Monday, 4 April 2016

روزے اور زکوٰۃ کے ضروری مسائل

!!! روزے اور زکوٰۃ کے ضروری مسائل!!!

مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند

ناقل : عادل سعیدی پالن پوری


       
خطبۂ مسنونہ کے بعد : { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ } ائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! روزے تم پر لازم کئے گئے ہیں ، جس طرح تم سے پہلے والوں پر لازم کئے گئے ہیں ، تاکہ تم پرہیزگار بنو ۔

دو قسم کی عبادتیں :

       
بزرگو اور بھائیو ! اللہ تعالیٰ نے دو قسم کی عبادتیں رکھی ہیں ، بدنی اور مالی ، بدنی : وہ عبادتیں ہیں ، جن کا تعلق بدن سے ہے ، یعنی ان میں بدن استعمال ہوتا ہے ، مالی : وہ عبادتیں ہیں ، جن میں مال استعمال ہوتا ہے ، بدن استعمال نہیں ہوتا ، اور ایک تیسری قسم ، دونوں سے مرکب عبادت ہے ، اس میں بدن بھی استعمال ہوتا ہے ، اور مال بھی ، اول دو کو سمجھ لیں ، تو تیسری خود بخود سمجھ میں آجائےگی ۔

بدنی عبادتیں دو ، اور مالی عبادت ایک کیوں ہے ؟

       
اللہ تعالیٰ نے انسان کے بدن میں روح رکھی ہے ، اور روح کی دو صفتیں ( حالتیں ) ہیں ، ایک : ملَکیت یعنی فرشتوں جیسی استعداد ، دوسری : بہیمیت یعنی جانوروں جیسی استعداد ، بالفاظِ دیگر : ایک لمۂ خیر ہے ، دوسرا لمۂ شر ( لمة : اثر ) قرآن کریم میں ہے : {وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا } ( الشمس آیت نمبر ٧ )  قسم ہے نفس ( روح ) کی ، اور اس نفس کو درست بنانے کی ، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کا نفس نہایت عمدہ بنایا ہے ، {فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا } پس اللہ نے اُس نفس کو اُسے نیکوکاری اور اس کی بدکاری الہام کی ، یہی روح کی دو صفتیں ( ملکیت اور بہیمیت ) ہیں ، قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے : {وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ} ( البلد آیت نمبر ١٠ ) ہم نے انسان کو دونوں راہیں سُجھادیں ، نیکوکاری کی راہ بھی ، اور بدکاری کی راہ بھی ، اب انسان کو اختیار ہے ، نیکوکاری کی راہ چلےگا ، تو جنت میں جائےگا ، اور بدکاری کی راہ چلےگا ، تو جہنم رسید ہوگا ۔

       
یہ جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو راہیں سمجھائی ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے ، کہ انسان کی روح میں اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی کی صلاحیتیں رکھی ہیں ، اب ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت میں ایسے اعمال ، اور ایسی عبادتیں رکھی جائیں ، جو ملکیت ( نیکوکاری ) کو بڑھاوا دیں ، اور بہیمیت ( بدکاری ) کو لگام دیں ، چنانچہ نماز رکھی گئی ، نیکوکاری کو بڑھاوا دینے کےلئے ، لمۂ خیر کی ترقی کےلئے ، اور روزہ رکھا گیا ، نفسانی تقاضے کو دبانے کےلئے ، آدمی میں تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا کرنے کےلئے ، لمۂ شر کو دبانے کےلئے ، اسی کو قرآن کریم میں کہا گیا ہے : { لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ } یعنی روزے اس لئے فرض کئے گئے ہیں ، کہ تم پرہیزگار بنو ۔

       
سوال : ہمارے روزے تو پرہیزگاری پیدا نہیں کرتے ؟

       
جواب : پیدا کرتے ہیں ، آپ کو غلط فہمی  ہے کہ پیدا نہیں کرتے ، آپ رمضان المبارک سے پہلے اپنے نفس کی حالت کا جائزہ لیں ، اور رمضان المبارک کے بعد اپنے نفس کا جائزہ لیں ، آپ خود فرق محسوس کریں گے ، تھوڑا یا زیادہ یہ الگ بات ہے ، فرق ہر شخص محسوس کرے گا ، البتہ یہ فرق غور کرنے سے محسوس ہوگا ، واضح طور پر محسوس نہیں ہوگا ، اور واضح طور پر فرق محسوس نہ ہونے کی دو وجہیں ہیں :

       
پہلی وجہ : ہم لوگ جہاں تک گنجائش ہوتی ہے ، دباکر کھاتے ہیں ، افطاری میں بھی ، اور سحری میں بھی ، یہ جو صورت ہمارے کھانے کی ہے ، اس سے ہمیں روزوں کی نورانیت محسوس نہیں ہوتی ، حضرت شیخ زکریا قدس سرہ کا ایک چھوٹا سا رسالہ ہے ، ‌‌"‌‌اکابر کا رمضان ‌‌"‌‌ نامی ، اس کو پڑھو !  اکابر رمضان میں افطاری کتنی کھاتے تھے ، اور سحری کتنی کھاتے تھے ، کیا ان کا کھانے کو جی نہیں چاہتا تھا ؟ چاہتا تھا ، مگر انہیں روزوں کی نورانیت حاصل کرنی تھی ، اور وہ نورانیت کم خوری سے حاصل ہوتی ہے ، اس کتاب میں یہ واقعہ ہے کہ بڑے حضرت رائپوری شاہ عبدالرحیم صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک میں سحری میں صرف ایک فنجان چائے ، اور ایک نیم برشت انڈا لیا کرتے تھے ، افطاری میں کچھ نہیں لیتے تھے ، اور فرماتے تھے کہ چونکہ صومِ وصال سے حضور اکرم ﷺ نے منع کیا ہے ، اس لئے اتنا لے لیتا ہوں ، ورنہ مجھے اس کی بھی ضرورت نہیں ۔

صومِ وصال سے منع کرنے کی وجہ :

       
خود نبی پاک ﷺ صومِ وصال رکھتے تھے ، پندرہ دن کا ایک روزہ رکھتے تھے ، صحابہ ؓ نے دیکھا تو انہوں نے بھی شروع کیا ، حضور اکرم ﷺ نے منع فرمایا ، صحابہ ؓ نے عرض کیا : اِنّک تُوَاصلُ یارسولَ اللہِ ! آپ تو صومِ وصال رکھتے ہیں ، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : اِنِّی لَسْتُ کَأحَدِکُمْ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَ یَسْقِیْنِیْ ، میرا معاملہ اور ہے ، اور تمہارا معاملہ اور ہے ، مجھے میرا رب کھلاتا پلاتا ہے ، تمہیں کہاں کھلائے گا ، پلائے گا ، جو میری حرص کرتے ہو ، مگر اس کے باوجود حضور اکرم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت فاروق اعظم ، حضرت عائشہ ، اور حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنھم ایک ہفتہ کا روزہ رکھتے تھے ، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کہ حضور نے جو امت کو منع کیا ہے ، وہ اِبْقَاءً علیھم : ان پر شفقت فرماتے ہوئے منع کیا ہے ، ورنہ فی نفسہ صومِ وصال جائز ہے ، اسی لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور انکے علاوہ دوسرے صحابہ ؓ  ایک ایک ہفتہ کا روزہ رکھتے تھے ، پس کیا ان کے پاس کھانا نہیں تھا ؟ تھا مگر چونکہ ان کو روزے کا مقصد حاصل کرنا تھا ، اس لئے وہ کم کھایا کرتے تھے ۔

       
اور روزوں کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے : غریبوں کی غریبی کو یاد کرنا ، مگر پورے رمضان ہمیں غریب یاد نہیں آتے ، کیونکہ ہمارے پیٹ میں جتنی گنجائش ہوتی ہے ، اتنا ہم بھر لیتے ہیں ، ایک وجہ تو نورانیت کم محسوس ہونے کی یہ ہے ۔

       
دوسری وجہ : روزوں کو گناہوں سے اور لغویات سے پاک رکھنا ضروری ہے ، آپ غسل خانے میں نہانے کےلئے جائیں ، اور ایگزاسٹر کھولے بغیر نہائیں ، تو نہانے کے بعد سارا آئینہ میلا ہوجائےگا ، آپ خود کو اس میں نہیں دیکھ سکیں گے ، اور اگر آپ پہلے ایگزاسٹر کھول دیں ، پھر نہائیں ، تو جب آپ کھڑے ہونگے ، آئینہ صاف ہوگا ، اور آپ اس میں خود کو دیکھ سکیں گے ، اسی طرح ہم روزہ رکھتے ہیں ، مگر ایگزاسٹر نہیں کھولتے ، جھوٹ بولتے رہتے ہیں ، گالیاں دیتے رہتے ہیں ، دنیا بھر کی غیبتیں کرتے رہتے ہیں ، الزامات اور تہمتیں لگاتے رہتے ہیں ، صبح سے شام تک ہم یہ سارے کام کرتے رہتے ہیں ، پس آئینہ تو میلا ہونا ہی ہے ، اور جب آئینہ میلا ہوگیا ، تو روزوں کے انوار کہاں سے نظر آئیں گے ، اسی لئے حدیث شریف میں آیا ہے : مَنْ لمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ ، وَ العَمَلَ بِہٖ ، فَلَیْسَ للہِ حَاجَةٌ فِیْ أنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَ شَرَابَہٗ ، جس نے روزے میں جھوٹی بات نہیں چھوڑی ، غلط کام نہیں چھوڑا ، اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی اللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں ، جو چھوڑنا تھا ، ہ تو چھوڑا نہیں ، معلوم ہوا کہ روزہ میں صرف کھانا پینا چھوڑنا ہی مطلوب نہیں ، بلکہ لغو اور بےکار باتوں سے اپنے آپ کو بچانا بھی ضروری ہے ، جب آپ ایسا روزہ رکھیں گے ، تو روزوں کے انوار محسوس کریں گے ، ہمیں جو روزوں کی نورانیت کم محسوس ہوتی ہے ، اس کی یہ دو وجہیں ہیں ۔

       
غرض روزہ جو بدنی عبادت ہے ، وہ بہیمیت پر ، لمۂ شر پر ، کنٹرول کرنے کےلئے ہے ، تاکہ آدمی میں تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا ہو ، اور نماز بھی بدنی عبادت ہے ، اور وہ اس لئے ہے ، کہ آدمی میں نورانیت پیدا ہو ، ملکیت ابھرے ، لمۂ خیر ابھرے ، اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو ، اللہ کی یاد آئے ، قرآن کریم میں ہے : { وَ لَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ } اللہ تعالیٰ کی یاد ، نماز کا بڑا فائدہ ہے ، اور حدیث شریف میں ہے ، کہ جب بندہ سجدہ کرتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ کے قدموں پر سجدہ کرتا ہے ، یعنی اتنا قریب ہوجاتا ہے ۔

       
بہرحال نماز کا مقصد یہ ہے ، اور روزے کا مقصد وہ ہے ، اور چونکہ ایسی کوئی بدنی عبادت نہیں ، جس سے دونوں مقصد حاصل ہوں ، اس لئے بدنی عبادتیں دو رکھیں ، اور مالی عبادت فقط ایک رکھی ، کیونکہ مال میں دو مقصد نہیں ، اور وہ مالی عبادت : زکوٰۃ ہے ، اور صدقة الفطر اور نفلی صدقات اسی لائن کی چیزیں ہیں ۔

حج بدنی عبادت ہے ، یا مالی ؟

       
امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : حج بدنی عبادت ہے ، اور ائمۂ ثلاثہ کہتے ہیں : حج مال اور بدن سے مرکب ہے ، چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر وہ شخص جس کو استطاعتِ بدنی حاصل ہے ، یعنی وہ مکہ مکرمہ چل کر پہنچ سکتا ہے ، اس پر حج فرض ہے ، زاد و راحلہ شرط نہیں ، مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً  میں امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ استطاعت سے استطاعتِ بدنی مراد لیتے ہیں ، اور دیگر ائمہ کے نزدیک استطاعتِ بدنی بھی ضروری ہے ، اور ساتھ میں سواری بھی موجود ہونی ضروری ہے ، جو مکہ مکرمہ تک لےکر جائے ، اور اتنا خرچہ بھی پاس ہو ، جو پیچھے فیملی کو دے کر جائے ، اور واپس آنے تک وہ چلتا رہے ، تب اس پر حج فرض ہوگا ، اور ان کی دلیل ایک روایت ہے ، جس کو امام مالک ضعیف قرار دیتے ، حضور اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : مَا یُوْجِبُ الحَجَّ ؟ حج کو کیا چیزی واجب کرتی ہے ؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : الزَّادُ وَ الرَّاحِلَةُ ، زاد و راحلہ واجب کرتے ہیں ۔

       
امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ حدیث ، ضعیف ہونے کی وجہ سے نہیں لی ، مگر دوسرے ائمہ کہتے ہیں : ہمیں حدیث شریف سے کوئی حکم ثابت نہیں کرنا ، صرف قرآن کریم کی آیت  ‌‌"‌‌مَن اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً ‌‌"‌‌ کی تفسیر کرنی ہے ، اور آیت کی تفسیر میں ضعیف حدیث کو لینے میں کوئی حرج نہیں ، باقی ائمہ اس حدیث شریف سے کوئی حکم ثابت نہیں کرتے ، وہ اس حدیث شریف کو سامنے رکھ کر صرف اتنا کہتے ہیں کہ مَن اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً میں صرف استطاعتِ بدنی مراد نہیں ، استطاعتِ مالی بھی مراد ہے ، خیر امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حج ، صرف بدنی عبادت ہے ، دیگر ائمہ کے نزدیک بدن اور مال دونوں سے مرکب ہے ۔

       
میں عرض یہ کر رہا تھا ، کہ اللہ تعالیٰ نے بدنی عبادتیں دو رکھی ہیں ، اور مالی عبادت ایک رکھی ہے ، ایسا کیوں ؟ بدنی عبادتیں دو اس وجہ سے ہیں ، کہ روح میں دو صفتیں ہیں ، دونوں صفتوں کےلئے دو عبادتیں چاہئیں ، ایک سے ملکیت بڑھے گی ، اور دوسری سے بہیمیت پر کنٹرول ہوگا ، اور چونکی مال میں ایسی دو صفتیں نہیں ، اس لئے عبادتِ مالی ایک ہی رکھی ۔

زکوٰۃ عام مال میں ہے ، خاص مال میں نہیں :

       
مالی عبادت میں شریعت نے کئی باتوں کا لحاظ کیا ہے
:

       
ایک : یہ کہ جو اموال عام طور پر جمہور کے پاس ہوتے ہیں ، انہی میں زکوٰۃ رکھی ہے ، مخصوص آدمیوں کے پاس جو مال ہوتا ہے ، اس میں زکوٰۃ نہیں رکھی ، بکریاں ، گائے ، بھینس ، اونٹ جہاں لوگ پالتے ہیں ، سبھی پالتے ہیں ، جب گولڈ اور سلور کرنسی تھی ، تو ہر آدمی کے پاس تھی ، اور ہیرے جواہرات بنیوں کے پاس ہی ہوتے ہیں ، ہم ستر سال کے ہوگئے ، ہم نے ہیرے کی شکل بھی نہیں دیکھی ، ہیرے بڑے مہنگے ہوتے ہیں ، اس لئے ان میں زکوٰۃ نہیں ، زکوٰۃ جو شریعت نے فرض کی ہے ، اس میں اس کا لحاظ کیا ہے ، کہ وہ اموال جو عام طور پر لوگوں کے پاس پائے جاتے ہوں ، ان میں زکوٰۃ فرض کی ، مخصوص لوگوں کے پاس جو اموال ہوتے ہیں ، ان میں زکوٰۃ نہیں ۔

زکوٰۃ میں غناء کا لحاظ ہے :

       
دوم : زکوٰۃ فرض کرتے وقت غناء ( بےنیازی ) کا لحاظ رکھا گیا ہے ، جس مال کی آدمی کو ضرورت نہیں ، اسی میں زکوٰۃ رکھی ہے ، اور جو مال ضرورت میں مشغول ہے ، اس میں زکوٰۃ نہیں رکھی ، شریعت نے یہ طے کیا ہے ، کہ جو قابلِ زکوٰۃ اموال ہیں ، ان میں ایک معتدبہ مقدار ( نصاب ) ہونی چاھئے ، جیب میں صرف دس ڈالر ہونے سے بےنیازی نہیں پائی جاتی ، پھر وہ نصاب سال بھر اس کے پاس رہے ، معلوم ہوا کہ اس کی ضرورت سے زائد ہے ، اور ضرورت سے زائد ہونے کا نام غناء  ( بےنیازی ) ہے ، یہی مالداری ہے ، صبح کو لاکھ دو لاکھ آئے ، شام کو خرچ ہوگئے ، تو اس کا نام بےنیازی نہیں ہے

زکوٰۃ اصل مال میں نہیں ، بڑھے ہوئے مال میں ہے :

       
سوم : شریعت نے مال میں جو بڑھوتری ہوتی ہے ، اس میں زکوٰۃ واجب کی ہے ، اصل مال میں زکوٰۃ واجب نہیں کی ، ایک آدمی کے پاس چالیس بکریاں ہیں ، وہ ایک سال تک اس کی ملکیت میں رہیں ، تو سال بھر میں پندرہ بیس بچے پیدا ہوجائیں گے ، اب شریعت کہتی ہے ، کہ جب سال پورا ہوجائے ، تو ایک بکری زکوٰۃ میں دو ، بیس بکریاں بڑھ گئیں ، تو اگر شریعت نے ایک بکری لے لی ، تو کیا پریشانی کھڑی ہوئی ؟ چالیس بکریاں آتے ہی فورا ایک بکری نہیں لی ، سال پورا ہونے پر لی ہے ، یہی حال گایوں بھینسوں کا ہے ، غرض شریعت نے زکوٰۃ ، زائد اموال میں رکھی ہے ، اصل مال میں زکوٰۃ نہیں رکھی ۔

       
پھر اس میں یہ بھی شرط ہے کہ جانور سائمہ ہوں ، یعنی سال کا اکثر حصہ جنگل کی مباح گھاس چرتے ہوں ، تو زکوٰۃ ہے ، اور اگر کوئی اپنے کھیت میں گھاس اگاکر جانوروں کو کھلائے ، یا چارہ خرید کر جانوروں کو کھلائے ( یعنی جانور علوفہ ہوں ) تو زکوٰۃ نہیں ، اسی طرح عوامل یعنی وہ جانور جو سواری میں ، ہل جوتنے میں ، گاڑی وغیرہ کھینچنے میں استعمال ہوتے ہیں ، ان میں بھی زکوٰۃ نہیں رکھی ، یہ عوامل اگر مادہ ہوں ، تب بھی ان میں زکوٰۃ نہیں ، اسی طرح اگر سب جانور نابالغ ( بچے ) ہوں ، تو بھی ان میں زکوٰۃ نہیں ، کیونکہ وہ بچے نہیں دیں گے ، اس لئے بڑھوتری نہیں ہوسکتی ۔

       
سوال : جانور تو بچے دیتے ہیں ، لیکن گولڈ اور کرنسی کہاں بچے دیتے ہیں ؟ مالِ تجارت بےشک بڑھتا ہے ، مگر مذکورہ تین چیزیں نہیں بڑھتیں ، پھر ان میں زکوٰۃ کیوں ؟

       
جواب : شریعت نے ان میں نمو تقدیری مانا ہے ، یعنی بڑھوتری فرض کرلی ہے ، کیونکہ سونا ، چاندی اور کرنسی کاروبار میں لگانے کی چیزیں ہیں ، اب اگر کوئی بینگ یا تجوری میں رکھے رہے ، تو یہ اس کی کوتاہی ہے ، گولڈ ، سلور اور کرنسی ، کاروبار میں لگاکر بڑھانے کےلئے ہیں ۔

جو اموال گردش میں رہتے ہیں ، ان میں زکوٰۃ کم رکھی ہے :

       
چہارم : پر شریعت نے ایک لحاظ یہ بھی کیا ہے ، کہ جو اموال گردش میں رہتے ہیں ، ان میں زکوٰۃ کم رکھی ہے ، اور جو گردش میں نہیں رہتے ، ان میں نسبتا زکوٰۃ زیادہ رکھی ہے ، کھیت میں دس من پیداوار ہو ، تو ایک من عشر واجب ہوگا ، یعنی دس فیصد ، اور گولڈ ، سلور ، کرنسی اور اموالِ تجارت میں چالیس فیصد زکوٰۃ ہے ، کیونکہ زمین میں سال میں ایک دو مرتبہ پیداوار ہوتی ہے ، اس لئے اس میں زکوٰۃ زیادہ رکھی ، اور گولڈ وغیرہ اموال گردش میں رہتے ہیں ، اس لئے ان میں زکوٰۃ کم رکھی ، تاکہ لوگوں پر ، زکوٰۃ ادا کرنے میں زیادہ بوجھ نہ پڑے ۔

سونا ، چاندی اور اموالِ تجارت کا نصاب :

       
اگر کسی کے پاس صرف چاندی ہو ، تو اس کا نصاب چھ سو بارہ گرام چاندی ہے ، یہ دو سو درہم کا وزن ہے ، یہی ساڑھے باون تولہ ہے ، اور اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو ، تو ایک رائے یہ ہے کہ سونا ، چاندی پر محمول ہے ، یعنی چھ سو بارہ گرام چاندی کی قیمت کے بقدر سونا ہو ، تو وہ صاحبِ نصاب ہے ، پس سونے کا کوئی مستقل نصاب نہیں ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی یہی رائے ہے ، اور متقدمین میں سے ، کئی حضرات کی یہی رائے تھی ، اور حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں دس ایک کا حساب تھا ، ایک دینار کے دس درہم آتے تھے ، حدیثوں میں جو بیس دینار آئے ہیں ، وہ دو سو درہم کی قیمت تھی ، بعد میں یہ حساب بدل گیا ، چاندی بہت نیچے آگئی ، اور سونا بہت اوپر چلاگیا ، پس آج بھی چاندی کے نصاب کا اعتبار ہوگا ۔

       
لیکن چاروں مذہب میں فتویٰ اس پر ہے ، کہ چاندی کا نصاب الگ ہے ، اور سونے کا نصاب الگ ہے ، ساڑھے سات تولے ( بیس مثقال ) یعنی ستاسی گرام ، پوئنٹ پندرہ ( 87.15 ) سونے کا نصاب ہے ، اور اس سلسلہ میں تین حدیثیں ہیں ، اور تینوں میں ضعف ہے ، مگر تینوں مل کر قوی ہوجاتی ہیں ۔

مخلوط اموال کا نصاب :

       
اور اگر تھوڑی چاندی اور تھوڑا سونا ہو ، یا ساتھ میں کرنسی ہو ، تو چاندی کے نصاب کا اعتبار ہے ، چاندی کی قیمت بازار میں پوچھ کر کاغذ پر لکھو ، سونے کی قیمت پوچھ کر اس کو بھی کاغذ پر لکھو ، اور کرنسی کو بھی ملاؤ ، پھر اگر ٹوٹل : چاندی کے نصاب ( چھ سو بارہ گرام ) کی قیمت کے بقدر ہوجائے ، تو زکوٰۃ واجب ہے ، غرض ایسی صورت میں چاندی کے نصاب کا اعتبار ہوگا ، سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں ہوگا ، کیونکہ وہی انفع للفقراء ہے ، فتویٰ چاروں ائمہ کے یہاں اسی پر ہے ۔

قیمتی کرنسی میں سونے کا اعتبار ہے ، یا چاندی کا ؟

       
جو ہیوی ( بھاری ) کرنسیاں ہیں ، میں ان میں سونے کے نصاب کا اعتبار کرتا ہوں ، پس جب بھاری کرنسی میں گولڈ کے نصاب کا اعتبار کرلیا ، تو اگر ٹوٹل ستاسی گرام ، پوئنٹ پندرہ کے بقدر ہوجائے ، اور اتنی مالیت پورے سال کسی کے پاس رہے ، تو زکوٰۃ واجب ہوگی ، میں چاندی کے نصاب کا اعتبار بھاری کرنسی میں نہیں کرتا ، کیونکہ وہ بےقدر مالیت ہوتی ہے ، اور بھاری کرنسیاں : پاؤنڈ ، ڈالر اور دینار ہیں ، لیکن فتویٰ چاروں ائمہ کے یہاں ، اس پر ہے کہ چاندی کے نصاب کا اعتبار ہے ۔

اموالِ زکوٰۃ کے نصابوں کی پانچ اجناس ، اور بڑا نصاب :

       
اموالِ زکوٰۃ کی پانچ اجناس ہیں ، اور وہ الگ الگ ہیں ، ایک کو دوسرے کے ساتھ نہیں ملائیں گے ، اور ہر جنس کا ایک نصاب طے کیا گیا ہے ، اور یہ بڑا نصاب کہلاتا ہے ، اس کے علاوہ ایک چھوٹا نصاب بھی ہے ، چھوٹے نصاب سے پانچ احکام متعلق ہیں ، اور بڑے نصاب سے چھ ۔

       
پہلی جنس : اگر کسی کے پاس اونٹ ہوں ، اور وہ جنگل کی مباح گھاس سال کا بیشتر حصہ کھاتے ہوں ( یعنی سائمہ ہوں ) تو ان کا نصاب پانچ اونٹ ہیں ، اس سے کم میں زکوٰۃ نہیں ۔

       
دوسری جنس : گائیں اور بھینسیں ایک ہی خاندان ہیں ، ان کا نصاب تیس ہے ، بشرطیکہ وہ سائمہ ہوں ، علوفہ نہ ہوں ، تیس سے کم میں زکوٰۃ نہیں ۔

       
تیسری جنس : بھیڑ بکریاں بھی ایک خاندان ہیں ، ان کا نصاب چالیس ہے ، بشرطیکہ وہ سائمہ ہوں ، چالیس سے کم میں زکوٰۃ نہیں ۔

       
چوتھی جنس : زمین کی پیداوار ہے ، اگر سینچائی پر خرچہ کیا گیا ہے ، یا محنت کی گئی ہے ، تو پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہے ، اور اگر سینچائی پر خرچہ نہیں کیا گیا ہے ، بارش سے پیداوار ہوئی ہے ، تو پیدوار کا دسواں حصہ واجب ہے ، اس کے علاوہ دوسرے خرچے : ہل جوتنا ، بیج ڈالنا ، کھاد ڈالنا وغیرہ وغیرہ نہیں دیکھے جائیں گے ، اس زکوٰۃ کو عشر کہتے ہیں ، اور یہ حکومت وصول کرتی ہے ، اور غریبوں پر خرچ کرتی ہے ۔

اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں کی زمینوں میں عشر کا مسئلہ :

       
ملک تین قسم کے ہیں ، ایک : اسلامی ملک ، دوسرا : وہ ملک جو کبھی اسلامی تھا ، پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا جیسے انڈیا ، تیسرا : وہ ملک جو کبھی بھی اسلامی ملک نہیں بنا ، جیسے آپ کا یہ ملک کناڈا ، ان سب کی زمینوں کے احکام الگ الگ ہیں ۔

       
وہ ملک جو اسلامی ہیں ، ان کی زمینیں دو قسم کی ہیں ، ایک : وہ ہیں جو قدرتی دریاؤں سے سینچی جاتی ہیں ، اورشروع سے زمین کے مالک مسلمان ہیں ، تو اس میں عشر ( دسواں حصہ ) واجب ہے ، اور اگر وہ زمینیں کنوؤں سے ، یا ٹیوب ویل سے سینچی جاتی ہیں ، تو اس میں بیسواں حصہ واجب ہے ، دوسری قسم : وہ زمینیں ہیں ، جو اگرچہ قدرتی دریاؤں سے سینچی گئی ہوں ، مگر وہ زمینیں پہلے غیر مسلموں کے پاس رہی ہیں ، ان کے پاس سے مسلمانوں کے پاس آئی ہیں ، تو ان میں عشر نہیں ہے ، بلکہ بیگہ ( خراج ) لیا جاتا ہے ، خراج حکومت لیتی ہے ، اور اس کا بڑا حصہ فوج پر ، اور ملک کی ترقی میں خرچ ہوتا ہے ۔

       
اور وہ ملک جو کبھی مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے ہیں ، پھر وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے ، جیسے انڈیا تو ایسے ملکوں کے بارے میں فتویٰ یہ ہے ، کہ چونکہ وہاں گورنمنٹ زمینوں سے بیگہ لیتی ہے ، اس لئے ان زمینوں میں عشر واجب نہیں ، کیونکہ دو مؤنتیں ( خرچ ) جمع نہیں ہوتیں ، البتہ مستحب یہ ہے ، کہ ان کا بھی عشر نکالا جائے ۔

       
تیسرے وہ ملک ہیں ، جو کبھی بھی اسلامی ملک نہیں بنے ، جیسے کناڈا ، اس میں بہ درجۂ اولیٰ عشر واجب نہیں ، جب انڈیا جیسے ملک میں عشر واجب نہیں ، تو اس تیسری قسم کے ملکوں میں عشر کیسے واجب ہوگا ؟ یہاں بھی صرف استحباب ہوگا ، بہرحال یہ جو زمین کا عشر لیا جاتا ہے ، وہ زکوٰۃ کے حکم میں ہے ، اور یہ ایک مستقل جنس ہے ۔

       
پانچویں جنس : میں چار چیزیں شامل ہیں ، اور چاروں مل کر ایک جنس ہیں ، سونا ، چاندی ، کرنسی اور اموالِ تجارت ، اگر صرف سونا ہے ، تو اس کا نصاب گذرچکا ، اگر صرف چاندی ہے ، تو اس کا نصاب بھی گذرچکا ، اگر صرف کرنسی یا اموالِ تجارت ہیں ، تو چاندی کے نصاب سے موازنہ کریں گے ، یا سونے کے نصاب سے ؟ مفتیوں کا فتویٰ یہ ہے ، کہ چاندی کے نصاب سے موازنہ کریں گے ، اور میں کہتا ہوں : جو بھاری کرنسیاں ہیں ، ان کو سونے کے نصاب سے موازنہ کریں گے ۔

       
اور اگر تھوڑا سونا ، تھوڑی چاندی ، تھوڑی کرنسی اور تھوڑا مالِ تجارت ہے ، تو سب کی قیمت لگائیں گے ، اگر چاندی یا سونے کے نصاب کے بقدر ہوجائے ، تو حولانِ حول پر زکوٰۃ واجب ہوگی ، یہ پانچ اجناس ہیں ، ان میں زمین کی پیداوار کو الگ کردیں ، باقی چار اجناس بڑا نصاب ہیں ، یہ قدرتِ مُیَسِّرَہْ والا نصاب ہے ۔

چھوٹا نصاب اور اس سے متعلق احکام :

       
اور ایک چھوٹا نصاب ہے ، یعنی قدرتِ ممکنہ والا نصاب ، اور وہ یہ ہے کہ انسان کی اپنی حاجاتِ اصلیہ میں جو چیزیں مشغول ہیں ، ان کو الگ کرلیا جائے ، اور جو چیزیں ضرورت سے زائد ہیں ، ان کی قیمت لگائی جائے ، اور وہ نصاب میں گنی جائیں ، جیسے اتنی زمین جس سے اس کی فیملی کا گذارہ چل سکے ، اس کی حاجت میں مشغول ہے ، اس سے زائد زمین قیمت لگاکر نصاب میں آئے گی ، اگر مکانات ہیں ، اور ان کے کرایوں سے اس کا گذارہ ہوتا ہے ، تو اتنے مکان جس سے اس کا ، اور اس کی فیملی کا گذارہ ہوسکے ، الگ کرلئے جائیں گے ، اس سے زائد جو مکان ہیں ، ان کی قیمت لگ کر نصاب میں آئے گی ، گھر میں برتن بھرے ہوئے ہیں ، مردوں یا عورتوں کے پاس بےحساب کپڑے ہیں ، پس جو برتن یا کپڑے ضرورت کے ہیں ، ان کو الگ کرلیا جائے گا ، باقی زائد کپڑے اور برتن قیمت لگاکر نصاب میں آئیں گے ، پھر چاندی کے نصاب کے بقدر ، یا سونے کے نصاب کے بقدر مالیت ہوجائے ، تو وہ چھوٹے نصاب کا مالک ہوگیا ہے ۔

       
چھوٹے نصاب سے پانچ احکام متعلق ہیں : 
اس پر قربانی واجب ہے
اس پر صدقۂ فطر واجب ہے 
اس کےلئے زکوٰۃ لینا حرام ہے ، وہ غنی ہے ، اس کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی 
اس پر حج فرض ہے ، اگر رقم حج کےلئے کافی ہو 
اس پر ددھیال اور ننھیال کے ایسے مرد یا عورت کا ، جو کمانے کے قابل نہیں ہیں ، اور غریب ہیں ، ان کا نفقہ واجب ہے ۔

       
اور جس کے پاس بڑا نصاب ہے ، یعنی پانچ اونٹ ، یا تیس گائیں بھینسیں ، یا چالیس بکریاں ، یا سونا چاندی کرنسی یا اموالِ تجارت کا نصاب ہے: اس پر چھ چیزیں واجب ہیں ، پانچ وہی ، اور چھٹی چیز : اس پر زکوٰۃ نکالنا فرض ہے ۔

تجارت کا مال کونسا ہے ؟

       
وہ چیز جسے خریدا گیا ہے بیچنے کی نیت سے:  وہ تجارت کا مال ہے ، اور اگر خریدتے وقت بیچنے کی نیت نہیں تھی ، تو وہ تجارت کا مال نہیں ، پھر وہ کیوں خریدی ہے ؟ خریدی تھی کرایہ پر دینے کےلئے ، اور اس سے پیسہ کمانے کےلئے ، تو یہ تجارت کی چیز نہیں ہے ، یا اس لئے خریدی تھی ، کہ بچے بڑے ہوں گے ، اور مکان کی ضرورت پڑےگی ، پس ان کے مکان اسی زمین میں بناویں گے ، اور اگر کوئی اچھی قیمت آئے گی ، تو فروخت بھی کردیں گے ، تو یہ بھی تجارت کی چیز نہیں ، یا ہمارے کھیت میں جو پیداوار ہوتی ہے ، اور وہ کھانے کی نہیں ہے ، جیسے کپاس ، سرسوں وغیرہ ، کسان لامحالہ اس کو بیچے گا ، یا کھانے کا اناج پیدا ہوتا ہے ، مگر تیس من ہم کھائیں گے ، اور پیداوار ہوئی ہے دو سو من ، پس باقی کسان بیچے گا ، مگر یہ بھی تجارت کا مال نہیں ، وہ جب تک رکھی رہے گی ، اس میں کوئی زکوٰۃ نہیں ، جب اسے بیچ دیں گے ، اور پیسہ بیلنس میں آجائےگا ، تو بیلنس پر جب سال پورا ہوگا ، تو اس نئے پیسے پر بھی بیلنس میں شامل ہوکر زکوٰۃ واجب ہوگی ، البتہ اکر کسی نے کپاس ، سرسوں اس لئے خریدا ہے ، کہ جب ریٹ بڑھیں گے ، بیچ دیں گے ، تو یہ تجارت کا مال ہے ، اسی طرح اگر مکان خریدا ہے ، کرایہ پر اٹھانے کےلئے ، بیچنے کےلئے نہیں خریدا ، ہاں اگر کبھی اچھے پیسے ملے ، تو بیچ بھی دیں گے ، تو اس مکان پر زکوٰۃ نہیں ، بلکہ اس کا کرایہ بیلنس میں جائےگا ، اور سال پورا ہونے پر کرایہ پر بیلنس میں شامل ہوکر زکوٰۃ آئے گی ۔

زکوٰۃ میں کونسا قرض منہا ، اور کونسا شامل ہوتا ہے ؟

       
جاننا چاھئے کہ زکوٰۃ کا حساب کرتے وقت بیلنس میں سے سب سے پہلے آپ قرضہ لیس ( منہا ) کریں گے ، پھر جو باقی بچے ، اس پر زکوٰۃ آئے گی ، اور قرض تین قسم کے ہیں :

       
قوی قرض : جو آپ کسی بھی وقت وصول کرسکتے ہیں ، یا آپ سے کسی بھی وقت مطالبہ کیا جاسکتا ہے ، یہ قرضِ حسنہ ہے ، یہ قرضہ اگر آپ کو لینا ہے ، تو بیلنس میں ایڈ ( شامل ) ہوگا ، اور اگر دینا ہے تو لیس ( منہا ) ہوگا ۔

       
ضعیف قرض : جیسے بیوی کے دو مہر ہوتے ہیں ، ایک کیش ( معجّل ) دوسرا ادھار ( مؤجل ) کیش مہر قوی قرض ہے ، وہ بہرحال دینا ہے ، لیکن جو ادھار مہر ہے ، وہ موت یا طلاق تک نہیں مانگا جاتا ، پس وہ کمزور قرض ہے ، لٰہذا عورت مہر کو اپنے بیلنس میں ایڈ نہیں کرے گی ، اور شوہر اپنے بیلنس سے لیس نہیں کرے گا ۔

       
اور آج اس کی بےشمار مثالیں پائی جاتی ہیں ، لوگ قسطوں پر گھر خریدتے ہیں ، مشین خریدتے ہیں ، پروپرٹی وغیرہ خریدتے ہیں ، پس جو قسط پک گئی ، وہ قوی قرض ہے ، اور جو قسطیں ابھی کچی ہیں ، وہ سب ضعیف قرضے ہیں ، وہ نہ لیس ہونگے ، نہ ایڈ ، کیونکہ وہ قسطیں ابھی مانگنے کا حق نہیں ، اور جو قسط پک گئی ، وہ کسی بھی وقت مانگی جاسکتی ہے ، وہ قوی قرضہ ہے ۔

مصنوعات اور خام مال کا حکم :

       
اس کے علاوہ ایک نئی شکل پروڈکشن کی نکلی ہے ، بڑے بڑے کارخانے ہوتے ہیں ، ان میں لاکھوں کا خام مال ہوتا ہے ، وہ خام مال بیچنے کےلئے نہیں ہوتا ، بلکہ مصنوعات اس سے تیار ہوتی ہیں ، پھر وہ مصنوعات بیچی جاتی ہے ، یا جیسے مرغی فارم میں مرغیاں انڈے دینے کےلئے ہوتی ہے ، بیچنے کےلئے نہیں ہوتیں ، یا بیچنے کےلئے ہوتی ہیں ، مگر جب ایک کلو کی ہوجائیں گی ، تب بکیں گی ، اس سے پہلے نہیں بکیں گی ، یہ سب پروڈکشن ہے ۔

       
اس بارے میں دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ یہ ہے ، کہ خام مال پر زکوٰۃ واجب ہے ، وہ فروختگی کا مال ہے ، لیکن میں خام مال کو تجارت کے مال میں نہیں شمار کرتا ، کیونکہ جیسے مشینوں میں ، زکوٰۃ واجب نہیں ، کیونکہ وہ ذرائع اور آلات ہیں ، ویسے ہی یہ خام مال بھی ذریعہ ہے ، پھر جب اس کی مصنوعات تیار ہوگئیں ، تو اب بھی ان پر زکوٰۃ نہیں ، جیسے آپ کے کھیت میں گیہوں پیدا ہوئے ، تو جب تک وہ بک نہ جائیں ، ان پر زکوٰۃ نہیں ، ایسے ہی کارخانے کا معاملہ ہے ، جو چیز تیار ہوئی ہے ، اس پر زکوٰۃ نہیں ، ہاں جب مال بک جائے ، تو اس کی قیمت بیلنس میں ایڈ ہوگی ، اور بیلنس پر جب سال پورا ہوگا ، تو اس پر بھی زکوٰۃ آئے گی ، لیکن دار الافتاء کے نزدیک یہ خام مال ، تجارتی مال ہے ، اس پر زکوٰۃ آئے گی ، لٰہذا اگر کوئی دار الافتاء کے فتوے پر عمل کرے ، تو اس میں احتیاط ہے ۔

       
متوسط قرض : کسی نے قرض لے رکھا ہے ، وہ انکار بھی نہیں کرتا ، اور دیتا بھی نہیں ، پس اگر ایسا قرض دینا ہے ، تو بیلنس میں سے لیس نہیں ہوگا ، دینا ہے تو دیدو ، اس کو روک کیوں رکھا ہے ، لینا ہے تو اس میں ہمارا اختیار نہیں ہے ، لٰہذا وہ فی الحال ایڈ نہیں ہوگا ، لیکن جب وصول ہوگا ، گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ دینی پڑے گی ۔

تجارتی مال میں اعتبار مارکیٹ ویلیو کا ہے ، یا خرید قیمت کا ، یا نفع کا ؟

       
سوال : تجارتی اموال میں کونسی قیمت کا اعتبار ہے ، خرید قیمت کا ، یا جو ہم بیچیں گے ، اس قیمت کا ، یا مارکیٹ ویلیو کا ؟

       
جواب : مارکیٹ ویلیو کا اعتبار ہے ، اور خریدی ہوئی قیمت ، اور مارکیٹ ویلیو عام طور پر ایک ہوتے ہیں ، اگر مدت لمبی نہیں ہوئی ، اور اگر مدت لمبی ہوگئی ، جیسے ایک پلاٹ خریدا ہے ، اور تین سال سے پڑا ہے ، تو اب مارکیٹ ویلیو بدلے گی ، گھٹ بھی سکتی ہے ، اور بڑھ بھی سکتی ہے ، لیکن اگر مال آج آیا ، اور مہینہ میں ہی بک گیا ، تو اس کی خرید قیمت ، اور مارکیٹ ویلی عام طور پر ایک ہوتی ہے ، اور جو نفع کے ساتھ بیچنا ہے ، جیسے ایک روپے کی چیز ڈیڑھ روپئے میں بکے گی ، تو اس نفع ( پچاس پیسے ) کا اعتبار زکوٰۃ کے باب میں نہیں ہے ، وہ نفع ہے ، جب ملے گا ، ملے گا ، اس کا ملنا کوئی ضروری نہیں ، ہوسکتا ہے اس سے پہلے چوری ہوجائے ، یا قیمت گھٹ جائے ، لٰہذا اگر مارکیٹ ویلیو ، اور خرید کا زمانہ قریب ہے ، تو وہاں تو دونوں ایک ہی ہوتے ہیں ، اور اگر زمانہ بعید ہوگیا ہے ، تو مارکیٹ ویلیو کا اعتبار ہوگا ، خرید کا اعتبار نہیں ۔ یہ چند ضروری مسائل ہیں ، جو میں نے آپ حضرات کے سامنے عرض کئے ۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن

0 comments: