Tuesday 27 September 2016

منتخب و متفرق اشعار: قسط نمبر ۶

🌹بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 🌹

!!! منتخب اور متفرق اشعار!!!

انتخاب کنندہ: عادل سعیدی دیوبندی

قسط نمبر: چھ
..................................................

1
اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تاک جھانک کامعصوم سلسلہ بھی گیا
2
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر، رفوگر رہے، رفو کرتے
3
پردے سے ایک جھلک وہ جو دکھلا کے رہ گئے
مشتاق دید اور بھی للچا کے رہ گئے
4
تم میں حور کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂ طور تو موجود ہے موسی ہی نہیں
5
آئینہ میں دیکھ رہے تھے وہ بہار حسن
آیا میرا خیال تو شرما کے رہ گئے
6
جن کے سایوں میں ہمیں نیند بہت آتی تھی
دھوپ میں ہم کو وہ اشجار بہت یاد آئے
7
سبھی اچھے تھے ترے شہر کے اربابِ کرم
ہاں، مگر ان میں سے دو چار بہت یاد آئے
8
تیرے کُوچے میں جو تھے،سامنے تھا تُو ھی تُو
تیرے کُوچے سے جو نکلے تو خدا یاد آیا
9
جب کبھی ٹُوٹ کے بکھرے تو خدا یاد آیا
اُلجھنوں میں کبھی اُلجھے تو خدا یاد آیا
10
زمانے والوں کے ڈر سے اٹھا نہ ہاتھ مگر
نظر سے اس نے بصد معذرت سلام کیا
11
وہ یہاں آتے ہیں کس انداز سے
اک قدم اُٹھتا ہے سو سو ناز سے
12
بوسہ کے واسطے چمٹا تو لگا کہنے مجھے
بس کہیں دور بھی ہو، منہ کو ترے آگ لگے
13
ہوگی نہ کسی کو یہ خبر بھی
اِس بزم سے آ کدھر گئے ہم
14
جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ
وصْل سے، اِنتظار اچّھا تھا
15
اس انجمن میں آپ کو آنا ہے بار بار
دیوار و در کو غور سے پہچان لیجئے
16
جن کی نظر میں پیار گناہِ عظیم ہے
توفیق دے خدا اُنھیں ایسے گناہ کی
17
بے دلی سے کہاں ہاتھ آتے ہیں ہم
دل لگا کر ہمیں ڈھونڈتا کون ہے
18
اس کی مُٹھی میں بہت روز رہا میرا وجُود
میرے ساحر سے کہو، اب مجھے آزاد کرے
19
آکے میرے پاس بیٹھو، گفتگو مجھ سے کرو
میں تصوّر سے تمہارے کب تلک باتیں کروں
20
دُور بہت بھاگو ہو ہم سے، سیکھ طریق غزالوں کا
وحشت کرنا شیوہ ہے کیا اچھی آنکھوں والوں کا ؟
21
لمس میں اُس کے وہ جادو ہے کہ اک لمحے میں
میرے انکار کو اقرار بنا دیتا ہے
22
جس کا جی چاہے، وہ انگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے منگوائے ہُوئے لوگ ہیں ہم
23
یہ کہہ کے اُٹھ گیا بھوکا تیری گلی سے فقیر
خدائے پاک تیری روٹیوں میں برکت دے
24
جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں
25
گھر کی تعمیر تصؔورہی میں ہوسکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
26
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں اُمید تو کافی ہے، یقیں کچھ کم ہے
27
ضمیر رکھ کے حکومت سے کچھ نہ پاؤ گے
خطاب ملتا ہے یہاں بےضمیر ہونے پر
28
جاتی ہے چلی جائے یہ میخانے کی رونق
کم ظرفوں کے ہاتھوں میں تو ساغر نہ ملے گا
29
محبت کے یہ آنسوں ہیں انہیں آنکھوں میں رہنے دو
شریفوں کے گھروں کا مسئلہ باہر نہیں جاتا
30
جہنم نام لکھوا لے گا اپنے
بزرگوں سے جو اونچا بولتا ہے
31
ذرا سے نام اور تشہیر پاکر
ہم اپنے قد سے بڑھ کر بولتے ہیں
32
سنبھل کر گفتگو کرنا بزرگو!
کہ اب بچے پلٹ کر بولتے ہیں
33
جو گھر میں بول دیں تو رہ نہ پائیں
جو ہم سب گھر کے باہر بولتے ہیں
34
میں نے تو ایک لاش کی دی تھی خبر فراز
اُلٹا مجھ ہی پہ قتل کا الزام آگیا
35
کچھ دوستوں نے پُوچھا بتاؤ غزل ہے کیا
بےساختہ لبوں پہ تِرا نام آگیا
36
جو جرم کرتے ہیں، اتنے برے نہیں ہوتے
سزا نہ دے کے عدالت بگاڑ دیتی ہے
37
اب کہ جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پر ہوگا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی
38
کون سے نام سے تعبیر کروں اِس رُت کو
پھول مرجھائے ہیں، زخموں پہ بہار آئی ہے
39
وہ جو فاصلوں میں تھیں قربتیں، یہ جو قربتوں میں ہیں فاصلے
وہ محبتوں کا عروج تھا، یہ محبتوں کا زوال ہے
40
میرے پیمانے میں کچھ ہے اُس کے پیمانے میں کچھ
دیکھ ساقی ہو نہ جائے تیرے میخانے میں کچھ
41
راز پہنچے ہمارے غیروں تک
مشورہ کر لیا تھا اپنوں سے
42
باپ اور بیٹا پہلے آئیں تو پھر پوتا آتا
آنے کی ترتیب ہے لیکن جانے کی ترتیب نہیں
43
جن پر لُٹا چکا تھا میں دنیا کی دولتیں
اُن وارثوں نے مجھ کو کفن ناپ کر دیا
44
گلشنِ زیست سے وادیء موت تک
ہیں کئی امتحاں آدمی کے لیئے
45
جس نے مجھ کو غموں کے حوالے کیا
کر رہی ہوں دعائیں اُسی کے لیئے
46
خُدا اُن کو رحمت سے کیسے نوازے
جو سر اپنا ہر در پہ خم کر رہے ہیں
47
کب میں کہتی ہوں مجھ پہ کرم کیجئے
پھر بھی اتنا نہ ظلم و ستم کیجئے
48
ستم کرنے والے ستم کر رہے ہیں
ہم اہلِ کرم ہیں، کرم کر رہے ہیں
49
یوں تو ملنے کو بہت اہلِ کرم ملتے ہیں
بےغرض ہوتے ہیں جو لوگ وہ کم ملتے ہیں
50
بُت کو بُت، اور خُدا کو جو خُدا کہتے ہیں
ہم بھی دیکھیں تو، اُسے دیکھ کے کیا کہتے ہیں
51
ایک تو حُسن بَلا، اُس پہ بناوٹ آفت
گھربگاڑیں گے ہزاروں کے، سنورنے والے
52
ہم کیا کریں، اگر نہ تِری آرزو کریں
دُنیا میں اور کوئی بھی تیرے سِوا ہے کیا
53
اونچی آواز میں اس نے کبھی بات نہ کی
خفگیوں میں بھی وہ لہجہ رہاکومل کی طرح
54
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
55
دوپہر کی دھوپ میں مجھ کو بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
56
مُدّتوں بعد اُس نے آج، مجھ سے کوئی گِلہ کِیا
منصبِ دلبری پہ کیا، مجھ کو بحال کردیا
57
شہرِغربت میں اے موت دیر سے نہ آیا کر
خرچہ تدفین کا بیماری میں لگ جاتا ہے
58
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے،
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا
59
معشُوقوں سے اُمیدِ وفا رکھتے ہیں ناسخ
ناداں نہیں دُنیا میں کوئی تم سے زیادہ
60
اِس نہیں کا کوئی علاج نہیں
روز کہتے ہیں آپ آج نہیں
61
اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزم ہمیں پر رکھ دو
62
جن کا مسلک ہے روشنی کا سفر، وہ چراغوں کو کیوں بجھائیں گے
اپنے مُردے بھی جو جلاتے نہیں، زندہ لوگوں کو کیا جلائیں گے
63
سر تو چاہے ہے مِرا، ہووے میسّر تیرے
ہاتھ کا ، بازوکا ، زانو کا ، کمر کا تکیہ
64
نہ کر ظالم دِل آزاری، جو دِل منظور ہے لینا
کِسی کا دِل جو ہاتھ آیا تو دِل داری سے ہاتھ آیا
65
یہ آنا کوئی آنا ہے ، کہ بس رسماََ چلے آئے
یہ مِلنا خاک مِلنا ہے کہ دل سے دل نہیں مِلتا
66
پچھتا رہے ہیں خُون مِرا کرکے کیوں حضُور !
اب اِس پہ خاک ڈالیے ، جو کچھ ہُوا، ہُوا
67
بوسہ طلب کِیا تو، یہ کہنے لگا وہ بُت!
قُدرت خُدا کی تم کو بھی یہ حوصلہ ہُوا
68
رحم کر میرے حال پر واعظ
کہ اُمنگیں بھی ہیں شباب بھی ہے
69
کُچھ اورکام تو ہم سے نہ ہوسکا، لیکن
تمہارے ہجر کا اِک اِک عذاب لِکھّا ہے
70
ساتھ شوخی کے کُچھ حجاب بھی ہے
اِس ادا کا، کہیں جواب بھی ہے؟
71
تِرے وجوُد کو محسُوس عُمر بھر ہوگا
تِرے لبوں پہ جو ہم نے جواب لِکھّا ہے
72
سلوک نِشتروں جیسا نہ کیجئے ہم سے
ہمیشہ آپ کو، ہم نے گُلاب لِکھّا ہے
73
یہ اتفاق ہے منظرکہ کوئی سازش ہے
ہمیشہ کیوں مرے گھر سے ہی بم نکلتا ہے
74
میری خواہش اور میری ضد اس کے قدموں پہ نثار
ہاں کی گنجائش نہ ہوں تو پھر بھی ہاں کرتی ہے ماں
75
جب سے حرام رزق کی عادت پڑی ہمیں
گھر میں ہمارے پہلی سی برکت نہیں رہی
76
ہمیشہ ٹوٹ کہ ماں باپ کی کرو خدمت
ہے کتنے روز یہ بوڑھے شجر نہیں معلوم
77
غیر کو راہ ہو گھر میں ترے، سبحان اللہ
اور ہم دور سے در کو ترے تکتے جاویں
78
فاصلے کم نہ ہو سکے قیصر
آمنا سامنا رہا برسوں
79
کِتنے دِنوں کے پیاسے ہونگے یارو سوچو تو
شبنم کا قطرہ جن کو دریا لگتا ہے
80
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگادیں ، آگ میخانے کو ہم
81
باغ میں لگتا نہیں، صحرا میں گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم
82
اِس بستی میں کون ہمارے آنسو پُونچھے گا
جو مِلتا ہے اُس کا دامن بِھیگا لگتا ہے
83
بھری بزم میں، رازکی بات کہہ دی !
بڑا بے ادب ہُوں ، سزا چاہتا ہُوں
84
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مرچلے
85
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے تو اِتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جُوں تُوں شام کِیا
86
بہت جی خوش ہُوا حالی سے مِل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
87
گالی سِوائے مجھ سے، سُخن مت کِیا کرو
اچھی لگی ہیں مجھ کو، تِری بد زبانیاں
88
ہُوئے تم نہ سیدھے جوانی میں حالی !
مگر اب مِری جان ہونا پڑے گا
89
مُحتسب! عُذر بہت ہیں، لیکن
اِذن ہم کو نہیں گویائی کا
90
یا رب! ہو واقعہ کوئی ایسا، کہ وہ پری
گھر اپنا چھوڑ کرکے مِرے پاس آ بسے
91
بُجھتی ہُوئی یہ رات، یہ دَم توڑتے چراغ
دل مانتا نہیں ہے، کہ اب تُو نہ آئے گا
92
چاہنے کا، ہم پہ یہ خُوباں جو دھرتے ہیں گناہ !
اُن سے بھی پوچھو کوئی، تم اِتنے کیوں پیارے ہوئے
93
جس کو فلک نے لوُٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اجڑے دیار کے
94
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
95
ہجر کی یہ رات، کیسی رات ہے
ایک میں ہُوں یا خُدا کی ذات ہے
96
شام ہی سے بُجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا
97
زندگی ہے، یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے
98
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا ، تو کدھر جائیں گے
99
رنج سے خُوگر ہُوا اِنساں، تو مِٹ جاتا ہے رنج
مُشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر ، کہ آساں ہو گئیں
100
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے اور سہی، تُو مگر کہاں

101
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں
102
منزل کی دُھن میں آبلہ پا چل کھڑے ہُوئے
شورِ جَرس سے، دل نہ رہا، اختیار میں
103
گھر تو دونوں پاس ہیں لیکن ملاقاتیں کہاں
آمد و رفت آدمی کی ہے، پہ وہ باتیں کہاں
104
مانگا کریں گے اب سے دُعا ہجرِِ یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دُعا کے ساتھ
105
دیکھا ہے اُس کو خلوت وجلوت میں بارہا
وہ آدمی، بہت ہی عجیب و غریب تھا
106
اندازہ وہ ہی سمجھے مِرے دل کی آہ کا
زخمی جو ہو چُکا ہو کسی کی نگاہ کا
107
متاعِ حُسن کو شرم و حیا کے آنچل میں
چھپا چھپا کے دِکھانا اُسی کو آتا ہے
108
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
109
تاک میں دشمن بھی تھے اور پشت پر احباب بھی
پہلا پتھر کس نے مارا ، یہ کہانی پھر سہی
110
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ
111
انا کی جنگ ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
112
جن کی طلب تھی اُن سے رہیں دُوریاں بہت
وہ مِل گئے ہیں، جن سے طبیعت نہیں مِلی
113
کیا کیا خیال و وہم نگاہوں پہ چھا گئے
جی دھک سا ہوگیا، یہ سُنا جب ، وہ آگئے
114
تحمّل تا کجا، ٹُوٹا ہے اِک لشکر مصیبت کا
مدد یا رب، قدم اب صبرکی منزل سے اُٹھتا ہے
115
آپ اِک جلوہ سراسر ، میں سراپا اک نظر !
اپنی حاجت دیکھئے ، میری ضرورت دیکھئے
116
اُن تک سفر کا میرے اب انجام بھی تو ہو
کچھ تگ و دو یہ باعثِ انعام بھی تو ہو
117
منہ سے کہیے، یا نہ کہیے، مِل گیا ہم کو جواب !
آپ کے تیور کہے دیتے ہیں جو کچھ دل میں ہے
118
پُوچھ لے قاتل زبانِ تیغ سے سب سرگزشت
کُشتے کِس منہ سے بتائیں کیا ہُوا، کیونکر ہُوا
119
آنکھ لگتی ہے تو کہتے ہیں کہ نیند آتی ہے
آنکھ اپنی جو لگی، چین نہیں ، خواب نہیں
120
طبیب کہتے ہیں کچھ دوا کر، حبیب کہتے ہیں بس دُعا کر
رقیب کہتے ہیں اِلتجا کر ، غضب میں آیا ہُوں دل لگا کر
121
تصویر کو بھی اُس کی یہاں تک غرور ہے
دیکھے کبھی نہ طالبِ دیدار کی طرف
122
ہمیں جب نہ ہونگے، تو کیا رنگِ محفل
کسے دیکھ کر آپ شرمائیے گا
123
نگاہوں سے چھپ کر کہاں جائیے گا
جہاں جائیے گا ، ہمیں پا ئیے گا
124
ہمیں بھی یہ اب دیکھنا ہے، کہ ہم پر !
کہاں تک، توجّہ نہ فرمائیے گا
125
تمام شہر میں اب ایک بھی نہیں منصور
کہیں گے کیا رسن و دار، آؤ سچ بولیں
126
سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اظہار، آؤ سچ بولیں
127
سُنا ہے، غیر کی محفِل میں تم نہ جاؤ گے
کہو تو، آج سجا لوں غریب خانے کو
128
ساقیا! اہتمامِ بادہ کر
وقت کو سوگوار دیکھا ہے
129
مِلے گی شیخ کو جنّت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا !
بس اِتنی بات تھی، جسکے لئے محشر بپا ہوگا
130
وہ جو کہتے ہیں تجھے آگ لگے !
مژدۂ وصل سُناتے ہیں مُجھے
131
کیا حُسن ہے، جمال ہے، کیا رنگ و روپ ہے !
وہ بھیڑ میں بھی جائے تو، تنہا نظر آئے
132
مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں
جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں
133
اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دُنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مُسکرائے ہیں
134
سمجھاتے قبلِ عشق، تو مُمکن تھا بنتی بات !
ناصح غریب، اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں
135
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق، خلل ہے دماغ کا
136
ہر چند سیر کی ہے بھت تم نے شیفتہ
پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لائیے
137
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
138
یہ سچ ہے مرا قتل سر عام ہوا ہے
کس کا تھا میری پیٹھ میں خنجر نہیں دیکھا
139
تنہا رہتا ہوں میں دن بھر بھری دنیا میں ٖقتیل
دن بُرے ہوں تو پھر احباب کہاں آتے ہیں
140
بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھالیا
پہر اس چمن میں بوم بسے یا ہما رہے
141
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاھئے
142
تدبیر میرے عشق کی، کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائےگا
143
بعد مرنے کے مِری قبر پہ آیا وہ مِیر
یاد آئی مِرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد
144
جب جی چاہے موت بچھادو بستی میں
لیکن باتیں پیاری پیاری کیا کرو
145
ھم نے یونھی دیکھا تھا تمھیں دیدار ِ شوق کی خاطر
تم دل میں اتر جاؤگے کبھی سوچا نہ تھا
146
مری خاموشیوں کو تم غلط مفہوم مت دینا
مجھے بیباک ہونے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
147
دشمنوں کے خیمے میں چل رہی تھی میرے قتل کی سازش
میں پہونچا تو وہ بولے یار تیری عمر بہت لمبی ہے
148
بهت تحقیق کی ثاقب ترا بس جرم یہ نکلا
خلاف شرع باتوں کا کبهی قائل نهیں هوتا
149
بر سا دے ھم پر بھی ھدایات کی بارش، اے اللہ
ایمان کے شیشوں پہ بہت دھول جمی ھے
150
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کےخوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
151
کوئی بچہ تڑپتا ہے تو ماں کا دم نکلتا ہے
مگر جب ماں تڑپتی ہے تو پھر زم زم نکلتا ہے
152
جب میں سو جاؤں میری پلکوں پہ اپنے ہونٹ رکهدینا
یقیں آجائیگا کہ پلکوں تلے بهی دل دهڑکتا ہے
153
تمہاری آنکھیں جو شعر سنانے لگ جائیں
ہم جو یہ غزلیں لئیے پھرتے ہیں،ٹھکانے لگ جائیں
154
اے وعدہ شکن خواب دکھانا ھی نہیں تھا
اس طرح چھوڑ کے جانا تھا آنا ھی نہیں تھا
155
دل میں بغض ، پیٹ میں حرام اور طواف پہ طواف
کعبہ خود چکّر میں ہے کہ لوگ کس چکر میں ہیں
156
تو اگر حسن کا یوسف ھے تو اے جان غزل
میری آنکھیں بھی تو یعقوب بنی رھتی ھیں
157
میں پاگل ہو گیا نقاب میں اس آنکھیں دیکھ کر
نہ جانیں وہ روز خود کو کیسے دیکھتی ہوگی آئینے میں
158
مجھ کو ڈرا رہی تھی زمانے کی ہمسری
دیکھا تو اپنے قد کے برابر بھی میں ہی تھا
159
جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا ​
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے ​
160
منزلیں ان کو کہاں مل سکتی ہیں۔
ساحل پہ جو بیٹھے رہیں مدد کی تلاش میں
161
تو مِلے یا نہ مِلے، جو ہو مقدّر اپنا
کیا یہ کم ہے، کہ تِرے چاہنے والے ہوئے ہیں
162
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہم سایہ کا ہے کو سوتا رہے گا
163
خاک بھی سر پر ڈالنے کو نہیں
کس خرابے میں ہم ہوئے آباد
164
ہمارے اور تمہارے پیار میں بس فرق ہے اتنا
اِدھر تو جلدی جلدی ہے اُدھر آہستہ آہستہ
165
نہ جا ظاہر پرستی پر اگر کچھ عقل و دانش ہے
چمکتا جو نظر آتا وہ سب سونا نہیں ہوتا
166
وہ بے دردی سے سر کاٹے امیر اور میں کہوں‌ ان سے
حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ
167
بے رُخی اِس سے بڑی اور بَھلا کیا ہوگی
ایک مُدّت سے ہمیں اُس نے ستایا بھی نہیں

168
ہماری بھی سنبھل جائے گی حالت
وہ پہلے اپنی زلفیں تو سنبھالیں
169
لگے مُنہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
170
اداکاری غضب کی آج کے انساں میں ہے دلکش
ملا لیتے ہیں بڑھ کر ہاتھ لیکن دل نہیں ملتا
171
تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالب
الگ تھلگ سے ہو، کیا بات ہو گئ پیارے
172
پل دو پل کے عیش کی خاطر کیا دبنا کیا جھکنا
آخر سب کو ہے مر جانا سچ ہی لکھتے جانا
173
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
174
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اُسی سے ملتا ہے
175
شب وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہربان تھا
176
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
177
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا
178
رکھتے ہیں آپ پاؤں کہیں پڑتے ہیں کہیں
رفتار کا تمہاری نہیں ہے چلن درست
179
کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سو رہا
پٹکا کیا میں سر کو پسِ در تمام رات
180
ہر جلوے کو دیکھا ترے جلووں سے منوّر 
ہر بزم میں تو انجمن آرا نظر آیا 
181
الہٰی! ایک دل ہے، تو ہی اس کا فیصلہ کر دے
وہ اپنا دل سمجھتے ہیں، ہم اپنا دل سمجھتے ہیں
182
ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہیں
ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے
183
تجھے اے جگر! ہوا کیا کہ بہت دنوں سے پیارے
نہ بیانِ عشق و مستی نہ حدیثِ دلبرانہ
184
آئے تھے دل کی پیاس بجھانے کے واسطے
اک آگ سی وہ اور لگا کر چلے گئے
185
مسجد کے زیرِسایہ اِک گھر بنا لیا ہے
یہ بندۂ کمینہ ہمسایۂ خدا ہے
186
سرخ رُو دیکھیے کس کس کو کرے گا قاتل
سر پہ باندھے ہوئے مقتل میں کفن لاکھوں ہیں
187
ہنس کے بولے سوالِ بوسہ پر
ایسی باتوں کا یاں جواب نہیں
188
سرسری ان سے ملاقات ہے گاہے گاہے
بزمِ اغیار میں گاہے سرِ راہے گاہے
189
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے
190
پڑے ہے بزم میں جس شخص پر نگاہ تری
وہ منہ کو پھیر کے کہتا ہے "اف پناہ تری"
191
ہائے رے وہ مدھ بھری آنکھیں خمار
میکدے ویران نظر آئے ہیں
192
مجھے تو اُن کی عبادت پہ رحم آتا ہے
جبیں کے ساتھ جو سجدے میں دل جھکا نہ سکے
193
حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمار
کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا
194
ارے او جفاؤں پہ چُپ رہنے والو
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے
195
روشنی کے لئے گھر جلانا پڑا
کیسی ظُلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد
196
اب ملاقات کہاں شیشے سے پیمانے سے
فاتحہ پڑھ کے چلے آتے ہیں میخانے سے
197
تم سن کے کیا کرو گے کہانی غریب کی
جو سب کی سن رہا ہے کہیں گے اُسی سے ہم
198
یہ انقلاب نہیں ہے تو اور کیا بسملؔ
نظر بدلنے لگے اپنے جانے پہچانے
199
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
200
قیامت آئے قیامت سے میں نہیں ڈرتا
اُٹھا تو دے کوئی پردہ کسی بہانے سے
201
الہٰی کچھ تو ہو آساں نزع کی مشکل
دمِ اخیر تو تسکین دے وہ آ کے مجھے
202
بہت کچھ ہے کرو میر بس
کہ اللہ بس اور باقی ہوس

0 comments: