تھیں، ان کو کسی نے خیرات دی تھی، وہ گوشت پک رہا تھا، اور حضور اکرم ﷺ کےلئے صدقہ حلال نہیں تھا ) آپ ﷺ نے فرمایا: لَھَا صَدَقَةٌ، وَ لَنَا ھَدِیَّةٌ: بریرہ کےلئے وہ گوشت صدقہ ہے، اور جب بریرہ ہمیں دیگی ، تو وہ ہمارے لئے ہدیہ ہوگا، یعنی اب ہمارے لئے اس کا استعمال کرنا جائز ہوگا، یہاں سے مسئلہ سمجھ میں آیا، کہ ملکیت بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔
دوسری مثال: زکوٰۃ دینے والے نے غریب کو زکوٰۃ دی، جب تک وہ رقم زکوٰۃ دینے والے کے پاس تھی، زکوٰۃ تھی، پھر جب وہ غریب کو دیدی، اور اس کی ملکیت میں چلی گئی، تو وہ زکوٰۃ نہیں رہی، ملکیت بدل گئی، اب وہ غریب کسی مالدار کی دعوت کرسکتا ہے، اور کسی مالدار کو ہدیہ دے سکتا ہے۔
لیکن اگر کوئی چوری کرکے مال لایا، اور اس نے کسی کو ہدیہ دیا، یا دعوت کی، درانحالیکہ وہ جانتا ہے کہ یہ چوری کا مال ہے، تو وہ ہدیہ لینا، اور دعوت کھانا جائز نہیں، حرام ہے؛ کیونکہ آدمی چوری کے پیسے کا مالک نہیں ہوتا، پس اگر وہ دعوت کرتا ہے، یا کسی کو ہدیہ دیتا ہے، تو جائز نہیں، البتہ اگر چوری کا مال، یا سود کا مال اپنے مال کے ساتھ ملادیا، اور اس طرح ملادیا، کہ کوئی امتیاز باقی نہ رہا، تو دیکھا جائے گا، کہ غالب مال کونسا ہے؟ حلال یا حرام؟ اگر غالب مال حلال ہے، تو دعوت کھانا، یا ہدیہ لینا جائز ہے، ورنہ نہیں۔
اسی لئے کہتے ہیں: سود کی رقم غریب کو ثواب کی نیت کے بغیر دینا ضروری ہے، کیوں؟ اس لئے کہ سود کی رقم لینے والے کا مال کہاں ہے؟ کسی کی اپنی رقم ہو، اور وہ کسی غریب کو دے، اور ثواب کی نیت کرے، تو ایک بات بھی ہے، مگر بینک سے جو سود ملتا ہے، لینے والا اس کا مالک نہیں ہوتا، جب مالک ہی نہیں ہوتا، تو ثواب کی نیت کیسے درست ہوسکتی ہے؟
غرض میں بات یہ سمجھا رہا تھا، کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے یہ ضابطہ نکلا، کہ ملکیت بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں، اور میں نے یہ بھی سمجھایا، کہ چوری کے مال میں، اور سود کے مال میں ملکیت نہیں بدلتی، اس لئے اس کے احکام علاحدہ ہیں، جہاں ملکیت بدلتی ہے، جیسے زکوٰۃ، صدقہ میں، تو وہاں احکام بدلتے ہیں، پس گورنمنٹ کا جو فنڈ ہے، وہ اگرچہ مختلف طرح سے اکٹھا ہوتا ہے، جائز جگہوں سے بھی مال آتا ہے، اور ناجائز جگہوں سے بھی، مگر پہلے گورنمنٹ اس کی مالک بنتی ہے، استیلاء سے حکومت مالک ہوجاتی ہے، پھر وہ بوڑھوں کو وظیفہ دیتی ہے، اس لئے اس کا لینا جائز ہے، اور ہر مصرف میں اس کو خرچ کرسکتے ہیں، حج بھی کرسکتے ہیں، عمرہ بھی کرسکتے ہیں، اور مسجد کے چندے میں بھی دے سکتے ہیں۔
❸ غریب کے پاس جب تک مال بعینہٖ موجود ہو، زکوٰۃ کی نیت کی جاسکتی ہے:
سوال: ایک شخص بیمار ہے، ایک ماہ پہلے اس کا فون آیا، اور اس نے مدد طلب کی، وہ رشتہ دار ہے، یہاں سے( برطانیہ سے ) کسی نے اس کو کچھ رقم بھیج دی، جب رقم بھیجی، اس وقت کچھ نیت نہیں تھی، جس طرح رشتہ داروں کا تعاون کرتے ہیں، اس طرح رقم بھیجی تھی، اب رمضان آیا، اس نے اپنا زکوٰۃ کا حساب کیا، اب وہ یہ چاھتا ہے کہ پہلے جو رقم بھیجی ہے، اسے زکوٰۃ میں گن لے، تو یہ جائز ہے، یا نہیں؟
جواب: زکوٰۃ کی نیت تین موقعوں پر ہوسکتی ہے:
پہلا موقعہ: جب حساب کیا، اور معلوم ہوگیا کہ ایک ہزار روپے زکوٰۃ واجب ہے، اس نے ہزار روپے نکال کر کسی ڈبے میں رکھ دئیے، تو یہ نیت ہوگئی، اب وہ اس میں سے کسی کو بچیس روپے، کسی کو پچاس روپے دیتا رہا، تو زکوٰۃ ادا ہوگئی؛ کیونکہ اس نے ڈبے میں جب رقم علاحدہ کی تھی، اس وقت نیت کرلی تھی، اب خرچ کے موقع پر نیت ضروری نہیں۔
دوسرا موقعہ: کسی نے حساب کیا، اس کے ذمہ ایک ہزار روپے زکوٰۃ واجب نکلی، مگر اس نے رقم علاحدہ نہیں کی، پھر کسی کو پچاس روپے دئیے، اور دیتے وقت نیت کی، اور ڈائری میں لکھ لیا، کہ فلاں تاریخ کو پچاس روپے دئیے، اسی طرح پھر پندرہ دن کے بعد کسی غریب کو سو روپے دئیے، تو زکوٰۃ کی نیت کی، اور لکھ لئے، تو یہ صورت بھی صحیح ہے، اس کو کہتے ہیں: زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ نیت کرنا۔
تیسرا موقعہ: رقم علاحدہ بھی نہیں کی، اور جب دی، اس وقت بھی نیت نہیں کی، مگر غریب کے پاس ابھی دی ہوئی رقم بعینہٖ موجود ہے، خرچ نہیں ہوئی، تو جب تک وہ رقم بعینہٖ غریب کے پاس موجود ہے، نیت کرسکتا ہے، البتہ اگر رقم اس کے پاس سے ہلاک ہوگئی، یا خرچ ہوگئی، تو اب زکوٰۃ کی نیت نہیں کی جاسکتی۔
بہرحال یہ تین مواقع ہیں نیت کے، اور صورتِ مسئلہ میں بظاہر وہ بھیجی ہوئی رقم بعینہٖ موجود نہیں ہوگی، کیونکہ یہ پرانا قصہ ہے، اس لئے اب زکوٰۃ کی نیت نہیں ہوسکتی۔
اضافہ: در مختار میں ہے: و شرطُ صِحَّةِ أدَائِھا: نیةٌ مقارنة لہ أی للأداء، و لو کانت المقارنة حکما، کما لو دفع بلانیة، ثم نوی، و المالُ قائم فی ید الفقیر، زکوٰۃ کی ادائیگی کی صحت کےلئے شرط: ادا کے ساتھ نیت کا مقارن ہونا، اگرچہ مقارنت حکمی ہو، جیسے بغیر نیت کے دیا، پھر نیت کی، درانحالیکہ مال غریب کے پاس( بعینہٖ ) موجود ہے،( تو یہ مقارنتِ حکمی ہے، اس لئے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی )۔
❹ سونے چاندی کے دانتوں کے ساتھ نماز درست ہے:
سوال: اگر دانت سونے کے ہوں، تو نماز ہوسکتی ہے، یا نہیں؟
جواب: ہوسکتی ہے، دانت خواہ سونے کا ہو، یا چاندی کا ہو، لوہے کا ہو، یا پیتل کا ہو، کانسے کا ہو، یا کسی بھی دھات کا ہو، نماز درست ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور یہ ایسا ہے، جیسے جیب میں سونے، چاندی یا لوہے وغیرہ کا کوئی ٹکڑا رکھ لیا جائے، تو نماز درست ہے۔
اور شبہ اس لئے ہے کہ سونے کا استعمال مرد کےلئے جائز نہیں، تو جاننا چاھئے کہ ضرورت کے وقت دانت میں سونے کا استعمال جائز ہے، حدیث شریف میں ہے: ایک صحابی کی ایک جنگ میں ناک کٹ گئی تھی، انہوں نے چاندی کی ناک بنوائی، مگر اس میں بدبو ہوجاتی تھی، چنانچہ نبی پاک ﷺ نے ان کو سونے کی ناک بنوانے کی اجازت دی، اس پر دانت کو قیاس کیا گیا ہے؛ کیونکہ چاندی کا دانت کالا پڑجاتا ہے، اس لئے دانت پر سونے کا خول چڑھانا جائز ہے۔
❺ ایسے ہوٹل میں ملازمت کرنا، جہاں حرام چیزیں بیچی جاتی ہیں:
سوال: کوئی ایسے ریسٹورنٹ میں مزدوری کرتا ہے، جہاں حرام چیزیں( غیر مذبوحہ گوشت، یا شراب ) بیچی جاتی ہو، تو اس کا کیا حکم ہے؟ تنخواہ جائز ہے، یا نہیں؟ اور ایسے ہوٹل میں ملازمت کرنی چاھئے، یا نہیں؟
جواب: تنخواہ خبث( گندگی ) کے ساتھ جائز ہے، مگر ایسی جگہ نوکری نہیں کرنی چاھئے، دوسری متبادل نوکری تلاش کرنی چاھئے، جب نوکری مل جائے، تو یہ نوکری چھوڑ دے، جیسے کوئی بینک میں ملازم ہو، تو اس کا بھی یہی حکم ہے، کیونکہ بینک کی ملازمت جائز نہیں، وہاں سودی کاروبار ہوتا ہے، اور سود کے معاملہ میں، جو کسی طرح کا بھی عمل دخل رکھتا ہے، اس پر لعنت آئی ہے، لیکن اگر کوئی ملازمت کرتا ہے، تو وہاں سے جو تنخواہ ملتی ہے، وہ جائز ہے، کیونکہ بینک کے پاس صرف سود ہی نہیں ہوتا، اور بھی ذرائعِ آمدنی ہوتے ہیں، بینک ڈراف بناتا ہے، اور فیس لیتا ہے، جو جائز ہے، ایسے اور بھی کام ہیں، مگر بینک کا بڑا کاروبار سود پر رقمیں دینا ہے، اس لئے اس کی آمدنی میں سود بھی شامل ہوتا ہے، اور ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے، وہ مجموعہ سے ملتی ہے، اس لئے تنخواہ جائز ہے، مگر اس میں خبث( گندگی ) ہے، جیسے کھڑکی پر پیلا گلاس ہو، تو سورج کی جو دھوپ آئے گی، وہ پیلی آئے گی، اسی طرح بینک کی جو رقم تنخواہ میں ملے گی، وہ خبث لے کر آئے گی، اسی طرح جس ہوٹل میں حرام چیزیں بیچی جاتی ہیں، اس کا بھی یہی معاملہ ہے۔
اور بینک کی ملازمت کے بارے میں مفتیانِ کرام نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ فوراﹰ وہ ملازمت نہ چھوڑے، دوسری متبادل ملازمت تلاش کرے، جب دوسری ملازمت مل جائے، تو بینک کی ملازمت چھوڑ دے، اسی طرح اس ہوٹل کی ملازمت سے کنارہ کش ہوجائے، مگر پہلے دوسری ملازمت حاصل کرلے، پھر اس ملازمت کو چھوڑے۔
❻ کوٹ پتلون اور ٹائی کے ساتھ مسجد میں نماز کےلئے آنا:
سوال: ان ملکوں میں لوگ عام طور پر کوٹ پتلون پہنتے ہیں، یہاں کا عام لباس یہی ہے، پس مسجد میں نماز پڑھنے کےلئے آنے کا کیا حکم ہے: کیا اس لباس میں نماز پڑھنے میں کوئی کراہیت تو نہیں؟
جواب: لوگ کام پر جانے کےلئے الگ کپڑے رکھتے ہیں، کوٹ پتلون اور ٹائی باندھ کر جاتے ہیں، میں اس کو منع نہیں کرتا، کہ یہ ایک مجبوری ہے، مگر لوگ جب مسجد میں آتے ہیں، تو یہی کپڑے پہن کر آتے ہیں، یہ ٹھیک نہیں، مسجد( اللہ تعالیٰ کے گھر ) میں اسلامی لباس پہن کر آنا چاھئے، اگر اس لباس میں ڈیوٹی پر نماز پڑھ لی، تو کوئی حرج نہیں، مگر جب آپ کام سے فارغ ہوگئے، اور اپنے گھر آگئے، تو اب لباس بدل دینا چاھئے، پھر جب اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری ہو تو اسلامی لباس پہن کر آنا چاھئے۔
اور یہ بات سمجھ لینی چاھئے کہ جیسے آفس میں جانے کےلئے یونیفارم ہے، اللہ تعالیٰ کے دربار میں آنے کےلئے بھی ایک یونیفارم ہے، اور وہ اسلامی لباس ہے، کیونکہ انگریزی لباس کھڑے ہوئے ہونے کی حالت میں تو اچھا لگتا ہے، لیکن جب آدمی سجدے میں جاتا ہے، تو آدھا ننگا ہوجاتا ہے، اس لئے ایسا لباس پہن کر اللہ تعالیٰ کے گھر میں نہیں آنا چاھئے۔
❼ روزے میں بھول معاف ہے، نماز میں کیوں نہیں:
سوال: روزے میں بھول کر کوئی کھا پی لے، تو روزہ نہیں ٹوٹتا، مگر نماز ٹوٹ جاتی ہے، یہ فرق کیوں ہے؟
جواب: فرق اس لئے ہے، کہ روزے کے سلسلہ میں حدیث ہے، اور نماز کے سلسلہ میں کوئی حدیث نہیں، اور قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں ٹوٹ جائیں، مگر حدیث شریف کی وجہ سے روزہ استحساناً نہیں ٹوٹتا، اور وہ حدیث یہ ہے: عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ أنہ قال: اِذا نَسِیَ أحَدُکُمْ، فأکل أو شَرِبَ، فلیُتِمَّ صومَہ، فاِنھا أطْعَمَہُ اللہ وَ سَقَاہ( متفق علیہ ) حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص بھول کر کھا پی لے، وہ اپنا روزہ پورا کرے، یعنی بھول کر کھانے، اور پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس کو اللہ تعالیٰ ہی نے کھلایا، پلایا ہے، یعنی وہ بےاختیار بھول گیا ہے، اور ایسی صورت میں کوئی مواخذہ نہیں۔
مگر بھول کب ہوتی ہے؟ جب روزہ لگا ہوا نہ ہو، بھوک پیاس لگی ہوئی نہ ہو، اور جب گرمیوں میں دوپہر کے بعد روزہ لگتا ہے، تو بھول نہیں ہوتی، ہاں دو آدمیوں کو ہوتی ہے، ایک: رمضان المبارک کے شروع میں بھول ہوجاتی ہے، پھر جب عادت ہوجاتی ہے، تو بھول نہیں ہوتی، دوسرا: نفل روزہ میں بھول ہوجاتی ہے، جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نفل روزے رکھتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں، کسی دوست کے یہاں گئے، چائی آئی، سب کے ساتھ اس نے بھی پی ڈالی، اور روزہ یاد نہیں رہا۔
لوگ نفل روزے کم کیوں رکھتے ہیں؟
مگر اب لوگوں نے نفل روزوں کی چھٹی کردی ہے، بیڑی، سگریٹ، پان، گٹکا، چائے وغیرہ لغویات کی جو عادت ہمیں پڑگئی ہے، یہ نفل روزے نہیں رکھنے دیتی، یہ عادتیں سر پر ایسی سوار رہتی ہیں، کہ گیارہ مہینے گذر جاتے ہیں، اور ہم کوئی نفل روزہ نہیں رکھتے، ورنہ سردیوں میں تو روزہ غنیمت باردہ ہے، نہ لگے بھوک، نہ لگے پیاس، اور ثواب ملے چوکھا، مگر ہائے رے بری عادتیں! وہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتیں۔
نماز میں لاعلمی اور بھول معاف نہیں:
بہرحال بھول کر کھا پی لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، بلکہ روزہ مکروہ بھی نہیں ہوتا، اور نماز میں بھول ہوجائے، تو نماز ٹوٹ جاتی ہے، اگر بھول کر، یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے کوئی کام نماز میں، نماز کے منافی کرلیا، تو نماز فاسد ہوجائے گی، حدیث شریف میں ہے: حضرت معاویہ بن الحکم السُلمی، جو نو مسلم تھے، جماعت میں آکر کھڑے ہوئے، نماز میں کسی نے چھینک ماری، تو انہوں نے کہا: یرحمک اللہ، یعنی اللہ آپ پر مہربانی کرے، لوگوں نے انہیں گھورا، وہ پھر بولے: مجھے کیوں گھورتے ہو! لوگوں نے ران پر ہاتھ مارے، عربوں کے یہاں یہ اشارہ ہے کہ خاموش رہو، جیسے ہم لوگ منھ پر انگلی رکھتے ہیں، جب نماز پوری ہوئی، تو نبی پاک ﷺ نے ان کو بلایا، وہ فرماتے ہیں: میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان! آپ ﷺ نے نہ مجھے ڈانٹا، نہ جھڑکا، بلکہ فرمایا: اِن ھٰذہ الصلاةَ، لا یَصلُحُ فیھا شیئ من کلام الناس، نماز میں لوگوں کے کلام کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں، یعنی جان بوجھ کر بات ہو، بھول کر ہو، تھوڑی ہو، یا زیادہ، اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، پس دیگر منافیِ نماز چیزوں کو کلام پر قیاس کیا جائےگا، ان سے بھی نماز فاسد ہوجائےگی، مگر روزہ بھول کر کھانے پینے سے فاسد نہیں ہوگا۔
نماز اور روزے میں عقلی فرق:
اور عقلاً فرق یہ ہے کہ آدمی جب نماز پڑھتا ہے، تو ایک خاص حالت میں ہوجاتا ہے، اس حالت میں بھول نہیں ہوتی، اور روزہ میں ایسی کوئی حالت نہیں ہوتی، جو روزہ یاد دلائے، اس لئے روزہ میں بھول ہوجاتی ہے، یعنی نماز کی حالت، حالتِ مذکرہ ہے، جب کہ روزہ کی حالت ایسی نہیں، اور اگر آپ کہیں کہ رمضان المبارک میں تو بھول نہیں ہوتی، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ رمضان المبارک میں عادت پڑجاتی ہے، اس لئے بھول نہیں ہوتی، مگر رمضان المبارک کے شروع میں، اور نفل روزوں میں بھول ہوجاتی ہے، اس لئے شریعت نے بھول کو معاف کیا ہے، اور نماز میں چونکہ ایسی حالت ہوتی ہے، جو نماز کو یاد دلاتی ہے، اس لئے نماز میں بھول کر کلام کی گنجائش نہیں رکھی گئی، کچھ بھی کلام کرے گا، تو نماز فاسد ہوجائےگی۔
❽ وضو کے تین ضروری مسئلے:
سوال: وضو کے سلسلہ میں کچھ فرمائیں، اس لئے کہ وضو میں کوتاہیاں ہورہی ہے؟
جواب: عن لَقِیطِ بنِ صَبِرَةَ رضی اللہ عنہ قال: یا رسولَ اللہِ! أخبرنی عن الوضوءِ؟ قال: أَسْبِغِ الوضوءَ، وَ خَلِّلْ بین الأصابع، وَ بَالِغْ فی الاِسْتِنْشَاقِ، اِلا أن تکونَ صائماً۔
ترجمہ: حضرت لَقِیط رضی اللہ عنہ نے وضو کے بارے میں پوچھا، یعنی وضو کا طریقہ معلوم کیا، تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
① وضو کامل کرو، کامل وضو کرنے کےلئے دھونے والے اعضاء کو تین مرتبہ دھونا سنت کیا گیا ہے، تاکہ ایک مرتبہ دھونا جو فرض ہے، کامل ہوجائے، اور مسح میں چوتھائی سر کا مسح فرض ہے، مگر پورے سر کا مسح سنت کیا گیا ہے، تاکہ ڈھنگ سے چوتھائی سر کا مسح ہوجائے۔
② اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو، ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان بھی، اور پیروں کی انگلیوں کے درمیان بھی، اور یہ حکم ان ملکوں میں، جہاں پانی بہت کم ہے، بڑی اہمیت کا حامل ہے، ہمارے یہاں( برطانیہ میں ) پانی بھت ہے، لیکن مفت نہیں ہے، پانی کے پیسے دینے پڑتے ہیں، پھر پانی کو گرم کرنے کے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں، مگر میں دیکھتا ہوں، ایک آدمی وضو میں پانچ آدمیوں کے بقدر پانی استعمال کرتا ہے، نل کھلا ہے، بیٹھا ہوا باتیں کر رہا ہے، یا مسواک کر رہا، اور پانی برابر جارہا ہے، مسواک سے فارغ ہونے تک ایک بالٹی پانی گرجاتا ہے، مگر اسے اتنی توفیق نہیں ہوتی، کہ نل بند کرے، حالانکہ پانی جو آتا ہے، اس کے پیسے دینے پڑتے ہیں، پھر اس کو گرم کرنے کے الگ پیسے خرچ ہوتے ہیں۔
اسی طرح مسجد میں بتیاں کھلی ہیں، جو پیشاب کرنے جاتا ہے، بتی کھلی چھوڑ کر آجاتا ہے، پوری رات بتیاں جلتی رہتی ہیں، جبکہ چاہئے یہ تھا، کہ جب آدمی بیت الخلاء جائے، تو بٹن کھولے، اور اپنی ضرورت پوری کرکے نکلے، تو بتی بند کردے، بجلی مفت نہیں آتی، اس کے پیسے دینے پڑتے ہیں، اور آپ ہی دیتے ہیں، آپ کے چندے سے پیسے جاتے ہیں، میں نے ایک صاحب سے پوچھا، کہ یہ کیا مصیبت ہے، کہ یہاں کوئی بتی بند ہی نہیں کرتا، مسجد کا خادم بھی نہیں کرتا، تو اس آدمی نے مجھے وجہ بتائی، اور وہ میری سمجھ میں آئی، اس نے کہا: بات دراصل یہ ہے کہ ہم لوگ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، اور اس کی بجلی کرائے میں شامل ہوتی ہے، اس لئے وہاں سے بری عادت پڑگئی ہے کہ جلنے دو، ہمارا کیا بگڑتا ہے، یہ بات میری سمجھ میں آئی، جب بری عادت پڑجاتی ہے، تو وہ سب جگہ چلتی ہے، اس لئے میرے بھائیو! اپنے کرائے کے مکان میں جو چاہو کرو، مگر مسجد کے مال کی حفاظت کرو۔
غرض جہاں پانی زیادہ ہے، اگر وہاں خلال کا اہتمام نہ کیا جائے، تو انگلیوں کے درمیان خشک رہنے کا احتمال کم رہتا ہے، مگر جن ملکوں میں پانی بہت کم ہے، وہاں ذرا سے پانی سے وضو کیا جاتا ہے، پس اگر وہاں انگلیوں کے بیچ میں دوسری انگلی ڈال کر رگڑ کر بھگائیں گے نہیں، تو خشک رہنے کا احتمال رہے گا۔
③ اور ناک اچھی طرح صاف کرو، جب ناک میں پانی ڈالو، تو اس کو سانس کے ذریعہ اوپر چڑھاؤ، پھر ناک جھاڑو، مضمضہ اور استنشاق کا مقصد یہ ہے کہ منھ اور ناک صاف ہوجائیں، مسواک کرکے منھ اچھی طرح دھوؤ، تاکہ منھ کی بدبو زائل ہوجائے، پھر ناک کی آلائشوں کو صاف کرے ، تاکہ اس کا تعفن ختم ہوجائے، پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہوؤ، البتہ اگر کوئی روزے سے ہو، تو پانی چڑھانے میں مبالغہ نہ کرے، پہلے سانس روک لے، پھر ناک میں پانی ڈالے، اگر سانس جاری ہوگا، اور پانی چڑھائے گا ، تو پانی اوپر چلا جائےگا، اس لئے نبی پاک ﷺ نے فرمایا: اگر روزہ ہو، تو پانی ناک میں احتیاط سے چڑھاؤ، کیونکہ پانی اگر دماغ میں چڑھ گیا، تو روزہ فاسد ہوجائےگا، اسی طرح کبھی روزے کی حالت میں آدمی ندی، کنویں میں اترتا ہے، پھر ڈبکی لگاتا ہے، پس جو عادی ہے، وہ تو عادی ہے، وہ ناک نہیں بھی پکڑے گا، تو بھی پانی دماغ میں نہیں چڑھے گا، لیکن اناڑی ایسا کرے گا، تو ممکن ہے، پانی دماغ میں چڑھ جائے، اور پانی دماغ میں چڑھ گیا، تو روزہ ٹوٹ جائےگا۔
❾ اگر علاج کےلئے بڑی رقم کی ضرورت ہو، تو زکوٰۃ دے سکتے ہیں:
سوال: ایک شخص کا پڑوسی کھاتا پیتا آدمی ہے، لیکن اس کے لڑکے کا گردہ فیل ہوگیا ہے، اس لئے فوری گردہ بدلنے کی ضرورت ہے، مگر اس کے پاس اتنی گنجائش نہیں، کہ وہ گردہ خرید سکے، پس کیا اسے زکوٰۃ کی رقم دینا جائز ہے؟
جواب: مالدار ہونے کی حالت میں زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے ، اگر اس حالت میں دی جائے گی، تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، اور جس پر قربانی، صدقۂ فطر واجب ہے، یعنی چھوٹے نصاب کا مالک ہے، وہ مالدار ہے، اسے زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، البتہ اگر وہ مقروض ہوجائے، تو پھر دے سکتے ہیں، پس وہ کہیں سے قرض لےکر گردہ خرید لے، اور وہ مقروض ہوجائے، تو اب زکوٰۃ کی رقم اس کو دے سکتے ہیں۔
⑽ قضائے عمری پہلے پڑھے، یا سنتیں،نفلیں:
سوال: ایک آدمی کی زندگی میں بہت سی نمازیں قضا ہوئی ہیں، تو ایسے شخص کو نفلیں اور سنتیں پڑھنی چاہئیں، یا قضائے عمری پڑھنی چاھئے؟
جواب: ایسے آدمی کو پہلے قضائے عمری پڑھنی چاھئے، پھر جب قضائے عمری سے فارغ ہوجائے، تو نفلیں، سنتیں پڑھے، کیونکہ فرض، فرض ہے، جو پچھلی نمازیں چھٹی ہیں، ان کی قضا ضروری ہے، اور نفل، نفل ہے، اس کا مقام و مرتبہ بعد میں ہے، اس لئے اس شخص کو پہلے اپنی چھٹی ہوئی نمازوں کی تلافی کرنی چاہئے، سنتوں کی جگہ، تحیة الوضو کی جگہ، اور تحیة المسجد کی جگہ قضائے عمری پڑھے ، پھر جب وہ اپنے اندازے کے مطابق فرض نمازیں قضا کرچکے، تو دوسری نفلیں پڑھے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن
ناقل : عادل سعیدی پالن پوری
❶ بےروزگاری کے وظیفہ کا حکم:
سوال: حکومت کی طرف سے بےروزگاروں کو جو وظیفہ ملتا ہے، اس کا لینا کیسا ہے؟
جواب: بےروزگاری کا وظیفہ( ویلفیر ) لینے کی دو صورتیں ہیں: ایک: مستحق کا لینا، یعنی واقعی بےروزگار ہے، تو لے سکتا ہے، اور اس رقم کو ہر مصرف میں خرچ کرسکتا ہے، دوسری: غیر مستحق کا لینا، یعنی جو برسرِ روزگار ہے، ویلفیر کا مستحق نہیں؛ مگر اپنا ذریعۂ معاش چھپاکر، اور جھوٹ بولکر وظیفہ لیتا ہے، تو یہ حکومت کے خزانے پر ایک طرح سے ڈاکہ ڈالنا ہے، اور اس کا حکم واضح ہے۔
❷ حکومت بوڑھوں کو جو وظیفہ دیتی ہے، اس کا لینا جائز ہے؟
سوال: یہاں ( برطانیہ میں ) ساٹھ سال کے بعد حکومت بوڑھوں کو وظیفہ دیتی ہے، تو کیا اس رقم کو حج، یا عمرہ میں استعمال کرسکتے ہیں؟ اور مسجد کے چندہ میں دے سکتے ہیں؟
جواب: حج بھی کرسکتے ہیں، عمرہ بھی کرسکتے ہیں، اور مسجد کے چندے میں بھی دے سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ یہ ایک قانون ہے، کہ جو ساٹھ سال کا ہوجائے گا ، اسے وظیفہ دیا جائےگا ، پس اس قانون سے جو وظیفہ ملتا ہے، اسے لیکر استعمال کرسکتے ہیں۔
اور اگر کسی کے ذہن میں شبہ ہو کہ حکومت کا مال، معلوم نہیں کن ذرائع سے حاصل ہوتا ہے؟ ہوسکتا ہے وہ ناجائز ذرائع سے حاصل ہوا ہو، ایسا مال ہمارے پاس آتا ہے، اس لئے اس کو حج، یا عمرہ میں، یا مسجد میں دینا کیسے مناسب ہوگا؟
اگر یہ شبہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ملکیت بدلنے سے حکم بدل جاتا ہے، مثلاﹰ ٹیکَس کی رقم گورنمنٹ نے لوگوں پر ظلم کرکے لی، یا جرمانہ کرکے لی، تو گورنمنٹ مالک ہوگئی، پھر وہ بوڑھے کو دیتی ہے، تو ملکیت بدل گئی، اور ملکیت بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔
دلیل: حدیث شریف میں ہے: حضور اکرم ﷺ گھر میں تشریف لائے، اور کچھ کھانے کو مانگا، چنانچہ روٹی اور سرکہ پیش کیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا: گوشت پکنے کی خوشبو آرہی ہے، کیا ہمارا اس میں کوئی حصہ نہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ گوشت کسی نے بریرہؓ کو صدقہ دیا ہے( حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا ایک باندی تھیں، ان کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خرید کر آزاد کیا تھا، وہ آزاد ہونے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں رہتی تھیں، اور ان سے پڑھتی تھیں، ان کو کسی نے خیرات دی تھی، وہ گوشت پک رہا تھا، اور حضور اکرم ﷺ کےلئے صدقہ حلال نہیں تھا ) آپ ﷺ نے فرمایا: لَھَا صَدَقَةٌ، وَ لَنَا ھَدِیَّةٌ: بریرہ کےلئے وہ گوشت صدقہ ہے، اور جب بریرہ ہمیں دیگی ، تو وہ ہمارے لئے ہدیہ ہوگا، یعنی اب ہمارے لئے اس کا استعمال کرنا جائز ہوگا، یہاں سے مسئلہ سمجھ میں آیا، کہ ملکیت بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔
دوسری مثال: زکوٰۃ دینے والے نے غریب کو زکوٰۃ دی، جب تک وہ رقم زکوٰۃ دینے والے کے پاس تھی، زکوٰۃ تھی، پھر جب وہ غریب کو دیدی، اور اس کی ملکیت میں چلی گئی، تو وہ زکوٰۃ نہیں رہی، ملکیت بدل گئی، اب وہ غریب کسی مالدار کی دعوت کرسکتا ہے، اور کسی مالدار کو ہدیہ دے سکتا ہے۔
لیکن اگر کوئی چوری کرکے مال لایا، اور اس نے کسی کو ہدیہ دیا، یا دعوت کی، درانحالیکہ وہ جانتا ہے کہ یہ چوری کا مال ہے، تو وہ ہدیہ لینا، اور دعوت کھانا جائز نہیں، حرام ہے؛ کیونکہ آدمی چوری کے پیسے کا مالک نہیں ہوتا، پس اگر وہ دعوت کرتا ہے، یا کسی کو ہدیہ دیتا ہے، تو جائز نہیں، البتہ اگر چوری کا مال، یا سود کا مال اپنے مال کے ساتھ ملادیا، اور اس طرح ملادیا، کہ کوئی امتیاز باقی نہ رہا، تو دیکھا جائے گا، کہ غالب مال کونسا ہے؟ حلال یا حرام؟ اگر غالب مال حلال ہے، تو دعوت کھانا، یا ہدیہ لینا جائز ہے، ورنہ نہیں۔
اسی لئے کہتے ہیں: سود کی رقم غریب کو ثواب کی نیت کے بغیر دینا ضروری ہے، کیوں؟ اس لئے کہ سود کی رقم لینے والے کا مال کہاں ہے؟ کسی کی اپنی رقم ہو، اور وہ کسی غریب کو دے، اور ثواب کی نیت کرے، تو ایک بات بھی ہے، مگر بینک سے جو سود ملتا ہے، لینے والا اس کا مالک نہیں ہوتا، جب مالک ہی نہیں ہوتا، تو ثواب کی نیت کیسے درست ہوسکتی ہے؟
غرض میں بات یہ سمجھا رہا تھا، کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے یہ ضابطہ نکلا، کہ ملکیت بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں، اور میں نے یہ بھی سمجھایا، کہ چوری کے مال میں، اور سود کے مال میں ملکیت نہیں بدلتی، اس لئے اس کے احکام علاحدہ ہیں، جہاں ملکیت بدلتی ہے، جیسے زکوٰۃ، صدقہ میں، تو وہاں احکام بدلتے ہیں، پس گورنمنٹ کا جو فنڈ ہے، وہ اگرچہ مختلف طرح سے اکٹھا ہوتا ہے، جائز جگہوں سے بھی مال آتا ہے، اور ناجائز جگہوں سے بھی، مگر پہلے گورنمنٹ اس کی مالک بنتی ہے، استیلاء سے حکومت مالک ہوجاتی ہے، پھر وہ بوڑھوں کو وظیفہ دیتی ہے، اس لئے اس کا لینا جائز ہے، اور ہر مصرف میں اس کو خرچ کرسکتے ہیں، حج بھی کرسکتے ہیں، عمرہ بھی کرسکتے ہیں، اور مسجد کے چندے میں بھی دے سکتے ہیں۔
❸ غریب کے پاس جب تک مال بعینہٖ موجود ہو، زکوٰۃ کی نیت کی جاسکتی ہے:
سوال: ایک شخص بیمار ہے، ایک ماہ پہلے اس کا فون آیا، اور اس نے مدد طلب کی، وہ رشتہ دار ہے، یہاں سے( برطانیہ سے ) کسی نے اس کو کچھ رقم بھیج دی، جب رقم بھیجی، اس وقت کچھ نیت نہیں تھی، جس طرح رشتہ داروں کا تعاون کرتے ہیں، اس طرح رقم بھیجی تھی، اب رمضان آیا، اس نے اپنا زکوٰۃ کا حساب کیا، اب وہ یہ چاھتا ہے کہ پہلے جو رقم بھیجی ہے، اسے زکوٰۃ میں گن لے، تو یہ جائز ہے، یا نہیں؟
جواب: زکوٰۃ کی نیت تین موقعوں پر ہوسکتی ہے:
پہلا موقعہ: جب حساب کیا، اور معلوم ہوگیا کہ ایک ہزار روپے زکوٰۃ واجب ہے، اس نے ہزار روپے نکال کر کسی ڈبے میں رکھ دئیے، تو یہ نیت ہوگئی، اب وہ اس میں سے کسی کو بچیس روپے، کسی کو پچاس روپے دیتا رہا، تو زکوٰۃ ادا ہوگئی؛ کیونکہ اس نے ڈبے میں جب رقم علاحدہ کی تھی، اس وقت نیت کرلی تھی، اب خرچ کے موقع پر نیت ضروری نہیں۔
دوسرا موقعہ: کسی نے حساب کیا، اس کے ذمہ ایک ہزار روپے زکوٰۃ واجب نکلی، مگر اس نے رقم علاحدہ نہیں کی، پھر کسی کو پچاس روپے دئیے، اور دیتے وقت نیت کی، اور ڈائری میں لکھ لیا، کہ فلاں تاریخ کو پچاس روپے دئیے، اسی طرح پھر پندرہ دن کے بعد کسی غریب کو سو روپے دئیے، تو زکوٰۃ کی نیت کی، اور لکھ لئے، تو یہ صورت بھی صحیح ہے، اس کو کہتے ہیں: زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ نیت کرنا۔
تیسرا موقعہ: رقم علاحدہ بھی نہیں کی، اور جب دی، اس وقت بھی نیت نہیں کی، مگر غریب کے پاس ابھی دی ہوئی رقم بعینہٖ موجود ہے، خرچ نہیں ہوئی، تو جب تک وہ رقم بعینہٖ غریب کے پاس موجود ہے، نیت کرسکتا ہے، البتہ اگر رقم اس کے پاس سے ہلاک ہوگئی، یا خرچ ہوگئی، تو اب زکوٰۃ کی نیت نہیں کی جاسکتی۔
بہرحال یہ تین مواقع ہیں نیت کے، اور صورتِ مسئلہ میں بظاہر وہ بھیجی ہوئی رقم بعینہٖ موجود نہیں ہوگی، کیونکہ یہ پرانا قصہ ہے، اس لئے اب زکوٰۃ کی نیت نہیں ہوسکتی۔
اضافہ: در مختار میں ہے: و شرطُ صِحَّةِ أدَائِھا: نیةٌ مقارنة لہ أی للأداء، و لو کانت المقارنة حکما، کما لو دفع بلانیة، ثم نوی، و المالُ قائم فی ید الفقیر، زکوٰۃ کی ادائیگی کی صحت کےلئے شرط: ادا کے ساتھ نیت کا مقارن ہونا، اگرچہ مقارنت حکمی ہو، جیسے بغیر نیت کے دیا، پھر نیت کی، درانحالیکہ مال غریب کے پاس( بعینہٖ ) موجود ہے،( تو یہ مقارنتِ حکمی ہے، اس لئے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی )۔
❹ سونے چاندی کے دانتوں کے ساتھ نماز درست ہے:
سوال: اگر دانت سونے کے ہوں، تو نماز ہوسکتی ہے، یا نہیں؟
جواب: ہوسکتی ہے، دانت خواہ سونے کا ہو، یا چاندی کا ہو، لوہے کا ہو، یا پیتل کا ہو، کانسے کا ہو، یا کسی بھی دھات کا ہو، نماز درست ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور یہ ایسا ہے، جیسے جیب میں سونے، چاندی یا لوہے وغیرہ کا کوئی ٹکڑا رکھ لیا جائے، تو نماز درست ہے۔
اور شبہ اس لئے ہے کہ سونے کا استعمال مرد کےلئے جائز نہیں، تو جاننا چاھئے کہ ضرورت کے وقت دانت میں سونے کا استعمال جائز ہے، حدیث شریف میں ہے: ایک صحابی کی ایک جنگ میں ناک کٹ گئی تھی، انہوں نے چاندی کی ناک بنوائی، مگر اس میں بدبو ہوجاتی تھی، چنانچہ نبی پاک ﷺ نے ان کو سونے کی ناک بنوانے کی اجازت دی، اس پر دانت کو قیاس کیا گیا ہے؛ کیونکہ چاندی کا دانت کالا پڑجاتا ہے، اس لئے دانت پر سونے کا خول چڑھانا جائز ہے۔
❺ ایسے ہوٹل میں ملازمت کرنا، جہاں حرام چیزیں بیچی جاتی ہیں:
سوال: کوئی ایسے ریسٹورنٹ میں مزدوری کرتا ہے، جہاں حرام چیزیں( غیر مذبوحہ گوشت، یا شراب ) بیچی جاتی ہو، تو اس کا کیا حکم ہے؟ تنخواہ جائز ہے، یا نہیں؟ اور ایسے ہوٹل میں ملازمت کرنی چاھئے، یا نہیں؟
جواب: تنخواہ خبث( گندگی ) کے ساتھ جائز ہے، مگر ایسی جگہ نوکری نہیں کرنی چاھئے، دوسری متبادل نوکری تلاش کرنی چاھئے، جب نوکری مل جائے، تو یہ نوکری چھوڑ دے، جیسے کوئی بینک میں ملازم ہو، تو اس کا بھی یہی حکم ہے، کیونکہ بینک کی ملازمت جائز نہیں، وہاں سودی کاروبار ہوتا ہے، اور سود کے معاملہ میں، جو کسی طرح کا بھی عمل دخل رکھتا ہے، اس پر لعنت آئی ہے، لیکن اگر کوئی ملازمت کرتا ہے، تو وہاں سے جو تنخواہ ملتی ہے، وہ جائز ہے، کیونکہ بینک کے پاس صرف سود ہی نہیں ہوتا، اور بھی ذرائعِ آمدنی ہوتے ہیں، بینک ڈراف بناتا ہے، اور فیس لیتا ہے، جو جائز ہے، ایسے اور بھی کام ہیں، مگر بینک کا بڑا کاروبار سود پر رقمیں دینا ہے، اس لئے اس کی آمدنی میں سود بھی شامل ہوتا ہے، اور ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے، وہ مجموعہ سے ملتی ہے، اس لئے تنخواہ جائز ہے، مگر اس میں خبث( گندگی ) ہے، جیسے کھڑکی پر پیلا گلاس ہو، تو سورج کی جو دھوپ آئے گی، وہ پیلی آئے گی، اسی طرح بینک کی جو رقم تنخواہ میں ملے گی، وہ خبث لے کر آئے گی، اسی طرح جس ہوٹل میں حرام چیزیں بیچی جاتی ہیں، اس کا بھی یہی معاملہ ہے۔
اور بینک کی ملازمت کے بارے میں مفتیانِ کرام نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ فوراﹰ وہ ملازمت نہ چھوڑے، دوسری متبادل ملازمت تلاش کرے، جب دوسری ملازمت مل جائے، تو بینک کی ملازمت چھوڑ دے، اسی طرح اس ہوٹل کی ملازمت سے کنارہ کش ہوجائے، مگر پہلے دوسری ملازمت حاصل کرلے، پھر اس ملازمت کو چھوڑے۔
❻ کوٹ پتلون اور ٹائی کے ساتھ مسجد میں نماز کےلئے آنا:
سوال: ان ملکوں میں لوگ عام طور پر کوٹ پتلون پہنتے ہیں، یہاں کا عام لباس یہی ہے، پس مسجد میں نماز پڑھنے کےلئے آنے کا کیا حکم ہے: کیا اس لباس میں نماز پڑھنے میں کوئی کراہیت تو نہیں؟
جواب: لوگ کام پر جانے کےلئے الگ کپڑے رکھتے ہیں، کوٹ پتلون اور ٹائی باندھ کر جاتے ہیں، میں اس کو منع نہیں کرتا، کہ یہ ایک مجبوری ہے، مگر لوگ جب مسجد میں آتے ہیں، تو یہی کپڑے پہن کر آتے ہیں، یہ ٹھیک نہیں، مسجد( اللہ تعالیٰ کے گھر ) میں اسلامی لباس پہن کر آنا چاھئے، اگر اس لباس میں ڈیوٹی پر نماز پڑھ لی، تو کوئی حرج نہیں، مگر جب آپ کام سے فارغ ہوگئے، اور اپنے گھر آگئے، تو اب لباس بدل دینا چاھئے، پھر جب اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری ہو تو اسلامی لباس پہن کر آنا چاھئے۔
اور یہ بات سمجھ لینی چاھئے کہ جیسے آفس میں جانے کےلئے یونیفارم ہے، اللہ تعالیٰ کے دربار میں آنے کےلئے بھی ایک یونیفارم ہے، اور وہ اسلامی لباس ہے، کیونکہ انگریزی لباس کھڑے ہوئے ہونے کی حالت میں تو اچھا لگتا ہے، لیکن جب آدمی سجدے میں جاتا ہے، تو آدھا ننگا ہوجاتا ہے، اس لئے ایسا لباس پہن کر اللہ تعالیٰ کے گھر میں نہیں آنا چاھئے۔
❼ روزے میں بھول معاف ہے، نماز میں کیوں نہیں:
سوال: روزے میں بھول کر کوئی کھا پی لے، تو روزہ نہیں ٹوٹتا، مگر نماز ٹوٹ جاتی ہے، یہ فرق کیوں ہے؟
جواب: فرق اس لئے ہے، کہ روزے کے سلسلہ میں حدیث ہے، اور نماز کے سلسلہ میں کوئی حدیث نہیں، اور قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں ٹوٹ جائیں، مگر حدیث شریف کی وجہ سے روزہ استحساناً نہیں ٹوٹتا، اور وہ حدیث یہ ہے: عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ أنہ قال: اِذا نَسِیَ أحَدُکُمْ، فأکل أو شَرِبَ، فلیُتِمَّ صومَہ، فاِنھا أطْعَمَہُ اللہ وَ سَقَاہ( متفق علیہ ) حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص بھول کر کھا پی لے، وہ اپنا روزہ پورا کرے، یعنی بھول کر کھانے، اور پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس کو اللہ تعالیٰ ہی نے کھلایا، پلایا ہے، یعنی وہ بےاختیار بھول گیا ہے، اور ایسی صورت میں کوئی مواخذہ نہیں۔
مگر بھول کب ہوتی ہے؟ جب روزہ لگا ہوا نہ ہو، بھوک پیاس لگی ہوئی نہ ہو، اور جب گرمیوں میں دوپہر کے بعد روزہ لگتا ہے، تو بھول نہیں ہوتی، ہاں دو آدمیوں کو ہوتی ہے، ایک: رمضان المبارک کے شروع میں بھول ہوجاتی ہے، پھر جب عادت ہوجاتی ہے، تو بھول نہیں ہوتی، دوسرا: نفل روزہ میں بھول ہوجاتی ہے، جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نفل روزے رکھتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں، کسی دوست کے یہاں گئے، چائی آئی، سب کے ساتھ اس نے بھی پی ڈالی، اور روزہ یاد نہیں رہا۔
لوگ نفل روزے کم کیوں رکھتے ہیں؟
مگر اب لوگوں نے نفل روزوں کی چھٹی کردی ہے، بیڑی، سگریٹ، پان، گٹکا، چائے وغیرہ لغویات کی جو عادت ہمیں پڑگئی ہے، یہ نفل روزے نہیں رکھنے دیتی، یہ عادتیں سر پر ایسی سوار رہتی ہیں، کہ گیارہ مہینے گذر جاتے ہیں، اور ہم کوئی نفل روزہ نہیں رکھتے، ورنہ سردیوں میں تو روزہ غنیمت باردہ ہے، نہ لگے بھوک، نہ لگے پیاس، اور ثواب ملے چوکھا، مگر ہائے رے بری عادتیں! وہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتیں۔
نماز میں لاعلمی اور بھول معاف نہیں:
بہرحال بھول کر کھا پی لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، بلکہ روزہ مکروہ بھی نہیں ہوتا، اور نماز میں بھول ہوجائے، تو نماز ٹوٹ جاتی ہے، اگر بھول کر، یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے کوئی کام نماز میں، نماز کے منافی کرلیا، تو نماز فاسد ہوجائے گی، حدیث شریف میں ہے: حضرت معاویہ بن الحکم السُلمی، جو نو مسلم تھے، جماعت میں آکر کھڑے ہوئے، نماز میں کسی نے چھینک ماری، تو انہوں نے کہا: یرحمک اللہ، یعنی اللہ آپ پر مہربانی کرے، لوگوں نے انہیں گھورا، وہ پھر بولے: مجھے کیوں گھورتے ہو! لوگوں نے ران پر ہاتھ مارے، عربوں کے یہاں یہ اشارہ ہے کہ خاموش رہو، جیسے ہم لوگ منھ پر انگلی رکھتے ہیں، جب نماز پوری ہوئی، تو نبی پاک ﷺ نے ان کو بلایا، وہ فرماتے ہیں: میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان! آپ ﷺ نے نہ مجھے ڈانٹا، نہ جھڑکا، بلکہ فرمایا: اِن ھٰذہ الصلاةَ، لا یَصلُحُ فیھا شیئ من کلام الناس، نماز میں لوگوں کے کلام کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں، یعنی جان بوجھ کر بات ہو، بھول کر ہو، تھوڑی ہو، یا زیادہ، اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، پس دیگر منافیِ نماز چیزوں کو کلام پر قیاس کیا جائےگا، ان سے بھی نماز فاسد ہوجائےگی، مگر روزہ بھول کر کھانے پینے سے فاسد نہیں ہوگا۔
نماز اور روزے میں عقلی فرق:
اور عقلاً فرق یہ ہے کہ آدمی جب نماز پڑھتا ہے، تو ایک خاص حالت میں ہوجاتا ہے، اس حالت میں بھول نہیں ہوتی، اور روزہ میں ایسی کوئی حالت نہیں ہوتی، جو روزہ یاد دلائے، اس لئے روزہ میں بھول ہوجاتی ہے، یعنی نماز کی حالت، حالتِ مذکرہ ہے، جب کہ روزہ کی حالت ایسی نہیں، اور اگر آپ کہیں کہ رمضان المبارک میں تو بھول نہیں ہوتی، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ رمضان المبارک میں عادت پڑجاتی ہے، اس لئے بھول نہیں ہوتی، مگر رمضان المبارک کے شروع میں، اور نفل روزوں میں بھول ہوجاتی ہے، اس لئے شریعت نے بھول کو معاف کیا ہے، اور نماز میں چونکہ ایسی حالت ہوتی ہے، جو نماز کو یاد دلاتی ہے، اس لئے نماز میں بھول کر کلام کی گنجائش نہیں رکھی گئی، کچھ بھی کلام کرے گا، تو نماز فاسد ہوجائےگی۔
❽ وضو کے تین ضروری مسئلے:
سوال: وضو کے سلسلہ میں کچھ فرمائیں، اس لئے کہ وضو میں کوتاہیاں ہورہی ہے؟
جواب: عن لَقِیطِ بنِ صَبِرَةَ رضی اللہ عنہ قال: یا رسولَ اللہِ! أخبرنی عن الوضوءِ؟ قال: أَسْبِغِ الوضوءَ، وَ خَلِّلْ بین الأصابع، وَ بَالِغْ فی الاِسْتِنْشَاقِ، اِلا أن تکونَ صائماً۔
ترجمہ: حضرت لَقِیط رضی اللہ عنہ نے وضو کے بارے میں پوچھا، یعنی وضو کا طریقہ معلوم کیا، تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
① وضو کامل کرو، کامل وضو کرنے کےلئے دھونے والے اعضاء کو تین مرتبہ دھونا سنت کیا گیا ہے، تاکہ ایک مرتبہ دھونا جو فرض ہے، کامل ہوجائے، اور مسح میں چوتھائی سر کا مسح فرض ہے، مگر پورے سر کا مسح سنت کیا گیا ہے، تاکہ ڈھنگ سے چوتھائی سر کا مسح ہوجائے۔
② اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو، ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان بھی، اور پیروں کی انگلیوں کے درمیان بھی، اور یہ حکم ان ملکوں میں، جہاں پانی بہت کم ہے، بڑی اہمیت کا حامل ہے، ہمارے یہاں( برطانیہ میں ) پانی بھت ہے، لیکن مفت نہیں ہے، پانی کے پیسے دینے پڑتے ہیں، پھر پانی کو گرم کرنے کے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں، مگر میں دیکھتا ہوں، ایک آدمی وضو میں پانچ آدمیوں کے بقدر پانی استعمال کرتا ہے، نل کھلا ہے، بیٹھا ہوا باتیں کر رہا ہے، یا مسواک کر رہا، اور پانی برابر جارہا ہے، مسواک سے فارغ ہونے تک ایک بالٹی پانی گرجاتا ہے، مگر اسے اتنی توفیق نہیں ہوتی، کہ نل بند کرے، حالانکہ پانی جو آتا ہے، اس کے پیسے دینے پڑتے ہیں، پھر اس کو گرم کرنے کے الگ پیسے خرچ ہوتے ہیں۔
اسی طرح مسجد میں بتیاں کھلی ہیں، جو پیشاب کرنے جاتا ہے، بتی کھلی چھوڑ کر آجاتا ہے، پوری رات بتیاں جلتی رہتی ہیں، جبکہ چاہئے یہ تھا، کہ جب آدمی بیت الخلاء جائے، تو بٹن کھولے، اور اپنی ضرورت پوری کرکے نکلے، تو بتی بند کردے، بجلی مفت نہیں آتی، اس کے پیسے دینے پڑتے ہیں، اور آپ ہی دیتے ہیں، آپ کے چندے سے پیسے جاتے ہیں، میں نے ایک صاحب سے پوچھا، کہ یہ کیا مصیبت ہے، کہ یہاں کوئی بتی بند ہی نہیں کرتا، مسجد کا خادم بھی نہیں کرتا، تو اس آدمی نے مجھے وجہ بتائی، اور وہ میری سمجھ میں آئی، اس نے کہا: بات دراصل یہ ہے کہ ہم لوگ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، اور اس کی بجلی کرائے میں شامل ہوتی ہے، اس لئے وہاں سے بری عادت پڑگئی ہے کہ جلنے دو، ہمارا کیا بگڑتا ہے، یہ بات میری سمجھ میں آئی، جب بری عادت پڑجاتی ہے، تو وہ سب جگہ چلتی ہے، اس لئے میرے بھائیو! اپنے کرائے کے مکان میں جو چاہو کرو، مگر مسجد کے مال کی حفاظت کرو۔
غرض جہاں پانی زیادہ ہے، اگر وہاں خلال کا اہتمام نہ کیا جائے، تو انگلیوں کے درمیان خشک رہنے کا احتمال کم رہتا ہے، مگر جن ملکوں میں پانی بہت کم ہے، وہاں ذرا سے پانی سے وضو کیا جاتا ہے، پس اگر وہاں انگلیوں کے بیچ میں دوسری انگلی ڈال کر رگڑ کر بھگائیں گے نہیں، تو خشک رہنے کا احتمال رہے گا۔
③ اور ناک اچھی طرح صاف کرو، جب ناک میں پانی ڈالو، تو اس کو سانس کے ذریعہ اوپر چڑھاؤ، پھر ناک جھاڑو، مضمضہ اور استنشاق کا مقصد یہ ہے کہ منھ اور ناک صاف ہوجائیں، مسواک کرکے منھ اچھی طرح دھوؤ، تاکہ منھ کی بدبو زائل ہوجائے، پھر ناک کی آلائشوں کو صاف کرے ، تاکہ اس کا تعفن ختم ہوجائے، پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہوؤ، البتہ اگر کوئی روزے سے ہو، تو پانی چڑھانے میں مبالغہ نہ کرے، پہلے سانس روک لے، پھر ناک میں پانی ڈالے، اگر سانس جاری ہوگا، اور پانی چڑھائے گا ، تو پانی اوپر چلا جائےگا، اس لئے نبی پاک ﷺ نے فرمایا: اگر روزہ ہو، تو پانی ناک میں احتیاط سے چڑھاؤ، کیونکہ پانی اگر دماغ میں چڑھ گیا، تو روزہ فاسد ہوجائےگا، اسی طرح کبھی روزے کی حالت میں آدمی ندی، کنویں میں اترتا ہے، پھر ڈبکی لگاتا ہے، پس جو عادی ہے، وہ تو عادی ہے، وہ ناک نہیں بھی پکڑے گا، تو بھی پانی دماغ میں نہیں چڑھے گا، لیکن اناڑی ایسا کرے گا، تو ممکن ہے، پانی دماغ میں چڑھ جائے، اور پانی دماغ میں چڑھ گیا، تو روزہ ٹوٹ جائےگا۔
❾ اگر علاج کےلئے بڑی رقم کی ضرورت ہو، تو زکوٰۃ دے سکتے ہیں:
سوال: ایک شخص کا پڑوسی کھاتا پیتا آدمی ہے، لیکن اس کے لڑکے کا گردہ فیل ہوگیا ہے، اس لئے فوری گردہ بدلنے کی ضرورت ہے، مگر اس کے پاس اتنی گنجائش نہیں، کہ وہ گردہ خرید سکے، پس کیا اسے زکوٰۃ کی رقم دینا جائز ہے؟
جواب: مالدار ہونے کی حالت میں زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے ، اگر اس حالت میں دی جائے گی، تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، اور جس پر قربانی، صدقۂ فطر واجب ہے، یعنی چھوٹے نصاب کا مالک ہے، وہ مالدار ہے، اسے زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، البتہ اگر وہ مقروض ہوجائے، تو پھر دے سکتے ہیں، پس وہ کہیں سے قرض لےکر گردہ خرید لے، اور وہ مقروض ہوجائے، تو اب زکوٰۃ کی رقم اس کو دے سکتے ہیں۔
⑽ قضائے عمری پہلے پڑھے، یا سنتیں،نفلیں:
سوال: ایک آدمی کی زندگی میں بہت سی نمازیں قضا ہوئی ہیں، تو ایسے شخص کو نفلیں اور سنتیں پڑھنی چاہئیں، یا قضائے عمری پڑھنی چاھئے؟
جواب: ایسے آدمی کو پہلے قضائے عمری پڑھنی چاھئے، پھر جب قضائے عمری سے فارغ ہوجائے، تو نفلیں، سنتیں پڑھے، کیونکہ فرض، فرض ہے، جو پچھلی نمازیں چھٹی ہیں، ان کی قضا ضروری ہے، اور نفل، نفل ہے، اس کا مقام و مرتبہ بعد میں ہے، اس لئے اس شخص کو پہلے اپنی چھٹی ہوئی نمازوں کی تلافی کرنی چاہئے، سنتوں کی جگہ، تحیة الوضو کی جگہ، اور تحیة المسجد کی جگہ قضائے عمری پڑھے ، پھر جب وہ اپنے اندازے کے مطابق فرض نمازیں قضا کرچکے، تو دوسری نفلیں پڑھے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن