!! علمائے کرام، اور طلبائے عظام سے چند باتیں!!
مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ،شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقل : عادل سعیدی پالن پوری
علم "پڑھنے" سے آتا ہے، "پڑنے" سے نہیں:
طلبہ مدرسوں میں "پڑھتے" کم ہیں، بس "پڑتے" ہیں، حالانکہ علم پڑھنے سے آتا ہے، پڑنے سے نہیں آتا ہے، زبردستی پڑھنے بٹھائیں تو پڑھ لیتے ہیں، مگر جب دل کا تقاضا نہ ہو، تو کہنے سے کیا فائدہ؟ حفظ کلاس میں جو بچے بیٹھتے ہیں، وہ اپنے شوق سے نہیں بیٹھتے، ان کو اگر چھٹی مل جائے، تو فوراﹰ بھاگ کھڑے ہوں، وہ حفظ اس لئے کرتے ہیں، کہ ان کے ماں باپ حفظ کرانا چاہتے ہیں، ان کو آخرت میں تاج پہننا ہے، وہ ان کو گھر میں ٹھرنے نہیں دیتے، اور استاد سختی کرتا ہے، تو نوے فیصد بچے حفظ کرلیتے ہیں، سو بچوں میں سے نوے بچے حافظ ہوجاتے ہیں، پھر جب بچہ حافظ ہوگیا، اور باپ مطمئن ہوگیا، تو بچہ قرآن کریم پڑھنا چھوڑ دیتا ہے، صرف رمضانی حافظ ہوکر رہ جاتا ہے، کیونکہ اس نے اپنے شوق سے حفظ نہیں کیا، اور جو شخص اپنے شوق سے حفظ کرتا ہے، وہ اس نعمت کی قدر کرتا ہے، ہمیشہ اس کا ورد رکھتا ہے۔
پھر ابا چاہتا ہے، کہ بچہ مولوی بن جائے، تاکہ اس کی عاقبت سنور جائے، اب بچہ مرتا کیا نہ کرتا، مولوی کلاس میں بیٹھ جاتا ہے، اور جب تک سات آٹھ سال پورے نہ ہوں، اور وہ مولوی کی سند لاکر ابا کو نہ دکھائے، ابا گھر میں ٹھہرنے نہیں دے گا، اور اب چونکہ وہ سیانا ہوگیا ہے، اس لئے استاذ سختی بھی نہیں کرسکتا، اور اگر اتفاق سے ملک کا قانون بھی بچہ کی طرف داری میں ہو، تو پھر استاذ آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتا، اس لئے اب وہ مدرسہ میں پڑا رہتا ہے، مطالعہ کرے، نہ کرے، سبق میں آئے، نہ آئے، بیمار بن کر پڑجائے، استاذ کچھ سختی نہیں کرسکتا، اور جو بچے اپنے لئے پڑھتے ہیں، انکی شان ہی نرالی ہوتی ہے، وہ جب وطن سے نکلتے ہیں، تو پلٹ کر گھر کی طرف نہیں دیکھتے، اپنا مقصد پورا کرکے ہی گھر لوٹتے ہیں، اگرچہ دس سال گذر جائیں، ماضی میں طلبہ کا یہی حال تھا، اور اب ہمارا طالبِ علم سال میں چار مرتبہ گھر جاتا ہے، پس وہ ہمارے ابنائے قدیم کے درجہ کو کہاں پہنچ سکتا ہے؟
اساتذہ کی دریا دلی:
اب ہمارے اساتذہ بھی بہت دریا دل ہوگئے ہیں، طالب علم پرچے میں کچھ لکھے، یا نہ لکھے، پاس کردیتے ہیں، اور طالبِ علم کو غلط فہمی کا شکار کردیتے ہیں، اس کا ذہن یہ بن جاتا ہے، کہ جب بغیر محنت کئے پاس نمبر آجاتے ہیں، تو پڑھنے کی کیا ضرورت؟ روٹی ملے یوں، تو کھیتی کرے کیوں؟ اور مھتمم صاحب بھی اس کو اگلے درجہ میں بڑھادیتے ہیں، اس طرح اس کا ستیاناس ہوجاتا ہے، جب ایک درجہ غلط ہوگیا، تو تاثریا می رود دیوار کج، آگے کے درجات میں اور کچا ہوتا چلا جائے گا، اور آخر میں کسی کام کا نہیں رہے گا۔
دو لفظوں نے نقصان پہنچایا:
مدرسہ سے نکلنے والوں کےلئے دو لفظ استعمال کئے جاتے ہیں، ایک: فارغ ہوگیا، جب اس نے خود کو فارغ سمجھ لیا، تو آگے پڑھنے کا جو دوسرا مرحلہ ہے، وہ پیش آتا ہی نہیں، وہ دوسرا مرحلہ شروع کرتا ہی نہیں، دوسرا: فاضل یعنی علامة الدھر، اب آگے کوئی کمال منتظر نہیں رہا، سب کچھ اسے آگیا، حالانکہ ابھی تو علم کی راہ میں قدم رکھا ہے، عرب ممالک کے لوگ یہ لفظ استعمال نہیں کرتے، ان کے یہاں فراغت اور فضیلت کا کوئی تصور نہیں، وہ لفظ خِرِّیج استعمال کرتے ہیں، یعنی مدرسہ سے نکلا ہوا، جس نے پڑھنے کا ایک مرحلہ پورا کرلیا، اور دوسرے مرحلہ میں داخل ہوگیا، اگر ہمارا بھی یہی تصور بن جائے، کہ ابھی ہم نے کچھ حاصل نہیں کیا، ابھی ہمارے اندر علم حاصل کرنے کی صرف استعداد بنی ہے، علم تو آگے آئے گا، تو اگلی منزل آسان ہوجائے گی، اب وہ علم، مطالعہ کے ذریعہ حاصل کرے گا۔
تصورات اثر انداز ہوتے ہیں:
تصورات اچھے ہوں، یا برے اثر انداز ہوتے ہیں، ایک استاذ تھے، کبھی چھٹی نہیں کرتے تھے، ایک مرتبہ طلبہ نے پلان بنایا، کہ آج استاذ صاحب کو بیمار کرنا ہے، چنانچہ ایک طالب علم ان کے پاس آیا، سلام و مصافحہ کرکے کہنے لگا: حضرت! آج آپ بیمار معلوم ہوتے ہیں، انہوں نے کہا: نہیں، مجھے کچھ نہیں ہوا، تھوڑی دیر کے بعد دوسرا آیا، اس نے بھی یہی کہا: حضرت! آج آپ کافی گرم معلوم ہوتے ہیں، انہوں نے جواب دیا: کیا ایسا ہے؟ ذہن نے بات قبول کرلی، تھوڑی دیر کے بعد تیسرا آیا اور کہا: حضرت! آج آپ کے ہاتھ بہت زیادہ گرم معلوم ہورہے ہیں، حضرت بولے: مجھے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، تھوڑی دیر کے بعد چوتھا آیا، اور کہا: حضرت! آج آپ کے ہاتھ بہت ہی زیادہ گرم ہیں، حضرت کہنے لگے: ہاں بخار ہوگیا ہے، اس طرح دس طلبہ ملے، اور استاذ صاحب کو بیمار کردیا، ان کو واقعی بخار چڑھ گیا۔
غرض اچھے برے تصورات اثر انداز ہوتے ہیں، اس لئے مدرسہ سے نکلنے والے طلبہ اگر تصور کریں، کہ میری منزل ابھی دور ہے، مجھے کچھ نہیں آیا، مجھے ابھی مطالعہ سے بہت کچھ حاصل کرنا ہے، تو وہ منزل کی طرف رواں دواں رہے گا، اور ایک دن حقیقی معنیٰ میں عالم بنے گا، ورنہ جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ چند دن میں بھول جائےگا، اور کورا ہوجائے گا۔
طلبہ کے پڑھنے میں تین چیزیں شامل ہیں:
طالبِ علم اگر پڑھنا چاہے، تو اس کےلئے تین چیزیں ضروری ہیں:
· مطالعہ کرکے سبق میں جائے، مطالعہ کا مطلب یہ ہے کہ آگے کا سبق دیکھ کر جائے، کم سے کم تین مرتبہ عبارت پڑھے، خواہ سمجھ میں آئے، یا نہ آئے، یہ کام ضرور کرے، پھر حاشیہ بھی پڑھے، چاہے ایک حرف سمجھ میں نہ آئے، اس کا نام مطالعہ ہے۔
· جب سبق میں بیٹھے، تو ہر بات سمجھ کر چھوڑے، درس میں سمجھ میں آجائے، تو ٹھیک ہے، ورنہ سبق کے بعد استاذ صاحب سے رجوع کرے، پھر بھی سمجھ میں نہ آئے، تو کسی اور کی طرف رجوع کرے، فَوْقَ کل ذِیْ علمٍ عَلِیم، سیر پر سوا سیر ہوتا ہے، بہرحال سبق سمجھ کر چھوڑے، بے سمجھے کبھی بھی آگے نہ بڑھے۔
· خواندہ یاد کرے، جو طالبِ علم خواندہ یاد نہیں کرتا، وہ ہاتھوں میں سوراخ کرکے پانی پیتا ہے، جتنا بھی پانی ڈالا جائےگا، سب نیچے چلا جائے گا، منھ تک نہیں پہنچے گا۔
آج کل طلبہ کا عجیب حال ہوگیا ہے، بعض تو درسگاہ میں بغیر کتاب کے آتے ہیں، اور آکر بیٹھے رہتے ہیں، سمجھ میں آئے، نہ آئے، کوئی فکر نہیں، اور جب تک امتحان سر پر نہیں آتا، خواندہ یاد نہیں کرتے، اور امتحان کے وقت یاد کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں، اِنما الاعمال بالنیات، امتحان کے مقصد سے یاد کیا ہوا، امتحان کے ساتھ چلا جاتا ہے، باقی رہنے والا علم وہی ہے، جو علم کے مقصد سے حاصل کیا جائے، میری طالبِ علمی میں سال کے درمیان دو امتحان ہوتے تھے، سہ ماہی اور ششماہی، ہم امتحان کے بعد ایک ہفتہ کھیلتے تھے، آرام کرتے تھے، پھر سنجیدہ ہوجاتے تھے، سب کھیل بند کردیتے تھے، اور کتابوں کا تکرار شروع کردیتے تھے، تکرار ہی سے کتاب یاد ہوتی ہے، اور اب جب تک امتحان سر پر سوار نہیں ہوتا، طالبِ علم کتاب نہیں اٹھاتا، غرض: طالبِ علم کے پڑھنے میں مذکورہ تین چیزیں شامل ہیں، اگر یہ تین چیزیں جمع ہوں، ت وہ پڑھ رہا ہے، ورنہ مدرسہ میں پڑا ہے۔
علماء کے پڑھنے میں بھی تین چیزیں داخل ہیں:
جو حضرات مدرسہ سے فارغ ہوچکے ہیں، ان کو بھی آگے پڑھنا چاہئے، خواہ وہ کہیں پڑھاتے ہوں، یا نہ پڑھاتے ہوں، پڑھنا جاری رکھنا چاہئے، اور ان کے پڑھنے میں تین چیزیں شامل ہیں، اگر یہ تین چیزیں جمع ہیں، تو پڑھنا ہے، ورنہ وقت گذارنا ہے، جیسے لوگ بسوں میں، ٹرینوں میں، ہوائی جہازوں میں ناول لے کر بیٹھ جاتے ہیں، ان کو پڑھنے کے بعد کیا ملتا ہے؟ کچھ بھی نہیں، بس وقت کٹ جاتا ہے، یہ پڑھنا نہیں، وقت گذارنا ہے، پڑھنا اس وقت ہے، جب تین چیزیں جمع ہوں، وہ تین چیزیں کیا ہیں؟
پہلی چیز: کسی کتاب کے صرف متعلقات نہ دیکھے، بلکہ کتاب جس فن کی ہے، وہ پورا فن دیکھے، بہت سی باتیں کتاب کی شروحات میں نہیں ہوتیں، اس لئے شروحات سے کتاب حل نہیں ہوتی، اگر ہر کتاب شروحات سے حل ہوجاتی، تو نئی شرحوں کی ضرورت کیا تھی، اور پورا فن دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ مثال کے طور پر آپ قدوری میں باب خیار الشرط کا مطالعہ کر رہے ہیں، یہ بات نیچے بہشتی زیور تک، اور اوپر شامی، درمختار اور بدائع تک دیکھ ڈالیں، یہ پورا فن دیکھنے کا طریقہ ہے، یہ نہیں کہ ایک کتاب لے کر بیٹھ گئے، اور آخر تک دیکھ ڈالی، پھر کوئی دوسری کتاب پکڑلی، مدرس کےلئے یہ طریقہ ٹھیک نہیں، اور اگر مدرس متعدد فنون پڑھاتا ہے، تو ان میں سے ایک کتاب فن پڑھنے کےلئے منتخب کرے، باقی کتابیں متعلقات دیکھ کر پڑھاتا رہے، پھر دو تین سال میں، جب وہ فن دیکھ چکے، تو دوسرا فن شروع کرے، جیسے کافیہ پڑھا رہا ہے، تو نحو کا مطالعہ شروع کرے، نیچے چھوٹی اردو کی کتابیں، اور اوپر شرحِ جامی تک مطالعہ کرکے، یہ پڑھنا ہے، اور کتاب کے صرف متعلقات دیکھنا، پڑھانے کےلئے ہے، پڑھنا نہیں، اور پڑھانے سے علم نہیں آتا، پڑھنے سے علم آتا ہے۔
دوسری چیز: فن کے مطالعہ کے دوران کاپی بنالے، یا کتاب میں زائد ورق رکھ لے، اور جہاں قیمتی بات ملے، اس کو کاپی میں نقل کرلے، یا اس کا خلاصہ لکھ لے، اگر اس طرح تجمیع نہیں کرے گا، تو اس کی مثال لنگور کی سی ہے، جو مکئی کے کھیت میں گھسا، جب کوئی شاندار بھٹا نظر آیا، تو اسے توڑ کر بغل میں دبایا، اور آگے بڑھا، دوسرا نظر آیا، تو اس کو بھی توڑا، تیسرا نظر آیا، تو اس کو بھی توڑا، یونہی توڑتا اور بغل میں دباتا چلاگیا، جب کھیت سے باہر نکلا، تو اس کے بغل میں ایک بھی بھٹا نہیں، اسی طرح فن کے مطالعہ کے دورمیں آدمی بہت سی قیمتی باتوں سے گذرتا ہے، پس اگر تجمیع نہیں کرے گا، تو بھول جائےگا، کہ فلاں بات کونسی کتاب میں کہاں پڑھی تھی؟ پلے کچھ نہیں رہے گا، اور ہر سال پورا فن نہیں پڑھ سکتا، اس لئے اگر آپ نے قیمتی باتیں جمع کر رکھی ہیں، تو اگلے سال جب آپ پڑھائیں گے، تو وہ تمام باتیں کام آئیں گی، غرض اساتذہ کے پڑھنے میں دوسری چیز تجمیع ہے۔
تیسری چیز: استنتاج ہے، جو کچھ پڑھا ہے، اس میں غور کرے، اور نئے نتیجے نکالے، اگر استنتاج نہیں ہوگا، تو علم ترقی نہیں کرے گا، آج علوم و فنون جہاں تک پہنچے ہیں، وہ استنتاج ہی کا نتیجہ ہے، ہر زمانہ کے لوگوں نے پچھلوں کے لکھے ہوئے مضامین میں غور کیا، اور نئی نئی باتیں نکالیں، اور فنون کو آگے بڑھایا، اگر ہم بھی اپنے پڑھے ہوئے، کو سوچیں، اور غور و فکر کریں، تو نئے نئے نکتے، آج بھی نکلیں گے، زمانہ بانجھ نہیں ہوگیا، غرض اساتذہ کے پڑھنے میں تیسری چیز استنتاج ہے۔
چار اکابر کی کتابیں پڑھنے سے غبی بھی ذہین ہوجاتا ہے:
حضرت حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحب قدس سرہ نے ایک بات بتائی تھی، کہ حضرت شیخ الھند قدس سرہ نے فرمایا: امت میں چار آدمی ایسے گذرے ہیں، کہ اگر آدمی ان کی کتابوں سے مزاولت رکھے، تو چاہے کتنا بھی غبی ہو، ذہین ہوجاتا ہے، وہ چار حضرات یہ ہیں
1. مشہور صوفی بزرگ امام اکبر علامہ ابن عربی رحمہ اللہ تعالیٰ
2. حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ تعالیٰ
3. محدث دہلوی حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ
4. حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ۔
عرب ممالک میں بہت کتابیں چھپتی ہیں، مگر ابن عربی کی کوئی کتاب نہیں چھپتی، کیونکہ وہ ان کو کافر، اور مشرک کہتے ہیں، آج سے پچاس سال پہلے ابن عربی کی کسی کتاب کا کوئی وجود نہیں تھا، میں نے دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں، ان کی دو کتابوں کی زیارت کی تھی، ایک: فتوحاتِ مکیہ، اور دوسری: فصوص الحکم، اور کوشش کی تھی کہ کچھ سمجھ میں آئے، مگر کچھ سمجھ میں نہیں آیا، اگر ان کی کتابوں میں سے کوئی استاذ ہمیں تھوڑا سا پڑھا دیتا، تو ہم اس کے سہارے آگے بڑھتے، لیکن ان کی کوئی کتاب نہیں پڑھائی گئی، نتیجے میں ہمیں کچھ حاصل نہ ہوا۔
دوسرے حضرت مجدد الف ثانی ہیں، طالبِ علمی کے زمانہ میں، ان کی کوئی کتاب نہیں دیکھی، چند چھوٹے چھوٹے رسالے ملتے تھے، مگر ان کے مکتوبات دستیاب نہیں تھے، میں نے ان کی بھی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی، بعد میں جب مکتوبات ملے، تو ان کا مطالعہ کیا۔
تیسرے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں، ان کی کتاب الفوز الکبیر ہم پڑھتے تھے، ہمارے اساتذہ کی زبان پر بھی بکثرت شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا نام آتا تھا، حجة اللہ البالغہ بھی پڑھائی جاتی تھی، اور ان کی کئی کتابیں بازار میں مل جاتی تھیں۔
چوتھے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں، جو ہمارے قریب ترین استاذ ہیں، ان کی سبھی کتابیں بازار میں ملتی تھیں، اور اردو میں تھیں، اس لئے میں نے ان دونوں کو مطالعہ کےلئے خاص کرلیا، الفوز الکبیر پڑھی تو اتنا مزہ آیا، کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے، اور جب حضرت حکیم الاسلام رحمہ اللہ تعالیٰ سے حجة اللہ البالغہ کے چند ابواب پڑھے، تو اتنا مزہ آیا، کہ میں نے طے کرلیا، کہ شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو پڑھنا ہے، چنانچہ الفوز الکبیر پڑھی بھی، اور پڑھائی بھی، اور عربی میں شرح بھی لکھی، حجة اللہ البالغہ کے بھی پیچھے لگا رہا، تیس سال تک میں نے حجة اللہ البالغہ کا مطالعہ کیا، جب بھی ذرا فرصت ملتی، کتاب کھول لیتا، اور صفحے دو صفحے پڑھ لیتا، پڑھتے پڑھتے ایک وقت آیا، کہ اللہ تعالیٰ نے ساری کتاب حل کرادی، پھر میں نے اس کی شرح لکھی "رحمة اللہ الواسعہ "، فالحمد للہ علیٰ ذالک۔
علومِ عالیہ چھ اور علومِ آلیہ غیر متعین ہیں:
علومِ شرعیہ چھ ہیں
1. قرآن کریم
2. احادیثِ شریفہ
3. فقہ
4. پھر قرآن کریم سمجھنے کےلئے اصولِ تفسیر، اصولِ تفسیر کے بغیر قرآن کریم نہیں سمجھ سکتے
5. اور احادیث شریفہ کو سمجھنے کےلئے اصولِ حدیث، اصولِ حدیث کی رعایت کے بغیر آپ احادیث سے استفادہ نہیں کرسکتے
6. اور قرآن و حدیث سے فقہ کیسے نکالنا ہے، اس کےلئے اصولِ فقہ ہے.
یہ چھ علوم مدارسِ اسلامیہ کی غرض و غایت ہیں، انہی کےلئے مدارس قائم کئے گئے ہیں، یہی چھ علوم: علومِ عالیہ ہیں، باقی علوم: علومِ آلیہ ہیں، یعنی علوم حاصل کرنے کے ذرائع ہیں، جیسے صرف، نحو اور منطق علومِ آلیہ ہیں، اور سراجی کےلئے حساب جاننا ضروری ہے، پس حساب بھی علومِ آلیہ میں آئےگا، پھر جب بچہ بڑا ہوگا، تو مک کے جس صوبے میں رہتا ہے، وہاں کی زبان جاننا ضروری ہے، اگر وہ انگریزی علاقہ میں رہتا ہے، تو انگریزی ضروری ہے، ہندی کا علاقہ ہے، تو ہندی، گجراتی کا علاقہ ہے، تو گجراتی، کیونکہ علاقہ کی زبان نہیں جانے گا، تو زندگی کیسے گزارے گا؟ اور آج دنیا اتنی چھوٹی ہوگئی ہے، کہ ساری دنیا کے احوال آدمی کے سامنے آتے ہیں، اگر طالب علم جغرافیہ نہیں جانتا، تو بیچارہ دنیا سے ناواقف رہے گا، اس کی سمجھ میں نہیں آئے گا، کہ فلاں شہر کہاں ہے؟ حالانکہ وہ اس کے ملک سے لگا ہوا ہے، پس جغرافیہ بھی علومِ آلیہ میں آئیگا، تاریخ پڑھنا بھی ضروری ہے، اس کے بغیر آدمی ترقی نہیں کرسکتا، پھر ہر آدمی کو اللہ تعالیٰ نے ذہن الگ الگ دیا ہے، ایک درجہ پر سب کے اذہان نہیں ہوتے، ایک ذہین طالب علم کےلئے چار کتابیں کافی ہوتی ہیں، اور متوسط ذہن والے کو چھ کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں، اور معمولی ذہن والے کو آٹھ کتابیں پڑھاتے ہیں، تب جاکر وہ ذہین کی جگہ لیتا ہے، اس لئے علومِ آلیہ کا نصاب متعین نہیں، اور اس کے پڑھنے کا وقت بھی ذہانت کے اعتبار سے کم و بیش ہوتا ہے۔
طلبہ کے پاس اپنی کتابیں ہونی چاہئیں:
آج کل تعلیم میں جو کمزوری آئی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طلبہ کے پاس اپنی کتابیں نہیں ہوتی، آٹھ سال پڑھا، مگر ایک بھی کتاب نہیں، ہمارے مدرسے طالب علم کےلئے ہر ضرورت مہیا کرتے ہیں، وظیفۂ پارچہ دیتے ہیں، وظیفۂ تیل دیتے ہیں، وظیفۂ پاپوش دیتے ہیں، مگر کتابیں نہیں دیتے، آج کونسا طالب علم ہے، جو بغیر جوتے کے گھوم رہا ہے؟ کونسا طالب علم ہے، جو ننگا گھوم رہا ہے؟ کونسا طالب علم ہے، جو لالٹین میں تیل ڈال کر مطالعہ کرتا ہے؟ کوئی بھی نہیں، مگر اپنی کتاب کسی طالب علم کے پاس نہیں؟ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ وظیفے مت دو، ضرور دو! سب کچھ دو! مگر کتاب بھی تو دو! مالک بناؤ کتاب کا، البتہ شرط لگا سکتے ہو، کہ طالب علم اتنے نمبر لائے گا، تو یہ کتابیں ملی گیں، اس سے کم نمبر لانے والے کو اپنی کتاب خود خریدنی ہوگی، اس سے اس کا حوصلہ بڑھے گا؛ لیکن بہت زیادہ نمبروں کی قید نہ لگائیں، مثلاﹰ اوسط نمبر کی قید لگائیں، تاکہ چند ہی طالب علم کتابوں سے محروم رہیں، باقی نمبروں کی شرط پوری کرلیں، مگر امتحان لینے والوں کو بھی پابند کرنا ہوگا، کہ صحیح نمبر دیں، اگر دریا دلی سے نمبر دیں گے، تو شرط لگانا بیکار ہوجائےگا۔
الغرض مدارس کو دیگر وظائف کے ساتھ کتابیں بھی دینی چاہئیں، صرف پڑھنے کےلئے کتاب نہ دیں، مالک بنادیں، کیونکہ جب مدرسہ اس کتاب کو مستعار دے گا، تو وہ اپنی کتابیں خرید کر کیوں جمع کرے گا؟ کتابیں مستعار دینے کا نتیجہ یہ ہے، کہ فضلاء میں کتابیں خریدنے کا شوق نہیں رہا، نہ رکھنے کا، اور حفاطت کا سلیقہ ہے۔
کبھی الزامی جواب دینا مفید ہوتا ہے:
ایک آدمی نے سوال کیا: دن کی نمازیں سری، اور رات کی نمازیں جہری کیوں ہیں؟ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سنائی، کہ طالب علموں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی بات پوچھی تھی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جو نمازیں حضور اکرم ﷺ نے ہمیں سرّی پڑھائی ہیں، ہم بھی وہ نمازیں سرّی پڑھاتے ہیں، اور جو نمازیں جہری پڑھائی ہیں، ہم بھی وہ نمازیں جہری پڑھاتے ہیں۔
یہ حدیث سناکر میں نے سائل سے پوچھا: بتاؤ! دو نمازیں سرّی اور تین نمازیں جہری کیوں ہیں؟ یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے، یا نہیں؟ اگر نہیں جانتے تھے، تو میرا علم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ نہیں، میں اس کو کہاں سے جانوں گا؟ اور اگر جانتے تھے، تو کیوں نہیں بتایا؟ لامحالہ یہی کہنا ہوگا، کہ طالب علموں کی علمی سطح اتنی بلند نہیں تھی، کہ وہ اس سوال کا جواب سمجھ سکتے، پس کیا آپ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے آگے ہیں؟ آپ کالج میں پڑھتے ہیں، علمِ دین برائے نام جانتے ہیں، اور وہ دین کے طالب علم تھے، حدیث شریف کے طالب علم تھے، پس اگر میں سمجھاؤں، تو کس طرح سمجھاؤں؟ اور آپ کیا سمجھیں گے؟ وہ خاموش ہوگیا، یہ بولتی بند کرنے کا طریقہ ہے، اور یہ طریقہ حضرت شیخ الھند قدس سرہ کا تھا، آپ پہلے الزامی جواب دیتے تھے، اور بولتی بند کردیتے تھے، پھر تحقیقی جواب دیتے تھے، جب تک معترض کے دماغ کی کھڑکیاں بند نہ کردیں، وہ جواب کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، اس لئے پہلے الزامی جواب دے کر خاموش کردینا چاھئے، پھر صحیح بات بتاؤ، تو وہ غور سے سنے گا، اور سمجھے گا، ورنہ محنت رائگاں جائے گی۔
مدارسِ اسلامیہ کی برکت:
مدارسِ اسلامیہ کا وجود حفاظتِ دین کا بڑا ذریعہ ہے، یہ وہ اسلامی قلعے ہیں، جو دین کی پناہ گاہ ہیں، جس جگہ مدارسِ اسلامیہ کا وجود نہیں، وہاں جاکر دیکھیں، اسلام کا کیا حال ہے، وہاں کی دینی حالت دیکھیں، تو مدارسِ اسلامیہ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوجائےگا، اسپین، تاشقند اور سمرقند( ازبکستان ) کی حالت اسلام کی زبوں حالی کی منھ بولتی تصویر ہے، ہدایہ میں ایک جگہ ہے: اِنَّ أعْلَام الاِسلام فیھا ظاہرة، ازبکستان کے دیہاتوں میں بھی اسلام کے جھنڈے لہرا رہے ہیں، مگر اب وہاں کچھ نہیں، میں سمرقند، تاشقند گیا ہوں، وہاں لوگ سلام کا جواب دینا بھی نہیں جانتے، مگر متحدہ ہندوستان( انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش ) کا نقشہ ان ممالک سے مختلف ہے، اور یہ برکت ہے مدارسِ اسلامیہ کی، جب اس ملک پر انگریزوں نے قبضہ کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اہلِ اللہ کو الہام کیا، کہ چندے کے مدارس قائم کئے جائیں، اب اس ملک میں اسلام کی حفاظت کی یہی صورت ہے، اس سے پہلے چندے کے مدارس کا کوئی تصور نہیں تھا، حکومت ادارے قائم کرتی تھی، یا شخصی طور پر مدارس قائم ہوتے تھے، ایک ہی آدمی خرچہ چلاتا تھا، اب اللہ تعالیٰ نے قومی مدارس کا ذہن بنایا، تو مدارسِ اسلامیہ کا فروغ ہونا شروع ہوگیا، اب مدارسِ اسلامیہ بڑھتے چلے جارہے ہیں، آپ کو آج جگہ جگہ مسجدیں آباد مل رہی ہیں، مسلمان دینی وضع قطع میں ہیں، بےشمار آپ کو علماء مل رہے ہیں، اسلام پر کوئی حملہ ہو، مسلمان مدافعت کےلئے تیار ہیں، یہ نقشہ کیوں ہے؟ یہ مدارسِ اسلامیہ کی برکت ہے، یہ دینِ اسلام کی حفاظت کے قلعے ہیں، لٰہذا آپ اس نعمت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے، اور زیادہ سے زیادہ فعال بنانے کی کوشش کریں، ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارے لئے مفید ہوگا، اور اگر یہ مدرسے خدا نخواستہ نہ رہے، تو پھر صورتِ حال وہی ہوگی، جو دنیا میں ہوچکی ہے۔
نصاب طلبہ کے قابو میں نہیں آتا:
واقعہ یہ ہے کہ مدارسِ عربیہ کا نصاب پوری طرح بچوں کے قابو میں نہیں آتا، اور اسی مسئلہ کو لے کر آج کا اجتماع منعقد کیا گیا ہے، خطبۂ استقبالیہ میں اس کا تذکرہ ہے، کہ آج طلبہ کی استعدادیں نہیں بن رہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ جاننا چاھئے کہ استعداد عربی پنجم تک بنتی ہے، پھر بوئے ہوئے درخت کا پھل کھانا ہے، استعداد بن گئی، تو آگے طالب علم دیوار میں سے علم نکال لے گا، کمزور استاذ سے بھی پڑھ کر کتاب سمجھ لے گا، اور اگر اس درجہ تک استعداد نہیں بنی، تو آگے جھینکنا ہے، ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ بھی بخاری شریف پڑھا کر اس کو عالم نہیں بنا سکتے، بس وہ فارغ ہوکر رہ جائےگا، کسی کام کا نہیں بنے گا، چنانچہ مسلسل آوازیں اٹھتی ہیں، کہ طلبہ کو کسی کام کا بناؤ! مدارس کا نصاب بدلو، کچھ دنیا کی ضرورتیں نصاب میں شامل کرو، تاکہ طلبہ کسی کام کے بنیں، مگر یہ مسئلہ کا حل نہیں، مجھے حضرت الاستاذ علامہ ابراہیم بلیاوی صاحب قدس سرہ، سابق صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی بات یاد آئی، جب بھی نصاب میں تبدیلی کی بات آتی، تو آپ فرماتے : " مولوی صاحب! تعلیم کی خوبی تین باتوں کی مرہون منت ہے، ایک: استاد کی مہارت فن، دوسری: طالب علم کی محنت، تیسری: نصاب کی عمدگی، اب صورت یہ ہے کہ اساتذہ سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، وہ سر پھوڑ دیں گے، اور طلبہ سے بھی کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، وہ بھڑوں کا چھتہ ہیں، اب رہ گیا بے زبان نصاب، کان پکڑ کر کبھی اِدھر کردیا، کبھی اُدھر کردیا، مگر مسئلہ حل نہیں ہوتا"۔
یعنی نصاب تیسرے درجہ کی چیز ہے، پہلی چیز: اساتذہ کی مہارتِ فن ہے، پہلے اساتذہ ماہرِ فن ہوتے تھے، تو طلبہ جید الاستعداد نکلتے تھے، اب اساتذہ ہی ناقص ہیں، خاص طور پر ابتدائی درجات کے اساتذہ، وہ ابھی فارغ ہوئے ہیں، خود ان کے قابو میں فن نہیں، وہ طلبہ کو صاحبِ فن کس طرح بنادیں گے، وہ ابتدائی کتابیں پڑھاتے ہیں، اور پڑھا کر بھول جاتے ہیں، خود ان کو کتاب یاد نہیں ہوتی، وہ فن کے مسائل کا اجراء کیسے کرائیں گے؟ اور طلبہ کی اکثریت پڑھنے نہیں آتی، ماں باپ کے نیک جذبات سے مولوی بننے آتی ہے، اور مدرسہ میں پڑی رہتی ہے، پھر پڑھے بغیر، اور کتاب یاد کئے بغیر استعداد کیسے بنے گی۔
اور عربی پنجم تک کا نصاب اتنا سمیٹ دیا گیا ہے، اور مضامین کی اتنی بھر مار ہوگئی ہے، کہ طالب علم یاد کرنا چاہے، تو بھی یاد نہیں کرسکتا، پس مسئلہ کا حل یہ ہے، کہ ابتدائی نصاب بڑھایا جائے، پانچ سال کے چھ سال کئے جائیں، ابتدائی اساتذہ تجربہ کار ہوں، فن ان کے قابو میں ہو، اور طلباء کو بھی لایعنی مشاغل سے ہٹاکر پڑھنے میں لگایا جائے، ابتدائی درجات کا امتحان ہر ماہ لیا جائے، اور اس پر ترغیب و ترہیب کے نتائج مرتب ہوں، تو کچھ امید باندھی جاسکتی ہے، کہ پختہ استعداد والے طلبہ تیار ہوں۔
اور ہاں ایک بات یاد آئی: تعلیم میں تدریج ضروری ہے، نیچے کے درجے سے اوپر کے درجے میں حقیقی معنیٰ میں "کامیاب" چڑھے گا، تبھی آگے کامیاب ہوگا، اور اگر بےاستعداد ایک درجہ آگے بڑھ گیا، تو ساری تعلیمی زندگی برباد ہوگئی، اب اگلے درجے میں نہ کچھ سمجھے گا، نہ اس کی محنت کا کچھ حاصل نکلے گا۔
مثلاﹰ: اردو کی پختہ استعداد کے بغیر بچے کو فارسی میں لے لینا، یا فارسی کی ضروری استعداد کے بغیر، عربی میں لے لینا، بچے کی زندگی کو تباہ کرنا ہے، خاص طور پر ان صوبوں کے بچے، جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے، ان کو اردو خوب پڑھانی ضروری ہے، زبان رواں ہوجائے، بچہ بات سمجھ سکے، اور سمجھا سکے، اور اس کی املاء درست ہوجائے، تبھی اس کو فارسی میں لیا جائے، اور اہلِ لسان کے بچے فارسی کم پڑھیں، تو چلے گا، مگر غیر اہلِ لسان بچے اگر فارسی اچھی طرح نہیں پڑھیں گے، تو وہ کبھی اردو میں کامیاب نہیں ہوسکتے، کیونکہ اردو میں لغات و تراکیبِ فارسی مستعمل ہیں، پس اہلِ لسان بچہ تو اپنی فطرت سے اردو سمجھ لے گا، مگر گجرات، مہاراشٹر، بنگال، آسام، تمل ناڈو اور کیرالہ کا بچہ فارسی پڑھے بغیر کبھی بھی اردو میں قادر نہیں ہوسکتا، اسی طرح عربی اول جب تک بچے کے قابو میں نہ آجائے، عربی دوم میں نہ لیا جائے، درجہ بدرجہ استعداد بنتی جائےگی، اور بڑھتا جائےگا، تو بچہ کامیاب ہوگا، خلاصہ یہ ہے کہ اردو، فارسی اور عربی اول تا پنجم کی تعلیم میں سنجیدگی ہو، ہزل کی صورت نہ ہو، تبھی کسی مثبت نتیجہ کی امید کی جاسکتی ہے۔
نصاب میں تبدیلی کہاں کی جاسکتی ہے؟
مدارسِ عربیہ کا نصاب دو حصوں میں منقسم ہے: عالیہ اور آلیہ، یعنی مقصود بالذات، اور مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ، صرف و نحو، انشاء، عربی زبان، منطق وغیرہ علومِ آلیہ ہیں، اور قرآن( تفسیر ) حدیث، فقہ، اصولِ تفسیر، اصولِ حدیث اور اصولِ فقہ، عالیہ اور مقصود بالذات ہیں، علومِ آلیہ پر مشتمل نصاب ہر وقت بدلا جاسکتا ہے، حسن سے احسن کی طرف بڑھا جاسکتا ہے، البتہ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے، کہ جو کتابیں استعداد بنانے والی ہیں، ان کو القط نہ کردیا جائے، جیسے منطق کے بارے میں اب عام تصور یہ ہے، کہ یہ غیر ضروری فن ہے، حالانکہ یہ فن تشحیذِ اذہان کےلئے ہے، اس سے ذہن تیز ہوتا ہے چھری میں دھار نہ ہو، تو خربوزہ کیسے کٹے گا؟ اگر آپ کو منطق پسند نہیں، تو اس کا متبادل تجویز کرو، جو ذہن میں جلا پیدا کرے، ذہن کی بالیدگی کے بغیر، علومِ عالیہ کو بخوبی نہیں سمجھا جاسکتا، اور علومِ عالیہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، ہدایہ کا کیا بدل ہے؟ مختصر المعانی کا کیا بدل ہے؟ جلالین کا، اور کتبِ حدیث کا کیا بدل ہے؟ البتہ یہ ضروری ہے کہ طالبِ علم کی استعداد ایسی بن جائے، کہ وہ یہ کتابیں سمجھ سکے، اگر استعداد کچی رہے گی، تو علومِ عالیہ کی یہ کتابیں پڑھانا بےفائدہ ہوگا۔
علم کلام اور اسلامی مسائل:
ابھی صدرِ استقبالیہ نے اپنے خطبہ میں کہا، کہ شرح عقائد عذابِ قبر پڑھانی چاہئے، کیونکہ اس سے پہلے جو مضامین ہیں، وہ طلبہ کے قابو میں نہیں آتے، وہ بہت دقیق مضامین ہیں، ذات و صفات کی بحثیں طلبہ نہیں سمجھ سکتے۔
میرے بھائیو! عذابِ قبر پر تو علمِ کلام ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد اسلامی مسائل شروع ہوتے ہیں، اور وہ بدلتے رہتے ہیں، ان کو پڑھانا علمِ کلام پڑھانا نہیں، اور شرح عقائد علمِ کلام میں ہے، پس اگر سابقہ ابحاث چھوڑ دیں گے، تو آپ نے علمِ کلام نہیں پڑھایا، اور شرح عقائد کو نصاب میں رکھنے کا مقصد فوت کردیا۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ علمِ کلام ذات و صفات کے مسائل کا نام ہے، اب عربوں نے نام بدل دیا ہے، وہ علمِ کلام کو علم التوحید و الصفات کہتے ہیں، اور اب تک اس کو علم الکلام اس لئے کہتے تھے، کہ معتزلہ نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفتِ کلام کی بحث چھیڑی تھی، وہ کہتے تھے، کہ قرآن مخلوق( حادث ) ہے، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی صفت نہیں ہے، امام اہل السنہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کیا، کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اور غیر مخلوق( قدیم ) ہے، اللہ تعالیٰ کی صفت، حادث نہیں ہوسکتی، یہ بحث اتنی طویل ہوئی، کہ پورے فن کا نام ہی علم الکلام پڑگیا۔
بہرحال ذات و صفات کے مسائل کا نام علم العقائد ہے، اور ان کا بیان شرح عقائد میں عذابِ قبر پر پورا ہوجاتا ہے، پھر اسلامی مسائل کا بیان شروع ہوتا ہے، علم کلام میں مقصدی حیثیت سے صرف کائنات کے مبداؤمعاد سے بحث کی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور معاد کے مسائل ہی زیرِ بحث آتے ہیں، مثلاﹰ: خدا تعالیٰ کا اثبات، مسئلۂ توحید، صفاتِ خداوندی کا بیان، صفاتِ سلبیہ کا تذکرہ، صفات نہ عینِ ذات ہیں نہ غیرِ ذات، صفتِ کلام کی بحث، اور ضمناً قرآن کریم کے کلامِ الٰہی ہونے کا تذکرہ، رویتِ باری تعالیٰ کا مسئلہ، خلقِ افعالِ عباد کا تذکرہ، اور معاد کے سلسلہ میں برزخ کے احوال، جنت و دوزخ، حشر و نشر، جزاء و سزا کا بیان، اور علامتِ قامت کا ذکر، بس یہی علمِ کلام کے مسائل ہیں۔
پھر اسلامی مسائل کا تذکرہ شروع ہوتا ہے، اسلامی مسائل: وہ ہیں کہ مختلف الخیال، اور مختلف المذاہب لوگوں کی باہمی گفتگو میں مذہب کی ضرورت، اس کی حقانیت اور ترجیح کے سلسلہ میں، جو تاریخی، اخلاقی، تمدنی اور علمی مسائل زیرِ بحث آتے ہیں، ان کے متعلق اسلام نے، جو تعلیمات پیش کی ہیں، ان کو زیرِ بحث لایا جائے، تاکہ طلباء بابصیرت ہوں، اور علمی گفتگو میں دوسروں کو متاثر کرسکیں، عذابِ قبر سے یہی اسلامی مسائل شروع ہوتے ہیں، بہرحال شرح عقائد کا جو مشکل حصہ ہے، وہی مقصود ہے، مگر وہ پختہ استعداد بنائے بغیر طلبہ کے قابو میں نہیں آسکتا، اور استعداد سازی کا عمل عربی پنجم تک ہے، اس کے بعد تو بوئے ہوئے کا پھل کھانا ہے، اربابِ فکر اور مدارس کے ذمہ داران، یہاں جمع ہیں، ان کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، کہ کمی جہاں آئی ہے، اس کو دور کرنے کی کوشش کریں، ورنہ یہ اجتماع بےفائدہ رہے گا۔
تکمیل کے درجات سے نقصان کی تلافی نہیں ہوسکتی:
ملت کے اکابر مدارس میں جو کمی آئی ہے ،اس کا علاج یہ سوچتے ہیں ،کہ دورہ کے بعد تکمیل کے چند درجات کھول دئیے جائیں ،تاکہ استعداد کے نقصان کی تلافی ہوجائے ،تکمیلِ فقہ ،دار الافتاء ،تکمیلِ ادب ،تکمیلِ تفسیر ،تکمیلِ علوم ،تخصص فی الحدیث اور تخصص فی الادب کے درجات شروع کئے جائیں ،تو درس نظامی کی تعلیم میں جو کمی آئی ہے ،اس کی تلافی ہوسکتی ہے ،اور تکمیلات کا یہ عمل جامعات میں شروع بھی ہوگیا ہے ،مگر تجربہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے ،کہ اس سے نقصان کی کوئی تلافی نہیں ہوتی ،اس کی مثال یہ ہے کہ ایک آٹھ منزلہ عمارت ہے ،جو بوسیدہ ہوگئی ہے ،اس کو مضبوط کرنے کی یہ صورت نہیں ہے ،کہ اس پر تین چار منزلیں اور چڑھا دی جائیں ،اس سے تو عمارت اور کمزور ہوجائےگی ، اس کا علاج تو بس یہی ہے ،کہ عمارت ازسرِ نو مضبوط بنائی جائے ،یا اس کی مرمت کرکے کسی قابل بنائی جائے ،جب تک استعداد سازی کے مرحلہ کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی ،مسئلہ حل ہونے والا نہیں ۔
دارالافتاؤں کی باڑ:
آج کل ہمارے ملک میں ،اور پڑوس کے دونوں ملکوں میں دارالافتاؤں کی باڑ آئی ہوئی ہے ،بلکہ اب نئے مدارس دار الافتاء سے شروع ہوتے ہیں ،اور داخلہ کےلئے کوئی استعداد ضروری نہیں ،ہر فارغ داخلہ لے سکتا ہے ،اور چند ماہ میں مفتی بن جائےگا ،اور خوش فہمی میں مبتلا ہوجائےگا ،کہ اسے سب کچھ آگیا ،اور لوگ بھی اس سے مسائل پوچھنے لگیں گے ،اور وہ ضَل وَ اضَل کا مصداق بن جائےگا ،مگر مدارس میں استعداد سازی پر محنت کرنے والا کوئی نہیں ،اس مدرسہ کو چھوٹا مدرسہ سمجھا جاتا ہے ،چندہ بھی اس کو کم ملتا ہے ،اس لئے ہر شخص دورہ ،یا دار الافتاء کھول کر بیٹھ جاتا ہے ،یہ جو طریقہ تیزی سے چل پڑا ہے ،یہ بھی تباہی کا پیش خیمہ نظر آتا ہے ۔
عصری درسگاہوں اور مدارس کے علوم میں فرق:
عصری درسگاہوں ( یونیورسٹیوں ) میں محسوسات کا علم پڑھایا جاتا ہے ،اور وہ محدود ہے ،طالب علم پڑھ کر نکلتا ہے ،اور کام شروع کردیتا ہے ،پھر تجربات سے اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے ،اسے آگے کچھ نہیں پڑھنا ،اور مدارس میں معنویات کا علم پڑھایا جاتا ہے ،اور وہ غیر محدود ہے ،پس سارا علم مدارس میں نہیں پڑھایا جاسکتا ،بلکہ علم حاصل کرنے کی استعداد بنائی جاتی ہے ،جس سے زندگی بھر کام لینا ہے ،اور آگے پڑھنا ہے ،اور ایک لمبے عرصے کے بعد مسائل کا ادراک ہوتا ہے ،مگر اب تو لوگ فارغ اور فاضل ہوجاتے ہیں ،آگے پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں ،اور ان کا حال اس نادان بچے کا ہوکر رہ جاتا ہے ،جس نے بچا ہوا تیل کٹورے کے پیندے میں ڈلوایا تھا ،جس سے اصل کٹورے کا تیل بھی گرگیا تھا ،کچھ ہی دنوں میں مدرسہ سے ،جو متاع لے کر آئے تھے ،وہ بھی بھول گئے ،اور کٹورہ خالی رہ گیا ۔
ختم شد
......................................................................
نوٹ: مذکورہ بالا مضمون میں ،دو تقریروں کی منتخب باتیں درج کی گئی ہیں ، اس لئے ترتیب کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ، عادل سعیدی ۔
0 comments:
Post a Comment