!! اسلام - تغیر پذیر دنیا میں!!
مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم ،شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقل : عادل سعیدی پالن پوری
اسلام ایک آفاقی اور ابدی مذہب ہے ، رنگ و نسل ،یا خاص زمانہ ،یا خاص تہذیب کے ساتھ مقید نہیں ہے ،اور رسول اللہ ﷺ کی بعثت ،تمام انسانوں کےلئے ،اور قیامت تک کےلئے ہوئی ہے ،اور آپ ﷺ نے جو مذہب دنیائے انسانیت کو پہنچایا ہے ،وہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ۔
یہاں بعض ذہنوں میں یہ خلجان پیدا ہوتا ہے ،کہ جب دنیائے انسانیت مختلف تمدنوں کا گہوارہ ہے ،تو پھر کوئی مذہب آفاقی کیونکر ہوسکتا ہے ؟ کوئی مذہب بیک وقت تمام تمدنوں کی رعایت کیونکر کرسکتا ہے ؟نیز زمانہ کے بدلنے سے مصلحتیں بدلتی ہیں ،اور اسی وجہ سے شریعتوں میں نسخ و تبدیلی ہوتی رہی ہے ،پھر کوئی مذہب ابدی کیونکر ہوسکتا ہے ؟تغیرات سے فرار نہیں ،اور مصلحتوں کا شمار نہیں ،پھر کوئی واضعِ قانون سب مصلحتوں کی رعایت کیونکر کرسکتا ہے ؟
اس خلجان کا جواب یہ ہے کہ قانونِ اسلام کے واضع ،اللہ تعالیٰ ہیں ،جو حکیمِ کامل اور عالم الغیب ہیں ،ان کےلئے یہ بات ہر طرح ممکن ہے ،کہ وہ ایسے قوانین وضع فرمادیں ،جن میں قیامت تک کی تمام مصلحتوں کی رعایت ملحوظ ہو ،اور ایسے ہمہ گیر اصول بیان فرمادیں ،جو ہر تمدن کی نوک پلک درست کرسکیں ۔
قرآن کریم میں صرف اصول بیان کئے گئے ہیں:
چنانچہ قرآن کریم میں صرف اصول بیان کئے گئے ہیں ،اور احادیث شریفہ میں بھی بالعموم اصول ہی بیان ہوئے ہیں ،جزئیات کو اصول کے دامن میں سمیٹ لیا گیا ہے ،قرآن کریم میں اگر کوئی جزئی حکم بیان ہوا ہے ،تو وہ جزئی ہونے کی حیثیت سے بیان نہیں ہوا ،بلکہ وہ اپنے جلو میں کوئی کلی اصول رکھتا ہے ،مثلاﹰ: نواقضِ وضو بیان فرماتے ہوئے ،قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے: أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ ،یا تم نشیبی جگہ ( بیت الخلاء ) جاکر آؤ ( تو وضو ٹوٹ جائےگا ) اس جزئی حکم سے فقہائے کرام نے ،ایک کلی اصول اخذ فرمایا ہے ،امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے وضو ٹوٹنے کےلئے "سبیلین سے نجاست نکلنے " کا ،اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے " بدن سے نجاست نکل کر بہہ جانے " کا اصول اخذ فرمایا ہے ،پھر اسی پر تمام نواقضِ وضو کی تفریع فرمائی ہے ۔
اسی طرح جزئی اور خصوصی واقعات کے سلسلے میں بھی جو آیات نازل ہوئی ہیں ،وہ عمومی پیرایۂ بیان لئے ہوئے ہیں ،مثلاﹰ: اٹھائیسویں پارے کی ابتدائی چار آیتیں مُجَادِلَةٌ ( جھگڑانے والی ایک عورت ) کے حق میں نازل ہوئی ہیں ،مگر پہلی آیت کے بعد ہی پیرایۂ بیان عمومی ہوگیا ہے ،اس وجہ سے ظہار کا حکم تمام امت کےلئے عام ہے ،اور اسی وجہ سے اصولِ فقہ کا ضابطہ ہے: العبرة لعموم اللفظ ،لا لخصوص المورد ( یعنی جزئی واقعہ پر انحصار نہیں کیا جائےگا ،جو کہ آیت کا شانِ نزول ہے ،بلکہ نص کا عمومی پیرایۂ بیان معتبر ہوگا ) بشرطیکہ نص کا حکم اختصاصی نہ ہو ،مثلاﹰ: حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تنہا شہادت مقبول ہونا ،ایک مخصوص حکم ہے ،جس پر کسی دوسرے کو قیاس نہیں کیا جائےگا ۔
نصوص علتوں پر مشتمل ہیں:
محققین علماء کا فیصلہ ہے کہ تمام نصوص معلل بعلت ہیں ،خواہ نص میں علت مذکور ہو ،یا نہ ہو ،اور خواہ علت کا ادراک کرلیا گیا ہو ،یا اب تک نہ کیا جاسکا ہو ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب "آبِ حیات " کا آغاز اسی اہم مسئلہ سے کیا ہے ،یعنی قرآن کریم اور احادیثِ شریفہ میں ،جو بھی حکم مذکور ہے ،اس کی کوئی علت ضرور ہے ،اور یہ بات تسلیم کرلینے کے بعد کوئی جزئی حکم ،جزئی باقی ہی کب رہ سکتا ہے ؟ لامحالہ وہ کلی اصول کی حیثیت اختیار کرلے گا ،جس پر دوسری بےشمار جزئیات متفرع ہوسکیں گی ،البتہ اگر حکم کی استثنائی صورت ہو ،مثلاﹰ: روزے کی حالت میں بھول کر کھانے پینے سے روزے کا نہ ٹوٹنا ،یا حکم اختصاصی ہو ،تو اس نص کی علت دوسرے حکم کی طرف منتقل نہ ہوگی ،یعنی اس علت کو مدار بناکر ،اس پر دوسرے مسائل کو قیاس کرنا صحیح نہ ہوگا ،لیکن جہاں اس قسم کا کوئی مانع نہ ہو ،وہاں قیاس صحیح ہے ،مثلاﹰ: حدیث شریف میں چھ چیزیں گن کر فرمایا گیا ہے ، کہ ان کی خرید و فروخت دست بدست ،اور برابر برابر ہونی چاھئے ،کمی بیشی اور ادھار سود ہے ،فقہائے کرام نے اس حکم کی علت دریافت کی ،امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ اقتیات و ادخار کو ،امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے طعم و ثمنیت کو ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے قدر مع الجنس کو علت قرار دیا [ اقتیات: خوراک بنانا ۔ ادخار: وقتِ ضرورت کےلئے چھپا رکھنا ۔ طعم: کھانا ۔ ثمنیت: قیمت ہونا ۔ قدر: ناپننے یا تولنے کی چیز ہونا ۔ جنس: ہم جنس ہونا ] علت معلوم ہوجانے کے بعد اس جزئی حکم نے کلی اصل کی حیثیت اختیار کرلی ،چنانچہ فقہاء نے دوسری بہت سی انواع میں بھی یہ حکم جاری کردیا ۔
علت معلوم کرنے کا طریقہ:
لیکن احکام کی علتیں اپنی رائے سے تراشنا ،اور ان کے وجود و عدم پر احکام کے وجود و عدم کو دائر سمجھنا ،اور اس کے نتیجہ میں احکامِ منصوصہ میں تصرف کرنا جائز نہیں ،مثلاﹰ: بعض لوگوں نے وضو کی علت " تنظیف " قرار دی ،اور جب اپنے کو نظیف دیکھا ،تو وضو کی حاجت نہ سمجھی ، اور بےوضو نماز شروع کردی ، بعض نے نماز کی علت "تہذیبِ اخلاق " قرار دی ، اور تعلیم کو تہذیبِ اخلاق کےلئے کافی سمجھ کر نماز اڑا دی ، اسی طرح روزے کی علت "قوتِ بھیمیہ کی تعدیل " قرار دی ، زکوٰۃ کی علت "تمدنی اجتماع اور تجارتی ترقی " قرار دی ، تلاوتِ قرآن کریم کی علت "مضامین سے واقف ہونا " اور دعا کی علت "نفس کی تسلی " اور اعلائے کلمة اللہ کی علت "امن و آزادی" قرار دی ، پھر جب ان مصالح کی ضرورت نہ سمجھی ، یا یہ مزعومہ مصالح کسی اور ذریعہ سے حاصل ہوتے نظر آئے ، تو احکامِ شریعت کو لایعنی قرار دیدیا ، بلکہ جب نفس کو یہ کمزور سہارا مل گیا ، تو پھر مصالح کا انتظار بھی نہ کیا ، اور احکامِ شرعیہ کو چھوڑ کر بالکل ہی معطل ہو بیٹھے [ تفصیل کےلئے دیکھئے: الانتباھات المفیدة عن الاشتباھات الجدیدة ،صفحہ نمبر ٦٨ ] ۔
غرض اپنی رائے سے نصوص کی علتیں دریافت نہیں کی جاسکتیں ، ورنہ سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائےگا ، بلکہ حقیقی علت کے ادراک کےلئے تین تنقیحات سے کام لیا جاتا ہے ،جو مندرجۂ ذیل ہیں:
❶ تخریجِ مناط ❷ تنقیحِ مناط ❸ تحقیقِ مناط
مناط کے معنیٰ "علت" یا اس "وصف" کے ہیں ،جس پر حکم کا مدار ہے ، یا جو حکم کا باعث ہے ۔
مجتہد سب سے پہلے نص میں سے امکانی اوصاف کی تخریج کرتا ہے ، یہ تخریجِ مناط ہے ،پھر ان اوصاف کی تنقیح کرتا ہے ،کہ ان میں سے حقیقی سبب اور مؤثر وصف کونسا ہے ، اور غیر حقیقی کونسا ہے ؟ یہ تنقیحِ مناط ہے ، پھر جو وصف غیر حقیقی ثابت ہوتا ہے ،اسے ترک کردیتا ہے ، اور حقیقی وصف کو لے کر اس پر مسائل کی تفریع کرتا ہے ، اور اسی تفریعِ مسائل کا نام ، یعنی جہاں جہاں علت پائی جائے ، وہاں وہں حکم ثابت کرنے کا نام تحقیقِ مناط ہے ۔
تخریجِ مناط کا کام آسان ہے ،نیز تحقیقِ مناط میں بھی زیادہ دشواری نہیں ، البتہ تنقیحِ مناط کا کام نہایت مشکل کام ہے ، یعنی یہ پتہ چلانا ، کہ حکم کے امکانی اوصاف میں سے حقیقی سبب ،مؤثر وصف ، اور علت کون ہے ؟ مجتہدین میں جو اختلاف ہوتے ہیں ،وہ عموماً اسی تنقیحِ مناط کی وجہ سے ہوتے ہیں ، کیونکہ مجتہدین کے تنقیحِ مناط کے اصول مختلف ہیں ، احناف کے یہاں وصف کا مؤثر ہونا شرط ہے ، تاثیر کے بغیر وہ کسی علت کو علت تسلیم ہی نہیں کرتے ،تاثیر کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت میں ،یا اجماع سے اس علت کا مؤثر ہونا ثابت ہوا ہو ، مثلاﹰ: بدن سے نجاست نکل کر بہہ جانا ، نقضِ طہارت کی علت ہے ، اور کتاب اللہ میں اس کا اثر ظاہر ہوا ہے ، اسی طرح طواف ، عدمِ نجاست کی علت ہے ، جس کا اثر سنت میں ، یعنی سورِ ہرہ کے مسئلہ میں ظاہر ہوا ہے ، اسی طرح تیسری بار چور کا ہاتھ نہ کاٹنے کی علت "اتلاف" ہے ،کیونکہ اس میں جنسِ منفعت کا علیٰ وجہ الکمال فوت کرنا ہے ، جس کا اثر اجماع سے ظاہر ہوچکا ہے ،غرض احناف کے یہاں علت کا مؤثر ہونا ضروری ہے ، مگر شوافع کے یہاں اِخَالہ بھی کافی ہے ، اخالہ کہتے ہیں ، مجتہد کے گمان کو ، یعنی ان کے یہاں مجتہد کا کسی علت کے بارے میں علت ہونے کا گمان کافی ہے ، اگرچہ اس کا اثر کہیں ظاہر نہ ہوا ہو ، اور ظاہر ہے کہ مجتہد کے گمان میں غلطی کا امکان زیادہ ہے ، اور تاثیر ظاہر ہونے کے بعد غلطی کا امکان درجۂ صفر کو پہنچ جاتا ہے ۔
اسلام مختلف تمدنوں میں:
الغرض اسلامی اصول میں ہمہ گیری کی صفت ہے ، جو اس کی ابدیت اور آفاقیت کےلئے ناگزیر ہے ، اصول کی ہمہ گیری کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے اصول ، ہر تہذیب میں جاری ہوسکتے ہیں ، اور وہ ہر نئی چیز کی نوک پلک درست کرسکتے ہیں ، حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حجة اللہ البالغہ ، مبحثِ ششم ، باب ٢١ میں "عہدِ جاہلیت ، اور رسول اللہ ﷺ کی اصطلاحات " کے عنوان کے تحت یہ نکتہ واضح فرمایا ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے عربوں کو بالکل نئی شریعت ، اور نئے تمدن سے روشناس نہیں کیا تھا ، بلکہ ان میں جو تمدن رائج تھا ، اسی کی اصلاح فرمائی تھی ، یعنی اسکی کجی کو درست کیا تھا ، اور فاسد و باطل امور کی اصلاح فرمائی تھی ، شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں: " آنحضورﷺ نے ان کی شریعت پر نظر ڈالی ، اور غور و تدبر فرمایا ، جو امور حضرت اسماعیل علیہ الاسلام کے منہاج و طریقہ کے موافق نظر آیا ، یا جو امورِ شعائرِ الٰہیہ میں سے تھے ، ان کو آپ ﷺ نے اس کی اصلی حالت پر باقی رکھا ، اور جو امور تحریف شدہ ، یا فاسد اور فساد پیدا کرنے والے تھے ، یا شرک و کفر کے شعائر تھے ، ان کو آپ ﷺ نے پوری قوت سے نابود کردیا ، اور ان کے بطلان پر مہر ثبت کردی ، اور جن امور کا تعلق عادات و اطوار سے تھا ، ان کے آداب و مکروہات وغیرہ بیان فرمائے ، تاکہ ناپاک رسوم ، اور باطل رواجات کے غوائل ، اور نجاستوں سے لوگوں کو پاک کردیں ، فاسد اور باطل رسوم سے آپ ﷺ نے لوگوں کو منع فرمادیا ، اور صالح و پسند کی پابندی کا حکم فرمایا ، اور وہ مسائل اور وہ امور جو اصلی اور حقیقی اور عملی تھے ، مگر زمانۂ فترت میں سلسلۂ نبوت کے عرصۂ دراز سے موقوف ہونے کی وجہ سے متروک ہوگئے تھے ، ان کو آپ ﷺ نے زندہ ،سرسبز و شاداب ، اور تروتازہ کیا ، اور ان کو اصلی حالت پر لے آئے ، چنانچہ اس طرح انعامِ الٰہی کی تکمیل ہوگئی ، اور آپ ﷺ نے اپنا دین نہایت مضبوط و مستحکم بنیادوں پر قائم کردیا " ۔
اس نکتہ کا حاصل یہ ہے کہ اسلام ، جس تمدن میں قدم رکھتا ہے ، اس کو ہٹا نہیں دیتا ، بلکہ اسے سنوار دیتا ہے ، یعنی اسلام کے اس تمدن میں داخل ہونے کے بعد ، اس تمدن کی برائیوں کو ، یا تو سنور جانا ہوگا ، یا مٹ جانا ہوگا ، کوئی تیسری صورت ممکن نہیں ، اور اس تمدن کی جو صالح اور مفید چیزیں ہوتی ہیں ، ان کو اسلام اپنا لیتا ہے ، فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ( سورة الرعد آیت نمبر ١٧ ) میل کچیل تو پھینک دیا جاتا ہے ، اور جو چیز لوگوں کےلئے کارآمد ہوتی ہے ، وہ دنیا میں باقی رہتی ہے ۔
غرض رسول اللہ ﷺ نے دنیائے انسانیت کو مذہب اسلام پہنچایا ، اور ایک معاشرہ کی خود تہذیب کرکے دکھلادی ، جس پر آپ ﷺ کا کام اختتام پذير ہوا ، اور دنیا کی دوسری تہذیبوں کی اصلاح کی ذمہ داری امت کے سر ڈالی گئی ، سورة الجمعہ میں رسول اللہ ﷺ کی امت کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، ایک حصہ وہ ہے ، جس میں آپ ﷺ براہِ راست مبعوث ہوئے ہیں ، اور جس کی اصلاح کی ذمہ داری آپ ﷺ پر ہے ، اور دوسرا حصہ وہ ہے ، جس کی طرف آپ ﷺ کی بعثت امت کے پہلے گروہ کے واسطے سے ہوئی ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ۞ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۞ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ، " اللہ پاک وہی ہیں ، جنہوں نے ناخواندہ لوگوں میں ، انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا ، جو ان کو اللہ پاک کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں ، اور عمل کرکے بھی دکھاتے ہیں ، اور ان کو اخلاقِ رذیلہ سے پاک کرکے اخلاقِ حمیدہ سے مزین کرتے ہیں ، اور ان کو کتاب اللہ اور حکمت سکھاتے ہیں ، اور دوسرے لوگوں میں بھی ( آپ کو مبعوث فرمایا ) جو اب تک ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں ( لیکن ہونے جارہے ہیں ) اور اللہ پاک زبردست حکمت والے ہیں ، یہ فضلِ الٰہی ہے ، جس کو چاھتے ہیں ، اسی کو دیتے ہیں ، اور اللہ تعالٰی بڑے فضل والے ہیں " ان آیات میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے چار مقاصد بیان کئے گئے ہیں ، اور امت کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
مقاصدِ بعثت:
❶ تلاوتِ آیات: تلاوت کے معنیٰ ہیں ، کسی کے کلام کو ذہن نشین کرنا ، اور وجوباً اس کی اتباع کرنا ، اسی لئے تَلَوْتُ رُقْعَتَکَ ( میں نے آپ کے خط کی تلاوت کی ) کہنا صحیح نہیں ہے ، الحاصل : تلاوت ،قرأت سے خاص ہے ، جو صرف آسمانی کتابوں کےلئے استعمال ہوتا ہے ، اور تَلَیٰ علیہ کے معنیٰ ہیں: خود اس نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو ذہن نشین کیا ، پھر اوروں کو وہ کلام پڑھ کر سنایا ، اور اس کے موجبات پر عمل کرکے بھی دکھایا ، پس یہ رسول کی پہلی ذمہ داری ہے ، اور وہ اسی کےلئے مبعوث ہوتے ہیں ، کہ اللہ تعالیٰ کا کلام لوگوں تک پہنچائیں ، اور عملی نمونہ بھی پیش فرمائیں ، اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ① محض قرآن کریم پڑھ لینا کافی نہیں ، بلکہ رسول سے جو طرزِ ادا منقول ہے ، اس کو حاصل کرنا بھی ضروری ہے ۔ ② اور جس طرح رسول اللہﷺ نے کلامِ الٰہی پر عمل کرکے دکھایا ہے ، اسی کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے ، اپنی طرف سے کلامِ الٰہی پر عمل پیرا ہونے کے طور و طریق متعین نہیں کئے جاسکتے ۔
❷ تزکیہ: تزکیہ نام ہے ، اخلاقِ رزیلہ سے پاک کرکے ، اخلاقِ حمیدہ اور اوصافِ فاضلہ سے مزین کرنے کا ، یہ رسول کا دوسرا کام ہے ۔
❸ الکتاب کی تعلیم دینا: یعنی جو منصوص مسائل ہیں ، ان کی تفہیم ، اور ان کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا حل پیش کرنا ، رسول کی تیسری ذمہ داری ہے ۔
❹ حکمت کی تعلیم: یعنی آیاتِ الٰہی سے جو مسائل ثابت ہوتے ہیں ، ان کی علتیں سمجھانا ، رسول کی ذمہ داری ہے ، کیونکہ امت جب احکام کی علتیں ذہن نشین کرلے گی ، تو استنباطِ مسائل میں اسے کسی دشواری سے دوچار نہیں ہونا پڑے گا ، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا ، کہ اگر کوئی شخص حقیقی علت کا ادراک کرلے ، تو اس کےلئے مسائل کا استنباط سہل ہوجائےگا ۔
امت کی قسمیں:
ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوا ، کہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت تمام دنیا کے انسانوں کےلئے ہوئی ہے ، مگر امیوں ( ناخواندہ عربوں ) کےلئے بلاواسطہ ہوئی ہے ، اور باقی انسانوں کےلئے بالواسطہ ہوئی ہے ، کیونکہ عطف فی الجملہ مغائرت کو چاہتا ہے ، اور تاریخ کا ہر طالبِ علم جانتا ہے ، کہ اُس وقت کی دنیا میں بگاڑ اور تمدنی خرابیوں کے اعتبار سے عرب ، اول نمبر پر تھے ، ان کی اصلاح کا کام سب سے زیادہ دشوار ، اور کٹھن تھا ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کی ذمہ داری ، تو رسول اللہ ﷺ پر ڈالی ، اور باقی دنیا ، جو متمدن دنیا سمجھی جاتی تھی ، اس کی اصلاح عربوں کے ذریعہ عمل میں لائی گئی ، رسول اللہ ﷺ نے تیئیس سال محنت کرکے اپنی ذمہ داری پوری کی ، اور اس دنیا سے تشریف لے گئے ، آپ ﷺ کے بعد جب اسلام کا دائرہ وسیع ہوا ، اور اسلام کو دنیا کے مختلف تمدنوں سے واسطہ پیش آیا ، تو علمائے امت نے ٹھیک حضور اکرم ﷺ والے منہاج کو اپناتے ہوئے ، ان تمدنوں کی بھی اصلاح کی ، ان کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی ۔
اسلام تغیر پذیر دنیا میں:
اسی طرح ادوار بدلتے رہے ، زمانہ کروٹیں لیتا رہا ، اور نئی نئی چیزیں وجود پذیر ہوتی رہیں ، مگر کسی زمانہ میں اصولِ اسلام کی تطبیق میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ، کیونکہ اسلامی اصول میں ہمہ گیری کی صفت تھی ، اس نے ہر نئی چیز کو اپنایا ، بشرطیکہ وہ صالح اور معاشرہ کےلئے مفید ہو ، اور اگر کسی چیز میں مفاسد کی آمیزش تھی ، تو اسلام نے اس کی تنقیح و تہذیب کی ، اور جو چیز ایسی وجود میں آگئی ، جو سرتاپا غلط تھی ، تو اسلام نے اسے رد کردیا ، اور معاشرہ کے صحن کو اس چیز کی گندگی سے پاک کردیا ، کیونکہ اسلام کو جہاں بھی پاؤں جمانے کا موقع ملتا ہے ، وہاں برائیوں کو یا تو سنور جانا پڑتا ہے ، یا اپنی موت مرجانا ہوتا ہے ، کیونکہ اسلام کے اصولوں میں کسی قسم کی لچک نہیں ہے ، کہ وہ ہر ٹیڑھی چیز کے ساتھ خمیدہ ہوجائیں ، بلکہ وہ ایک پختہ معیار ہیں ، جن کے مطابق کرکے ہر ٹیڑھی چیز کو سیدھا کرلیا جاتا ہے ، آج بھی اسلام کو ایک تغیر پذیر دنیا سے واسطہ ہے ، مگر اصولِ اسلام کی ہمہ گیری آج بھی اسلام کو اتنی ہی مطابقِ زمانہ بنائے ہوئے ہے ، جتنی ماضی میں بنائے ہوئے تھی ، کسی جگہ اگر دشواری پیش آرہی ہے ، تو اس کا تعلق اسلام اور اصولِ اسلام سے نہیں ہے ، بلکہ امتِ مسلمہ کے احوال سے ہے ۔
مشکلاتِ زمانہ:
❶ واقعاتِ زمانہ کو دیکھ کر شبہ کیا جاتا ہے ، کہ ہم اس وقت کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں ، کہ شریعت پر عمل پیرا ہونے سے کاروائی میں تنگی پیش آتی ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے ، کہ احکامِ اسلام اس زمانہ کے مطابق و مناسب نہیں ہیں ، لیکن انصاف کی بات یہ ہے ، کہ تنگیِ قانون کا شکوہ اس وقت تو صحیح ہوسکتا ہے ، جبکہ سب ہی اس پر عامل ہوں ، اور پھر کام اٹکنے لگیں ، لیکن یہ بات کوئی شخص ثابت نہیں کرسکتا ، اس وقت جو تنگی پیش آرہی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ قانونِ اسلامی کے مطابق عمل کرنے والے کم ہیں ، اور عمل نہ کرنے والے زیادہ ، اس لئے جب ان قلیلِ عاملین کو ان کثیرِ غیرِ عاملین سے سابقہ پڑتا ہے ، تو معاملات میں کشاکشی ہوتی ہے ، غرض اس تنگی کا مرجع تو ہمارا اپنا طرزِ معاشرت ہے ، نہ کہ شریعت کے احکام ، مثلاﹰ: طبیب مریض کو دس چیزیں کھانے کو بتاتا ہے ، مگر اس کے گاؤں میں ایک بھی نہیں ملتی ، تو یہ تنگی علمِ طب میں نہیں ہوئی ، بلکہ گاؤں کی تجارت میں ہوئی ۔
❷ کچھ لوگ کہتے ہیں ، کہ اسلام جو لاٹری ،قمار ،سود وغیرہ معاملات سے روکتا ہے ، تو اس سے ہمارے مفاد کو زد پہنچتی ہے ، اور تنگی پیش آتی ہے ، مگر ان حضرات کو سوچنا چاھئے ، کہ یہ کوئی واقعی تنگی نہیں ہے ، محض اپنے ذاتی ضرر سے تنگی کا شبہ ہوگیا ہے ، اور مصلحتِ عامہ کی رعایت سے ایسا ذاتی ضرر کون قانون ہے ، جس میں روا نہیں ہے ؟ ۔
❸ بعض دانشور کہتے ہیں ، کہ علماء موجودہ ہندوستان کی فقہی پوزیشن متعین نہیں کرتے ، اس وجہ سے معاملات میں دشواری پیش آرہی ہے ، لیکن جہاں تک میں خیال کرتا ہوں ، یہ الزام صحیح نہیں ہے ، علماء نے موجودہ ہندوستان کی فقہی پوزیشن تقریباﹰ متعین کر رکھی ہے ، فقہاء نے دار (ملک) کی دو قسمیں کی ہیں: دار الاسلام اور دار الکفر ۔ دار الاسلام: وہ ملک ہے ، جہاں اقتدارِ اعلیٰ مکمل طور پر مسلمانوں کو حاصل ہو ، اور وہ اسلامی احکام کے مطابق ہر قانون بنانے ، اور اس کے جاری کرنے کی پوری قدرت رکھتے ہوں ۔ اور دار الکفر: وہ ملک ہے ، جہاں اقتدارِ اعلیٰ مکمل طور پر مسلمانوں کو حاصل نہ ہو ، پھر دار الکفر کی چار قسمیں کی گئی ہیں:
① دار المحاربہ ، یا دار الحرب ____ جیسے صلحِ حدیبیہ سے پہلے مکہ ۔
② دار المعاہدہ و المسالمہ ____ جیسے صلحِ حدیبیہ کے بعد مکہ ۔
③ دار الامن ____ جیسے حبشہ ۔
④ دار الشر و الفساد ____ جیسے ہجرت سے پہلے مکہ ۔
اس تقسیم کی رو سے موجودہ ہندوستان دار الکفر کی تیسری قسم ، دار الامن میں داخل ہے ، لیکن اگر کوئی اس پر قناعت نہ کرے ، بلکہ ہندوستان کو اس سے برتر حیثیت دینا چاہے ، تو ہم اسے دار المساھمة فی التشریع ( قانون سازی میں حصہ دار ) مان لیتے ہیں ، لیکن جب تک قانون سازی کی بنیاد ، حقیقت شناسی کے بجائے ، اقلیت و اکثریت ، یا کثرتِ آراء رہے گی ، وہ دار الکفر ہی کی ایک قسم ہوگی ، اور اس عزت بخشی کے نتیجے میں فائدہ کے بجائے کچھ شرعی گنجائشوں ہی سے ہاتھ دھونا پڑے گا ، مسئلہ کا بہرحال کوئی حل نہ ہوگا ۔ [ مقالہ نگار نے ممالک کی یہ تقسیم ، اس ماحول کی رعایت سے کی ہے ، جس میں یہ مقالہ پڑھا گیا تھا ، مگر خالص فقہی نقطۂ نظر سے ممالک کی دو ہی قسمیں ہیں: دار الاسلام اور دار الحرب ( جس کا مترادف دار الکفر ہے ) فقہاء نے دار کی یہی دو قسمیں کی ہیں ، اور لوگوں کو جو اشکال پیش آتا ہے ، وہ دار الحرب کے لغوی معنیٰ سے پیش آتا ہے ،کہ بہت سے غیر اسلامی ممالک میں لڑائی کہاں ہورہی ہے ؟ تو جواب یہ ہے کہ دار الحرب ایک فقہی اصطلاح ہے ، اس کے معنیٰ لغت کی کتابوں سے نہیں ، بلکہ فقہ سے متعین کرنے چاھئے ، فقہاء کے نزدیک دار الحرب ہونے کےلئے دنگا فساد اور لڑائی ضروری نہیں ، وہ دار الحرب کو اصطلاح میں دار الکفر کے معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں ، اور بس ]۔
❹ ہمارے خیال میں تنگی کی بڑی وجہ ، دنیا کی بالعموم اور ہندوستان کی بالخصوص ، موجودہ صورتِ حال ہے ، جس میں معاشی ،تجارتی ، اصلاحی اور رفاہی سرگرمیوں کا رشتہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے ، جن کے پیشِ نظر اسلامی اصول نہیں ہیں ، وہ آئے دن نئی نئی اصطلاحات نافذ کرتے رہتے ہیں ، جن میں سے بعض اگر اسلامی اصول کی رو سے صحیح ہوتی ہیں ، تو بعض غلط ، اور جب کسی معاملہ کے پورے ڈھانچہ میں ایک بھی غلط چیز شامل ہوجاتی ہے ، تو اسلامی اصول کی رو سے وہ سارا آوا ہی خراب ہوجاتا ہے ، مثلاﹰ: بینکاری نظام ، اگر بینک کے معاملات میں کسی ایک جگہ بھی سود کا عمل دخل ہوجاتا ہے ، تو وہ سارا نظام ہی اسلام کے نقطۂ نظر سے غلط ہوجاتا ہے ۔
تنگی کی وجہ ایسی ہے ، جس کا بظاہر کوئی حل نہیں ہے ، لٰہذا موجودہ صورتِ حال میں ہمارے لئے ، یہ اہم نہیں ہے کہ ہندوستان میں حدود و قصاص ہونا چاھئے ، یا نہیں ؟ ہماری نجات کےلئے بس یہ عقیدہ کافی ہوگا ، کہ حدود و قصاص اسلامی تعلیمات کے رو سے معاشرہ کی اصلاح کےلئے ضروری ہیں ، اسی طرح جن معاملات میں ہم اسلامی اصول کے مطابق عمل پیرا نہیں ہوسکتے ، ان میں بھی ایمان کافی ہوگا ، پھر جب حالات موافق ہوجائیں گے ، اس وقت یہ بحث بھی کرلیں گے ، کہ حدود و قصاص ہونے چاہئیں ، یا نہیں ؟ فی الوقت تو ملت کی تعمیر ضروری ہے ___ تعمیر کا لفظ سنتے ہی آپ کا ذہن اقتصادی تعمیر کی طرف گیا ہوگا ، مجھے اس سے انکار نہیں ہے ، لیکن اقتصادی تعمیر سے زیادہ ضروری ملت کی دینی تعمیر ہے ، آج ملتِ مسلمہ میں دین کا احیاء ، اور فرائض کا زندہ کرنا ضروری ہے ، اسلام اللہ پاک کی فرمانبرداری والے جس طرزِ حیات کا نام ہے ، اس کی تخلیق و تعمیر اورنشوونما میں پانچ چیزوں کو خاص دخل ہے ، اور وہ یہ ہیں: ① ایمان ② نماز ③ زکوٰۃ ④ روزہ ⑤ حج ، یہ پانچ ارکان شریعت کی فلک بوس عمارت کا پایہ ، اور بنیاد ہیں ، اس لئے فی الوقت سب سے زیادہ ضروری چیز ، ملت میں ان فرائض کو زندہ کرنا ہے ۔
تغیر کے تقاضے:
ہاں تغیر کے تقاضوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، راہنمایاںِ ملت کا یہ فریْضہ ہے کہ وہ نئی دنیا کے احساسات و خیالات کو سمجھیں ، اور زمانہ کے تقاضوں اور مطالبوں کو گنجائش کی حد تک قبول کریں ، زمانہ کی ، یا اہلِ زمانہ کی یہ ذمہ داری نہیں ہے ، کہ وہ اپنے تقاضوں سے ، اور اپنے تغیرات سے علماء کو روشناس کرائیں ، بلکہ یہ علماء کی اپنی ذمہ داری ہے ، کہ وہ زمانہ کے تغیرات سے واقف ہوں ، امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کو جب بازار اور پیشہ وروں کے سلسلہ میں کوئی مسئلہ مستنبط کرنا ہوتا تھا ، تو پہلے بازار جاتے ، اور اس پیشہ یا معاملہ سے متعلقہ افراد سے مل کر اس کے طور و طریق ، رد و بدل اور عرف و رواج کو معلوم کرتے ، پھر اس سلسلہ میں اپنی شرعی رائے دیتے ، پس آج بھی علماء کی بالعموم ، اور اصحابِ افتاء کی بالخصوص یہ ذمہ داری ہے ، کہ وہ نو ایجادات اور تغیرات کے بارے میں کافی معلومات حاصل کریں ، اور معاملہ کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرکے احکام بیان فرمائیں ۔
شریعت میں تغیرات کے حدود:
اللہ پاک کے اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات میں کسی قسم کے تغیر و تبدل کا نام تحریف اور بدعت ہے ، ترمیم خواہ عقائد میں کی جائے ، یا اعمال میں ، قواعدِ کلیہ میں کی جائے ، یا جزئیات میں ، ہر ترمیم بدعت ہے ، لیکن عقائد میں تغیر و تبدل تو رأس البدعات ہے ، اور قواعدِ کلیہ میں بدعتِ کبریٰ ہے ، اور جزئیات میں بدعتِ صغریٰ ہے ، اور ترمیم کی قباحت اس کی نوعیت کے مطابق ہے ، مثلاﹰ: سقراط و بقراط طبِ یونانی کے موجد ہیں ، وہ نہ عالم الغیب ہیں ، نہ خطا سے مبرا ہیں ، لیکن متأخرین ان کے بیان کردہ قوانین کی اتباع کرتے ہیں ، اور ان قوانین کے مطابق نسخے لکھ لکھ کر مریضوں کو دیتے ہیں ، اب اگر کوئی شخص امام الطب کے اصول ہی کو رد کردے ، تو یہ عقائد میں تغیر و تبدل کی مثال ہوگی ، اور اگر کوئی محقق ، امام الطب کے کسی قاعدہ کی تنقیح کرے ، اور اس میں کمی بیشی کرے ، تو یہ قواعدِ کلیہ میں تغیر و تبدل کی مثال ہوگی ، اور اگر مریض اپنے نسخے میں کمی بیشی کرے ، تو یہ ایک جزئی میں ترمیم کی مثال ہوگی ۔
الغرض یہ تینوں قسم کی ترمیمات دین میں نہیں کی جاسکتیں ، کیونکہ دین غیب و شہادت جاننے والی ذات کا نازل فرمودہ ہے ، لیکن نسخہ میں دو چیزیں ہوتی ہیں ،ایک: دوائیاں ، دوسری: پکانے بنانے کی ترکیب ، حکیم پہلی چیز لکھتا ہے ، اور پکانے بنانے کے طریقوں کو لوگ خود ہی جانتے ہیں ، اس لئے ان کو بیان نہیں کیا جاتا ، اب اگر مریض دواؤں میں کمی بیشی کرنے لگے ، تو فائدہ کے بجائے ، جان کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ، مگر پکانے کے طریقوں میں تغیر و تبدل کیا جاسکتا ہے ، مریض چاہے تو انگیٹھی پر پکائے ، اور چاہے تو گیس پر پکائے ، چاہے تو مٹی کے برتن میں پکائے ، اور چاہے تو دھات کے برتن میں پکائے ، زمانہ کے حالات سے اس میں تغیر و تبدل کیا جاسکتا ہے ۔
نیا زمانہ ، نئے مسائل:
آج بدلتی ہوئی دنیا میں دو قسم کے مسائل غور طلب ہیں: ❶ وہ قدیم مسائل جو اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ کتب فقہ میں موجود ہیں ، مگر تمدنی ترقی نے ان کی نوعیت میں تبدیلی کردی ہے ، مثلاﹰ: حدیث شریف میں ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا ، کہ میرے پاس ایک شخص آتا ہے ، جو مجھ سے کوئی چیز خریدنا چاھتا ہے ، مگر وہ چیز میرے پاس نہیں ہے ، تو کیا میں اس سے معاملہ کرلوں ، اور پھر بازار سے خرید کر ، وہ چیز اسے دیدوں ؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لاتبع ما لیس عندک ،"جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے ، اسے فروخت نہ کرو " یعنی اس طرح فروخت کرنا صحیح نہیں ہے ، اور اس ممانعت کی وجہ مبیع کا غیر مقدور التسلیم ہونا ، اور غرر کا احتمال ہے ، کہ ممکن ہے جس قسم کی چیز کا معاملہ ہوا ہے ، ویسی چیز بازار سے حاصل نہ ہوسکے ، مگر آج جبکہ مشینی دور وجود میں آگیا ہے ، اور کارخانوں کا نظام رائج ہوگیا ہے ، تو جو چیزیں کارخانوں میں ایک ہی طرح کی تیار کی جاتی ہیں ، اور وہ ہر وقت بازار میں موجود بھی رہتی ہیں ، ان کا آڈر اگر کوئی تاجر لے لیتا ہے ، تو کیا وہ بھی اس حدیث شریف کے دائرے میں آتا ہے ، یا نہیں ؟ اس قسم کے سینکڑوں مسائل ہیں ، جن کی نوعیت بدل گئی ہے ، پس ان کے احکام پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ❷ وہ نئے مسائل جو نئے زمانہ کے پیدا کردہ ہیں ، جن کے احکامات ، فقہی کتابوں میں نہ صراحةً مذکور ہیں ، نہ اشارةً ، البتہ قریب یا بعید نظائر مل سکتے ہیں ، مثلاﹰ: اسٹاک اکسیچینج کا مسئلہ ، بینکاری کا نظام ، اور طریقہٴ حکومت کا معاملہ ۔
اس قسم کے مسائل حل کرنے کی مختلف صورتیں ہیں ، جن میں سے بعض غلط ہیں ، بعض بعید ہیں ، بعض قریب ، اور بعض قریب تر ہیں ، لٰہذا مناسب یہ معلوم ہوتا ہے ، کہ ہم ان مختلف صورتوں کا جائزہ لیں ، تاکہ مسائل کے حل کی جو قریب تر راہ ہو ، اسے اپنایا جاسکے ، اور غلط راہ پر پڑنے سے ، یا دور دراز اور مشکل راہوں پر چلنے سے بچ سکیں ۔
پہلی راہ _____ اجتہاد :
یہ بات اتنی واضح ہے ، کہ بے دلیل مان لینی چاھئے کہ تغیر کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے میں اجتہاد کا بڑا حصہ ہے ، بلکہ اجتہاد کے بغیر زندگی کی گاڑی ایک قدم بھی نہیں چل سکتی ، تقلید عام انسانوں کی ایک عملی ضرورت ہے ، جس کے بغیر زندگی تعطل کا شکار ہوسکتی ہے ۔
اجتہاد کی دو قسمیں ہیں ، مطلق اور مقید ، کیونکہ اجتہاد نام ہے شریعت کے چار مخذ سے احکام مستنبط کرنے کا ، پھر اگر اصولِ استنباط بھی خود مجتہد کے اپنے وضع کردہ ہیں ، تو وہ مجتہدِ مطلق ہے ، اور اگر اصولِ اخذ و استنباط کسی دوسرے مجتہد کے ہیں ، یعنی وہ کسی مجتہدِ مطلق کے اصولِ فقہ کی پیروی کرتے ہوئے مآخذِ شرع سے احکام مستنبط کرتا ہے ، تو وہ مجتہدِ منتسب ہے ۔
اسلام کی ابتدائی تین چار صدیوں میں بہت سے مجتہدِ مطلق پیدا ہوئے ، جن کے اپنے اصول تھے ، جن کی روشنی میں وہ مسائل اخذ کرتے تھے ، مگر چوتھی صدی کے بعد کوئی ایسا مجتہدِ مطلق نظر نہیں آتا ، جسے قبولِ عام نصیب ہوا ہو ، ابن جریر طبری ، اور ابن حزم ظاہری نے مجتہدِ مطلق ہونے کا دعویٰ کیا ، مگر اول الذکر کو تو کسی نے نہیں مانا ، اور ابن حزم ظاہری کو ایک جماعت نے کچھ کچھ مانا ، مگر قبولِ عام دونوں میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا ، جس طرح کا قبولِ عام ائمۂ اربعہ کو نصیب ہوا ۔
غرض امکانِ عقلی کی حد تک مجتہدِ مطلق کا وجود ، ہر دور میں تسلیم ہے ، آج بھی اگر کوئی مجتہدِ مطلق بن کر دکھلائے ، اور اس کی سعی صحیح ثابت ہوجائے ، تو امت اس کو ماننے کےلئے تیار ہے ، مگر شرط یہ ہے کہ وہ مجتہدِ مطلق ہی رہے ، قادیانی نہ بن جائے ، جس کی پہلی منزل اجتہادِ مطلق تھی ، اور آخری منزل خدائی کا دعویٰ تھی [ میں نے خواب میں دیکھا ، کہ میں ہو بہو اللہ ہوں، رأیتنی فی المنام عین اللہ ، و تیقنت اننی ھو ، فخلقت السماوات و الارض ، ( آئینۂ کمالات ،صفحہ نمبر ٥٦٤ ۔ ٥٦٥ ] اسی طرح امت یہ بھی مانتی ہے ، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے ، تو وہ شریعتِ محمدی کے تابع ہوکر نازل ہونگے [ حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب ، مفسرِ قرآن علامہ ابن کثیر کے حوالے سے لکھتے ہیں: جب عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے ، تو وہ بھی قرآن کریم اور تمہارے نبی ہی کے احکام پر عمل کریں گے ( معارف القرآن جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٩٧ ) اور حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مکاتیب دفترِ اول صفحہ نمبر ٥٨٥ مکتوب نمبر ٢٨٢ میں جو لکھا ہے کہ خواجہ محمد پارسا نے فصولِ ستہ میں نقل کیا ہے ، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے مذہب کے موافق عمل کریں گے الخ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام صاحب کی تقلید کریں گے ، بلکہ وہ تو مجتہدِ مطلق ہوں گے ، لیکن ان کا اجتہاد فقہِ حنفی کے موافق ہوگا ] اور اجتہادِ مطلق کے منصب پر فائز ہوں گے ، اس لئے اس بحث میں وقت ضائع کرنا مناسب نہیں ہے ، کہ مجتہدِ مطلق پیدا ہوسکتا ہے ، یا نہیں ؟ نہ مسائل کے حل کرنے کےلئے اس کے انتظار کی ضرورت ہے ، مسلمانوں میں ہمیشہ ہی دو جماعتیں ایسی موجود ہیں ، جن میں سے ایک کے یہاں نہ صرف مجتہدِ مطلق ہمیشہ موجود رہتا ہے ، بلکہ مجتہدِ اعظم بھی موجود ہوتا ہے ، اور دوسری جماعت کے یہاں ہر شخص مجتہدِ مطلق ہے ، مگر ان مجتہدوں نے بدلتی ہوئی دنیا کا کونسا مسئلہ حل کردیا ہے ؟ جب ان سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکا ، تو اب نیا مجتہدِ مطلق پیدا ہوکر کیا کرے گا ؟ غرض مجتہدِ مطلق کا انتظار کرنا ، مسائل کے حل کرنے کی وہ راہ ہے ، جو کبھی حاصل ہوتی نظر نہیں آتی ۔
دوسری راہ ____ در یوزہ گری :
مسائل کے حل کرنے کی دوسری راہ وہ ہے ، جو اکثر عرب ممالک نے اختیار کر رکھی ہے ، ان کی نظریں ہمیشہ یورپ کی طرف اٹھی رہتی ہیں ، جب یورپ و امریکہ میں کوئی قانون وضع ہوجاتا ہے ، یا کسی نئی چیز کو وہاں قبولِ عام حاصل ہوجاتا ہے ، تو اسی کو بعینہٖ اپنا لیا جاتا ہے ، یا اس کی کچھ شکل بگاڑ کر اسلامی قانون کا نام دیدیا جاتا ہے ، ظاہر ہے کہ مسائل کے حل کی یہ وہ راہ ہے ، جو پہلی راہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے ، جس کی تقلید کبھی نہیں کی جاسکتی ، ورنہ غلطی ایک کے بجائے دو ہوجائیں گی ۔
تیسری راہ ____ فقہی آمیزہ :
تغیر کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی ایک صورت وہ ہے ، جس کی طرف آج بہت سے مفکروں اور دانشوروں کی نگاہیں اٹھی ہوئی ہیں ، کہ چاروں فقھوں کو ملاکر ایک آمیزہ تیار کیا جائے ، اور اس کی روشنی میں مسائل حل کئے جائیں _____ مگر اول تو اس طرح کرنے سے بھی تمام مسائل حل ہوتے نظر نہیں آتے ، دوسرے ایسا کرنا ممکن ہی نہیں ، کیونکہ ہر فقہ ایک مستقل اصولِ فقہ کی بنیاد پر تیار ہوا ہے ، یعنی ہر فقہ کے ، ہر مسئلہ کے پیچھے اصولِ فقہ کا کوئی نہ کوئی ضابطہ ہے ، جس پر وہ متفرع ہوا ہے ، اب اگر اصولِ فقہ سے صرفِ نظر کرکے آمیزہ تیار کیا جائے گا ، تو مسائل میں اس قدر الجھاؤ پیدا ہوجائےگا ، کہ کسی جزیہ کی عقلی توجیہ ممکن ہی نہ رہے گی ، اور ایک طرح کا ذہنی اور فکری انتشار پیدا ہوگا ____ اور اگر پہلے چاروں مجتہدوں کے اصولِ فقہ کو ایک کرنے کی سعی کی جائےگی ، تو اول تو ان میں اس قدر بنیادی اور اصولی اختلاف ہیں ، کہ ایسا کرنا ممکن ہی نہیں ، دوسرے متعارض اصولوں میں سے ، جن اصولوں کو چھوڑ دیا جائےگا ، ان کی بنیاد پر جو جزئیات متفرع ہوئے ہیں ، ان کو بھی دریا برد کرنا پڑے گا ، غرض یہ کام اس قدر کٹھن ہے ، کہ اس کا تصور بھی مشکل ہے ، اس لئے مسائل کے حل کی یہ راہ بھی بعید ، بلکہ ناممکن ہے ۔
چوتھی راہ _____ اجماع :
ایک راہ وہ بھی ہے ، جس کی طرف بار بار نظر جاتی ہے ، کہ مسلمانوں میں اجماع کی اہمیت اجاگر کی جائے ، اور اجماعِ امت کی راہ سے مسائل کو حل کیا جائے ، یعنی اکیڈمی اور شورائی طریقہ سے مسائل حل کئے جائیں، لیکن یہ صورت بھی ناممکن ہے ، کیونکہ امت کی پچھلی تاریخ سے یہ بات آشکارا ہے ، کہ اجماعِ سابق خاص خاص صورتوں ہی میں منعقد ہوسکا ہے ، عام طور پر تمام مسائل میں اجماعِ سابق کا وجود خلفائے راشدین کے مبارک دور میں بھی نظر نہیں آتا ، آج امت میں جو اجماعی مسائل ہیں ، اصولی اور بنیادی مسائل چھوڑ کر ، وہ اجماعِ لاحق ہی سے طے ہوئے ہیں ، یعنی کچھ لوگوں نے ایک مسئلہ بیان کیا ، اور وہ برابر شائع ہوتا رہا ، اور عرصہ گزر گیا ، مگر کسی نے اس کی مخالفت نہ کی ، بلکہ تائید ہی کی ، تو بعد کے زمانہ میں وہ اجماعی مسئلہ بن گیا ۔
دوسری دشواری اس راہ میں یہ ہے ، کہ اجماع منعقد کرنے کےلئے جو اجتماع ، یا مجلسِ شوریٰ منعقد کی جائےگی ، وہ اگر مختلف مکاتبِ فکر پر مشتمل ہوگی ، تو صدیاں گزر جائیں گی ، مگر کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہ ہوگا ، اور اگر وہ کسی ایک اصولِ فقہ کے ماننے والے ہوں گے ، تو بھی ضروری نہیں ہے ، کہ سب کا فکری منہج ایک ہی ہو ، اس لئے اس راہ سے بھی مسائل حل ہوتے نظر نہیں آتے ۔
پپانچویں راہ ____ مجتہدِ منتسب
پانچویں صورت یہ ہے ، کہ ہر مکتبِ فکر ، اپنی فقہ ، اور اپنے اصولِ فقہ کے دائرہ میں رہتے ہوئے ، تغیر کے تقاضوں کو سمجھنے کی ، اور ان کا حل پیش کرنے کی کوشش کرے ، اور یہ محنت کرنے والے حضرات مجتہدِ منتسب ہوں گے ، میرے ناقص خیال میں مسائل کے حل کی یہی ایک راہ قریب ترین ، اور خطرات سے محفوظ راہ ہے ، کیونکہ مجتہدِ منتسب کے وجود کو مان لینے میں ، یا کسی فرد و جماعت کو مجتہدِ منتسب تسلیم کرنے میں اول تو کسی کو کوئی اشکال نہیں ، کیونکہ ہر مکتبِ فکر تغیر پذیر دنیا کے تمام مسائل کا صحیح ، یا ناقص حل پیش کرتا ہی ہے ، اور روزانہ بیسیوں اجتہادات کرتا ہے ، اگرچہ اجتہاد کا لف اسے گوارہ نہ ہو ۔ دوسرے جب چاروں مکاتبِ فکر مختلف نقطھائے نظر سے کسی معاملہ کو دیکھیں گے ، تو مختلف احکام وجود میں آئیں گے ، پھر جو مکتبِ فکر زیادہ نافع احکام وضع کرے گا ، دوسرے مکاتبِ فکر ضرورت کے وقت اس کو اپنا لیں گے ، اور یہ بات اختلافُ امتی رحمةٌ کا نہایت خوشگوار مظاہرہ ہوگی [ اس حدیث کی کوئی سند نہیں ہے ، کشف الخفا وغیرہ کتابوں میں اس پر بحث ہے ، البتہ اِختلاف أصحابی رحمة لأمتی ضعیف سند سے مروی ہے ] اور ایسا ماضی میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے ، علامہ شامی کی رد المختار میں ، جو ہمارے یہاں مفتیٰ بہ کتاب ہے ، جگہ جگہ فقہِ شافعی اور فقہِ مالکی سے جزئیات نقل کئے جاتے ہیں ، اور یہ کہہ کر ان کو اپنا لیا جاتا ہے ، کہ قواعدنا لاتأباہ ( ہمارے قواعد سے ان کا تعارض نہیں ہے ) بلکہ اس کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے ، ماضی قریب میں ہم نے فقہِ مالکی کے بہت سے مسائل ضرورت کی وجہ سے اپنا لئے ہیں ، مثلاﹰ : مفقود کی بیوی ، متعنت کی بیوی ، اور عنین کی بیوی کےلئے جو احکامات ہمارے یہاں تھے ، ان سے زمانہ کی ضرورت پوری نہیں ہورہی تھی ، اور فقہِ مالکی میں اس سلسلہ میں مفصل اور مناسبِ حال احکامات تھے ، اس لئے حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے الحیلة الناجزة لکھ کر ، اور علمائے زمانہ سے استصواب کرکے ان کو اپنا لیا ، اور آج ہمارا پورا معاشرہ انہی درآمد کردہ احکامات پر عمل پیرا ہے ، الغرض آج یہی ایک راہ ، مسائل کے حل کرنے کی مناسب راہ ہے ، اور مختصر بھی ہے ، جس پر چل کر جلد منزل پر پہنچا جاسکتا ہے ۔
لائحۂ عمل :
تغیر پذیر دنیا کے مسائل کو حل کرنے کےلئے ، کرنے کے کام مندرجۂ ذیل ہیں:
❶ کتبِ فقھیہ کا جائزہ لیا جائے ، اور ان مسائل کی ایک فہرست تیار کی جائے ، جن کی نوعیت تغیر پذیر دنیا میں بدل گئی ہے ، تاکہ ان کے احکامات کے سلسلہ میں غور و فکر کیا جاسکے ، مثلاﹰ: ہندوستان میں جبکہ وہ دار العلم باقی نہیں رہا ، خیارِ بلوغ میں جہالت کے اعتبار و عدمِ اعتبار کا مسئلہ ، وہ چیزیں جو ایک طرح کی تیار ہو رہی ہیں ، اور بازار میں ہر وقت مل بھی سکتی ہیں ، ان کی بیع ، ملکیت میں نہ ہونے کی حالت میں ، حقوقِ مجردہ ، مثلاﹰ: گڈوِل اور مکانوں اور دکانوں کی پگڑی کا مسئلہ ، جبکہ یہ حقوقِ مجردہ موجودہ معاشرہ میں مال شمار ہوتے ہیں ، ہوائی جہاز میں مسافتِ قصر کی تعیین وغیرہ وغیرہ ۔
❷ تغیر پذیر دنیا میں جو نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں ، اور جن کے واضح احکامات اب تک مرتب نہیں ہوئے ہیں ، ان کی ایک فہرست مرتب کی جائے ، تاکہ یکے بعد دیگرے ان پر بحث کی جائے ۔
❸ کام کا صحیح طریقہ اپنایا جائے ، یعنی نئے مسائل کا حل ، فقہ اور اصولِ فقہ کی روشنی میں ، قرآن و حدیث میں تلاش کیا جائے ، صرف فقہی نظائر پر اکتفا نہ کیا جائے ، کیونکہ قرآن و حدیث اللہ پاک کی نازل فرمودہ ہے ، جن میں قیامت تک کے تمام احوال کی نہ صرف رعایت ملحوظ ہے ، بلکہ صاف اشارے موجود ہیں ، نئے مسائل کے حل کا یہ طریقہ نامناسب ہے ، کہ صرف فقہی نظائر پر نظر روک دی جائے ، ورنہ اس کا نتیجہ وہی ہوگا ، جو ماضی میں سامنے آتا رہا ہے ، مثلاﹰ: جب ٹرین چلی ، تو اس میں نماز پڑھنے کے عدمِ جواز کو چھکڑے پر نماز پڑھنے کے عدمِ جواز پر قیاس کیا گیا ، لاؤڈ اسپیکر ایجاد ہوا ، تو اس کو صَدیٰ ( آواز باز گشت ) کے جزیہ پر قیاس کیا گیا ، دستی گھڑی آئی ، تو اس کو چوڑی پر قیاس کیا گیا ، مگر بالآخر یہ تمام رائیں بدلنی پڑیں ، اور یہ صورتِ حال قیاس در قیاس کے نتیجہ میں پیش آئی ، اس لئے نئے مسائل کے حل کےلئے ، جو فطری صورت ہے ، اس کو اپنایا جائے ، یعنی فقہ اور اصولِ فقہ کی روشنی میں اصل مصادر سے ، مسائل کا اخذ و استنباط عمل میں لایا جائے ۔
❹ شورائی طریقِ استنباط کی بنیاد ڈالی جائے ، کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا طریقِ اجتہاد شورائی تھا ، آپ کی مجلس میں امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ جیسے علومِ عربیہ کے ماہر ، امام زفر رحمہ اللہ تعالیٰ جیسے قیاس و استنباط کے رمز شناس ، امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ جیسے احادیث کے نقاد اور داؤد طائی جیسے ورع و تقویٰ کے امام شامل تھے ،پس آج بھی اس کی شدید ضرورت ہے ، کہ مختلف علوم و فنون کے ماہر سر جوڑ کر بیٹھیں ، جن میں فقہی جزئیات کے ماہر مفتی بھی ہوں ، اصولِ فقہ کے ماہر بھی ہوں ، قرآن کریم پر بالغ نظر رکھنے والے بھی ہوں ، احادیثِ نبویہ کے سمندر کے شناور بھی ہوں ، علومِ عربیہ کے ماہر بھی ہوں ، علومِ عصریہ کے ماہر بھی ہوں ، اور سب سے اہم ، ایک بزرگ ہستی ، اور خدا رسیدہ شخصیت بھی شریکِ محفل ہو ، جسے دیکھ کر اللہ یاد آتا رہے ، اور آخرت کی جوابدہی کا تصور اوجھل نہ ہونے پائے ۔
❺ دینی مدارس سے سفارش کی جائے ، کہ وہ اپنے یہاں قرآن فہمی ، اور حدیث فہمی پر بھی اتنا ہی زور دیں ، جتنا فقہ و فتاویٰ ، اور اختلافی مسائل پر زور دیتے ہیں ، اور قرآن کریم اور احادیثِ شریفہ کو اس نقطۂ نظر سے ضرور پڑھائیں ، کہ یہ دونوں قانونِ اسلامی کے اصل مآخذ ہیں ، نیز یہ بھی سفارش کی جائے ، کہ وہ اصولِ فقہ پر بھی زور دیں ، کیونکہ اصول کے استحضار کے بغیر اخذ و استنباط ممکن نہیں ۔
جذباتِ تشکر:
آخر میں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کا شکریہ ادا کرنا ضروری خیال کرتا ہوں ، کہ اس نے مل بیٹھنے کا ، اور تبادلۂ خیالات کا یہ قیمتی موقع فراہم کیا ، اس سمینار سے اگر کام کی بسم اللہ ہوگئی ، تو جب بھی کام ہوگا ، الدال علی الخیر کفاعلہ کے قاعده سے مسلم یونیورسٹی ، ثواب میں برابر کی حصہ دار ہوگی ، دعا ہے کہ اللہ پاک یونیورسٹی کو امت کےلئے مفید کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ، اور اس کو نظرِ بد سے بچائیں ۔
آمین یارب العالمین
سعید احمد عفا اللہ عنہ پالن پوری
دارالعلوم دیوبند
١٠ جنوری ۱۹۷۷ ء
0 comments:
Post a Comment