Wednesday 30 March 2016

تلک عشرة کاملة

  !!! تلک عشرة کاملة!!!   

مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ،شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقل : عادل سعیدی پالن پوری


بےروزگاری کے وظیفہ کا حکم:

        سوال: حکومت کی طرف سے بےروزگاروں کو جو وظیفہ ملتا ہے، اس کا لینا کیسا ہے؟

       
جواب: بےروزگاری کا وظیفہ( ویلفیر ) لینے کی دو صورتیں ہیں: ایک: مستحق کا لینا، یعنی واقعی بےروزگار ہے، تو لے سکتا ہے، اور اس رقم کو ہر مصرف میں خرچ کرسکتا ہے، دوسری: غیر مستحق کا لینا، یعنی جو برسرِ روزگار ہے، ویلفیر کا مستحق نہیں؛ مگر اپنا ذریعۂ معاش چھپاکر، اور جھوٹ بولکر وظیفہ لیتا ہے، تو یہ حکومت کے خزانے پر ایک طرح سے ڈاکہ ڈالنا ہے، اور اس کا حکم واضح ہے۔

حکومت بوڑھوں کو جو وظیفہ دیتی ہے، اس کا لینا جائز ہے؟

        سوال: یہاں ( برطانیہ میں ‌) ساٹھ سال کے بعد حکومت بوڑھوں کو وظیفہ دیتی ہے، تو کیا اس رقم کو حج، یا عمرہ میں استعمال کرسکتے ہیں؟ اور مسجد کے چندہ میں دے سکتے ہیں؟

       
جواب: حج بھی کرسکتے ہیں، عمرہ بھی کرسکتے ہیں، اور مسجد کے چندے میں بھی دے سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ یہ ایک قانون ہے، کہ جو ساٹھ سال کا ہوجائے گا ، اسے وظیفہ دیا جائےگا ، پس اس قانون سے جو وظیفہ ملتا ہے، اسے لیکر استعمال کرسکتے ہیں۔

       
اور اگر کسی کے ذہن میں شبہ ہو کہ حکومت کا مال، معلوم نہیں کن ذرائع سے حاصل ہوتا ہے؟ ہوسکتا ہے وہ ناجائز ذرائع سے حاصل ہوا ہو، ایسا مال ہمارے پاس آتا ہے، اس لئے اس کو حج، یا عمرہ میں، یا مسجد میں دینا کیسے مناسب ہوگا؟

       
اگر یہ شبہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ملکیت بدلنے سے حکم بدل جاتا ہے، مثلا ٹیکَس کی رقم گورنمنٹ نے لوگوں پر ظلم کرکے لی، یا جرمانہ کرکے لی، تو گورنمنٹ مالک ہوگئی، پھر وہ بوڑھے کو دیتی ہے، تو ملکیت بدل گئی، اور ملکیت بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔

       
دلیل: حدیث شریف میں ہے: حضور اکرم ﷺ گھر میں تشریف لائے، اور کچھ کھانے کو مانگا، چنانچہ روٹی اور سرکہ پیش کیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا: گوشت پکنے کی خوشبو آرہی ہے، کیا ہمارا اس میں کوئی حصہ نہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ گوشت کسی نے بریرہؓ کو صدقہ دیا ہے( حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا ایک باندی تھیں، ان کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خرید کر آزاد کیا تھا، وہ آزاد ہونے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں رہتی تھیں، اور ان سے پڑھتی تھیں، ان کو کسی نے خیرات دی تھی، وہ گوشت پک رہا تھا، اور حضور اکرم ﷺ کےلئے صدقہ حلال نہیں تھا ‌) آپ ﷺ نے فرمایا: لَھَا صَدَقَةٌ، وَ لَنَا ھَدِیَّةٌ: بریرہ کےلئے وہ گوشت صدقہ ہے، اور جب بریرہ ہمیں دیگی ، تو وہ ہمارے لئے ہدیہ ہوگا، یعنی اب ہمارے لئے اس کا استعمال کرنا جائز ہوگا، یہاں سے مسئلہ سمجھ میں آیا، کہ ملکیت بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔
       
دوسری مثال: زکوٰۃ دینے والے نے غریب کو زکوٰۃ دی، جب تک وہ رقم زکوٰۃ دینے والے کے پاس تھی، زکوٰۃ تھی، پھر جب وہ غریب کو دیدی، اور اس کی ملکیت میں چلی گئی، تو وہ زکوٰۃ نہیں رہی، ملکیت بدل گئی، اب وہ غریب کسی مالدار کی دعوت کرسکتا ہے، اور کسی مالدار کو ہدیہ دے سکتا ہے۔

       
لیکن اگر کوئی چوری کرکے مال لایا، اور اس نے کسی کو ہدیہ دیا، یا دعوت کی، درانحالیکہ وہ جانتا ہے کہ یہ چوری کا مال ہے، تو وہ ہدیہ لینا، اور دعوت کھانا جائز نہیں، حرام ہے؛ کیونکہ آدمی چوری کے پیسے کا مالک نہیں ہوتا، پس اگر وہ دعوت کرتا ہے، یا کسی کو ہدیہ دیتا ہے، تو جائز نہیں، البتہ اگر چوری کا مال، یا سود کا مال اپنے مال کے ساتھ ملادیا، اور اس طرح ملادیا، کہ کوئی امتیاز باقی نہ رہا، تو دیکھا جائے گا، کہ غالب مال کونسا ہے؟ حلال یا حرام؟ اگر غالب مال حلال ہے، تو دعوت کھانا، یا ہدیہ لینا جائز ہے، ورنہ نہیں۔

       
اسی لئے کہتے ہیں: سود کی رقم غریب کو ثواب کی نیت کے بغیر دینا ضروری ہے، کیوں؟ اس لئے کہ سود کی رقم لینے والے کا مال کہاں ہے؟ کسی کی اپنی رقم ہو، اور وہ کسی غریب کو دے، اور ثواب کی نیت کرے، تو ایک بات بھی ہے، مگر بینک سے جو سود ملتا ہے، لینے والا اس کا مالک نہیں ہوتا، جب مالک ہی نہیں ہوتا، تو ثواب کی نیت کیسے درست ہوسکتی ہے؟

       
غرض میں بات یہ سمجھا رہا تھا، کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے یہ ضابطہ نکلا، کہ ملکیت بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں، اور میں نے یہ بھی سمجھایا، کہ چوری کے مال میں، اور سود کے مال میں ملکیت نہیں بدلتی، اس لئے اس کے احکام علاحدہ ہیں، جہاں ملکیت بدلتی ہے، جیسے زکوٰۃ، صدقہ میں، تو وہاں احکام بدلتے ہیں، پس گورنمنٹ کا جو فنڈ ہے، وہ اگرچہ مختلف طرح سے اکٹھا ہوتا ہے، جائز جگہوں سے بھی مال آتا ہے، اور ناجائز جگہوں سے بھی، مگر پہلے گورنمنٹ اس کی مالک بنتی ہے، استیلاء سے حکومت مالک ہوجاتی ہے، پھر وہ بوڑھوں کو وظیفہ دیتی ہے، اس لئے اس کا لینا جائز ہے، اور ہر مصرف میں اس کو خرچ کرسکتے ہیں، حج بھی کرسکتے ہیں، عمرہ بھی کرسکتے ہیں، اور مسجد کے چندے میں بھی دے سکتے ہیں۔

غریب کے پاس جب تک مال بعینہٖ موجود ہو، زکوٰۃ کی نیت کی جاسکتی ہے:

        سوال: ایک شخص بیمار ہے، ایک ماہ پہلے اس کا فون آیا، اور اس نے مدد طلب کی، وہ رشتہ دار ہے، یہاں سے( برطانیہ سے ) کسی نے اس کو کچھ رقم بھیج دی، جب رقم بھیجی، اس وقت کچھ نیت نہیں تھی، جس طرح رشتہ داروں کا تعاون کرتے ہیں، اس طرح رقم بھیجی تھی، اب رمضان آیا، اس نے اپنا زکوٰۃ کا حساب کیا، اب وہ یہ چاھتا ہے کہ پہلے جو رقم بھیجی ہے، اسے زکوٰۃ میں گن لے، تو یہ جائز ہے، یا نہیں؟

       
جواب: زکوٰۃ کی نیت تین موقعوں پر ہوسکتی ہے:

       
پہلا موقعہ: جب حساب کیا، اور معلوم ہوگیا کہ ایک ہزار روپے زکوٰۃ واجب ہے، اس نے ہزار روپے نکال کر کسی ڈبے میں رکھ دئیے، تو یہ نیت ہوگئی، اب وہ اس میں سے کسی کو بچیس روپے، کسی کو پچاس روپے دیتا رہا، تو زکوٰۃ ادا ہوگئی؛ کیونکہ اس نے ڈبے میں جب رقم علاحدہ کی تھی، اس وقت نیت کرلی تھی، اب خرچ کے موقع پر نیت ضروری نہیں۔

       
دوسرا موقعہ: کسی نے حساب کیا، اس کے ذمہ ایک ہزار روپے زکوٰۃ واجب نکلی، مگر اس نے رقم علاحدہ نہیں کی، پھر کسی کو پچاس روپے دئیے، اور دیتے وقت نیت کی، اور ڈائری میں لکھ لیا، کہ فلاں تاریخ کو پچاس روپے دئیے، اسی طرح پھر پندرہ دن کے بعد کسی غریب کو سو روپے دئیے، تو زکوٰۃ کی نیت کی، اور لکھ لئے، تو یہ صورت بھی صحیح ہے، اس کو کہتے ہیں: زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ نیت کرنا۔

       
تیسرا موقعہ: رقم علاحدہ بھی نہیں کی، اور جب دی، اس وقت بھی نیت نہیں کی، مگر غریب کے پاس ابھی دی ہوئی رقم بعینہٖ موجود ہے، خرچ نہیں ہوئی، تو جب تک وہ رقم بعینہٖ غریب کے پاس موجود ہے، نیت کرسکتا ہے، البتہ اگر رقم اس کے پاس سے ہلاک ہوگئی، یا خرچ ہوگئی، تو اب زکوٰۃ کی نیت نہیں کی جاسکتی۔

       
بہرحال یہ تین مواقع ہیں نیت کے، اور صورتِ مسئلہ میں بظاہر وہ بھیجی ہوئی رقم بعینہٖ موجود نہیں ہوگی، کیونکہ یہ پرانا قصہ ہے، اس لئے اب زکوٰۃ کی نیت نہیں ہوسکتی۔

       
اضافہ: در مختار میں ہے: و شرطُ صِحَّةِ أدَائِھا: نیةٌ مقارنة لہ أی للأداء، و لو کانت المقارنة حکما، کما لو دفع بلانیة، ثم نوی، و المالُ قائم فی ید الفقیر، زکوٰۃ کی ادائیگی کی صحت کےلئے شرط: ادا کے ساتھ نیت کا مقارن ہونا، اگرچہ مقارنت حکمی ہو، جیسے بغیر نیت کے دیا، پھر نیت کی، درانحالیکہ مال غریب کے پاس( بعینہٖ ) موجود ہے،( تو یہ مقارنتِ حکمی ہے، اس لئے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی )۔

سونے چاندی کے دانتوں کے ساتھ نماز درست ہے:

        سوال: اگر دانت سونے کے ہوں، تو نماز ہوسکتی ہے، یا نہیں؟

       
جواب: ہوسکتی ہے، دانت خواہ سونے کا ہو، یا چاندی کا ہو، لوہے کا ہو، یا پیتل کا ہو، کانسے کا ہو، یا کسی بھی دھات کا ہو، نماز درست ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور یہ ایسا ہے، جیسے جیب میں سونے، چاندی یا لوہے وغیرہ کا کوئی ٹکڑا رکھ لیا جائے، تو نماز درست ہے۔

       
اور شبہ اس لئے ہے کہ سونے کا استعمال مرد کےلئے جائز نہیں، تو جاننا چاھئے کہ ضرورت کے وقت دانت میں سونے کا استعمال جائز ہے، حدیث شریف میں ہے: ایک صحابی کی ایک جنگ میں ناک کٹ گئی تھی، انہوں نے چاندی کی ناک بنوائی، مگر اس میں بدبو ہوجاتی تھی، چنانچہ نبی پاک ﷺ نے ان کو سونے کی ناک بنوانے کی اجازت دی، اس پر دانت کو قیاس کیا گیا ہے؛ کیونکہ چاندی کا دانت کالا پڑجاتا ہے، اس لئے دانت پر سونے کا خول چڑھانا جائز ہے۔

ایسے ہوٹل میں ملازمت کرنا، جہاں حرام چیزیں بیچی جاتی ہیں:

        سوال: کوئی ایسے ریسٹورنٹ میں مزدوری کرتا ہے، جہاں حرام چیزیں( غیر مذبوحہ گوشت، یا شراب ) بیچی جاتی ہو، تو اس کا کیا حکم ہے؟ تنخواہ جائز ہے، یا نہیں؟ اور ایسے ہوٹل میں ملازمت کرنی چاھئے، یا نہیں؟

       
جواب: تنخواہ خبث( گندگی ) کے ساتھ جائز ہے، مگر ایسی جگہ نوکری نہیں کرنی چاھئے، دوسری متبادل نوکری تلاش کرنی چاھئے، جب نوکری مل جائے، تو یہ نوکری چھوڑ دے، جیسے کوئی بینک میں ملازم ہو، تو اس کا بھی یہی حکم ہے، کیونکہ بینک کی ملازمت جائز نہیں، وہاں سودی کاروبار ہوتا ہے، اور سود کے معاملہ میں، جو کسی طرح کا بھی عمل دخل رکھتا ہے، اس پر لعنت آئی ہے، لیکن اگر کوئی ملازمت کرتا ہے، تو وہاں سے جو تنخواہ ملتی ہے، وہ جائز ہے، کیونکہ بینک کے پاس صرف سود ہی نہیں ہوتا، اور بھی ذرائعِ آمدنی ہوتے ہیں، بینک ڈراف بناتا ہے، اور فیس لیتا ہے، جو جائز ہے، ایسے اور بھی کام ہیں، مگر بینک کا بڑا کاروبار سود پر رقمیں دینا ہے، اس لئے اس کی آمدنی میں سود بھی شامل ہوتا ہے، اور ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے، وہ مجموعہ سے ملتی ہے، اس لئے تنخواہ جائز ہے، مگر اس میں خبث( گندگی ) ہے، جیسے کھڑکی پر پیلا گلاس ہو، تو سورج کی جو دھوپ آئے گی، وہ پیلی آئے گی، اسی طرح بینک کی جو رقم تنخواہ میں ملے گی، وہ خبث لے کر آئے گی، اسی طرح جس ہوٹل میں حرام چیزیں بیچی جاتی ہیں، اس کا بھی یہی معاملہ ہے۔

       
اور بینک کی ملازمت کے بارے میں مفتیانِ کرام نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ فورا وہ ملازمت نہ چھوڑے، دوسری متبادل ملازمت تلاش کرے، جب دوسری ملازمت مل جائے، تو بینک کی ملازمت چھوڑ دے، اسی طرح اس ہوٹل کی ملازمت سے کنارہ کش ہوجائے، مگر پہلے دوسری ملازمت حاصل کرلے، پھر اس ملازمت کو چھوڑے۔

کوٹ پتلون اور ٹائی کے ساتھ مسجد میں نماز کےلئے آنا:

        سوال: ان ملکوں میں لوگ عام طور پر کوٹ پتلون پہنتے ہیں، یہاں کا عام لباس یہی ہے، پس مسجد میں نماز پڑھنے کےلئے آنے کا کیا حکم ہے: کیا اس لباس میں نماز پڑھنے میں کوئی کراہیت تو نہیں؟

       
جواب: لوگ کام پر جانے کےلئے الگ کپڑے رکھتے ہیں، کوٹ پتلون اور ٹائی باندھ کر جاتے ہیں، میں اس کو منع نہیں کرتا، کہ یہ ایک مجبوری ہے، مگر لوگ جب مسجد میں آتے ہیں، تو یہی کپڑے پہن کر آتے ہیں، یہ ٹھیک نہیں، مسجد( اللہ تعالیٰ کے گھر ) میں اسلامی لباس پہن کر آنا چاھئے، اگر اس لباس میں ڈیوٹی پر نماز پڑھ لی، تو کوئی حرج نہیں، مگر جب آپ کام سے فارغ ہوگئے، اور اپنے گھر آگئے، تو اب لباس بدل دینا چاھئے، پھر جب اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری ہو تو اسلامی لباس پہن کر آنا چاھئے۔

       
اور یہ بات سمجھ لینی چاھئے کہ جیسے آفس میں جانے کےلئے یونیفارم ہے، اللہ تعالیٰ کے دربار میں آنے کےلئے بھی ایک یونیفارم ہے، اور وہ اسلامی لباس ہے، کیونکہ انگریزی لباس کھڑے ہوئے ہونے کی حالت میں تو اچھا لگتا ہے، لیکن جب آدمی سجدے میں جاتا ہے، تو آدھا ننگا ہوجاتا ہے، اس لئے ایسا لباس پہن کر اللہ تعالیٰ کے گھر میں نہیں آنا چاھئے۔

روزے میں بھول معاف ہے، نماز میں کیوں نہیں:

        سوال: روزے میں بھول کر کوئی کھا پی لے، تو روزہ نہیں ٹوٹتا، مگر نماز ٹوٹ جاتی ہے، یہ فرق کیوں ہے؟

       
جواب: فرق اس لئے ہے، کہ روزے کے سلسلہ میں حدیث ہے، اور نماز کے سلسلہ میں کوئی حدیث نہیں، اور قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں ٹوٹ جائیں، مگر حدیث شریف کی وجہ سے روزہ استحساناً نہیں ٹوٹتا، اور وہ حدیث یہ ہے: عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ أنہ قال: اِذا نَسِیَ أحَدُکُمْ، فأکل أو شَرِبَ، فلیُتِمَّ صومَہ، فاِنھا أطْعَمَہُ اللہ وَ سَقَاہ( متفق علیہ ) حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص بھول کر کھا پی لے، وہ اپنا روزہ پورا کرے، یعنی بھول کر کھانے، اور پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس کو اللہ تعالیٰ ہی نے کھلایا، پلایا ہے، یعنی وہ بےاختیار بھول گیا ہے، اور ایسی صورت میں کوئی مواخذہ نہیں۔

       
مگر بھول کب ہوتی ہے؟ جب روزہ لگا ہوا نہ ہو، بھوک پیاس لگی ہوئی نہ ہو، اور جب گرمیوں میں دوپہر کے بعد روزہ لگتا ہے، تو بھول نہیں ہوتی، ہاں دو آدمیوں کو ہوتی ہے، ایک: رمضان المبارک کے شروع میں بھول ہوجاتی ہے، پھر جب عادت ہوجاتی ہے، تو بھول نہیں ہوتی، دوسرا: نفل روزہ میں بھول ہوجاتی ہے، جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نفل روزے رکھتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں، کسی دوست کے یہاں گئے، چائی آئی، سب کے ساتھ اس نے بھی پی ڈالی، اور روزہ یاد نہیں رہا۔

لوگ نفل روزے کم کیوں رکھتے ہیں؟

       
مگر اب لوگوں نے نفل روزوں کی چھٹی کردی ہے، بیڑی، سگریٹ، پان، گٹکا، چائے وغیرہ لغویات کی جو عادت ہمیں پڑگئی ہے، یہ نفل روزے نہیں رکھنے دیتی، یہ عادتیں سر پر ایسی سوار رہتی ہیں، کہ گیارہ مہینے گذر جاتے ہیں، اور ہم کوئی نفل روزہ نہیں رکھتے، ورنہ سردیوں میں تو روزہ غنیمت باردہ ہے، نہ لگے بھوک، نہ لگے پیاس، اور ثواب ملے چوکھا، مگر ہائے رے بری عادتیں! وہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتیں۔

نماز میں لاعلمی اور بھول معاف نہیں:

     
بہرحال بھول کر کھا پی لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، بلکہ روزہ مکروہ بھی نہیں ہوتا، اور نماز میں بھول ہوجائے، تو نماز ٹوٹ جاتی ہے، اگر بھول کر، یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے کوئی کام نماز میں، نماز کے منافی کرلیا، تو نماز فاسد ہوجائے گی، حدیث شریف میں ہے: حضرت معاویہ بن الحکم السُلمی، جو نو مسلم تھے، جماعت میں آکر کھڑے ہوئے، نماز میں کسی نے چھینک ماری، تو انہوں نے کہا: یرحمک اللہ، یعنی اللہ آپ پر مہربانی کرے، لوگوں نے انہیں گھورا، وہ پھر بولے: مجھے کیوں گھورتے ہو! لوگوں نے ران پر ہاتھ مارے، عربوں کے یہاں یہ اشارہ ہے کہ خاموش رہو، جیسے ہم لوگ منھ پر انگلی رکھتے ہیں، جب نماز پوری ہوئی، تو نبی پاک ﷺ نے ان کو بلایا، وہ فرماتے ہیں: میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان! آپ ﷺ نے نہ مجھے ڈانٹا، نہ جھڑکا، بلکہ فرمایا: اِن ھٰذہ الصلاةَ، لا یَصلُحُ فیھا شیئ من کلام الناس، نماز میں لوگوں کے کلام کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں، یعنی جان بوجھ کر بات ہو، بھول کر ہو، تھوڑی ہو، یا زیادہ، اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، پس دیگر منافیِ نماز چیزوں کو کلام پر قیاس کیا جائےگا، ان سے بھی نماز فاسد ہوجائےگی، مگر روزہ بھول کر کھانے پینے سے فاسد نہیں ہوگا۔

نماز اور روزے میں عقلی فرق:

       
اور عقلاً فرق یہ ہے کہ آدمی جب نماز پڑھتا ہے، تو ایک خاص حالت میں ہوجاتا ہے، اس حالت میں بھول نہیں ہوتی، اور روزہ میں ایسی کوئی حالت نہیں ہوتی، جو روزہ یاد دلائے، اس لئے روزہ میں بھول ہوجاتی ہے، یعنی نماز کی حالت، حالتِ مذکرہ ہے، جب کہ روزہ کی حالت ایسی نہیں، اور اگر آپ کہیں کہ رمضان المبارک میں تو بھول نہیں ہوتی، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ رمضان المبارک میں عادت پڑجاتی ہے، اس لئے بھول نہیں ہوتی، مگر رمضان المبارک کے شروع میں، اور نفل روزوں میں بھول ہوجاتی ہے، اس لئے شریعت نے بھول کو معاف کیا ہے، اور نماز میں چونکہ ایسی حالت ہوتی ہے، جو نماز کو یاد دلاتی ہے، اس لئے نماز میں بھول کر کلام کی گنجائش نہیں رکھی گئی، کچھ بھی کلام کرے گا، تو نماز فاسد ہوجائےگی۔

وضو کے تین ضروری مسئلے:

        سوال: وضو کے سلسلہ میں کچھ فرمائیں، اس لئے کہ وضو میں کوتاہیاں ہورہی ہے؟

       
جواب: عن لَقِیطِ بنِ صَبِرَةَ رضی اللہ عنہ قال: یا رسولَ اللہِ! أخبرنی عن الوضوءِ؟ قال: أَسْبِغِ الوضوءَ، وَ خَلِّلْ بین الأصابع، وَ بَالِغْ فی الاِسْتِنْشَاقِ، اِلا أن تکونَ صائماً۔
       
ترجمہ: حضرت لَقِیط رضی اللہ عنہ نے وضو کے بارے میں پوچھا، یعنی وضو کا طریقہ معلوم کیا، تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
       
وضو کامل کرو، کامل وضو کرنے کےلئے دھونے والے اعضاء کو تین مرتبہ دھونا سنت کیا گیا ہے، تاکہ ایک مرتبہ دھونا جو فرض ہے، کامل ہوجائے، اور مسح میں چوتھائی سر کا مسح فرض ہے، مگر پورے سر کا مسح سنت کیا گیا ہے، تاکہ ڈھنگ سے چوتھائی سر کا مسح ہوجائے۔
       
اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو، ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان بھی، اور پیروں کی انگلیوں کے درمیان بھی، اور یہ حکم ان ملکوں میں، جہاں پانی بہت کم ہے، بڑی اہمیت کا حامل ہے، ہمارے یہاں( برطانیہ میں ) پانی بھت ہے، لیکن مفت نہیں ہے، پانی کے پیسے دینے پڑتے ہیں، پھر پانی کو گرم کرنے کے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں، مگر میں دیکھتا ہوں، ایک آدمی وضو میں پانچ آدمیوں کے بقدر پانی استعمال کرتا ہے، نل کھلا ہے، بیٹھا ہوا باتیں کر رہا ہے، یا مسواک کر رہا، اور پانی برابر جارہا ہے، مسواک سے فارغ ہونے تک ایک بالٹی پانی گرجاتا ہے، مگر اسے اتنی توفیق نہیں ہوتی، کہ نل بند کرے، حالانکہ پانی جو آتا ہے، اس کے پیسے دینے پڑتے ہیں، پھر اس کو گرم کرنے کے الگ پیسے خرچ ہوتے ہیں۔

       
اسی طرح مسجد میں بتیاں کھلی ہیں، جو پیشاب کرنے جاتا ہے، بتی کھلی چھوڑ کر آجاتا ہے، پوری رات بتیاں جلتی رہتی ہیں، جبکہ چاہئے یہ تھا، کہ جب آدمی بیت الخلاء جائے، تو بٹن کھولے، اور اپنی ضرورت پوری کرکے نکلے، تو بتی بند کردے، بجلی مفت نہیں آتی، اس کے پیسے دینے پڑتے ہیں، اور آپ ہی دیتے ہیں، آپ کے چندے سے پیسے جاتے ہیں، میں نے ایک صاحب سے پوچھا، کہ یہ کیا مصیبت ہے، کہ یہاں کوئی بتی بند ہی نہیں کرتا، مسجد کا خادم بھی نہیں کرتا، تو اس آدمی نے مجھے وجہ بتائی، اور وہ میری سمجھ میں آئی، اس نے کہا: بات دراصل یہ ہے کہ ہم لوگ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، اور اس کی بجلی کرائے میں شامل ہوتی ہے، اس لئے وہاں سے بری عادت پڑگئی ہے کہ جلنے دو، ہمارا کیا بگڑتا ہے، یہ بات میری سمجھ میں آئی، جب بری عادت پڑجاتی ہے، تو وہ سب جگہ چلتی ہے، اس لئے میرے بھائیو! اپنے کرائے کے مکان میں جو چاہو کرو، مگر مسجد کے مال کی حفاظت کرو۔

       
غرض جہاں پانی زیادہ ہے، اگر وہاں خلال کا اہتمام نہ کیا جائے، تو انگلیوں کے درمیان خشک رہنے کا احتمال کم رہتا ہے، مگر جن ملکوں میں پانی بہت کم ہے، وہاں ذرا سے پانی سے وضو کیا جاتا ہے، پس اگر وہاں انگلیوں کے بیچ میں دوسری انگلی ڈال کر رگڑ کر بھگائیں گے نہیں، تو خشک رہنے کا احتمال رہے گا۔
       
اور ناک اچھی طرح صاف کرو، جب ناک میں پانی ڈالو، تو اس کو سانس کے ذریعہ اوپر چڑھاؤ، پھر ناک جھاڑو، مضمضہ اور استنشاق کا مقصد یہ ہے کہ منھ اور ناک صاف ہوجائیں، مسواک کرکے منھ اچھی طرح دھوؤ، تاکہ منھ کی بدبو زائل ہوجائے، پھر ناک کی آلائشوں کو صاف کرے ، تاکہ اس کا تعفن ختم ہوجائے، پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہوؤ، البتہ اگر کوئی روزے سے ہو، تو پانی چڑھانے میں مبالغہ نہ کرے، پہلے سانس روک لے، پھر ناک میں پانی ڈالے، اگر سانس جاری ہوگا، اور پانی چڑھائے گا ، تو پانی اوپر چلا جائےگا، اس لئے نبی پاک ﷺ نے فرمایا: اگر روزہ ہو، تو پانی ناک میں احتیاط سے چڑھاؤ، کیونکہ پانی اگر دماغ میں چڑھ گیا، تو روزہ فاسد ہوجائےگا، اسی طرح کبھی روزے کی حالت میں آدمی ندی، کنویں میں اترتا ہے، پھر ڈبکی لگاتا ہے، پس جو عادی ہے، وہ تو عادی ہے، وہ ناک نہیں بھی پکڑے گا، تو بھی پانی دماغ میں نہیں چڑھے گا، لیکن اناڑی ایسا کرے گا، تو ممکن ہے، پانی دماغ میں چڑھ جائے، اور پانی دماغ میں چڑھ گیا، تو روزہ ٹوٹ جائےگا۔

اگر علاج کےلئے بڑی رقم کی ضرورت ہو، تو زکوٰۃ دے سکتے ہیں:

       
سوال: ایک شخص کا پڑوسی کھاتا پیتا آدمی ہے، لیکن اس کے لڑکے کا گردہ فیل ہوگیا ہے، اس لئے فوری گردہ بدلنے کی ضرورت ہے، مگر اس کے پاس اتنی گنجائش نہیں، کہ وہ گردہ خرید سکے، پس کیا اسے زکوٰۃ کی رقم دینا جائز ہے؟

       
جواب: مالدار ہونے کی حالت میں زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے ، اگر اس حالت میں دی جائے گی، تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، اور جس پر قربانی، صدقۂ فطر واجب ہے، یعنی چھوٹے نصاب کا مالک ہے، وہ مالدار ہے، اسے زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، البتہ اگر وہ مقروض ہوجائے، تو پھر دے سکتے ہیں، پس وہ کہیں سے قرض لےکر گردہ خرید لے، اور وہ مقروض ہوجائے، تو اب زکوٰۃ کی رقم اس کو دے سکتے ہیں۔

قضائے عمری پہلے پڑھے، یا سنتیں،نفلیں:

        سوال: ایک آدمی کی زندگی میں بہت سی نمازیں قضا ہوئی ہیں، تو ایسے شخص کو نفلیں اور سنتیں پڑھنی چاہئیں، یا قضائے عمری پڑھنی چاھئے؟

       
جواب: ایسے آدمی کو پہلے قضائے عمری پڑھنی چاھئے، پھر جب قضائے عمری سے فارغ ہوجائے، تو نفلیں، سنتیں پڑھے، کیونکہ فرض، فرض ہے، جو پچھلی نمازیں چھٹی ہیں، ان کی قضا ضروری ہے، اور نفل، نفل ہے، اس کا مقام و مرتبہ بعد میں ہے، اس لئے اس شخص کو پہلے اپنی چھٹی ہوئی نمازوں کی تلافی کرنی چاہئے، سنتوں کی جگہ، تحیة الوضو کی جگہ، اور تحیة المسجد کی جگہ قضائے عمری پڑھے ، پھر جب وہ اپنے اندازے کے مطابق فرض نمازیں قضا کرچکے، تو دوسری نفلیں پڑھے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن
مکمل تحریر >>

Tuesday 29 March 2016

نبوت سے انسان کو کیوں سرفراز کیا گیا؟

 نبوت سے انسان کو کیوں سرفراز کیا گیا؟ 

مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ،شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند

ناقل : عادل سعیدی پالن پوری

       
خطبۂ مسنونہ کے بعد: { وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

       
بزرگو اور بھائیو! یہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے، جو سورۂ نحل میں آئی ہے، اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعاليٰ نے مشرکین کے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے، آنحضورﷺ نے جب نبوت کا دعویٰ کیا، تو مشرکین نے کہا: آپ ؑ ہمارے جیسے ایک انسان ہیں، آپ ؑ میں کیا سرخاب کا پر لگا ہے، جو اللہ نے آپ کو نبوت سے سرفراز کیا؟ اللہ کے یہاں فرشتوں کی کمی نہیں، اگر اللہ کو رسول بھیجنا تھا، تو کسی فرشتہ کو رسول بناکر بھیجتے، آپ کو ہی رسول بناکر کیوں بھیجا؟

       
یہ مشرکین کا ایک اعتراض تھا، قرآن کریم میں جگہ جگہ مختلف انداز سے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، تاکہ انسان کو رسالت کے ساتھ سرفراز کرنے کی وجہ، مشرکین کے سمجھ میں آئے، اس آیت میں بھی مشرکین کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، اور قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ اصل مسئلہ کے ساتھ ضمناً اور بھی مسائل بیان کرتا ہے۔

       
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ، اور نہیں بھیجا ہم نے آپ سے پہلے، مگر مردوں کو، جن کی طرف ہم وحی بھیجتے ہیں، یعنی جب سے نبوت و رسالت کا سلسلہ شروع ہوا ہے، ہمیشہ انسان ہی رسول بن کر آئے ہیں، اور مرد ہی رسول بن کر آئے ہیں، نہ کبھی کوئی فرشتہ رسول بن کر آیا، اور نہ کبھی کوئی عورت رسول بن کر آئی۔

عورتوں کو بھاری ذمہ داری سے سبکدوش رکھا گیا ہے:

       
کبھی کوئی عورت رسول بن کر نہیں آئی، یہ بات ضمناً آئی ہے، اور عورتوں کو رسالت سے سرفراز اس لئے نہیں کیا گیا، کہ ان میں نبوت کے ساتھ متصف ہونے کی صلاحیت نہیں، عورت صنفِ نازک ہے، ناتواں اور کمزور ہے، اور نبوت و رسالت کی ذمہ داری بھاری ذمہ داری ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم فرمایا، اور ان کے ناتواں کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری نہیں رکھی، جیسے جہاد عورتوں پر فرض نہیں؛ کیونکہ جہاد پتہ مار کام ہے، جب میدانِ کارزار گرم ہوتا ہے، تو بڑے بڑے سورماؤں کے پتے، پانی ہوتے ہیں، اور کلیجہ منھ کو آتا ہے، غرض جہاد بڑا صبر آزما اور مشکل کام ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر جہاد فرض نہیں کیا۔

       
اسی طرح رسالت کا کام ہے، آپ نبی پاک ﷺ کی مکی زندگی پڑھیں، کن احوال سے آپ ﷺ کو گذرنا پڑا ہے، مدنی دور کی آٹھ سالہ تاریخ، فتحِ مکہ تک پڑھیں، کوئی رات آپ ﷺ نے چین اور سکون سے نہیں گذاری، اتنا بھاری اور سخت کام عورتوں کے بس کا نہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پڑھیں، حضرت نوح علیہ السلام کی تاریخ پڑھیں، جو احوال ان حضرات پر گذرے ہیں، کیا عورت ان کا تحمل کرسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑا کرم فرمایا، ان کی کمزوری کو ملحوظ رکھ کر، ان پر نہ جہاد فرض کیا، نہ نبوت کی ذمہ داری ان کو اوڑھائی۔

اہل الذکر سے یہود و نصاریٰ اور مسلمان علماء مراد ہیں:

       
بہرحال یہ مسئلہ ضمناً آیا ہے کہ عورتوں کو نبوت سے سرفراز نہیں کیا گیا ہے، ہمیشہ مردوں ہی کو رسول بنایا گیا ہے ، کبھی کوئی فرشتہ رسول بن کر نہیں آیا ہے ، یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ، اگر یہ بات کہ ہمیشہ مرد ہی رسول بن کر آئے ہیں، تمہیں معلوم نہ ہو، تو اہل الذکر یعنی یہود و نصاریٰ کے علماء سے پوچھو، جزیرة العرب میں یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے، مدینہ منورہ یہودیوں سے بھرا پڑا تھا، اور نصاریٰ بھی آباد تھے، خود مکہ مکرمہ میں عیسائی تھے، ورقہ بن نوفل جن کے پاس حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا آنحضورﷺ کو لے گئی تھیں، وہ عیسائی تھے، اور انجیل کا عربی میں ترجمہ کرکے لوگوں میں تقسیم کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہود و نصاریٰ اہلِ کتاب ہیں، ان کے پاس تورات و انجیل کا علم ہے، وہ ان کو پڑھتے ہیں، وہ اس حقیقت سے واقف ہیں، اگر تم یہ بات کہ ہمیشہ مرد ہی رسول بن کر آئے ہیں، نہیں جانتے تو اہلِ کتاب، یہود و نصاریٰ سے پوچھو، وہ تمہیں بتائیں گے کہ ہمیشہ مرد ہی رسول بن کر آئے ہیں، کبھی کوئی فرشتہ رسول بن کر نہیں آیا۔

       
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کو اہلِ کتاب نہیں کہا، اہل الذکر کہا، قرآن کریم کے ایک ایک لفظ میں بڑے بڑے مسائل ہوتے ہیں، اگر اللہ تعالٰی اہل الکتاب فرماتے، تو آیت، یہود و نصاریٰ کے ساتھ خاص ہوجاتی، اللہ تعالیٰ نے اہل الذکر، عام لفظ استعمال کیا ہے، پس تورات والے بھی، انجیل والے بھی، زبور والے بھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں والے بھی، حضرت نوح علیہ السلام کے صحیفوں والے بھی، حتیٰ کہ قرآن کریم کے جاننے والے بھی، سب اس آیت کے مصداق ہیں، کیونکہ قرآن کریم بھی الذکر ہے، اور اللہ تعالٰی کی تمام کتابیں، جو آسمان سے نازل ہوئی ہیں، الذکر ہیں، اس لئے سب آسمانی کتابوں کے جاننے والے، آیتِ کریمہ کا مصداق ہیں۔

قرآن و حدیث اور ان سے مستنبط ہونے والے مسائل کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے:

       
اور سورۂ حج میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْر وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ہم نے الذکر یعنی قرآن کریم اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے القرآن کے بجائے الذکر فرمایا، جو عام ہے، اگر اللہ تعالٰی اِنا نحن نزلنا القرآن فرماتے، تو آیت خاص ہوجاتی، مگر اللہ تعالٰی نے عام لفظ استعمال کیا ہے، چنانچہ علماء فرماتے ہیں، کہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے، احادیثِ شریفہ کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے، اور قرآن و حدیث سے جو دین مستنبط ہوتا ہے، اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے، بلکہ قرآن و حدیث اور فقہ پر عمل کرنے والی جماعت کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے، یہ سب الذکر میں درجہ بدرجہ داخل ہیں۔

ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی:

       
پہلا درجہ قرآن کریم کا ہے، اس کے حرف حرف کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہے، پھر احادیث شریفہ کا درجہ ہے، لوگوں نے صحیح حدیثوں کے ساتھ غلط حدیثیں ملائیں، تو اللہ تعالیٰ نے ایسے رجال کار اور علماء و محدثین پیدا کئے، جنہوں نے چھان پھٹک کر، گیہوں الگ کردیئے، اور کنکر الگ کردئیے، صحیح حدیثوں کو الگ کردیا، اور گھڑی ہوئی حدیثوں کو الگ کردیا، یوں اللہ تعالیٰ نے حدیثوں کی حفاظت فرمائی، اسی طرح قرآن و حدیث سے مستنبط ہونے والے فقہی مسائل کو علماء نے نکھارا، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لاتزال طائفة من أمتی ظاہرین علی الحق لایضرھم من خذلھم، میری امت کا ایک گروہ قیامت تک صحیح دین پر قائم رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائیں گے، قیامت تک کوئی وقت ایسا نہیں آئے گا، کہ اہلِ حق ختم ہوجائیں، تمام مسلمان گمراہ ہوجائیں، کوئی بھی حق پر باقی نہ رہے، ایسا وقت قیامت تک نہیں آئےگا، اللہ تعالیٰ اہلِ حق کی حفاظت فرمائیں گے، اور صحیح دین پر عمل کرنے والے، ہمیشہ موجود رہیں گے، خواہ وہ مٹھی بھر کیوں نہ ہوں، کسی کی مخالفت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی، وہ حق پر ثابت قدم رہیں گے۔

       
بہرحال اللہ تعالیٰ نے الذکر کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، اور الذکر: القرآن سے عام ہے، اس میں قرآن و حدیث، فقہ اور ان پر عمل کرنے والی امت، سب داخل ہیں، لٰہذا قرآن کریم کے محافظ بھی اللہ تعالیٰ ہیں، حدیثوں کے محافظ بھی اللہ تعالیٰ ہیں، فقہ کے محافظ بھی اللہ تعالیٰ ہیں، اور ان پر عمل کرنے والی جماعت کے محافظ بھی اللہ تعالیٰ ہیں، اور یہ سب آیتِ کریمہ کا درجہ بدرجہ مصداق ہیں، اور آیتِ کریمہ کا یہ مطلب نہیں ہے، کہ دنیا میں سبھی مسلمان ہمیشہ حق پر رہیں گے، کوئی گمراہ نہیں ہوگا، بلکہ اہلِ حق بھی رہیں گے، اور اہلِ باطل بھی، اور اہلِ حق دلائل سے غالب رہیں گے، ان کو کوئی زیر نہیں کرسکے گا۔

دینی مسائل جاننا اور نہ جانتے ہوں، تو پوچھنا فرض ہے:

       
اور اس آیتِ کریمہ سے یہ مسئلہ بھی نکلا، کہ اگر کوئی دین کی کوئی بات نہیں جانتا، تو علمائے کرام سے پوچھنا فرض ہے، بعض لوگ مسئلہ جانتے نہیں، اور کسی عالم سے پوچھتے بھی نہیں، اس لئے عمل بھی نہیں کرتے، وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں، کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ سے کہہ دیں گے، کہ پروردگار! ہمیں پتا نہیں تھا، اس لئے ہم نے عمل نہیں کیا، یہ عذر چلنے والا نہیں، دنیوی ضرورت کی چیزیں سب جانتے ہیں، اور جاننے کےلئے محنتیں کرتے ہیں، پھر علماء سے پوچھ کر دین پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ اس لئے یہ عذر چلنے والا نہیں، ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ دین کا علم رکھنے والے علماء سے ضروری باتیں دریافت کرے، لوگ ان سے مسائل سیکھیں، پھر ان پر عمل کریں۔

دین سکھانا علماء پر فرض ہے:

        اور علماء کا فریْضہ ہے کہ محنت کریں، لوگوں کو دین پہنچائیں، انہیں مسائل بتلائیں، نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے: بلِّغُوا عنِّی وَ لو آیة، اس حدیث شریف میں علماء پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے، کہ اگر انہیں ایک بھی حکمِ شرعی معلوم ہے، تو اسے دوسروں تک پہنچائیں، پس ذمہ داری دو طرفہ ہے، ایسا نہیں کہ علماء پر کوئی ذمہ داری نہیں، ساری ذمہ داری لوگوں کی ہے، کہ پوچھیں، بلکہ علماء کی ذمہ داری ہے، کہ لوگوں کو دین پہنچائیں، انہیں اللہ و رسول کی مرضیات سے واقف کریں، اور لوگوں کی ذمہ داری ہے، کہ اپنی ضرورت کی باتیں علماء سے پوچھیں، ظاہر ہے میں تقریر میں وہی باتیں بیان کرونگا، جو میرے خیال میں آپ لوگوں کےلئے ضروری ہیں، اور ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کی ایسی ضروریات ہوں، جو میرے ذہن میں نہ آئیں، اور میں ان کو بیان نہ کروں، تو ان کو اپنی ضرورتیں کیسے معلوم ہونگی؟ اس کا صرف ایک راستہ ہے، کہ پوچھیں، جب دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے، تو ہر شخص کو دین سے واقفیت ہوگی، اور دین پھیلے گا۔

سوال پانچ مقاصد سے کیا جاتا ہے:

       
میرے بھائیو! لوگ پوچھتے ہیں، اور خوب پوچھتے ہیں، مگر پانچ مقاصد سے پوچھتے ہیں، ان میں سے چار مقاصد غلط ہیں، اور ایک مقصد صحیح ہے، وہ ایک مقصد جو صحیح ہے، اگر اس مقصد سے پوچھا جائے، تو سوال کرنا بھی مفید ہے، اور جواب دینا بھی مفید ہے، باقی چار مقاصد سے پوچھا جائے، تو پوچھنا بھی بیکار ہے، اور میرا بیان کرنا بھی لاحاصل ہے۔

مبلغِ علم جاننے کےلئے سوال کرنا:

       
بعض لوگ مبلغِ علم جاننے کےلئے سوال کرتے ہیں، وہ جاننا چاھتے ہیں کہ مولانا صاحب کتنے پانی میں ہیں، ان لوگوں کے پاس دو چار سوال ہوتے ہیں، جو بھی نیا مولوی آتا ہے، اس سے وہی سوال کرتے ہیں، ان کا مقصد، دین جاننا نہیں، وہ اس کو پہلے سے جانتے ہیں، بلکہ عالم صاحب کا امتحان کرنا مقصود ہے، ہندوستان میں دیہاتوں میں بعض بوڑھے بالکل ان پڑھ ہوتے ہیں، لیکن بزرگوں کے صحبت یافتہ ہوتے ہیں، انہیں مسائل کی جانکاری ہوتی ہے، اس لئے گاؤں میں جو بھی مولوی آتا ہے، اس سے وہی مسائل پوچھتے ہیں، اس مقصد سے سوال و جواب بیکار اور لاحاصل ہیں۔

ذہنی عیاشی کےلئے سوال کرنا:

       
سوال کرنے کا دوسرا مقصد ذہنی عیاشی ہے، یعنی ایسا سوال کرنا، جس کا کوئی فائدہ نہیں، مثلا: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کنویں پر بلانے کےلئے جو لڑکی آئی تھی، وہ چھوٹی تھی، یا بڑی؟ یہ بیکار سوال ہے، چھوٹی تھی، تو کیا؟ بڑی تھی، تو کیا؟ اصحابِ کہف جو کتا ساتھ لے گئے تھے، وہ کالا تھا، یا بھورا؟ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جس چیونٹی سے بات کی تھی، وہ مذکر تھی، یا مؤنث؟ یہ بیکار سوالات ہیں، بعض لوگ ایسے ہی سوال کرتے ہیں، ان کا مقصد محض ذہنی عیاشی ہوتا ہے، ایسے فضول سوالات نہیں کرنے چاہئیں، اور اگر کوئی کرے، تو علماء کو قطعاً جواب نہیں دینا چاھئے۔

گنجائش تلاش کرنے کےلئے سوال کرنا:

       
اور بعض لوگوں کا مقصد سوال سے گنجائش تلاش کرنا ہوتا ہے، مسئلہ پوچھتے ہیں، خواہش کے مطابق جواب ملا، تو ٹھیک ہے، ورنہ دوسرے مفتی صاحب سے پوچھیں گے، شاید کوئی گنجائش والی بات بتادے، میرے بھائیو! یہ دین پر عمل نہیں، خواہش پر عمل ہے۔

بات سمجھ میں نہ آئے، تو دوبارہ پوچھے:

       
ایک صاحب نے مجھ سے فون پر پوچھا، کہ ایک شخص ایک مسئلہ کسی عالم سے، یا مفتی سے پوچھ چکا ہے، اب وہ اس مسئلہ کو دوسرے مفتی، یا عالم سے پوچھ سکتا ہے؟ میں نے کہا: دوسرے مفتی سے کیوں پوچھنا چاھتا ہے؟ اس نے کوئی جواب نہیں دیا، میں نے کہا: اس کی دو صورتیں ہیں، ایک: پہلے مفتی نے، یا عالم نے جو مسئلہ بتایا ہے، اس میں کچھ تردد ہے، کیونکہ اس نے اس کے خلاف پڑھا ہے، یا سنا ہے، تو اس کو مفتی صاحب کی بات پر فورا عمل نہیں کرنا چاھئے، بلکہ مزید تحقیق کرنی چاھئے، اور بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی مفتی صاحب سے دوبارہ مسئلہ پوچھے، اور جو اشکال ہو، ان کے سامنے رکھے، کہ میں نے فلاں کتاب میں، یا فلاں حدیث میں اس طرح پڑھا ہے، اور اگر مفتی صاحب مسافر تھے، اور چلے گئے، تو دوسرے مفتی صاحب سے پوچھے، اور اس کے سامنے دونوں باتیں رکھے، کہ فلاں صاحب سے میں نے یہ مسئلہ پوچھا تھا، انہوں نے یہ جواب دیا، مگر میں نے فلاں کتاب میں یہ پڑھا ہے، پھر مفتی صاحب تحقیق کے بعد جو مسئلہ بتائیں، اس پر عمل کرے۔

مسائل کی تحقیق کرنا اللہ کے نیک بندوں کی صفت ہے:

       
سورة الفرقان میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا } اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کی ایک صفت یہ ہے، کہ جب ان کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ذریعہ نصیحت کی جاتی ہے، تو وہ ان پر اندھے بہرے ہوکر نہیں گرتے، بلکہ جو دینی مسائل ان کو بتائے جاتے ہیں، ان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، سمجھنے کے بعد مطمئن ہوکر ان پر عمل کرتے ہیں، پس اگر پوچھتے ہوئے مسئلہ میں کوئی الجھن، یا شک ہو تو اسے ضرور دوبارہ پوچھنا چاھئے۔

       
دوسری: اور کبھی گنجائش تلاش کرنے کےلئے دوسرے مفتی سے مسئلہ پوچھت ہے، پہلے مفتی نے ناجائز کہا ہے، اس لئے دوسرے سے پوچھتا ہے کہ شاید وہ جائز کہہ دے، اور کام بن جائے، اس نیت سے دوسرے سے پوچھنے کی اجازت نہیں ہے۔

       
جب میں نے یہ بات کہی، تو انہوں نے فون رکھ دیا، میں یہ واقعہ سناکر آپ کو یہ سمجھانا چاھتا ہوں، کہ اگر آپ نے ایک مرتبہ مسئلہ پوچھ لیا ہے، پھر کسی وجہ سے مفتی صاحب کے بتائے ہوئے مسئلہ میں، آپ کو کچھ تردد ہے، تو ایک مرتبہ نہیں، دس مرتبہ تحقیق کرو، آپ کو شریعتِ مطہرہ نے یہ حق دیا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی یہ ایک خوبی ہے، مگر چور دروازہ تلاش کرنا، گنجائش کی راہیں ڈھونڈھنا، مؤمنِ کامل کا مزاج نہیں ہونا چاھئے، اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا مزاج تو یہ ہونا چاھئے، کہ وہ اللہ تعالیٰ کا جو بھی حکم ہو، اس پر عمل کرے، اور نفسانی خواہشات کے پیچھے نہ پڑے۔

دوسروں کی خاطر مسئلہ پوچھنا:

       
اور بعض لوگ اس لئے مسئلہ پوچھتے ہیں، کہ دوسروں کو مسئلہ معلوم ہوجائے، یعنی انہیں مسئلہ نہیں جاننا، وہ تو پہلے سے جانتے ہیں، میرے بھائیو! اس مقصد سے پوچھنا برا نہیں ہے، مگر اچھا بھی نہیں، تم نے دوسروں کی ذمہ داری کیوں لی؟ ہر شخص کو اپنے فائدے کےلئے پوچھنا چاھئے، دوسروں کے فائدے کےلئے پوچھنا کوئی اچھا مقصد نہیں، صحابۂ کرام آنحضورﷺ سے سوال کرتے تھے، تو ہر صحابی اپنی ذات کو پیش نظر رکھ کر سوال کرتا تھا، پھر حضور اکرم ﷺ جو جواب دیتے تھے، اس کا فائدہ سب کو پہنچتا تھا، لیکن پوچھنے والے کے پیشِ نظر یہ نہیں ہوتا تھا، کہ حضور اکرم ﷺ جواب دیں، اس کا فائدہ دوسروں کو پہنچے، اس مقصد کےلئے کبھی کسی صحابی نے سوال نہیں کیا، لیکن اگر کوئی کرے، تو میں اس کو برا نہیں کہتا، اس لئے میں نے کہا کہ اس مقصد سے سوال کرنا، نہ اچھا ہے، نہ برا، غرض ان چار مقاصد سے سوال کرنا ٹھیک نہیں۔

دین سیکھنے کےلئے سوال کرنا:

     
اور ایک پانچواں مقصد ہے، جو اس آیتِ کریمہ میں ہے: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ } علم رکھنے والوں سے پوچھو، اگر تمہیں معلوم نہ ہو، پوچھ کر دین سیکھو، اس پر عمل کرو، دین جاننے کی نیت سے، اور عمل کی نیت سے پوچھنا بہترین مقصد ہے، اس آیتِ کریمہ میں اسی کا تذکرہ ہے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن
مکمل تحریر >>

Monday 28 March 2016

سورۂ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا

!!! سورۂ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا!!!

مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ،شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقل : عادل سعیدی پالن پوری

             
لوگوں میں ایک غلطی چل رہی ہے، اس کی اصلاح ہونی چاھئے، جب بھی سورۂ فاتحہ پڑھی جائے، ختم پر سب کو آمین کہنا چاھئے، ابھی میں نے سورۂ فاتحہ پڑھی، کسی نے آمین نہیں کہا، یہ ایک عام غلطی ہے، اس کی اصلاح ہونی چاھئے، جیسے کبھی حفظ کے بچوں کا قرآن کریم ختم ہوتا ہے، وہ اپنا قرآن کریم ختم کرکے الحمد شریف پڑھتا ہے، پھر سورۂ بقرہ سے شروع کا کچھ حصہ پڑھتا ہے، جب وہ الحمد شریف ختم کرتا ہے، تو کوئی آمین نہیں کہتا، پڑھنے والا بچہ بھی نہیں کہتا، ہاں کبھی کہتا ہے، جب کہ اس کو سکھایا گیا ہو؛ لیکن مجمع میں سے کوئی نہیں کہتا؛ کیونکہ ان کو بتایا نہیں گیا، پس جاننا چاھئے کہ جب بھی سورۂ فاتحہ پڑھی جائے، اس کے ختم پر پڑھنے والے کو بھی، اور سننے والوں کو بھی آمین پڑھنی چاھئے۔

خطیب کی شہادت کے ساتھ شہادت دینا:

             
ایسی ہی ایک غلطی اور ہے، جب میں نے خطبہ پڑھا، اور کہا أشھد أن لا الہ اِلا اللہ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، پس میں نے تو گواہی دی، مگر آپ حضرات خاموش بیٹھے رہے، آپ حضرات نے یہ گواہی نہیں دی، یہ ٹھیک نہیں، اذان میں سب گواہی دیتے ہیں، جب مؤذن پکارتا ہے: أشھد أن لا الہ الا اللہ، تو سننے والے کہتے ہیں: أشھد أن لا الہ الا اللہ، مگر دوسرے مواقع میں کوئی نہیں کہتا؛ حالانکہ دوسرے مواقع پر بھی کہنا چاھئے، اور جواب دینے کے دو طریقے ہیں: مفصل اور مختصر، پورا جملہ لوٹانا مفصل جواب ہے، اور صرف وَ أنَا: اور میں بھی( گواہی دیتا ہوں ) یہ مختصر جواب ہے، اور یہ بھی کافی ہے۔

             
بہرحال مقرر کی شہادت کے ساتھ ہر شخص کو شہادت دینی چاھئے، پھر ایک شہادت لمبی ہے، اور ایک مختصر، جس کا جی چاھے، لمبا جواب دے، اور جس کا جی چاہے، مختصر جواب دے، جمعہ کے دن خطیب کے سامنے اذان ہوتی ہے، نبی پاک منبر پر تشریف فرما ہوتے تھے، جب اذان ہوتی، اور مؤذن کہتا: أشھد أن لا الہ الا اللہ، تو آپ جواب دیتے: وَ أنَا، اور میں بھی( گواہی دیتا ہوں ) یہ مختصر جواب ہے، اگر اس طرح گواہی دی جائے، تو کافی ہے۔

ہر مجلس کے ختم پر کفارة المجلس پڑھنا:

                 
ایسی ہی ایک غلطی اور ہے، حدیث شریف میں ایک دعا آئی ہے، جس کا نام کفارة المجلس ہے، مجلس میں جو بھی لغو اور بےہودہ باتیں ہیں، اگر مجلس کے ختم پر یہ دعا پڑھ لی جائے، تو سب خطائیں معاف ہوجاتی ہیں، مگر وہ دعا ایک جگہ کےلئے خاص ہوکر رہ گئی ہے، جب فضائل کی کتاب پڑھتے ہیں، تو اہلِ مجلس کفارة المجلس پڑھتے ہیں، یہ ٹھیک کرتے ہیں، حالانکہ اس مجلس میں کوئی لغو اور بےہودہ بات نہیں ہوئی، اور جہاں پڑھنی چاھئے، وہاں نہیں پڑھتے، اس دعا کی اصل جگہ وہ مجلس ہے، جس میں لغو باتیں ہوئی ہوں، اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئی ہوں، ایسی مجلس کے ختم پر ہر ایک کو یہ دعا پڑھنی چاھئے: سُبْحَانک اللّٰھُمَ وَ بِحَمْدِکَ، أشْھَدُ أنْ لَّا اِلَہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَ أتُوْبُ اِلیْکَ: ائے اللہ! آپ کی ذات پاک ہے، اور آپ ہر کمال کے ساتھ متصف ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں آپ سے گناہوں کی معافی چاھتا ہوں، اور توبہ کرتا ہوں، یہ کفارة المجلس ہے، ہر شخص کو ختمِ مجلس پر یہ ذکر کرنا چاھئے، اس سے لغو باتیں معاف ہوجاتی ہیں۔

سراً آمین کہنا افضل ہے:

               
اور یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ سورۂ فاتحہ کے ختم پر جو آمین کہی جاتی ہے، وہ سراً کہنا افضل ہے، اگر زور سے کہی، تو جائز ہے؛ لیکن آہستہ کہنا افضل ہے، اور سب جگہ افضل ہے، جہاں بھی آمین کہیں، آہستہ کہیں، امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ  کے نزدیک جس طرح نماز میں سورۂ فاتحہ کے ختم پر آہستہ آمین کہنا افضل ہے، اسی طرح ہر جگہ آہستہ کہنا افضل ہے۔

             
مگر اس میں بھی لوگ غلطی کرتے ہیں، کبھی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھی جاتی ہے، خاص طور سے فجر میں، اس وقت آپ دیکھیں گے، کہ حنفی بھی زور سے آمین کہتے ہیں، جب قنوتِ نازلہ میں زور سے آمین کہتے ہو، تو سورۂ فاتحہ کے آخر میں زور سے آمین کیوں نہیں کہتے؟ آمین ہمیشہ سراً کہنا افضل ہے، آمین دعا ہے، اور دعا میں سر( آہستگی ) افضل ہے۔

             
اسی طرح جب مجمع میں دعا مانگی جاتی ہے، تو پورا مجمع آمین کہتا ہے، تبلیغی جماعت کے جلسہ میں آخر میں دعا ہوتی ہے، تو لوگ اتنی زور سے آمین کہتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، یہ بھی صحیح نہیں، آمین آہستہ کہنا افضل ہے، اور ہرجگہ آہستہ کہنا بہتر ہے۔

سر اور جہر کی حد:

               
نماز میں قرأت کی دو صورتیں ہیں، سرّی اور جہری، سرّی قرأت کی کم سے کم مقدار تصحیح حروف ہے، یعنی زبان حرکت کرے، مخارج پر لگے، اور حرف ادا ہو، مگر آواز پیدا نہ ہو، اور زیادہ سے زیادہ کی تعریف ہے: اِسماع نسفہ، یعنی خود اپنا پڑھنا سنے، اور جہری قرأت کی تعریف ہے: اِسماع غَیرہٖ، غیر کو سنانا، یعنی دوسرا سنے، دائیں طرف والا سنے، بائیں طرف والا سنے، یہ جہری قرأت کا ادنٰی درجہ ہے، اس سے نیچے کوئی درجہ نہیں، جہری نمازوں میں اگر اس سے کم جہر کیا، تو سجدۂ سہو واجب ہوگا، کیونکہ وہ جہر( زور سے پڑھنا ‌) نہیں، اور جہر کی زیادہ کی کوئی حد نہیں؛ بلکہ اِنَّ أنْکَرَ الأصْوَاتِ لَصَوْتُ الحَمِیْرَ، بےشک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہے، اس لئے بےضرورت جہرِ مفرط ٹھیک نہیں۔

               
پس بعض لوگ نماز پڑھتے ہیں، اور ان کے ہونٹ ساکن ہوتے ہیں، اس طرح پڑھنے سے، یعنی دل میں پڑھنے سے نماز نہیں ہوتی، کیونکہ ہونٹ نہیں ہل رہے، اس کا مطلب ہے زبان نہیں ہل رہی، زبان ہلے گی، تو لامحالہ ہونٹ بھی ہلیں گے، اور داڑھی اگر شرعی ہو تو وہ بھی ہلے گی۔

             
اور بعض لوگ تکبیرات اور رکوع و سجود کے اذکار اتنی زور سے کہتے ہیں، کہ دائیں بائیں والے سنتے ہیں، اور ان کی نمازوں میں خلل پڑتا ہے، یہ بھی غلط طریقہ ہے، یہ اذکار سراً سنت ہیں، اس لئے ان کو اتنا زور سے نہیں کہنا چاھئے، کہ دائیں بائیں والے سنیں۔

داڑھی میں دو واجب الگ الگ ہیں:

             
ابھی ابھی شرعی داڑھی کا تذکرہ آیا، اس موضوع پر بھی چند باتیں سن لو، داڑھی رکھنا واجب ہے، اور ایک مشت رکھنا واجب ہے، یہ دو الگ الگ واجب ہیں، ایک شخص بالکل داڑھی نہیں رکھتا، وہ دونوں واجب کا تارک ہے، اور ایک شخص خشخشی داڑھی رکھتا ہے، اس نے ایک واجب پر عمل کیا، کہ داڑھی رکھی، اور دوسرا واجب چھوڑ دیا اس نے، اس لئے کہ ایک مشت داڑھی رکھنا بھی واجب ہے، اور ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹ لینا سنت ہے، داڑھی میں سنت ایک مٹھی ہے: اس کا یہی مطلب ہے، غیر مقلدین کا عمل سنت کے خلاف ہے، وہ داڑھی جہاں تک جائے، چھوڑے رہتے ہیں، ایک مشت سے زائد کاٹتے نہیں، ان کا یہ عمل سنتِ نبوی کے خلاف ہے۔

ہر مسئلہ قرآن کریم میں ہونا ضروی نہیں:

               
ایک صاحب پوچھ رہے ہیں: حدیث شریف میں تو داڑھی کا ذکر ہے، مگر کیا قرآن کریم میں بھی داڑھی کا ذکر ہے؟

               
جواب: ہر مسئلہ کا قرآن کریم میں ہونا ضروری نہیں، فجر کی دو رکعتیں ہیں، بتاؤ! قرآن کریم میں کہاں ہے؟ ظہر، عصر اور عشاء کی چار چار رکعتیں ہیں، دکھاؤ! قرآن کریم میں کہاں ہیں؟ مغرب کی تین رکعتیں ہیں، قرآن کریم میں کہاں ہے؟ قرآن کریم میں تو بس اتنا ہے، کہ نماز کی پابندی کرو، اس کا اہتمام کرو، اور پانچ وقت کی نماز پڑھو، باقی تفصیل حدیثوں میں ہے، نماز میں کیا فرائض ہیں؟ کیا واجبات ہیں؟ کیا سنن و مستحبات اور آداب ہیں؟ کن چیزوں سے نماز فاسد ہوتی ہے؟ اور کونسی باتیں نماز کو مکروہ کرتی ہیں؟ یہ سب تفصیلات حدیثوں میں ہیں، ہر مسئلہ کا قرآن کریم میں ہونا ضروری نہیں، شریعت کے اصول تین ہیں، قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع، اور دین کا مدار تینوں پر ہے، اگر ان میں سے کسی بھی ایک سے مسئلہ ثابت ہوجائے، تو کافی ہے، ہر مسئلہ کی دلیل قرآن کریم سے مانگنا صحیح نہیں ہے۔

داڑھی کا ذکر قرآن کریم میں:

                 
اور داڑھی کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پر گئے، تو پیچھے بنی اسرائیل گمراہ ہوگئے، انہوں نے گوسالہ پرستی شروع کردی، حضرت ہارون علیہ السلام نے ان کو اس حرکت سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی، مگر قوم باز نہیں آئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور سے لوٹے، اور اپنی قوم کو گمراہی میں پایا، تو اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی سرزنش کی، انہوں نے خیال کیا کہ ہارون نے قوم کا خیال نہیں رکھا، اس لئے وہ گمراہ ہوئی، اور حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی پکڑ کر کھینچی، اس موقع پر حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا: لَا تَأخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَأسِیْ، بھائی جان! میری داڑھی اور سر کے بال پکڑ کر نہ کھینچیں، میں نے ایک مصلحت سے خاموشی اختیار کی، معلوم ہوا کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی اتنی لمبی تھی، کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو پکڑ کر کھینچا، ظاہر ہے خشخشی داڑھی پکڑ کر کھینچی نہیں جاسکتی، پس قرآن کریم میں داڑھی کا ذکر ہے، اور لمبی داڑھی کا ذکر ہے، حضرت ہارون علیہ السلام کی لمبی داڑھی تھی۔

شرعی داڑھی کیا ہے:

                 
بعض لوگ فیشن والی داڑھی رکھتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کر رہے ہیں، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہیں کر رہے ہیں، وہ فیشن پر فریفتہ ہیں، شرعی داڑھی کیا ہے؟ حضور اکرم کے داڑھی کتنی تھی؟ حدیث شریف میں ہے، ایک مرتبہ طالبِ علموں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ظہر اور عصر کی نماز میں قرأت ہے؟ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں، قرأت ہے، طالبِ علموں نے پوچھا: آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ان نمازوں میں قرأت ہے؟ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ نمازیں جب حضور اکرم   پڑھاتے تھے، تو آپ کی داڑھی ہلتی تھی، اس سے ہم نے سمجھا کہ آپ قرأت کر رہے ہیں، آپ تجربہ کرکے دیکھیں، کونسی داڑھی ہلتی ہے؟ وہی داڑھی ہلے گی، جو شرعی ہے، فیشن والی داڑھی نہیں ہلے گی، مگر بالکل داڑھی نہ ہونے سے یہ فیشن والی داڑھی بھی اچھی ہے، لیکن یہ شرعی داڑھی نہیں، جب رکھنی ہے، تو شریعت کا تقاضا پورا کرو، ایک بندہ وہ ہے، جو رکھتا ہی نہیں، اللہ تعالیٰ نے توفیق نہیں دی، لیکن ایک بندہ وہ ہے، جو داڑھی رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق دی ہے، پس اسے چاہئے کہ ڈھنگ سے رکھے، جب اس نے ہمت کرکے رکھ لی ہے، تو اتنی ہمت اور کرلے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن
مکمل تحریر >>