Tuesday 27 September 2016

منتخب و متفرق اشعار: قسط نمبر ۸

🌹بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 🌹

!!! منتخب اور متفرق اشعار!!!

انتخاب کنندہ: عادل سعیدی

قسط نمبر: آٹھ
..................................................

1
افروختن، و سوختن، و جامہ دریدن
پروانہ زمن شمع زمن گل زمن آموخت

روشنی بکھیرنا شمع نے ۔ جل مرنا پروانہ نے اور گریباں چاک کرنا گل نے ۔ مجھ سے سیکھا ہے
........................................
2
منظورِ یار گشت نظیری! کلامِ ما
بیہودہ صرفِ حرف نکردیم دودہ را

نظیری! ہمارا کلام یار کو پسند آ گیا، (تو گویا) ہم نے حرفوں پر فضول سیاہی خرچ نہیں کی۔
..................................................
3
دراں دلے کہ توئے یادِ دیگری کردَن
درونِ کعبہ پَرستیدن است عزّیٰ را

اگر تُو نے اپنے دل میں کسی دوسرے کو یاد کیا (تو یہ ایسے ہی ہے جیسے) کعبہ کے اندر عزّیٰ (بت) کی پرستش کرنا۔
..................................................
4
دورِ گردوں گر دو روزے بر مرادِ ما نرفت
دائماً یکساں نباشد حالِ دوراں، غم مخور

آسمان کی گردش اگر دو روز ہماری مراد کے مطابق نہیں چلی (تو کیا ہوا کہ) زمانے کا حال ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، غم نہ کر!
..................................................
5
تا چشمِ تو ریخت خونِ عشّاق
زلفِ تو گرفت رنگِ ماتم

چونکہ تیری آنکھوں نے عشاق کا خون بہایا ہے (اس لئے ) تیری زلفوں نے رنگِ ماتم پکڑا ہوا ہے (وہ سیاہ رنگ کی ہیں)
..................................................
6
بیاد آرَم چو صحبت ہائے یاراں
سرشک از دیدہ ریزم ہمچو باراں

دوستوں کی صحبتوں کی جب یاد آتی ہے تو آنسو آنکھ سے بارش کی طرح ٹپکتے ہیں۔
..................................................
7
ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب
ہنوز نامِ تو گفتن کمال بے ادبیست

ہزار بار بھی اگر اپنا منہ مشک و گلاب سے دھوؤں، تو پھر بھی آپ ﷺ  کا (پاکیزہ) نام لینا بہت بڑی بے ادبی ہے!
........................................
8
افروختن و سوختن و جامہ دریدَن
پروانہ ز من، شمع ز من، گُل ز من آموخت

چمکنا شمع نے، جلنا پروانے نے، لباس پھاڑنا (کِھلنا) پُھول نے، مجھ سے سیکھا!

صنعتِ 'لف و نشر غیر مرتب' کی ایک خوبصورت مثال!
..................................................
9
طریقت بجُز خدمتِ خلق نیست
بہ تسبیح و سجّادہ و دلق نیست

طریقت، خدمتِ خلق کے سوا کچھ اور نہیں ہے، یہ تسبیح اور سجادہ اور گُدڑی سے (میں) نہیں ہے!
..................................................
10
صبح دم تو رُخ نمودی، شُد نمازِ من قضا
سجدہ کے باید روا، چوں آفتاب آید بروں

صبح کے وقت جب تیرا چہرہ نظر آیا تو میری نماز قضا ہو گئی، سجدہ کیسے روا ہو سکتا ہے جب سورج طلوع ہو جائے!
..................................................
11
قرآن پیش خود آئینہ آویز دگر
گوں گشتہ از خویش گریز

(اپنے سامنے قرآن کا آئینہ رکھ اور اپنے خدوخال کو سنوار لے جو بگڑ چکے ہیں)
..................................................
12
گبر و ترسا و مسلماں ھر کسی در دینِ خویش
قبلۂ دارَند و ما زیبا نگارِ خویش را

یہودی و نصرانی و مسلمان، سب کا اپنے اپنے دین میں اپنا قبلہ ہے اور ہمارا (قبلہ) خوبصورت چہرے والا ہے
..................................................
13
حافظا! خلدِ بریں خانۂ موروثِ منست
اندریں منزلِ ویرانہ نشیمن چہ کنم

اے حافظ! جنت میرا موروثی گھر ہے، (لہذا) اس ویران منزل (دنیا) میں کیا نشمین بناؤں۔
..................................................
14
دنیا بہ اہلِ خویش تَرحّم نَمِی کُنَد
آتش اماں نمی دہد، آتش پرست را

یہ دنیا اپنے (دنیا میں) رہنے والوں پر رحم نہیں کھاتی، (جیسے کہ) آگ، آتش پرستوں کو بھی امان نہیں دیتی (انہیں بھی جلا دیتی ہے)۔
..................................................
15
زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجے گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت

زاھد کو پری رخوں کے دیکھنے کی تاب نہیں ہے (اور اس وجہ سے وہ) گوشۂ تنہائی میں ہے اور یادِ خدا کا بہانہ بنایا ہوا ہے!
..................................................
16

حافظ! مدام وصل میسر نمی شور
شاہان کم التفات بحالِ گدا کنند

اے حافظ! وصل ہمیشہ میسر نہیں‌ہوتا
بادشاہ گدا کے حال پر کم توجہ کرتے ہیں
..................................................
17
نہ محرمے، نہ شفیقے، نہ ہمدمے دارَم
حدیثِ دل بکہ گویَم، عجب غمے دارم

نہ کوئی محرم ہے، نہ کوئی شفیق، نہ کوئی ہمدم، دل کی بات کس سے کہوں؟ میرا غم بھی عجیب ہے (عجب مشکل ہے)۔
..................................................
18
از عشوۂ دختِ رز فریبے نخوریم
اے ساقیٔ ما! چشمِ تو، میخانۂ ماست

ہم انگور کی بیٹی کے ناز و ادا سے فریب نہیں کھانے والے، اے ہمارے ساقی! ہمارا میخانہ تو تیری آنکھیں ہیں
..................................................
19
طُمَعِ وصال، گُفتی، کہ بہ کیشِ ما حرام است
تو بگو کہ خونِ عاشق بہ کُدام دیں حلال است

(تُو نے (اے محبوب) کہا کہ وصال کی خواہش رکھنا ہمارے طور طریقے میں حرام ہے، (لیکن ذرا) یہ بھی کہہ کہ عاشق کا خون کرنا کس دین میں حلال ہے؟)
..................................................
20
سَرشکم رفتہ رفتہ بے تو دریا شُد، تماشا کُن
بیا در کشتیٔ چشمم نشین و سیرِ دریا کُن

ہمارے آنسو تیرے جدائی میں رفتہ رفتہ دریا بن گئے ہیں ذرا دیکھ تو، آ اور ہماری آنکھ کی کشتی میں بیٹھ کر اس دریا کی سیر کر۔
..................................................
21
کجا عقل و کجا دین و کجا من
منِ دیوانہ را اینہا مگوئید

(کہاں عقل اور دین اور کہاں میں، مجھ دیوانے سے اسطرح کی باتیں مت کرو)
..................................................
22
کاھلی کُفر بُوَد در رَوَشِ اھلِ طَلَب
من چرا کارِ خود امروز بہ فردا فگنم

اہلِ طلب کی روش میں کاہلی کفر ہوتی ہے، ہم اپنا آج کا کام کل پر کیوں ڈالیں۔
..................................................
23
عشقت نہ سرسری ست کہ از سر بدَر شَوَد
مہرت نہ عارضی ست کہ جائے دگر شود

(تیرا عشق سرسری نہیں ہے کہ ہمارے سر سے نکل جائے گا، تیری محبت عارضی نہیں ہے کہ کسی دوسری جگہ چلی جائے گی)
..................................................
24
اُمیدِ وصلِ تو نگذاشت تا دہَم جاں را
وگرنہ روزِ فراقِ تو مُردن آساں بُود

تیرے وصل کی امید (دل سے) نہ گئی کہ میں جان دے دیتا، وگرنہ تیری جدائی والے دن مرنا تو بہت آسان تھا
..................................................
25
می رَوی با غیر و می گوئی بیا عرفی تو ھم
لطف فرمودی بروکیں پائے را رفتار نیست

(تم) غیر کے ساتھ جا رہے ہو اور کہتے ہو کہ عرفی تو بھی آ جا، آپ نے عنایت فرمائی لیکن میرے پاؤں میں چلنے کی طاقت نہیں ہے
..................................................
26
ز ہر کلام، کلامِ عرب فصیح تر است
بجز کلامِ خموشی کہ افصح از عرب است

عرب کا کلام، ہر کلام سے فصیح تر (خوش بیاں، شیریں) ہے ماسوائے کلامِ خموشی (خاموشی) کے کہ وہ عرب کے کلام سے بھی فصیح ہے۔
..................................................
27
اہلِ ہمّت را نباشد تکیہ بر بازوئے کس
خیمۂ افلاک بے چوب و طناب استادہ است

ہمت والے لوگ کسی دوسرے کے زورِ بازو پر تکیہ نہیں کرتے، (دیکھو تو) آسمانوں کا خیمہ چوب اور طنابوں (وہ لکڑیاں اور رسیاں جس سے خیمے کو گاڑتے ہیں) کے بغیر ہی کھڑا ہے
..................................................
28
گماں مبر کہ ستم کردی و وفا نہ کُنَم
بیا بیا کہ ہماں شوق و آرزو باقی است

یہ گمان نہ کر کہ تُو نے مجھ پر ستم کیئے ہیں تو میں وفا نہیں کرونگا، آجا، آجا کہ (اب بھی میرا) وہی شوق اور وہی آرزو باقی ہیں
..................................................
29
آغازِ عشق یک نَظَرش با حلاوتست
انجامِ عشق جز غم و جز آہِ سرد نیست

عشق کا آغاز، اس (محبوب) کی ایک نظر کے ساتھ کتنا شیریں ہوتا ہے، لیکن عشق کا انجام بجز غم اور بجز سرد آہ کے کچھ نہیں ہے
..................................................
30
موجِ شراب و موجۂ آبِ بقا یکے است
ھر چند پردہ ھاست مخالف، نوا یکے است

موجِ شراب اور موجِ آب حیات (اصل میں) ایک ہی ہیں۔ ہر چند کہ (ساز کے) پردے مخلتف ہو سکتے ہیں لیکن (ان سے نکلنے والی) نوا ایک ہی ہے۔
..................................................
31
تفاوت است میان شنیدن من و تو
تو بستن در و من فتح باب می شنوم

ترجمہ: تیرے اور میرے ( درمیان) سننے میں فرق ہے کہ، تو جسے دروازہ بند ہونے کی آواز کھتا ہے، میں اسے دروازہ کھلنے کی آواز کھتا ہوں
..................................................
32
حاصلِ عُمرَم سہ سُخَن بیش نیست
خام بُدَم، پختہ شُدَم، سوختَم

میری عمر کا حاصل ان تین باتوں سے زائد کچھ بھی نہیں ہے، خام تھا، پختہ ہوا اور جل گیا
..................................................
33
لیس الغنی عن کثرۃ العرض انما الغنی غنی النفس(حدیث نبوی)​

تونگری مال و اسباب کی کثرت کا نام نہیں ، تونگری دل کی تونگری کو کہتے ہیں

نہ تونگر کسے بود کہ بمال
کار پرداز چارہ ساز بود
آں بود کز شہودِ فضلِ خدائے
از زر و مال ، بے نیاز بود

(مولانا نور الدین عبد الرحمن جامی)

غنی اس کو نہ سمجھو جس کے گھر میں نقرہ و زر ہو
غنی اس شخص کو کہتے ہیں‌جو دل کا تونگر ہو

(ظفر علی خان)
..................................................
34
وفا کنیم و ملامت کشیم و خوش باشیم
کہ در طریقتِ ما کافری ست رنجیدن

ہم وفا کرتے ہیں، ملامت سہتے ہیں اور خوش رہتے ہیں کہ ہماری طریقت میں رنجیدہ ہونا کفر ہے۔
..................................................
35
صبا گر از سرِ زلفش بہ گورستاں برد بوئے
ز ہر گورے دو صد بیدل ز بوئے یار برخیزد

اگر صبا اسکی زلفوں کی خوشبو قبرستان میں لے جائے تو ہر ہر قبر سے سینکڑوں عشاق اپنے محبوب کی خوشبو پا کر اُٹھ کھڑے ہوں
..................................................
36
شنیدہ ام بہ صنم خانہ از زبانِ صنم
صنم پرست و صنم گر و صنم شکن ہمہ اُوست

میں نے صنم خانے میں صنم کی زبان سے سنا ہے کہ صنم پرست بھی وہی ہے اور صنم گر بھی وہی ہےا ور صنم شکن بھی وہی ہے
..................................................
37
پارسی گو گرچه تازی خوشتر است
عشق را خود صد زبان دیگر است

اگرچہ عربی اچھی ہے مگر فارسی میں کہو - عشق کی اپنی سو زبانیں ہیں
..................................................
38
زر از بہرِ خوردن بُوَد اے پسر!
برائے نہادن چہ سنگ و چہ زر

اے پسر! روپیہ پیسہ اور مال و دولت کھانے پینے اور استعمال کرنے کیلیے ہوتا ہے، اگر رکھ ہی چھوڑنا ہے اور استعمال نہیں کرنا تو پھر کیا پتھر اور کیا دولت (یعنی رکھے ہوئے دونوں ایک برابر ہیں۔)
..................................................
39
چہ گنہ کرد دلم کز تو چنیں دُور افتاد؟
من چہ کردم کہ ز وصلِ تو جدا افتادم؟

میرے دل نے ایسا کون سا گناہ کر دیا ہے کہ اسطرح تجھ سے دُور ہو گیا ہے؟ اور میں نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ تیرے وصل سے جدا ہو گیا ہوں؟
..................................................
40
از صراحی دو بار قلقلِ مے
پیشِ جامی بہ از چہار قُل است

صراحی میں سے دو بار شراب کی قلقل کی آواز ﴿وہ آواز جو بوتل یا صراحی سے گلاس میں کوئی چیز انڈیلتے وقت آتی ہے﴾، جامی کے نزدیک چاروں قُل سے بہتر ہے
..................................................
41
مردہ بدم زندہ شدم، گریہ بدم خندہ شدم
دولتِ عشق آمد و من دولتِ پایندہ شدم

میں مُردہ تھا زندہ ہو گیا، گریہ کناں تھا مسکرا اٹھا، دولتِ عشق کیا ملی کہ میں خود ایک لازوال دولت ہو گیا
..................................................
42
در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد؟
در دستِ بحر نوشاں، ساغر چہ کار دارد؟

فقیروں کے حلقے میں بادشاہوں کا کیا کام؟ دریا نوشوں کے ہاتھ میں ساغر کا کیا کام؟
................................................
43
وضعِ زمانہ قابلِ دیدن دوبارہ نیست
رو پس نکرد ہر کہ ازیں خاکداں گذشت

دنیا کی وضع (چلن، طور طریقہ) اس قابل ہی نہیں ہے کہ اسے دوبارہ دیکھا جائے (یہی وجہ ہے) کہ جو بھی اس خاکدان سے جاتا ہے پھر ادھر کا رخ نہیں کرتا
........................................
44
از وجودِ اُو بہ نزدِ دوستاں
جنت الماویٰ شدہ ہندوستاں

آپ کے وجودِ مبارک سے، دوستوں کے لیے، ہندوؤں کی جگہ (ہندوستان) جنت الماویٰ بن گیا ہے۔
..................................................
45
برَد دل از ھمہ کس نظمِ اُو کہ ھاتف را
ملاحتِ عجمی و فصاحتِ عرَبیست

ھاتف کے کلام نے ہر کسی کا دل چھین لیا کہ (اسکے کلام میں) عجم (فارسی) کی ملاحت اور عربی فصاحت ہے۔
..................................................
46
یادِ رخسارِ ترا در دل نہاں داریم ما
در دلِ دوزخ، بہشتِ جاوداں داریم ما

تیرے رخسار کی یاد دل میں چھپائے ہوئے ہیں، دوزخ جیسے دل میں ایک دائمی بہشت بسائے ہوئے ہیں
........................................
47
میان عاشق و معشوق رمزیست
کراما کاتبیں را ہم خبر نیست

عاشق اور معشوق کے درمیان ایک ایسا (قلبی) تعلق ہوتا ہے جس کی کراما کاتبین کو بھی خبر نہیں ہوتی ۔
..................................................
48
آں عزم بلند آور، آں سوزِ جگر آور
شمشیرِ پدر خواہی، بازوئے پدر آور

پہلے وہ عزم بلند ، وہ سوز جگر لاؤ ۔ باپ کی تلوار کی خواہش ہے تو پہلے باپ کے سے بازو لاؤ
........................................
49
ہمی دانم کہ روز و شب جہاں روشن بہ روئے تُست
ولیکن آفتابے یا مہِ تاباں؟ نمی دانم

میں یہ تو ضرور جانتا ہوں کہ دنیا کے روز و شب تیرے ہی چہرے (کی روشنی) سے روشن ہیں، لیکن تو آفتاب ہے یا چمکدار چاند یہ نہیں جانتا
........................................
50
بجز غم خوردنِ عشقَت، غمے دیگر نمی دانم
کہ شادی در ہمہ عالم ازیں خوشتر نمی دانم

تیرے عشق کے غم کے سوا مجھے کوئی اور غم نہیں ہے اور سارے جہان میں اس سے بہتر میں خوشی کی کوئی اور بات نہیں جانتا (کہ فقط تیرا غم ہے)۔
........................................

0 comments: