!!! سرّی اور جہری نمازوں کی حکمت!!!
مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ترتیب دادہ : عادل سعیدی پالن پوری
ایک نوجوان میرے پاس آیا، یہ ٹورنٹو کا واقعہ ہے، اس نے سوال کیا: دو نمازیں:ظہر اور عصر خاموش کیوں ہیں؟ اور تین نمازیں: مغرب، عشاء اور فجر جہری کیوں ہیں؟ یہ ایک دقیق مسئلہ ہے ، ہمارے طلبہ بھی اس کو نہیں سمجھ پاتے، وہ تو کالج میں پڑھنے والا تھا۔
کبھی الزامی جواب دینا مفید ہوتا ہے:
خیر میں نے اس کو پہلے الزامی جواب دیا، میں نے اس کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سنائی، کہ طالب علموں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی بات پوچھی تھی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: فی کل صلاۃ نقرأ، فما أسمعنا رسول اللہ ﷺ، أسمعناکم، و ما أخفیٰ علینا، أخفینا منکم ( رواہ النسائی و ابوداؤد، جامع الاصول حدیث نمبر ۳۴۷۳ ) جو نمازیں حضور اکرم ﷺ نے ہمیں سرّی پڑھائی ہیں، ہم بھی وہ نمازیں سرّی پڑھاتے ہیں، اور جو نمازیں جہری پڑھائی ہیں، ہم بھی وہ نمازیں جہری پڑھاتے ہیں۔
یہ حدیث سناکر میں نے سائل سے پوچھا: بتاؤ! دو نمازیں سرّی اور تین نمازیں جہری کیوں ہیں؟ یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے، یا نہیں؟ اگر نہیں جانتے تھے، تو میرا علم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ نہیں، میں اس کو کہاں سے جانوں گا؟ اور اگر جانتے تھے، تو کیوں نہیں بتایا؟ لامحالہ یہی کہنا ہوگا، کہ طالب علموں کی علمی سطح اتنی بلند نہیں تھی، کہ وہ اس سوال کا جواب سمجھ سکتے، پس کیا آپ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے آگے ہیں؟ آپ کالج میں پڑھتے ہیں، علمِ دین برائے نام جانتے ہیں، اور وہ دین کے طالب علم تھے، حدیث شریف کے طالب علم تھے، پس اگر میں سمجھاؤں، تو کس طرح سمجھاؤں؟ اور آپ کیا سمجھیں گے؟ وہ خاموش ہوگیا، یہ بولتی بند کرنے کا طریقہ ہے، اور یہ طریقہ حضرت شیخ الھند قدس سرہ کا تھا، آپ پہلے الزامی جواب دیتے تھے، اور بولتی بند کردیتے تھے، پھر تحقیقی جواب دیتے تھے، جب تک معترض کے دماغ کی کھڑکیاں بند نہ کردیں، وہ جواب کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، اس لئے پہلے الزامی جواب دے کر خاموش کردینا چاھئے، پھر صحیح بات بتاؤ، تو وہ غور سے سنے گا، اور سمجھے گا، ورنہ محنت رائگاں جائے گی۔
تحقیقی جواب :
پھر میں نے اس سے پوچھا: آپ کی شادی ہوئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں! میں نے کہا: تم میاں بیوی گپ کب کرتے ہو؟ دن میں یا رات میں؟ اس نے کہا: رات میں، دن میں تو ضروری باتیں کرتے ہیں، میں نے کہا: آپ کے سوال کا یہی جواب ہے، دن کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ زیادہ باتیں کرنے کو جی نہیں چاہتا، اسی لئے سنیما ، ٹھیٹر اور گانے بجانے کے پروگرام رات میں ہوتے ہیں، کیونکہ رات کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے انبساط رکھا ہے، اوردن کی فطرت میں انقباض، اور جب طبیعت میں انقباض ہو تا ہے، تو نہ سنانے کو جی چاہتا ہے نہ سننے کو، اس لئے دن کی نمازیں خاموش ہیں، اور رات میں طبیعت میں انبساط ہوتا ہے، سنانے کو بھی جی چاہتا ہے، اور سننے کو بھی، اس لئے رات کی نمازیں جہری ہیں۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دن کی فطرت میں انقباض، اور رات کی فطرت میں انبساط کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دن کو اللہ تعالیٰ نے معاش کا وقت بنایا ہے، اگر اس میں انبساط رکھا جاتا تو آدمی ٹی وی دیکھتا رہتا ، گاتا بجاتا رہتا، بیوی سے گپ کرتا رہتا، نہ جوب (کام) پر جاتا، نہ شوپ( دوکان) پر، اس لئے اس میں انقباض رکھا؛ تاکہ آدمی صبح اٹھ کر نہا دھو کر نوکری پر پہنچ جائے، یا دوکان کھول کر بیٹھ جائے، اور رات میں کوئی دھندا نہیں ، وہ سونے کے لئے ہے، اس لئے رات میں انبساط رکھا، اور شریعت نے انقباض وانبساط کا احکام میں لحاظ رکھا ، اسی لئے دن کی نمازوں کو سری اور رات کی نمازوں کو جہری کردیا۔
اس نے سوال کیا: پھر جمعہ اور عیدین میں جہری قرأت کیوں ہے؟ میں نے اس سے پوچھا: آپ کے یہاں روزِ زفاف ہوتا ہے یا نہیں؟ شادی کے بعد رخصی دن میں عمل میں آتی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا: دن میں بھی عمل میں آتی ہے (یورپ اور امریکہ میں دن میں بھی رخصتی ہوتی ہے) میں نے کہا: جب رخصتی دن میں ہو، اور روز ِ زفاف ہو تو پہلی ملاقات میں میاں بیوی گپ کرتے ہیں، یا نہیں؟ اس نے کہا: کرتے ہیں، میں نے کہا: یہی آپ کے سوال کا جواب ہے، اس نے کہا: میں سمجھا نہیں۔ میں نے کہا: یہ موقع کی بات ہے اور خاص موقعوں کے احکام الگ ہوتے ہیں، جمعہ کے دن اورعید کے دن آدمی نہاتا ہے، نئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنتا ہے، خوشبو لگاتا ہے، اور بڑے اجتماع میں پہنچتا ہے، ایسے موقعہ پر طبیعت میں انبساط پیدا ہوجاتا ہے، اس لئے قرآن کریم زور سے پڑھا جاتا ہے ۔
مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ترتیب دادہ : عادل سعیدی پالن پوری
ایک نوجوان میرے پاس آیا، یہ ٹورنٹو کا واقعہ ہے، اس نے سوال کیا: دو نمازیں:ظہر اور عصر خاموش کیوں ہیں؟ اور تین نمازیں: مغرب، عشاء اور فجر جہری کیوں ہیں؟ یہ ایک دقیق مسئلہ ہے ، ہمارے طلبہ بھی اس کو نہیں سمجھ پاتے، وہ تو کالج میں پڑھنے والا تھا۔
کبھی الزامی جواب دینا مفید ہوتا ہے:
خیر میں نے اس کو پہلے الزامی جواب دیا، میں نے اس کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سنائی، کہ طالب علموں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی بات پوچھی تھی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: فی کل صلاۃ نقرأ، فما أسمعنا رسول اللہ ﷺ، أسمعناکم، و ما أخفیٰ علینا، أخفینا منکم ( رواہ النسائی و ابوداؤد، جامع الاصول حدیث نمبر ۳۴۷۳ ) جو نمازیں حضور اکرم ﷺ نے ہمیں سرّی پڑھائی ہیں، ہم بھی وہ نمازیں سرّی پڑھاتے ہیں، اور جو نمازیں جہری پڑھائی ہیں، ہم بھی وہ نمازیں جہری پڑھاتے ہیں۔
یہ حدیث سناکر میں نے سائل سے پوچھا: بتاؤ! دو نمازیں سرّی اور تین نمازیں جہری کیوں ہیں؟ یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے، یا نہیں؟ اگر نہیں جانتے تھے، تو میرا علم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ نہیں، میں اس کو کہاں سے جانوں گا؟ اور اگر جانتے تھے، تو کیوں نہیں بتایا؟ لامحالہ یہی کہنا ہوگا، کہ طالب علموں کی علمی سطح اتنی بلند نہیں تھی، کہ وہ اس سوال کا جواب سمجھ سکتے، پس کیا آپ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے آگے ہیں؟ آپ کالج میں پڑھتے ہیں، علمِ دین برائے نام جانتے ہیں، اور وہ دین کے طالب علم تھے، حدیث شریف کے طالب علم تھے، پس اگر میں سمجھاؤں، تو کس طرح سمجھاؤں؟ اور آپ کیا سمجھیں گے؟ وہ خاموش ہوگیا، یہ بولتی بند کرنے کا طریقہ ہے، اور یہ طریقہ حضرت شیخ الھند قدس سرہ کا تھا، آپ پہلے الزامی جواب دیتے تھے، اور بولتی بند کردیتے تھے، پھر تحقیقی جواب دیتے تھے، جب تک معترض کے دماغ کی کھڑکیاں بند نہ کردیں، وہ جواب کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، اس لئے پہلے الزامی جواب دے کر خاموش کردینا چاھئے، پھر صحیح بات بتاؤ، تو وہ غور سے سنے گا، اور سمجھے گا، ورنہ محنت رائگاں جائے گی۔
تحقیقی جواب :
پھر میں نے اس سے پوچھا: آپ کی شادی ہوئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں! میں نے کہا: تم میاں بیوی گپ کب کرتے ہو؟ دن میں یا رات میں؟ اس نے کہا: رات میں، دن میں تو ضروری باتیں کرتے ہیں، میں نے کہا: آپ کے سوال کا یہی جواب ہے، دن کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ زیادہ باتیں کرنے کو جی نہیں چاہتا، اسی لئے سنیما ، ٹھیٹر اور گانے بجانے کے پروگرام رات میں ہوتے ہیں، کیونکہ رات کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے انبساط رکھا ہے، اوردن کی فطرت میں انقباض، اور جب طبیعت میں انقباض ہو تا ہے، تو نہ سنانے کو جی چاہتا ہے نہ سننے کو، اس لئے دن کی نمازیں خاموش ہیں، اور رات میں طبیعت میں انبساط ہوتا ہے، سنانے کو بھی جی چاہتا ہے، اور سننے کو بھی، اس لئے رات کی نمازیں جہری ہیں۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دن کی فطرت میں انقباض، اور رات کی فطرت میں انبساط کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دن کو اللہ تعالیٰ نے معاش کا وقت بنایا ہے، اگر اس میں انبساط رکھا جاتا تو آدمی ٹی وی دیکھتا رہتا ، گاتا بجاتا رہتا، بیوی سے گپ کرتا رہتا، نہ جوب (کام) پر جاتا، نہ شوپ( دوکان) پر، اس لئے اس میں انقباض رکھا؛ تاکہ آدمی صبح اٹھ کر نہا دھو کر نوکری پر پہنچ جائے، یا دوکان کھول کر بیٹھ جائے، اور رات میں کوئی دھندا نہیں ، وہ سونے کے لئے ہے، اس لئے رات میں انبساط رکھا، اور شریعت نے انقباض وانبساط کا احکام میں لحاظ رکھا ، اسی لئے دن کی نمازوں کو سری اور رات کی نمازوں کو جہری کردیا۔
اس نے سوال کیا: پھر جمعہ اور عیدین میں جہری قرأت کیوں ہے؟ میں نے اس سے پوچھا: آپ کے یہاں روزِ زفاف ہوتا ہے یا نہیں؟ شادی کے بعد رخصی دن میں عمل میں آتی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا: دن میں بھی عمل میں آتی ہے (یورپ اور امریکہ میں دن میں بھی رخصتی ہوتی ہے) میں نے کہا: جب رخصتی دن میں ہو، اور روز ِ زفاف ہو تو پہلی ملاقات میں میاں بیوی گپ کرتے ہیں، یا نہیں؟ اس نے کہا: کرتے ہیں، میں نے کہا: یہی آپ کے سوال کا جواب ہے، اس نے کہا: میں سمجھا نہیں۔ میں نے کہا: یہ موقع کی بات ہے اور خاص موقعوں کے احکام الگ ہوتے ہیں، جمعہ کے دن اورعید کے دن آدمی نہاتا ہے، نئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنتا ہے، خوشبو لگاتا ہے، اور بڑے اجتماع میں پہنچتا ہے، ایسے موقعہ پر طبیعت میں انبساط پیدا ہوجاتا ہے، اس لئے قرآن کریم زور سے پڑھا جاتا ہے ۔
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
0 comments:
Post a Comment