!!! مسجد میں باتیں نہ کرنا!!!
مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ،شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقل : عادل سعیدی پالن پوری
بزرگو اور بھائیو! آج کوئی خاص تقریر نہیں کرنی، بس دو ضروری باتیں عرض کرنی ہیں، ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ اس ملک کی مسجدوں کا نظام صحیح نہیں، کمیونٹی سینٹر اور مسجدوں کا ایک ہی حال ہے، جب لوگ مسجدوں میں آتے ہیں، تو باہر اور مسجد میں کوئی فرق نہیں ہوتا، جیسے کمیونٹی سینٹر میں پہنچ کر لوگ باتیں کرتے ہیں، اسی طرح مسجدوں میں بھی باتیں کرتے ہیں، یہ غلط طریقہ ہے، اللہ تعالیٰ سورة الحج میں ارشاد فرماتے ہیں: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللہ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی القُلُوْبِ، جو شخص اللہ تعالیٰ کے دین کی امتیازی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے، تو یہ تعظیم کرنا اس کے دل میں پرہیزگاری کی وجہ سے ہوتا ہے، جس دل میں تقویٰ اور پرہیزگاری ہوتی ہے، وہی شعائر اللہ( اللہ کے دین کی امتیازی نشانیوں ) کی تعظیم کرتا ہے۔
شعائر اللہ کیا ہیں:
ہر وہ چیز جس کو دیکھ کر فوراﹰ سمجھ لیا جائے کہ یہ چیز فلاں مذہب سے تعلق رکھتی ہے، تو وہ اس مذہب کا شعار ہے، جیسے چرچ پر منارہ اور صلیب دیکھ کر ہر آدمی سمجھ جاتا ہے کہ یہ چرچ ہے، یہ عیسائیت کا شعار ہے، یہودیوں کا شعار چھ کونوں والا تارہ ہے، اس کو دیکھ کر آدمی فوراﹰ سمجھ جاتا ہے کہ یہ دکان، یہ گھر، یہ عبادت خانہ یہودیوں کا ہے، یہ یہود کا شعار ہے، مندر کی ایک خاص بناوٹ ہے، ہندو عورت مانگ میں سندور لگاتی ہے، مرد قشقہ لگاتا ہے، اور ایک خاص انداز سے دھوتی پہنتا ہے، ان چیزوں کو دیکھ کر آپ فوراﹰ سمجھ جائیں گے کہ یہ ہندو ہے، یہ سب شعائر الہنود ہیں، اسی طریقہ پر اسلام کے کچھ شعائر ہیں، جن کو دیکھ کر ہر آدمی فوراﹰ سمجھ جاتا ہے کہ یہ مذہبِ اسلام سے تعلق رکھنے والی چیز ہے، یہ شعائر اللہ ہیں، اللہ تعالیٰ کے دین کی امتیازی نشانیاں ہیں۔
شعائر اللہ کتنے ہیں:
شعائر اللہ بہت ہیں، بڑے شعائر چار ہیں، قرآن کریم، کعبہ، نبی اور نماز، کعبہ صرف اسلام کے پاس ہے، کسی اور مذہب کے پاس کعبہ نہیں، قرآن کریم مسلمانوں کی متبرک کتاب ہے، ہر آدمی جانتا ہے، نبی بھی شعائر اللہ میں سے ہے، کیونکہ آج دنیا میں اسلام کے علاوہ کوئی مذہب نہیں، جو نبی کا صحیح تصور رکھتا ہو، برطانیہ میں ایک مرتبہ ہم یہودیوں کی عبادت دیکھنے کےلئے باقاعدہ وقت لیکر ان کے عبادت خانہ( سینیگونگ ) میں گئے، ہم نے ان کی نماز دیکھی، نماز کے بعد ہم نے ان کے امام سے پوچھا: موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ اس نے جواب دیا: صرف معلم، استاد تو دنیا میں کروڑوں ہیں، ان کا اپنے نبی کے بارے میں، نبی کا کوئی تصور نہیں، عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ کا بیٹا ہونے کا تصور ہے، وہ بھی نبی کا کوئی تصور نہیں رکھتے، ہندو اپنے بڑوں کے بارے میں اوتار کا تصور رکھتے ہیں، نبی کا نہیں رکھتے، اوتار کا مطلب یہ ہے کہ جب زمین شر و فساد سے بھر جاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ انسان بن کر دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، پھر آہستہ آہستہ بڑے ہوتے ہیں، اور بڑے ہوکر دنیا سے سب برائیاں ختم کرتے ہیں، پھر مرجاتے ہیں، اور مرکر اپنی جگہ چلے جاتے ہیں، تو ان کے یہاں بھی نبی کا کوئی تصور نہیں، نبی کا صحیح تصور صرف اسلام میں ہے۔
نبی کا صحیح تصور:
وہ صحیح تصور کیا ہے؟ أشْھَدُ أنَّ مُحمداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، دو چیزوں کو جمع کرنا نبی کا صحیح تصور ہے، اسلام حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم النبین ﷺ تک سب نبیوں کے بارے میں یہی تصور رکھتا ہے، کہ یہ سب انسان تھے، جیسے ہم انسان ہیں، ہمارے درمیان اور ان کے درمیان انسان ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں تھا، ہماری دو آنکھیں ہیں، نبیوں کی بھی دو آنکھیں تھیں، ہمارے دو کان، دو ہاتھ، ایک منھ اور ایک ناک ہے، نبیوں کے بھی یہی سب اعضاء تھے، ہم کھاتے ہیں، پیتے ہیں، بازار جاتے ہیں، انبیاء بھی کھاتے پیتے اور بازار جاتے تھے، انسان ہونے کے ناتے ہم میں اور نبیوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔
پھر فرق کیا تھا؟ ان کو ایک بہت بڑا عہدہ مل گیا تھا، وہ عہدہ: نبوت اور رسالت کا عہدہ ہے، یہ اتنا بڑا عہدہ ہے کہ انہیں کو ملا ہے، دوسرا چاھے جتنی بھی محنت کرلے، اس کو یہ عہدہ نہیں مل سکتا، جیسے کسی ملک کا صدر، وزیراعظم اور بادشاہ ہوتا ہے، ان میں اور عوام میں انسان ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا، لیکن فرق ہوتا ہے کہ وہ ملک کا صدر، وزیراعظم ہے، بادشاہ ہے، یہ ان کا مرتبہ ہے، اور یہ مرتبہ انہی کو حاصل ہے، دوسرے کسی کو حاصل نہیں۔
اسی طریقہ پر اسلام کا تصور تمام نبیوں کے بارے میں یہ ہے کہ وہ انسان تھے، اور اللہ تعالٰی نے ان کو ایک بہت بڑا عہدہ دیا تھا، أشْھَدُ أنَّ مُحمداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ کا یہی مطلب ہے، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، وہ کوئی خدا نہیں، وہ کوئی خدا کے بیٹے نہیں، وہ کوئی مافوق الفطرت شخصیت نہیں، آدم علیہ السلام کی ساری اولاد جیسے انسان تھی، وہ بھی انسان تھے، مگر وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں اور رسولوں کے سردار ہیں، یہ بہت بڑا عہدہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دے رکھا تھا، نبیوں کے بارے میں اسلام کا یہی تصور ہے، اور یہی نبوت کا صحیح مفہوم ہے، اور یہ صحیح مفہوم صرف اسلام میں ہے، اس کے علاوہ اور کسی مذہب میں نبوت کا صحیح مفہوم نہیں، اس لئے نبی بھی شعائر اللہ میں سے ہے۔
اور چوتھی چیز ہے: نماز، دنیا کے تمام مذاہب اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتے ہیں، بلکہ یہود و نصاریٰ تو نماز پڑھتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور نماز پڑھنے کا جو طریقہ مسلمانوں کا ہے، وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں نہیں، اگر آپ سڑک کے کنارے پر، پلیٹ فارم پر، بس اسٹینڈ پر کسی آدمی کو مصلیٰ بچھا کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتے ہوئے دیکھیں، تو آپ دیکھتے ہی فوراﹰ سمجھ جائیں گے کہ یہ مسلمان ہے۔
الغرض اسلام کے بڑے شعائر چار ہیں: قرآن کریم، کعبہ، نبی اور نماز، ان کے علاوہ اور بھی چھوٹے چھوٹے شعائر ہیں، قربانی کے جانور بھی شعائر ہیں، ہدی کے جانوروں کو بھی شعائر اللہ کہا گیا ہے، اسی طریقہ پر مسجدیں بھی شعائر اللہ ہیں، کہ ان کو دیکھ کر ہر آدمی سمجھ جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے، بلکہ مسجد کے مینارے جو ایک خاص انداز سے اٹھائے جاتے ہیں، وہ بھی شعائر اللہ ہیں، ان کو دیکھ کر بھی آدمی مسجد کو پہنچان لیتا ہے، اور شعائر اللہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللہ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی القُلُوْبِ، جو شخص اللہ تعالیٰ کے دین کی امتیازی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے، تو یہ تعظیم کرنا اس کے دل میں تقویٰ ہونے کی وجہ سے ہے۔
شعائر اللہ کی تعظیم کیا ہے؟
شعائر اللہ کی تعظیم کا کوئی ایک متعین طریقہ نہیں، ہر علامت کی تعظیم اس کے شایانِ شان کی جاتی ہے، پس قرآن کریم کی تعظیم کے طریقے الگ ہیں، کعبہ کی تعظیم کے طریقے الگ ہیں، نبی کی تعظیم کے طریقے الگ ہیں، نماز کی تعظیم کے طریقے الگ ہیں، قربانی کی تعظیم کے طریقے الگ ہیں، مسجدوں کی تعظیم کے طریقے الگ ہیں، غرض شعائر اللہ کی تعظیم کا کوئی ایک متعین طریقہ نہیں۔
کعبہ شریف کی تعظیم یہ ہے کہ اس کا طواف کرو، اس کی طرف منھ کرکے نماز پڑھو، اس کی طرف پیر نہ کرو، استنجے کے وقت اس کی طرف منھ کرو، نہ پیٹھ۔
قرآن کریم کی تعظیم یہ ہے کہ بےوضو اس کو ہاتھ نہ لگائیں، بےوضو قرآن کریم پڑھ تو سکتے ہیں، لیکن ہاتھ نہیں لگا سکتے، ایسا کیوں ہے؟ جب بےوضو ہاتھ لگانا جائز نہیں، تو پڑھنا بھی ناجائز ہونا چاھئے، جواب یہ ہے کہ ایسا ضرورت کی بنا پر ہے، مکتبوں اور مدرسوں میں صبح سے شام تک اساتذہ اور طلبہ قرآن کریم پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، اگر یہ شرط لگادی جائے کہ پڑھنے کےلئے بھی وضو ضروری ہے، تو مکتبوں کا سارا نظام درہم برہم ہوجائےگا، صبح سے شام تک اساتذہ اور طلبہ باوضو کیسے بیٹھیں گے؟ اسی طرح سے ہر مسلمان کو، جب بھی موقعہ ملے، تلاوت کرنی چاھئے، وضو کی شرط لگادیں گے تو ہر وقت تلاوت نہیں ہوسکے گی، اس لئے شریعت نے ضرورت کی وجہ سے اتنی گنجائش رکھی، جنابت کی حالت میں قرآن کریم پڑھنا تو حرام ہے، کیونکہ یہ حالت کبھی کبھی پیش آتی ہے، اور بےوضو ہونے کی حالت میں زبانی قرآن کریم پڑھنے کی اجازت دیدی، کہ یہ حالت بار بار پیش آتی ہے، الغرض قرآن کریم کی تعظیم یہ ہے کہ آپ بےوضو اس کو ہاتھ نہ لگائیں۔
قرآن کریم ہاتھ سے گرجائے تو اس کا کفارہ کیا ہے:
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نادانی میں قرآن کریم ہاتھ سے گرجاتا ہے، لوگ پوچھتے ہیں: اس کا کفارہ کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے، نادانی میں قرآن کریم کا ہاتھ سے گرجانا کوئی گناہ نہیں، اور کفارہ گناہ کا ہوتا ہے، گناہ کیوں نہیں؟ حدیث شریف میں ہے: رُفَعَ عَنْ أمَّتِیْ الْخَطَأُ وَ الِّنسْیَانُ وَ مَا استَکْرَھُوا عَلَیْہ، میری امت سے تین باتیں اٹھادی گئی ہیں، یعنی ان کا کوئی گناہ نہیں، ایک: چوک، دوسری: بھول، تیسری: زبردستی کرایا ہوا کام، تو ان تین کا کوئی گناہ نہیں، چوک: جیسے شکاری نے خرگوش کو گولی ماری، اور جس کو وہ خرگوش سمجھ رہا تھا، وہ کوئی آدمی نکلا، اور وہ گولی آدمی کو جالگی، تو اس قتل کا کوئی گناہ نہیں، دیت تو آئے گی، لیکن اس کو قتل کا کوئی گناہ نہیں ہوگا، اسی طریقہ سے بھول ہے، بھول کی وجہ سے کہیں تو عبادت بھی نہیں ٹوٹتی، اور گناہ بھی نہیں ہوتا، اور کہیں عبادت تو ٹوٹ جاتی ہے، مگر گناہ نہیں ہوتا، دورانِ نماز اگر کسی نے بھولے سے کسی شخص کو سلام کا جواب دیدیا، تو نماز ٹوٹ جائےگی، مگر گناہ نہیں ہوگا، روزہ کی حالت میں بھولے سے کچھ کھا پی لیا، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹا، اور گناہ بھی نہیں ہوا، بہرحال بھول میں کہیں عبادت ٹوٹ جاتی ہے، اور کہیں نہیں ٹوٹتی، اور گناہ دونوں صورتوں میں نہیں ہوتا۔
اور تیسری چیز ہے: زبردستی کوئی کام کروانا، جیسے مباح چیزوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے، دو چار آدمیوں نے پکڑا، اور جان سے مارنے کی دھمکی دے کر کسی سے طلاق دلوائی، اس نے جان بچانے کےلئے طلاق دیدی، تو اس طلاق میں کوئی گناہ نہیں، بےضرورت آدمی طلاق دے، تو اس کا گناہ ہوگا، اسی طرح حالتِ حیض میں اگر طلاق دیدی، تو گناہ گار ہوگا، لیکن زبردستی کرنے میں گناہ نہیں ہوگا، البتہ طلاق پڑجائے گی۔
غرض شریعت میں چوک کا، بھول کا، اور زبردستی کوئی کام کروایا گیا ہو، تو اس کا کوئی گناہ نہیں، جب یہ بات ہے، تو ہاتھ سے جو قرآن کریم گرا ہے، اس کی دو ہی شکلیں ہوسکتی ہیں، یا تو چوک گیا ہے، یا بھول گیا ہے، کوئی مسلمان سلامتی ہوش و حواس کے ساتھ ایسا کام نہیں کرسکتا، بھول سے گرے گا، یا چوک سے گرے گا، یہی دو شکلیں ہیں، ان کے علاوہ اور کوئی شکل نہیں، اور ان دو شکلوں میں کوئی گناہ نہیں، اور جب گناہ نہیں، تو کفارہ بھی نہیں۔
اور اگر کسی نالائق نے جان بوجھ کر قرآن کریم کو نیچے ڈالا، تو یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کا کوئی کفارہ توبہ کے علاوہ نہیں، جیسے یمین غموس میں کوئی کفارہ نہیں، گذرے ہوئے زمانہ کی کسی بات پر جھوٹی قسم کھانا، اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہوسکتا، اس لئے کوئی کفارہ نہیں ہے، علاوہ توبہ کے، اسی طریقہ پر قرآن کریم کو جان بوجھ کر پٹخنا بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کےلئے کوئی کفارہ ممکن نہیں، توبہ کرے، اور سچی پکی توبہ کرے، تو ہی گناہ معاف ہوگا۔
بہرحال غلطی سے، نادانی سے کبھی قرآن کریم گرجائے، تو اس کا کوئی گناہ نہیں، لیکن اگر کوئی اپنے دل پر سے بوجھ ہٹانے کےلئے کچھ صدقہ و خیرات کرنا چاھے، تو کرے، ضرور کرے، کیونکہ ایسا واقعہ پیش آنے کی صورت میں مؤمن کے دل پر ایک بوجھ پڑتا ہے، اور صدقہ کرنے سے وہ بوجھ ہٹ جاتا ہے، باقی مسئلہ کی رو سے اس پر کوئی کفارہ نہیں۔
خیر قرآن کریم کی تعظیم یہ ہے کہ اس کو بےوضو ہاتھ نہ لگایا جائے، نبی کی تعظیم یہ ہے کہ اس کا احترام دل میں ہو، اور جب بھی نبی کا نام لے، تو درود بھیجے، یا سلام بھیجے، موسیٰ نے کہا، یوں نہ کہو، یوں کہو: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمایا، ہر نبی کا احترام دل میں ہونا چاھئے، اور یہ احترام جو دل میں ہے، وہ زبان اور عمل سے ظاہر بھی ہونا چاھئے، ایسے ہی ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا جب نام آئے، تو درود پڑھے، صلاة و سلام بھیجے، یہ نبی کی تعظیم میں داخل ہے، بعض لوگ اتنا جلدی درود پڑھتے ہیں کہ وہ غیر واضح ہوتا ہے، اس طرح درود شریف پڑھنے کا کیا فائدہ؟ مزے لےکر اور واضح درود شریف پڑھنا چاھئے، واضح صلاة و سلام بھیجنا، اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں اس شخصیت کا احترام ہے۔
نماز کی تعظیم یہ ہے کہ جب آپ نماز پڑھنے کےلئے کھڑے ہوں، تو لکڑی بن جائیں، آج کل ہماری نمازیں ایسی ہوگئی ہیں کہ بس ان کا اللہ ہی مالک ہے، نیت باندھتے ہی سارے بدن میں کھجلی شروع ہوجاتی ہے، کبھی اِدھر کھجائیں گے، کبھی اُدھر، پہلے کہیں کھجلی نہیں تھی، جہاں نیت باندھی کہ چاروں طرف کھجلی ہی کھجلی، نماز سے پہلے صحیح تھے، نیت باندھتے ہی جمائیاں شروع ہوگئیں، حدیث شریف میں ہے: التَثَاؤبُ فِی الصَّلاةِ مِنَ الشَّیْطَانِ، نماز شروع کرنے کے بعد جو جمائیاں شروع ہوجاتی ہیں، یہ شیطان کے اثر سے ہے، نیت بندھی ہوگی، اور چاروں طرف دیکھیں گے، ہماری نمازوں کی یہ صورتِ حال ہے، وہ اس وجہ سے ہے کہ ہمارے دل میں نماز کی تعظیم نہیں، بس ایک وظیفہ ہے، جس کو ہم پورا کردیتے ہیں۔
نماز کی تعظیم یہ ہے کہ جب آپ کھڑے ہوں، تو ایسے مستغرق ہوجائیں، کہ آپ کو نہ اپنے بدن کا ہوش رہے، نہ چاروں طرف کا، پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوکر نماز پڑھ رہے ہوں، یہ نماز کی تعظیم ہے۔
قربانی اور ہدی کے جانور بھی شعائر ہیں، ان کی تعظیم یہ ہے کہ ان کی خدمت کرو، خوب کھلاؤ، پلاؤ، نہلاؤ، دھلاؤ، مسجدوں کی تعظیم یہ ہے کہ اپنے گھروں سے اچھا اللہ تعالیٰ کا گھر بناؤ، اور مسجد میں آتے ہی دو رکعت تحیة المسجد پڑھو، نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے: اِذَا مرَرْتُم بِرِیَاضِ الجَنَّةِ فَارْتعوا، جب تم جنت کی کیاریوں سے گذرو، تو چرو، جیسے جانور ہری بھری کیاری پر سے گذرتے وقت منھ مارتا ہے، تم بھی جنت کی کیاریوں پر منھ مارو، اور جنت کی کیاریاں مسجدیں ہیں، اور چرنا یہ ہے کہ مسجد میں آتے ہی دو رکعت تحیة المسجد پڑھے، مکروہ وقت ہو تو الگ بات ہے، وضو نہ ہو، تو الگ بات ہے، لیکن اگر باوضو ہو، اور مکروہ وقت بھی نہ ہو، تو جب بھی مسجد میں داخل ہو، دو رکعت تحیة المسجد پڑھے، یہ مسجد کا احترام ہے۔
مسجد میں باتیں کرنا نیکیوں کو کھا جاتا ہے:
حدیث شریف میں ہے: اِیَاکُمْ وھیشات الأسواق، مارکیٹ میں جس طرح باتیں اور شور ہوتا ہے، اسی طرح باتیں اور شور کرنے سے مسجدوں میں بچو، جیسے کسی بڑے آدمی کے پاس جب لوگ جاتے ہیں، تو سب خاموش بیٹھتے ہیں، یہ بڑے آدمی کا ادب ہے، مسجدوں کا بھی یہ ادب ہے، کہ مسجدوں میں جاتے ہی باتیں بند ہوجانی چاہئیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں۔
مگر میرے بھائیو! اس ملک کی صورتِ حال بہت بگڑی ہوئی ہے، اس ملک میں لوگ مسجدوں کو کمیونٹی سینٹر سمجھتے ہیں، یہ ٹھیک نہیں، حدیث شریف میں ہے کہ مسجد میں دنیا کی باتیں کرنے سے نیکیاں اس طرح خاکستر ہوجاتی ہیں، جس طرح سوکھی لکڑیاں آگ لگنے سے خاکستر ہوجاتی ہیں، نیکی ندارد، گناہ لازم! اللہ جانے مسجد میں نیکیاں ملیں، یا نہیں، گناہ کا گٹھر ضرور مل گیا۔
مسجدوں کو باتوں سے بچانے کا طریقہ:
مسجدوں میں لوگ باتیں کیوں کرتے ہیں؟ اس کی وجہ ہے کہ لوگ دور دور سے کبھی کبھی نماز پڑھنے آتے ہیں، مستقل نمازی تو پانچ سات ہوتے ہیں، ایسے نمازی مسجد میں باتیں نہیں کرتے، جب دور دور سے کبھی کبھی نمازیں پڑھنے کےلئے آئیں گے، تو ایک دوسرے سے ملاقات پر خیریت تو پوچھیں گے ہی، کچھ کاروبار کا حال بھی پوچھیں گے، کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں بھی کریں گے، یہ وجہ ہے مسجدوں میں باتیں کرنے کی۔
آپ کہیں گے کہ یہ تو واقعی ایک ضرورت ہے، جب دور دراز سے کافی دنوں کے بعد اکٹھا ہوئے ہیں، تو باتیں تو کریں گے ہی، باتوں کےلئے کچھ تو موقع ملنا چاھئے، صحیح بات ہے، موقع ملنا چاھئے، مگر اس کےلئے انتظام کرنا چاھئے، یہ رہا آپ کا برطانیہ، آپ کے ملک جتنا ترقی یافتہ، میں برطانیہ پچیس سال سے جارہا ہوں، پہلے وہاں بھی یہی صورت حال تھی، جب ہم نے ان کو سمجھایا، تو انہوں نے آہستہ آہستہ اس پر قابو پالیا، کیسے پایا؟ مسجد کا ہال الگ کردیا، اور مسجد کے ہال سے باہر پیسیج بنادیا، اگرچہ جمعہ کے دن اس پیسیج میں بھی نماز ہوگی، مگر اس کو باقاعدہ مسجد میں نہیں لیا، اب جس کو افطاری کرنی ہے، پیسیج میں کرے، باتیں کرنی ہے، پیسیج میں کرے، اور مسجد کے ہال میں قدم رکھتے ہی چپ ہوجائے، اب کوئی بات نہ کرے، یہ مسجدوں کو لوگوں کی باتوں سے بچانے کا ایک طریقہ ہے، ابھی مسجدوں کے تعلق سے یہاں اتنی ترقی نہیں ہوئی، ان شاء اللہ تعالیٰ ایک وقت آئے گا، کہ یہاں بھی یہ نظام بن جائے گا، فی الحال تو کرنا یہ ہے کہ یہ نظام بننے سے پہلے مسجد میں باتیں کرنے سے احتیاط برتو، باتیں کرنی ہوں، تو باہر نکل کر جہاں وضو خانہ ہے، وہاں جاکر کرو، اور یہ طریقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنایا تھا، آپ ؓ نے مسجد نبوی کی مشرقی جانب میں، ایک جگہ خاص کی تھی، جس کو بُطَیْحَاء کہا جاتا تھا، اور لوگوں کو حکم دیا تھا:من أراد أن یلغط، أو یرفع صوتا، أو یُنشِد شعرا، فلیخرج اِلیہ( وفاء الوفاء جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٣٥٣ ) یعنی جو شور و غل کرنا چاہے، یا زور سے بولنا چاہے، یا زور سے شعر پڑھنا چاہے، وہ مسجد نبوی سے اس جگہ میں جائے( اور یہ کام کرے )۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسجد سے باہر ایسی جگہ ہونی چاھئے، پھر لوگوں سے کہا جائے کہ مسجد میں دنیوی باتیں نہ کریں، پیسیج میں جاکر کریں، تو لوگ مان جائیں گے، بلکہ یہاں کے لوگ تو سمجھدار ہیں، کہنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔
وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن
مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ،شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقل : عادل سعیدی پالن پوری
بزرگو اور بھائیو! آج کوئی خاص تقریر نہیں کرنی، بس دو ضروری باتیں عرض کرنی ہیں، ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ اس ملک کی مسجدوں کا نظام صحیح نہیں، کمیونٹی سینٹر اور مسجدوں کا ایک ہی حال ہے، جب لوگ مسجدوں میں آتے ہیں، تو باہر اور مسجد میں کوئی فرق نہیں ہوتا، جیسے کمیونٹی سینٹر میں پہنچ کر لوگ باتیں کرتے ہیں، اسی طرح مسجدوں میں بھی باتیں کرتے ہیں، یہ غلط طریقہ ہے، اللہ تعالیٰ سورة الحج میں ارشاد فرماتے ہیں: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللہ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی القُلُوْبِ، جو شخص اللہ تعالیٰ کے دین کی امتیازی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے، تو یہ تعظیم کرنا اس کے دل میں پرہیزگاری کی وجہ سے ہوتا ہے، جس دل میں تقویٰ اور پرہیزگاری ہوتی ہے، وہی شعائر اللہ( اللہ کے دین کی امتیازی نشانیوں ) کی تعظیم کرتا ہے۔
شعائر اللہ کیا ہیں:
ہر وہ چیز جس کو دیکھ کر فوراﹰ سمجھ لیا جائے کہ یہ چیز فلاں مذہب سے تعلق رکھتی ہے، تو وہ اس مذہب کا شعار ہے، جیسے چرچ پر منارہ اور صلیب دیکھ کر ہر آدمی سمجھ جاتا ہے کہ یہ چرچ ہے، یہ عیسائیت کا شعار ہے، یہودیوں کا شعار چھ کونوں والا تارہ ہے، اس کو دیکھ کر آدمی فوراﹰ سمجھ جاتا ہے کہ یہ دکان، یہ گھر، یہ عبادت خانہ یہودیوں کا ہے، یہ یہود کا شعار ہے، مندر کی ایک خاص بناوٹ ہے، ہندو عورت مانگ میں سندور لگاتی ہے، مرد قشقہ لگاتا ہے، اور ایک خاص انداز سے دھوتی پہنتا ہے، ان چیزوں کو دیکھ کر آپ فوراﹰ سمجھ جائیں گے کہ یہ ہندو ہے، یہ سب شعائر الہنود ہیں، اسی طریقہ پر اسلام کے کچھ شعائر ہیں، جن کو دیکھ کر ہر آدمی فوراﹰ سمجھ جاتا ہے کہ یہ مذہبِ اسلام سے تعلق رکھنے والی چیز ہے، یہ شعائر اللہ ہیں، اللہ تعالیٰ کے دین کی امتیازی نشانیاں ہیں۔
شعائر اللہ کتنے ہیں:
شعائر اللہ بہت ہیں، بڑے شعائر چار ہیں، قرآن کریم، کعبہ، نبی اور نماز، کعبہ صرف اسلام کے پاس ہے، کسی اور مذہب کے پاس کعبہ نہیں، قرآن کریم مسلمانوں کی متبرک کتاب ہے، ہر آدمی جانتا ہے، نبی بھی شعائر اللہ میں سے ہے، کیونکہ آج دنیا میں اسلام کے علاوہ کوئی مذہب نہیں، جو نبی کا صحیح تصور رکھتا ہو، برطانیہ میں ایک مرتبہ ہم یہودیوں کی عبادت دیکھنے کےلئے باقاعدہ وقت لیکر ان کے عبادت خانہ( سینیگونگ ) میں گئے، ہم نے ان کی نماز دیکھی، نماز کے بعد ہم نے ان کے امام سے پوچھا: موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ اس نے جواب دیا: صرف معلم، استاد تو دنیا میں کروڑوں ہیں، ان کا اپنے نبی کے بارے میں، نبی کا کوئی تصور نہیں، عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ کا بیٹا ہونے کا تصور ہے، وہ بھی نبی کا کوئی تصور نہیں رکھتے، ہندو اپنے بڑوں کے بارے میں اوتار کا تصور رکھتے ہیں، نبی کا نہیں رکھتے، اوتار کا مطلب یہ ہے کہ جب زمین شر و فساد سے بھر جاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ انسان بن کر دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، پھر آہستہ آہستہ بڑے ہوتے ہیں، اور بڑے ہوکر دنیا سے سب برائیاں ختم کرتے ہیں، پھر مرجاتے ہیں، اور مرکر اپنی جگہ چلے جاتے ہیں، تو ان کے یہاں بھی نبی کا کوئی تصور نہیں، نبی کا صحیح تصور صرف اسلام میں ہے۔
نبی کا صحیح تصور:
وہ صحیح تصور کیا ہے؟ أشْھَدُ أنَّ مُحمداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، دو چیزوں کو جمع کرنا نبی کا صحیح تصور ہے، اسلام حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم النبین ﷺ تک سب نبیوں کے بارے میں یہی تصور رکھتا ہے، کہ یہ سب انسان تھے، جیسے ہم انسان ہیں، ہمارے درمیان اور ان کے درمیان انسان ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں تھا، ہماری دو آنکھیں ہیں، نبیوں کی بھی دو آنکھیں تھیں، ہمارے دو کان، دو ہاتھ، ایک منھ اور ایک ناک ہے، نبیوں کے بھی یہی سب اعضاء تھے، ہم کھاتے ہیں، پیتے ہیں، بازار جاتے ہیں، انبیاء بھی کھاتے پیتے اور بازار جاتے تھے، انسان ہونے کے ناتے ہم میں اور نبیوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔
پھر فرق کیا تھا؟ ان کو ایک بہت بڑا عہدہ مل گیا تھا، وہ عہدہ: نبوت اور رسالت کا عہدہ ہے، یہ اتنا بڑا عہدہ ہے کہ انہیں کو ملا ہے، دوسرا چاھے جتنی بھی محنت کرلے، اس کو یہ عہدہ نہیں مل سکتا، جیسے کسی ملک کا صدر، وزیراعظم اور بادشاہ ہوتا ہے، ان میں اور عوام میں انسان ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا، لیکن فرق ہوتا ہے کہ وہ ملک کا صدر، وزیراعظم ہے، بادشاہ ہے، یہ ان کا مرتبہ ہے، اور یہ مرتبہ انہی کو حاصل ہے، دوسرے کسی کو حاصل نہیں۔
اسی طریقہ پر اسلام کا تصور تمام نبیوں کے بارے میں یہ ہے کہ وہ انسان تھے، اور اللہ تعالٰی نے ان کو ایک بہت بڑا عہدہ دیا تھا، أشْھَدُ أنَّ مُحمداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ کا یہی مطلب ہے، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، وہ کوئی خدا نہیں، وہ کوئی خدا کے بیٹے نہیں، وہ کوئی مافوق الفطرت شخصیت نہیں، آدم علیہ السلام کی ساری اولاد جیسے انسان تھی، وہ بھی انسان تھے، مگر وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں اور رسولوں کے سردار ہیں، یہ بہت بڑا عہدہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دے رکھا تھا، نبیوں کے بارے میں اسلام کا یہی تصور ہے، اور یہی نبوت کا صحیح مفہوم ہے، اور یہ صحیح مفہوم صرف اسلام میں ہے، اس کے علاوہ اور کسی مذہب میں نبوت کا صحیح مفہوم نہیں، اس لئے نبی بھی شعائر اللہ میں سے ہے۔
اور چوتھی چیز ہے: نماز، دنیا کے تمام مذاہب اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتے ہیں، بلکہ یہود و نصاریٰ تو نماز پڑھتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور نماز پڑھنے کا جو طریقہ مسلمانوں کا ہے، وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں نہیں، اگر آپ سڑک کے کنارے پر، پلیٹ فارم پر، بس اسٹینڈ پر کسی آدمی کو مصلیٰ بچھا کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتے ہوئے دیکھیں، تو آپ دیکھتے ہی فوراﹰ سمجھ جائیں گے کہ یہ مسلمان ہے۔
الغرض اسلام کے بڑے شعائر چار ہیں: قرآن کریم، کعبہ، نبی اور نماز، ان کے علاوہ اور بھی چھوٹے چھوٹے شعائر ہیں، قربانی کے جانور بھی شعائر ہیں، ہدی کے جانوروں کو بھی شعائر اللہ کہا گیا ہے، اسی طریقہ پر مسجدیں بھی شعائر اللہ ہیں، کہ ان کو دیکھ کر ہر آدمی سمجھ جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے، بلکہ مسجد کے مینارے جو ایک خاص انداز سے اٹھائے جاتے ہیں، وہ بھی شعائر اللہ ہیں، ان کو دیکھ کر بھی آدمی مسجد کو پہنچان لیتا ہے، اور شعائر اللہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللہ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی القُلُوْبِ، جو شخص اللہ تعالیٰ کے دین کی امتیازی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے، تو یہ تعظیم کرنا اس کے دل میں تقویٰ ہونے کی وجہ سے ہے۔
شعائر اللہ کی تعظیم کیا ہے؟
شعائر اللہ کی تعظیم کا کوئی ایک متعین طریقہ نہیں، ہر علامت کی تعظیم اس کے شایانِ شان کی جاتی ہے، پس قرآن کریم کی تعظیم کے طریقے الگ ہیں، کعبہ کی تعظیم کے طریقے الگ ہیں، نبی کی تعظیم کے طریقے الگ ہیں، نماز کی تعظیم کے طریقے الگ ہیں، قربانی کی تعظیم کے طریقے الگ ہیں، مسجدوں کی تعظیم کے طریقے الگ ہیں، غرض شعائر اللہ کی تعظیم کا کوئی ایک متعین طریقہ نہیں۔
کعبہ شریف کی تعظیم یہ ہے کہ اس کا طواف کرو، اس کی طرف منھ کرکے نماز پڑھو، اس کی طرف پیر نہ کرو، استنجے کے وقت اس کی طرف منھ کرو، نہ پیٹھ۔
قرآن کریم کی تعظیم یہ ہے کہ بےوضو اس کو ہاتھ نہ لگائیں، بےوضو قرآن کریم پڑھ تو سکتے ہیں، لیکن ہاتھ نہیں لگا سکتے، ایسا کیوں ہے؟ جب بےوضو ہاتھ لگانا جائز نہیں، تو پڑھنا بھی ناجائز ہونا چاھئے، جواب یہ ہے کہ ایسا ضرورت کی بنا پر ہے، مکتبوں اور مدرسوں میں صبح سے شام تک اساتذہ اور طلبہ قرآن کریم پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، اگر یہ شرط لگادی جائے کہ پڑھنے کےلئے بھی وضو ضروری ہے، تو مکتبوں کا سارا نظام درہم برہم ہوجائےگا، صبح سے شام تک اساتذہ اور طلبہ باوضو کیسے بیٹھیں گے؟ اسی طرح سے ہر مسلمان کو، جب بھی موقعہ ملے، تلاوت کرنی چاھئے، وضو کی شرط لگادیں گے تو ہر وقت تلاوت نہیں ہوسکے گی، اس لئے شریعت نے ضرورت کی وجہ سے اتنی گنجائش رکھی، جنابت کی حالت میں قرآن کریم پڑھنا تو حرام ہے، کیونکہ یہ حالت کبھی کبھی پیش آتی ہے، اور بےوضو ہونے کی حالت میں زبانی قرآن کریم پڑھنے کی اجازت دیدی، کہ یہ حالت بار بار پیش آتی ہے، الغرض قرآن کریم کی تعظیم یہ ہے کہ آپ بےوضو اس کو ہاتھ نہ لگائیں۔
قرآن کریم ہاتھ سے گرجائے تو اس کا کفارہ کیا ہے:
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نادانی میں قرآن کریم ہاتھ سے گرجاتا ہے، لوگ پوچھتے ہیں: اس کا کفارہ کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے، نادانی میں قرآن کریم کا ہاتھ سے گرجانا کوئی گناہ نہیں، اور کفارہ گناہ کا ہوتا ہے، گناہ کیوں نہیں؟ حدیث شریف میں ہے: رُفَعَ عَنْ أمَّتِیْ الْخَطَأُ وَ الِّنسْیَانُ وَ مَا استَکْرَھُوا عَلَیْہ، میری امت سے تین باتیں اٹھادی گئی ہیں، یعنی ان کا کوئی گناہ نہیں، ایک: چوک، دوسری: بھول، تیسری: زبردستی کرایا ہوا کام، تو ان تین کا کوئی گناہ نہیں، چوک: جیسے شکاری نے خرگوش کو گولی ماری، اور جس کو وہ خرگوش سمجھ رہا تھا، وہ کوئی آدمی نکلا، اور وہ گولی آدمی کو جالگی، تو اس قتل کا کوئی گناہ نہیں، دیت تو آئے گی، لیکن اس کو قتل کا کوئی گناہ نہیں ہوگا، اسی طریقہ سے بھول ہے، بھول کی وجہ سے کہیں تو عبادت بھی نہیں ٹوٹتی، اور گناہ بھی نہیں ہوتا، اور کہیں عبادت تو ٹوٹ جاتی ہے، مگر گناہ نہیں ہوتا، دورانِ نماز اگر کسی نے بھولے سے کسی شخص کو سلام کا جواب دیدیا، تو نماز ٹوٹ جائےگی، مگر گناہ نہیں ہوگا، روزہ کی حالت میں بھولے سے کچھ کھا پی لیا، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹا، اور گناہ بھی نہیں ہوا، بہرحال بھول میں کہیں عبادت ٹوٹ جاتی ہے، اور کہیں نہیں ٹوٹتی، اور گناہ دونوں صورتوں میں نہیں ہوتا۔
اور تیسری چیز ہے: زبردستی کوئی کام کروانا، جیسے مباح چیزوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے، دو چار آدمیوں نے پکڑا، اور جان سے مارنے کی دھمکی دے کر کسی سے طلاق دلوائی، اس نے جان بچانے کےلئے طلاق دیدی، تو اس طلاق میں کوئی گناہ نہیں، بےضرورت آدمی طلاق دے، تو اس کا گناہ ہوگا، اسی طرح حالتِ حیض میں اگر طلاق دیدی، تو گناہ گار ہوگا، لیکن زبردستی کرنے میں گناہ نہیں ہوگا، البتہ طلاق پڑجائے گی۔
غرض شریعت میں چوک کا، بھول کا، اور زبردستی کوئی کام کروایا گیا ہو، تو اس کا کوئی گناہ نہیں، جب یہ بات ہے، تو ہاتھ سے جو قرآن کریم گرا ہے، اس کی دو ہی شکلیں ہوسکتی ہیں، یا تو چوک گیا ہے، یا بھول گیا ہے، کوئی مسلمان سلامتی ہوش و حواس کے ساتھ ایسا کام نہیں کرسکتا، بھول سے گرے گا، یا چوک سے گرے گا، یہی دو شکلیں ہیں، ان کے علاوہ اور کوئی شکل نہیں، اور ان دو شکلوں میں کوئی گناہ نہیں، اور جب گناہ نہیں، تو کفارہ بھی نہیں۔
اور اگر کسی نالائق نے جان بوجھ کر قرآن کریم کو نیچے ڈالا، تو یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کا کوئی کفارہ توبہ کے علاوہ نہیں، جیسے یمین غموس میں کوئی کفارہ نہیں، گذرے ہوئے زمانہ کی کسی بات پر جھوٹی قسم کھانا، اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہوسکتا، اس لئے کوئی کفارہ نہیں ہے، علاوہ توبہ کے، اسی طریقہ پر قرآن کریم کو جان بوجھ کر پٹخنا بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کےلئے کوئی کفارہ ممکن نہیں، توبہ کرے، اور سچی پکی توبہ کرے، تو ہی گناہ معاف ہوگا۔
بہرحال غلطی سے، نادانی سے کبھی قرآن کریم گرجائے، تو اس کا کوئی گناہ نہیں، لیکن اگر کوئی اپنے دل پر سے بوجھ ہٹانے کےلئے کچھ صدقہ و خیرات کرنا چاھے، تو کرے، ضرور کرے، کیونکہ ایسا واقعہ پیش آنے کی صورت میں مؤمن کے دل پر ایک بوجھ پڑتا ہے، اور صدقہ کرنے سے وہ بوجھ ہٹ جاتا ہے، باقی مسئلہ کی رو سے اس پر کوئی کفارہ نہیں۔
خیر قرآن کریم کی تعظیم یہ ہے کہ اس کو بےوضو ہاتھ نہ لگایا جائے، نبی کی تعظیم یہ ہے کہ اس کا احترام دل میں ہو، اور جب بھی نبی کا نام لے، تو درود بھیجے، یا سلام بھیجے، موسیٰ نے کہا، یوں نہ کہو، یوں کہو: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمایا، ہر نبی کا احترام دل میں ہونا چاھئے، اور یہ احترام جو دل میں ہے، وہ زبان اور عمل سے ظاہر بھی ہونا چاھئے، ایسے ہی ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا جب نام آئے، تو درود پڑھے، صلاة و سلام بھیجے، یہ نبی کی تعظیم میں داخل ہے، بعض لوگ اتنا جلدی درود پڑھتے ہیں کہ وہ غیر واضح ہوتا ہے، اس طرح درود شریف پڑھنے کا کیا فائدہ؟ مزے لےکر اور واضح درود شریف پڑھنا چاھئے، واضح صلاة و سلام بھیجنا، اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں اس شخصیت کا احترام ہے۔
نماز کی تعظیم یہ ہے کہ جب آپ نماز پڑھنے کےلئے کھڑے ہوں، تو لکڑی بن جائیں، آج کل ہماری نمازیں ایسی ہوگئی ہیں کہ بس ان کا اللہ ہی مالک ہے، نیت باندھتے ہی سارے بدن میں کھجلی شروع ہوجاتی ہے، کبھی اِدھر کھجائیں گے، کبھی اُدھر، پہلے کہیں کھجلی نہیں تھی، جہاں نیت باندھی کہ چاروں طرف کھجلی ہی کھجلی، نماز سے پہلے صحیح تھے، نیت باندھتے ہی جمائیاں شروع ہوگئیں، حدیث شریف میں ہے: التَثَاؤبُ فِی الصَّلاةِ مِنَ الشَّیْطَانِ، نماز شروع کرنے کے بعد جو جمائیاں شروع ہوجاتی ہیں، یہ شیطان کے اثر سے ہے، نیت بندھی ہوگی، اور چاروں طرف دیکھیں گے، ہماری نمازوں کی یہ صورتِ حال ہے، وہ اس وجہ سے ہے کہ ہمارے دل میں نماز کی تعظیم نہیں، بس ایک وظیفہ ہے، جس کو ہم پورا کردیتے ہیں۔
نماز کی تعظیم یہ ہے کہ جب آپ کھڑے ہوں، تو ایسے مستغرق ہوجائیں، کہ آپ کو نہ اپنے بدن کا ہوش رہے، نہ چاروں طرف کا، پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوکر نماز پڑھ رہے ہوں، یہ نماز کی تعظیم ہے۔
قربانی اور ہدی کے جانور بھی شعائر ہیں، ان کی تعظیم یہ ہے کہ ان کی خدمت کرو، خوب کھلاؤ، پلاؤ، نہلاؤ، دھلاؤ، مسجدوں کی تعظیم یہ ہے کہ اپنے گھروں سے اچھا اللہ تعالیٰ کا گھر بناؤ، اور مسجد میں آتے ہی دو رکعت تحیة المسجد پڑھو، نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے: اِذَا مرَرْتُم بِرِیَاضِ الجَنَّةِ فَارْتعوا، جب تم جنت کی کیاریوں سے گذرو، تو چرو، جیسے جانور ہری بھری کیاری پر سے گذرتے وقت منھ مارتا ہے، تم بھی جنت کی کیاریوں پر منھ مارو، اور جنت کی کیاریاں مسجدیں ہیں، اور چرنا یہ ہے کہ مسجد میں آتے ہی دو رکعت تحیة المسجد پڑھے، مکروہ وقت ہو تو الگ بات ہے، وضو نہ ہو، تو الگ بات ہے، لیکن اگر باوضو ہو، اور مکروہ وقت بھی نہ ہو، تو جب بھی مسجد میں داخل ہو، دو رکعت تحیة المسجد پڑھے، یہ مسجد کا احترام ہے۔
مسجد میں باتیں کرنا نیکیوں کو کھا جاتا ہے:
حدیث شریف میں ہے: اِیَاکُمْ وھیشات الأسواق، مارکیٹ میں جس طرح باتیں اور شور ہوتا ہے، اسی طرح باتیں اور شور کرنے سے مسجدوں میں بچو، جیسے کسی بڑے آدمی کے پاس جب لوگ جاتے ہیں، تو سب خاموش بیٹھتے ہیں، یہ بڑے آدمی کا ادب ہے، مسجدوں کا بھی یہ ادب ہے، کہ مسجدوں میں جاتے ہی باتیں بند ہوجانی چاہئیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں۔
مگر میرے بھائیو! اس ملک کی صورتِ حال بہت بگڑی ہوئی ہے، اس ملک میں لوگ مسجدوں کو کمیونٹی سینٹر سمجھتے ہیں، یہ ٹھیک نہیں، حدیث شریف میں ہے کہ مسجد میں دنیا کی باتیں کرنے سے نیکیاں اس طرح خاکستر ہوجاتی ہیں، جس طرح سوکھی لکڑیاں آگ لگنے سے خاکستر ہوجاتی ہیں، نیکی ندارد، گناہ لازم! اللہ جانے مسجد میں نیکیاں ملیں، یا نہیں، گناہ کا گٹھر ضرور مل گیا۔
مسجدوں کو باتوں سے بچانے کا طریقہ:
مسجدوں میں لوگ باتیں کیوں کرتے ہیں؟ اس کی وجہ ہے کہ لوگ دور دور سے کبھی کبھی نماز پڑھنے آتے ہیں، مستقل نمازی تو پانچ سات ہوتے ہیں، ایسے نمازی مسجد میں باتیں نہیں کرتے، جب دور دور سے کبھی کبھی نمازیں پڑھنے کےلئے آئیں گے، تو ایک دوسرے سے ملاقات پر خیریت تو پوچھیں گے ہی، کچھ کاروبار کا حال بھی پوچھیں گے، کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں بھی کریں گے، یہ وجہ ہے مسجدوں میں باتیں کرنے کی۔
آپ کہیں گے کہ یہ تو واقعی ایک ضرورت ہے، جب دور دراز سے کافی دنوں کے بعد اکٹھا ہوئے ہیں، تو باتیں تو کریں گے ہی، باتوں کےلئے کچھ تو موقع ملنا چاھئے، صحیح بات ہے، موقع ملنا چاھئے، مگر اس کےلئے انتظام کرنا چاھئے، یہ رہا آپ کا برطانیہ، آپ کے ملک جتنا ترقی یافتہ، میں برطانیہ پچیس سال سے جارہا ہوں، پہلے وہاں بھی یہی صورت حال تھی، جب ہم نے ان کو سمجھایا، تو انہوں نے آہستہ آہستہ اس پر قابو پالیا، کیسے پایا؟ مسجد کا ہال الگ کردیا، اور مسجد کے ہال سے باہر پیسیج بنادیا، اگرچہ جمعہ کے دن اس پیسیج میں بھی نماز ہوگی، مگر اس کو باقاعدہ مسجد میں نہیں لیا، اب جس کو افطاری کرنی ہے، پیسیج میں کرے، باتیں کرنی ہے، پیسیج میں کرے، اور مسجد کے ہال میں قدم رکھتے ہی چپ ہوجائے، اب کوئی بات نہ کرے، یہ مسجدوں کو لوگوں کی باتوں سے بچانے کا ایک طریقہ ہے، ابھی مسجدوں کے تعلق سے یہاں اتنی ترقی نہیں ہوئی، ان شاء اللہ تعالیٰ ایک وقت آئے گا، کہ یہاں بھی یہ نظام بن جائے گا، فی الحال تو کرنا یہ ہے کہ یہ نظام بننے سے پہلے مسجد میں باتیں کرنے سے احتیاط برتو، باتیں کرنی ہوں، تو باہر نکل کر جہاں وضو خانہ ہے، وہاں جاکر کرو، اور یہ طریقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنایا تھا، آپ ؓ نے مسجد نبوی کی مشرقی جانب میں، ایک جگہ خاص کی تھی، جس کو بُطَیْحَاء کہا جاتا تھا، اور لوگوں کو حکم دیا تھا:من أراد أن یلغط، أو یرفع صوتا، أو یُنشِد شعرا، فلیخرج اِلیہ( وفاء الوفاء جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٣٥٣ ) یعنی جو شور و غل کرنا چاہے، یا زور سے بولنا چاہے، یا زور سے شعر پڑھنا چاہے، وہ مسجد نبوی سے اس جگہ میں جائے( اور یہ کام کرے )۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسجد سے باہر ایسی جگہ ہونی چاھئے، پھر لوگوں سے کہا جائے کہ مسجد میں دنیوی باتیں نہ کریں، پیسیج میں جاکر کریں، تو لوگ مان جائیں گے، بلکہ یہاں کے لوگ تو سمجھدار ہیں، کہنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔
وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن
0 comments:
Post a Comment